ابوابراہیم فیصل
مبتدی
- شمولیت
- فروری 27، 2025
- پیغامات
- 13
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 5
آج کے جدید دور میں جب انسان ترقی کی کئی منازل طے کر رہا ہے، سائنسی ایجادات اور دریافتوں کے باعث حیرت میں مبتلا ہے ۔ ان ایجادات کے باعث سہولیات استعمال کر رہا ہے اور اپنی زندگی کو آسان بنا رہا ہے ۔ ویسے ہی انسان علم کی نئی جہتوں کو دریافت کر رہا ہے ، شکوک و شبہات اور سوالات کے لامتناہی سلسلوں نےانسان کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ انسانیت کا آغاز کیسے ہوا ۔ قدیم دہریت اس کو مادے کی ہمیشگی سے تعبیر کرتی رہی اور جدید دھریت نے جب فلسفے کے ساتھ اپنے علم میں سائنسی علوم کی آمیزیش کی تو " نظریہ ارتقاء " کو اپنایا گیا ۔ ہم اپنی گزشتہ تحریروں میں نظریہ ارتقاء کا رد مختلف ماہرین حیاتیات کے اعتراضات سے کر چکے ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا قرآن و سنت میں نظریہ ارتقاء کی کوئی گنجائش موجود ہے ۔
نظریہ ارتقاء کے رد میں ہمیں کچھ ایسے منطقی دلائل و استدلال بھی دینے ہوں گے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسانیت کا نقطہ آغاز اللہ کی تخلیق سے ہوا ۔ ملحدین کا ماننا ہے کہ انسان مادے سے ارتقاء کا سفر طے کرنے کے بعد اڑھائی لاکھ سال بعد وجود میں آئے ۔ اور تقریبا 74 ہزار سال بعد انسان نے بولنا شروع کیا ۔ اس کا اظہار حال ہی میں ملحد اویس اقبال نے پروفیسر وقاص احمد (ڈسکہ ) سے اپنے مناظرے کے دوران کیا ۔
" برٹینڈ رسل " نے اپنی کتاب " مغربی فلسفہ کی تاریخ " میں یہ بات لکھی ہے کہ کہ انسان نے تقریبا 6 ہزار سال قبل قدیم مصر میں پہلی بار لکھنا شروع کیا ۔ یعنی جب انسان اڑھائی لاکھ بعد بنا تو اس کو کچھ بولنے کے لئے تقریبا 74 ہزار سال لگ گئے ۔
سوال یہ ہے کہ ان 74 ہزار سالوں میں وہ بات کس طرح کرتے تھے Communication کا کونسا ذریعہ استعمال کرتے تھے ؟ سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت تک ان کے پاس بصارت The Vision نہیں تھا ؟ یعنی وہ ماحول میں موجود مخلوقات کی تفریق کس طرح کیا کرتے تھے ؟ کیا ان کے پاس سماعت Sense of Hearing نہیں تھی ؟ جانداروں کی آوازوں کو وہ کس طرح پہچانا کرتے تھے اور میں تفریق کیسے کرتے تھے ؟
جبکہ قرآن و حدیث میں ہمیں بہت واضح ثبوت ملتے ہیں کہ جب انسان کی تخلیق کی گئی تو اس کو بیان کرنا سیکھایا گیا ۔ اس کو نام سیکھائے گئے اور اس کو قلم سے لکھنا سیکھایا گیا ۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ(3)عَلَّمَهُ الْبَیَانَ(4) انسان کو پیدا کیا۔ اسے بیان سکھایا۔ (الرحمٰن)
اسی طرح اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ۔ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾ جس نے قلم کے ذریعے ( علم ) سکھایا ۔ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا ۔ (اقراء)
یعنی انسان کی جب تخلیق کی گئی تھی اسی وقت اس کو بولنا بھی سیکھایا گیا اور لکھنا بھی سیکھایا گیا وہ سب علم دیا وہ جانتا نہ تھا ۔
اللہ نے وہ حیرت و تشکیک انسان کی اس کی پیدائش کے فوری بعد ہی ختم فرما دی ۔ کیونکہ اگر انسان کو واقعی میں بولنے اور جاننے کے عمل کے لئے 74 ہزار سال کا عرصہ لگ جاتا تو وہ اپنی نسل ، اپنا نسب ، اپنا نقطہ آغاز اپنی پہچان بھول جاتا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو Divine Guidance یعنی وحی الٰہی کے ذریعے سب بتایا گیا اور سمجھا دیا گیا ۔
