کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
[SUP]نظرئیہ پاکستان کیا ہے ؛ حامد میر کا فکر انگیز کالم [/SUP]
افسوس کیوں؟ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ آخر کار نظریہ پاکستان پر بحث شروع ہوئی ۔ نئی نسل کو بھی پتہ چلے گا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج تک نظریہ پاکستان کی تعریف کیوں نہ سامنے لائی جا سکی ۔
27 ستمبر 1971ء کو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے ملک کے ممتاز ماہرین تعلیم اور دانشوروں کو لاہور میں اکٹھا کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ نظریہ پاکستان کی تعریف کریں ۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر علامہ علاؤ الدین صدیقی نے اپنے تحریری مقالے میں کہا کہ نظریہ پاکستان دراصل اسلام کا دوسرا نام ہے ۔
ڈاکٹر سید عبداللہ نے دو قومی نظریے کو پاکستان کی اساس قرار دیا جنرل یحییٰ خان کی رنگین مزاج حکومت نے نظریہ پاکستان کی بحث شروع کرنے کے چند ماہ بعد ہی 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور پاکستا ن دو لخت ہو گیا۔
پاکستان کے دشمنوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد دو قومی نظریہ بحیرہ عرب میں غرق ہو گیا لیکن بنگالیوں نے بھارت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ۔ بنگلہ دیش کی صورت میں ایک خودمختار ریاست وجود میں آ گئی ۔
1981ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں مطالعہ پاکستان کو سرکاری تعلیمی اداروں میں لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرایا گیا لیکن نظریہ پاکستان کی تعریف نہ کی جا سکی ۔ وجہ یہ تھی کہ مارشل لاء دور میں پارلیمینٹ موجود نہ تھی، میڈیا پر پابندیاں تھیں ۔
جنرل ضیاء الحق نے 1985ء کی غیر جماعتی اسمبلی کے ذریعہ 1973ء کے آئین کی دفعہ 62 اور 63 میں کچھ متنازعہ شقیں شامل کرا دیں ۔ ان شقوں میں کہا گیا تھا کہ جو کوئی بھی نظریہ پاکستان کو نہیں مانتا، صادق و امین نہیں، اسلامی تعلیمات سے آگاہی نہیں رکھتا اور کبیرہ گناہوں میں ملوث ہو گا وہ پارلیمینٹ کا رکن نہیں بن سکتا ۔ نظریہ پاکستان کی تعریف کئے بغیر اسے آئین کی ایک شق کا حصہ بنا دیا گیا ۔
جنرل ضیاء الحق نے 62 اور 63 کو ایک ایسی دو دھاری تلوار میں تبدیل کر دیا جسے بوقت ضرورت کسی بھی سیاسی مخالف کی گردن پر چلا کر اسے پارلیمینٹ میں آنے سے روکا جا سکے۔ افسوس کہ بعد کی اسمبلیوں نے 62 اور 63 پر خاموشی اختیار کئے رکھی ۔
2008ء کی پارلیمینٹ نے پاکستان کے آئین میں سے جنرل ضیاء الحق کی کئی ترامیم کو نکال دیا لیکن دفعہ 62 اور 63 کو ہاتھ تک نہ لگایا۔
2013ء کے انتخابات میں ریٹرننگ افسران امیدواروں سے 62 اور 63 کی روشنی میں کئی سوالات پوچھ رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے ایک امیدوار جناب ایاز امیر کے کاغذات محض اس بناء پر مسترد کر دیئے گئے کہ انہوں نے نظریہ پاکستان کے خلاف دو کالم لکھے ۔ ایاز امیر ایک غیر مستقل مزاج سیاست دان ہیں ۔ کبھی عمران خان کی سونامی سے متاثر ہو جاتے ہیں کبھی ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ میں جا پہنچتے ہیں ۔