ملحد اویس اقبال نے مفتی یاس واجدی صاحب سے سوال کیا کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کو کہاں پیدا کیا ؟
جس کا جواب صحیح مسلم کی حدیث میں موجود ہے ۔۔۔
عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لما صوَّرَ اللهُ آدمَ في الجنة تركه ما شاء الله أن يتركه، فجعل إبليسُ يُطيفُ به، ينظر ما هو، فلما رآه أجوفَ عَرف أنه خُلِقَ خَلْقًا لا يَتَمالَك». رواہ مسلم
۔۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کی صورت (ڈھانچہ )بنا لی، تو اپنی مشیت کے بقدر ان (کے جسد) کو وہاں رکھا۔ ابلیس اس کے اردگرد گھوم کر دیکھنے لگا کہ وہ کیسا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ (جسم) اندر سے کھوکھلا ہے تو اس نے جان لیا کہ اسے اس طرح پیدا کیا گیا کہ یہ خود پر قابو نہیں رکھ سکتا“۔
سیدنا آدم علیہ السلام کو جنت میں پیدا کیا گیا ۔مفتی یاسر واجدی صاحب نے اس سوال کا جواب دینے سے نا جانے کیوں انکار کر دیا لیکن ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ شریعت اسلامیہ نے انسانیت کے نقطہ آغاز پر جو معلومات ہمیں فراہم کی ہے ۔ چاہے اس کی حکمت اور فہم ہمیں معلوم ہو یا نہ معلوم ہو ہمیں بیان کر کے حتی الامکان کوشش کرنی چاہیئے کہ ثابت ہو کہ وحی الٰہی اس حد تک حتمی اور نتیجہ خیز ہے کہ ضروری معلومات انسان کو ضرور فراہم کرتی ہے ۔
سیدنا آدم علیہ السلام کو جمعہ کے روز پیدا کیا گیا ۔
حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي، فَقَالَ: " خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَخَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فِي آخِرِ الْخَلْقِ فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ "، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: حَدَّثَنَا الْبِسْطَامِيُّ وَهُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، وَسَهْلُ بْنُ عَمَّارٍ، وَإِبْرَاهِيمُ ابْنُ بِنْتِ حَفْصٍ، وَغَيْرُهُمْ عَنْ حَجَّاجٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
سریج بن یونس اور ہارون بن عبداللہ نے مجھے حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں حجاج بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ابن جریج نے کہا: مجھے اسماعیل بن امیہ نے ایوب بن خالد سے حدیث بیان کی۔انھوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن رافع سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا، پھر فرمایا: "اللہ عزوجل نے مٹی (زمین) کو ہفتے کےدن پیداکیا اور اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن پیدا کیا اور درختوں کو پیر کے دن پیدا کیا اور ناپسندیدہ چیزوں کو منگل کےدن پیدا کیا اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور اس میں چوپایوں کو جمعرات کے دن پھیلادیا اور سب مخلوقات کے آخر میں آخر میں آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد سے لے کر رات تک کے درمیان جمعہ (کے دن کی آخری ساعتوں میں سے کسی ساعت میں پیدا فرمایا۔" جلودی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں امام مسلم رحمۃاللہ علیہ کے شاگرد ابراہیم نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حسین بن علی بسطامی، سہل بن عمار، حفص کے نواسے ابراہیم اور دوسروں نے حجاج سے یہی حدیث بیان کی۔ صحیح مسلم : 7054
یہاں پر ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیئے کہ اللہ رب العالمین نے جن چھ دنوں میں زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے پیدا فرمایا ان میں سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق نہ ہوئی تھی ۔ سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق تمام تخلیقات کے آخر میں جمعہ کے روز عصر سے مغرب کے درمیان ہوئی " ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سیدنا آدم علیہ السلام کو تو جنت میں پیدا کیا گیا تھا لیکن مٹی زمین کی استعمال کی گئی ۔ " جنت کا میٹیریل کیوں استعمال نہ ہوا ۔ جواب عرض ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق " زمین آسمان کی تخلیق میں سب سے پہلے " مٹی " یعنی زمین کو پیدا کیا گیا ۔ جب مٹی پہلے سے پیدا کی جا چکی تھی تو انسانوں کی آزمائش کے لئے انسان کو مٹی سے پیدا کرنا کوئی مشکل کس طرح تھا دوسرا زمین و آسمان کا کنٹرول تو ہے ہی اللہ کے پاس تو جب وہ چاہے جنت میں زمین کا میٹریل یعنی " مٹی " استعمال کر لے ۔۔۔؟
" إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ"( الأعراف: 54)
ترجمہ:’’ یقینا تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے سارے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے۔ پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ وہ دن کو رات کی چادر اڑھا دیتا ہے، جو تیز رفتاری سے چلتی ہوئی اس کو آدبوچتی ہے۔ اور اس نے سورج اور چاند تارے پیدا کیے ہیں جو سب اس کے حکم کے آگے مطیع ہیں۔ یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب اسی کا کام ہے۔ بڑی برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
اویس اقبال نے ایک اصطلاح استعمال کی کہ کیا انسانیت کا آغاز Guided Evolution سے ہوا ؟ تو اس کا جواب ہے جی ہاں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام کو اللہ نے ساٹھ ہاتھ قد و قامت پر پیدا فرمایا تب سے قیامت تک لوگوں کا قد و قامت چھوٹا ہوتا رہے گا ۔۔۔۔
-" خلق الله آدم على صورته: طوله ستون ذراعا، فلما خلقه قال: اذهب فسلم على اولئك النفر من الملائكة جلوس، فاستمع ما يحيونك: فإنها تحيتك وتحية ذريتك فقال: السلام عليكم: فقالوا: السلام عليك ورحمة الله، فزادوه:" ورحمة الله" فكل من يدخل الجنة على صورة آدم، فلم يزل الخلق ينقص بعد حتى الآن".-" خلق الله آدم على صورته: طوله ستون ذراعا، فلما خلقه قال: اذهب فسلم على أولئك النفر من الملائكة جلوس، فاستمع ما يحيونك: فإنها تحيتك وتحية ذريتك فقال: السلام عليكم: فقالوا: السلام عليك ورحمة الله، فزادوه:" ورحمة الله" فكل من يدخل الجنة على صورة آدم، فلم يزل الخلق ينقص بعد حتى الآن".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان کی صورت پر پیدا کیا، ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی تخلیق کی تو فرمایا: جاؤ اور فرشتوں کی بیٹھی ہوئی اس جماعت کو سلام کہو اور غور سے سنو کہ وہ آپ کو جواباً کیا کہتے ہیں، کیونکہ یہی (جملے) آپ اور آپ کی اولاد کا سلام ہوں گے۔ (وہ گئے اور) کہا السلام علیکم۔ انہوں نے جواب میں کہا السلام علیک ورحمۃ اللہ۔ یعنی ”ورحمۃ اللہ“ کے الفاظ کی زیادتی کی۔ جب آدمی بھی جنت میں داخل ہو گا وہ آدم علیہ السلام کی صورت (و جسامت) پر داخل ہو گا۔ لیکن (دنیا میں ولادت آدم سے) آج تک قد و قامت میں کمی آتی رہی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ : 449/3827
ملحدین سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ ہومو سیپینس یا چیمپینزیز جب اڑھائی لاکھ سال بعد انسان کی شکل اختیار کر گئے ۔ اس وقت ان کا قد کتنا تھا؟