یہ ڈاکٹر طاہر القادری تھے جو جنوری 2013ء میں دفعہ 62 اور 63 کے تحت انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے تھے اور ایاز امیر اسلام آباد کے جناح ایونیو پر کھڑے ہو کر ڈاکٹر طاہر القادری کے ہاں میں ہاں ملا رہے تھے ۔ آج دفعہ 62 اور 63 کی تلوار ایاز امیر پر چل گئی جس پر مجھے بہت افسوس ہے۔
آئین میں نظریہ پاکستان کی کوئی تعریف اور وضاحت موجود نہیں بلکہ آئین کی دفعہ 19 کے تحت ہر شہری کو اظہار کی آزادی حاصل ہے ۔ نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر کسی بھی امیدوار کے کاغذات مسترد کرنا قطعی نامناسب ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ایک ریٹرننگ افسر کے متنازعہ فیصلے کے باعث پورے ملک میں نظریہ پاکستان پر بحث شروع ہو گئی اور یہ ضرورت محسوس کی گئی نئی نسل کو نظریہ پاکستان کی کسی متفقہ تعریف سے آگاہ کیا جائے ۔ خیال رہے کہ پاکستان کے ساتھ ہماری وفاداری غیر مشروط ہونی چاہئے لیکن نظریہ پاکستان کے نام پر کسی پاکستانی کی وفاداری کو مشکوک بنانا پاکستان کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے ۔
نظریہ پاکستان کی بحث شروع ہونے کے بعد سیکولر عناصر 11 اگست 1947ء کو قائد اعظم ر کی ایک تقریر کی روشنی میں پاکستان کو سیکولر ریاست قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھنے والے 14 اگست 1947ء کو قائد اعظم ر کی تقریر کا حوالہ دے رہے ہیں جس میں بانی پاکستان نے نبی کریم حضرت محمد کو اپنا رول ماڈل قرار دیا تھا۔
ان دونوں تقاریر سے اپنی اپنی مرضی کا مطلب نکال کر نئی نسل کو گمراہ کرنے کی ہر کوشش قابل مذمت ہے۔ کون نہیں جانتا کہ قائد اعظم ر سیکولر کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں آئے تھے ۔ انہوں نے مسلم لیگ میں آنے کے بعد کبھی سیکولر ازم کی حمایت نہیں کی ۔
کون نہیں جانتا کہ متحدہ ہندوستان کے بڑے بڑے مولانا اور مفتی صاحبان علامہ اقبال ر اور قائد اعظم ر دونوں کے سخت مخالف تھے ۔ نظریہ پاکستان نہ تو سیکولر ازم ہے نہ ہی مذہبی انتہا پسندی ہے ۔ ہمیں نظریہ پاکستان کو سمجھنے کیلئے کچھ اہم تاریخی حقائق پر غور کرنا ہو گا ۔
ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستان کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے 1906ء میں ڈھاکہ میں جنم لیا اور سر آغا خان اس کے پہلے صدر تھے ۔ کانگریس بنگال کی تقسیم کے خلاف تھی اور مسلمان بنگال کی تقسیم کے حق میں تھے تاکہ انہیں ہندو برہمنوں کی معاشی اجارہ داری سے نجات ملے۔
دوسرے الفاظ میں تحریک پاکستان کا آغاز آج کے پاکستان سے نہیں بلکہ بنگلہ دیش سے ہوا تھا ۔
1930ء میں علامہ اقبال ر کے خطبہ الہ آباد میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کا تصور سامنے آیا ۔
1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو پنجاب، سرحد اور سندھ میں شکست ہوئی ۔ متحدہ بنگال میں مسلم لیگ تیسرے نمبر پر آئی لیکن اے کے فضل الحق کی کرشک پرجا پارٹی کے ساتھ مل کر مسلم لیگ نے مخلوط حکومت بنائی ۔