جس کا حتمی جواب دینے سے ملحدین کے قاصر ہیں ۔
ملحدین سے سوال کیا جائے کہ ان کی جائے پناہ (رہنے کی جگہ ) کونسی تھی تو حتمی جواب نہیں ملے گا ۔ سوائے مفروضوں اور بناوٹی باتوں کے کچھ بھی بیان نہ کر پائیں گے ۔ جب کہ قرآن و حدیث میں اس بات کے بھی ثبوت موجود ہیں کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے جو الفاظ سب سے پہلے اپنی زبان سے ادا کئے وہ کیا تھے ؟
-" لما نفخ الله في آدم الروح، فبلغ الروح رأسه عطس، فقال: الحمد لله رب العالمين، فقال له تبارك وتعالى: يرحمك الله".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام میں روح پھونکی اور وہ سر تک پہنچی تو وہ چھینکے اور «اَلْحَمْدُ ِللهِ َربِّ الْعَالَمِيْنَ» کہا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں کہا: «يَرْحَمُكَ اللهُ» (یعنی) اللہ تجھ پر رحم کرے۔“ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3824]
جب انسان کی تخلیق کی گئی اور اس میں روح پھونکی گئی تو اس وقت آدم علیہ السلام نے جو سب سے پہلے الفاظ بولے وہ "الحمدللہ" یعنی اللہ رب العزت کی اپنے خالق کی تعریف تھی جو اللہ نے ان کو سیکھائے ۔
یہ ممکن نہیں کہ ملحدین بتا سکیں کہ اڑھائی لاکھ سال بعد جب انسان ارتقاء کے نتیجے میں اپنی اصلی شکل میں آیا تو اس نے کس زبان کو اختیار کیا ملحدین کے پاس اس کا کوئی حتمی جواب نہیں دے سکتے ۔
اگر کوئی سوال کرے کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے کس زبان میں اللہ کی تعریف کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے عربی زبان میں ہی تعریف کی ۔ بالفرض وہ یہ ماننے سے انکار کر دیں تب بھی یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے " اسما" کا علم دیا ۔
یہ مختلف زبانوں کے known ہو سکتے ہیں یعنی لغت کے " اسم " یا ان کی اقسام جن کے بغیر تمام زبانیں مردہ ہو جاتی ہیں بے معنی ہو جاتی ہیں ۔
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـٴُـوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(31)
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے پھر ان سب اشیاء کو فرشتوں کے سامنے پیش کرکے فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔
ملحد اویس اقبال نے ایک اعتراض یہ کیا کہ اللہ رب العزت نے انسان بنانے کی ترکیب کیوں نہ بتائی۔ ؟
جس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کی ترکیب اللہ رب العزت کے علم کے ساتھ خاص ہے ۔ اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ انسان کو یہ بتائے کہ اللہ نے اس کو کس ترکیب سے پیدا فرمایا ۔ کیونکہ یہ اس کی صفت قدرت میں شرک ہے ۔ اللہ کا علم اس کی قدرت کی بھی کوئی مثال موجود نہیں ۔
لیکن اللہ نے جس طرح مٹی سے انسان کو پیدا فرمایا اس کے مختلف مراحل اور اس کی ترکیب ضرور قرآن و حدیث میں بیان فرمائی ہے ۔۔۔
1: هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ
وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔( غافر 67)
تراب یعنی inorganic matter
۔۔۔
2: وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کردیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔ (فرقان :54)
الماء یعنی Water
...
3: هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ
وہی تو ہے جس نے تمہیں گیلی مٹی سے پیدا کیا پھر ایک مدت مقرر کی (یعنی موت) اور ایک اور مدت اس کے ہاں معین ہے (یعنی قیامت) پھر بھی تم (اللہ کے بارے میں) شک کرتے ہو ( الانعام : 02)
طین یعنی Clay .
طین ایسی مٹی کو کہا جاتا ہے جو پانی کے ساتھ مکس ہو یعنی گارا بن گیا ہو ۔ سورہ الانعام کی آیت سے پہلے پانی اور مٹی کا ذکر گزر چکا ہے ۔ لہذا جو ملحد کبھی لفظ " ماء " اور پھر لفظ " تراب "
میں تعارض پیدا کر کے تشکیک پیدا کرتے ہیں اللہ رب العزت نے لفظ " طین کا استعمال کر کے اپنی آیات اپنی نشانیوں کو مزید کھول کر بیان کر دیا ہے اور ان کی تشکیک کا واضح رد فرما دیا ہے ۔
۔۔
4:فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَم مَّنْ خَلَقْنَا ۚ إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ
ان کافروں سے پوچھو تو کہ آیا ان کا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا (ان کا) جنہیں ہم نے ان کے علاوہ پیدا کیا ہے؟ ہم نے (انسانوں) کو لیسدار مٹی سے پیدا کیا ہے؟
طین لازب یعنی Absorb able Clay .
یعنی پانی اور مٹی کے ملاپ سے ایسا گارا بنایا جانا ۔ جو جذب ہونے والا ہو
جڑ جانے والا گارا ہو ۔ جس گارے سے پانی کی مقدار اس حد تک کم ہو جائے کہ مٹی کی جاذبیت میں اضافہ ہو جائے ۔ مٹی اور گارے کی یہ اقسام بیان کرنے کا مقصد قرآن کی فصاحت و بلاغت بھی ہے کہ قاری کے دل میں شیطان اگر کوئی وسوسہ یا تشکیک ڈال دے ۔ تو اس کے دل کے لئے اطمینان کا سامان ہو سکے ۔
۔۔
5: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کیا، جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔
من صلصال من حماء مسنون یعنی Old Physically and Chemically altered mud
ایسا گارا ایسی مٹی جس کا گودا بنا کر کوئی مجسمہ یا کوئی برتن تیار کیا گیا ہو جب وہ سوکھ کر پرانا ہو جائے اور اسے کسی چیز سے کھنکھنایا جائے اور وہ بجنے لگے ۔ (نوٹ اس کی وضاحت اگلی آیت میں ملاحظہ کیجیئے )
۔۔
6: خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ
اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی
من صلصال کالفخار یعنی Dried and Highly Purified Clay
ایسی پرانی مٹی جس کو گوندھا گیا ہو اور آگ میں پکا کر صاف ستھرا کر دیا گیا ہو ۔
۔۔
7: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو حقیر مٹی کے ایک خلاصے سے پیدا کیا۔
یہ ترجمہ( سورہ الفرقان :12 ) مفسر قرآن علامہ حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ کا ہے ۔
سلالۃ من طین یعنی Extract Purified Clay
مختلف اقسام کی مٹیوں کا خلاصہ یا مجموعہ ۔ اس ترجمہ میں احادیث نبویہ ﷺ میں جو سیدنا آدم علیہ السلام اور تخلیق انسانی کی ابتداء کے متعلق بیانات موجود ہیں سب کا احاطہ ممکن ہے ۔
جیسے علامہ البانی رحمہ اللہ طبقات ابن سعد ، تاریخ دمشق سے اپنی سلسلہ صحیحہ میں روایت لائے ہیں ۔
" ان آدم خلق من ثلاث تربات : سداء ، وبیضاء و خضراء "
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : سیدنا آدم علیہ السلام کو تین قسم کی مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ کالی ، سفید ،سبز " سلسلہ صحیحہ : 1580
دوسری حدیث :
عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لما صوَّرَ اللهُ آدمَ في الجنة تركه ما شاء الله أن يتركه، فجعل إبليسُ يُطيفُ به، ينظر ما هو، فلما رآه أجوفَ عَرف أنه خُلِقَ خَلْقًا لا يَتَمالَك». رواہ مسلم
۔۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کی صورت (ڈھانچہ )بنا لی، تو اپنی مشیت کے بقدر ان (کے جسد) کو وہاں رکھا۔ ابلیس اس کے اردگرد گھوم کر دیکھنے لگا کہ وہ کیسا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ (جسم) اندر سے کھوکھلا ہے تو اس نے جان لیا کہ اسے اس طرح پیدا کیا گیا کہ یہ خود پر قابو نہیں رکھ سکتا“۔