بنگال میں مسلم لیگ کو پذیرائی ملنے کی وجہ یہ تھی کہ سیکولر کانگریس کا لیڈر سبھاش چندر بوس ہندو ترانے بندے ماترم کو پورے ہندوستان پر مسلط کرنے کا حامی تھا۔ مسلم لیگ نے ایک ایسے ترانے کو مسترد کر دیا جس میں لکشمی دیوی، سرسوتی دیوی اور درگا دیوی کو نمسکار کیا گیا تھا۔ سبھاش چندر بوس کی منافقت کا یہ عالم تھا کہ علامہ اقبال ر کی وفات پر کلکتہ کی میونسپل کارپوریشن کا اجلاس ملتوی کیا گیا تو اس نے مخالفت کی۔
کانگریسی قیادت کی مسلم دشمنی کے باعث کلکتہ کے مسلمانوں نے مولانا ابو الکلام آزاد کی امامت میں نماز عید ادا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ کانگریس کے حامی تھے ۔
ایک طرف سیکولر کانگریس تحریک پاکستان کی مخالف تھی دوسری طرف جمعیت علماء ہند اور دیگر مذہبی جماعتیں قائد اعظم ر پر کفر کے فتوے لگا رہی تھیں ۔
1940ء میں منٹو پارک لاہور میں قرار داد لاہور منظور کی گئی تو اس میں فلسطینیوں پر یہودی مظالم کی مذمت بھی کی گئی ۔
1940ء کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے قیام پاکستان کی حمایت شروع کر دی اور کمیونسٹ دانشور دانیال لطیفی کو مسلم لیگ کی منشور کمیٹی میں بھی شامل کیا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظم ر کے تصور پاکستان میں نظریاتی مخالفین کے ساتھ ہاتھ ملانے کی گنجائش موجود تھی ۔
پاکستان 1947ء میں قائم ہو گیا لیکن افسوس کہ قائد اعظم ر زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے ۔ پاکستان میں فوجی مداخلتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا حالانکہ قائد اعظم ر سیاست میں فوج کی مداخلت کے سخت خلاف تھے ۔
قائد اعظم ر نے ایک سیاسی اور جمہوری جدوجہد سے پاکستان کی منزل حاصل کی وہ آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے ۔ قائد اعظم ر کے پاکستان میں سیکولر ازم کے نام پر منافقت اور اسلام کے نام پر فتوے بازیوں کی کوئی گنجائش نہیں ۔ قائد اعظم ر کے نظریہ پاکستان میں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی اہم ذمہ داری ہے اسی لئے پاکستان کا پہلا وزیر قانون ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل بنایا گیا۔
علامہ اقبال ر اور قائد اعظم ر کی تعلیمات ہی اصل نظریہ پاکستان ہیں ۔ علامہ اقبال ر سنی گھرانے میں پیدا ہوئے اور قائد اعظم ر شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن دونوں کی ذات فرقہ واریت سے بالاتر تھی دونوں صرف اور صرف مسلمان تھے ۔
نظریہ پاکستان سمجھنے کیلئے ہمیں کلام اقبال ر کے ساتھ ساتھ خطبات اقبال ر کا مطالعہ بھی کرنا چاہئے۔ قائد اعظم ر کی 11 اگست کی تقریر کے ساتھ ساتھ 14 اگست کی تقریر کو بھی اہمیت دینی چاہئے ۔ دونوں کا مرکزی خیال ایک ہی ہے ۔ نظریہ پاکستان دراصل ایمان بھی ہے ،اتحاد بھی ہے اور تنظیم بھی ہے ۔ نظریہ پاکستان رواداری اور اعتدال ہے ۔ نظریہ پاکستان پر مزید بحث کی ضرورت ہے اور آئندہ پارلیمینٹ کو نظریہ پاکستان کی تعریف ضرور سامنے لانی چاہئے ۔
[SUP]دی پاکستانی نیوز پیپر
تاریخ اشاعت : 2013-04-08 [/SUP]