ہم ملحدین سے سوال کر سکتے ہیں کہ جب پہلے انسان اس دنیا میں وجود میں آئے تو ان کی رنگت کیا تھی ؟ اور کتنا عرصہ تک وہ کس خاص رنگ میں افزائش نسل کرتے رہے ؟ جس کا کوئی بھی حتمی جواب کسی ملحد کے پاس نہیں ہو گا ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعَبْدُ الْوَهَّابِ قَالُوا حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيُّ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ فَجَاءَ مِنْهُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذَلِكَ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
ترجمہ : ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کے ہر حصے سے ایک مٹھی مٹی لے کر اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، چنانچہ ان کی اولاد میں مٹی کی مناسبت سے کوئی لال، کوئی سفید، کالا اور ان کے درمیان مختلف رنگوں کے اور نرم مزاج وگرم مزاج، بد باطن وپاک طینت لوگ پیدا ہوئے‘‘ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جامع ترمذی حدیث نمبر: 2955
تخلیق آدم علیہ السلام کے متعلق ایسی واضح ، حتمی اور نتیجہ خیز معلومات کسی بھی مذہب میں میسر نہیں ۔
یہ بات ہمیں قرآن و حدیث سے مل جاتی ہے کہ اللہ رب العزت نے کچھ اقوام کو بندر اور سور بنا دیا تھا یا شاید کچھ ایسی مخلوقات جن کو بعض قوموں کے نزدیک کراہت سے دیکھا جاتا ہے ۔ جیسے صحیح مسلم کی یہ حدیث ۔۔۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضٍ مَضَبَّةٍ فَمَا تَأْمُرُنَا أَوْ فَمَا تُفْتِينَا؟ قَالَ ذُكِرَ لِي أَنَّ أُمَّةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسِخَتْ، فَلَمْ يَأْمُرْ وَلَمْ يَنْهَ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَ عُمَرُ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَنْفَعُ بِهِ غَيْرَ وَاحِدٍ، وَإِنَّهُ لَطَعَامُ عَامَّةِ هَذِهِ الرِّعَاءِ وَلَوْ كَانَ عِنْدِي لَطَعِمْتُهُ إِنَّمَا عَافَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
داود نے ابو نضرہ سے ، انھوں نے حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص نے عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سانڈوں سے بھری ہوئی سرزمین میں رہتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟یا کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ مجھے بتایاگیا کہ بنو اسرائیل کی ایک امت ( بڑی جماعت ) مسخ کر ( کے رینگنے والے جانوروں میں تبدیل کر ) دی گئی تھی ۔ "" ( اس کے بعد ) آپ نے نہ اجازت دی اور نہ منع فرمایا ۔ حضرت ابوسعید ( خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا : پھر بعد کا عہد آیا توحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اللہ عزوجل اس کے ذریعے سے ایک سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے ۔ یہ عام چرواہوں کی غذا ہے ، اگر یہ میرے پاس ہوتا تو میں اسے کھاتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نامرغوب محسوس کیا تھا ۔ ( اسے حرام قرار نہیں دیا تھا ۔ ) 5043
اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہوا ۔۔۔
وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ الَّذِیۡنَ اعۡتَدَوۡا مِنۡکُمۡ فِی السَّبۡتِ فَقُلۡنَا لَہُمۡ کُوۡنُوۡا قِرَدَۃً خٰسِئِیۡنَ ﴿ۚ۶۵﴾
اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم میں سے ہفتہ کے بارے میں حد سے بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ ۔ سورہ البقرہ
۔۔
وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِۘ-اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَۙ-لَا تَاْتِیْهِمْۚۛ-كَذٰلِكَۚۛ-نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(163)وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَاۙﰳ اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(164)فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَىٕیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ (165)فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىٕیْنَ(166)
۔اور ان سے حال پوچھو اس بستی کا کہ دریا کنارے تھی جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھتے جب ہفتے کے دن ان کی مچھلیاں پانی پر تیرتی ان کے سامنے آتیں اور جو دن ہفتے کا نہ ہوتا نہ آتیں اس طرح ہم انہیں آزماتے تھے ان کی بے حکمی کے سبباور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کیوں نصیحت کرتے ہو ان لوگوں کو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں سخت عذاب دینے والا بولے تمہارے رب کے حضور معذرت کو اور شاید انہیں ڈر ہوپھر جب وہ بھلا بیٹھے جو نصیحت انہیں ہوئی تھی ہم نے بچالیے وہ جوبرائی سے منع کرتے تھے اور ظالموں کو بُرے عذاب میں پکڑا بدلہ ان کی نافرمانی کاپھر جب انہوں نے ممانعت کے حکم سے سرکشی کی ہم نے اُن سے فرمایا ہوجاؤ بندر دُتْکارے(دُھتکارے ) ہوئے(الاعراف )
اللہ نے انسانوں بنی اسرائیل میں یہ عذاب نازل کیا کہ ان کو نافرمانی کرنے کے سبب بندر بنا دیا ، عین ممکن ہے کہ آج کے دور میں وہ ہوموسیپیئنس یا چیمپینزیز کی نسلیں زندہ ہوں جن کا ڈی این اے نظریہ ارتقاء کو سچ ثابت کرنے کے لئے انسان کے ڈی این اے سے مماثلت چیک کرنے کے لئے ٹیسٹ کیا گیا۔
اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھا جا سکتا ہے کہ اللہ نے بطور عذاب انسانوں پر ایسی بیماریاں بھی نازل کی جن سے ان کے جسمانی خدو خال تبدیل ہوئے ۔ اور آج بھی ایسی بیماریاں موجود ہیں جن سے انسان اپنی اصل بناوٹ و پہچان کھو دیتا ہے ۔ اس لئے یہ عذاب الٰہی ہی ہو سکتا ہے کہ جو بنی اسرائیل کی اولادوں کے نافرمانوں نے اپنے آبائو اجداد کو پہچان لیا ہو ۔
اور یہ بھی اللہ کی حقانیت کا ثبوت ہو ۔۔۔
قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَیْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَؕ-اُولٰٓىٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ(60)
اے محبوب! تم فرماؤ: کیا میں تمہیں وہ لوگ بتاؤں جو اللہ کے ہاں اس سے بدتر درجہ کے ہیں ، یہ وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر غضب فرمایا اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو بندر اور سور بنادیا اور جنہوں نے شیطان کی عبادت کی، یہ لوگ بدترین مقام والے اور سیدھے راستے سے سب سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ۔ (المائدہ )
نہ ملحدین اس زبان کا بتا سکتے ہیں کہ پہلے ارتقائی انسان نے اختیار کی ۔
نہ اس کا حلیہ بتا سکتے ہیں ، نہ علاقہ ، نہ ترقیب خلق ، اور نہ ہی اس کی خد و خال کی موروثیت اور اس کے ارتقاء کی سند ۔ جب کہ اگر مسلمان اس بات پر غور کریں کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں اتنی زیادہ تفصیلات کیوں ارشاد فرمائی تو اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کو یہ علم اس لئے عطا کیا تھا کہ آنے والے وقتوں میں نظریہ ارتقاء کے فتنے سے اللہ کی صفت خالق کا انکار کر کے ، اللہ کے وجود کا انکار کیا جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سیدنا آدم علیہ السلام کی جائے پیدائش ، ترکیب تخلیق ، تک کا علم دیا ۔ تاکہ شعور انسانی کے مغالطوں اور تشکیکات کو علم وحیٰ کی حتمیت سے شکست دی جا سکے ۔ اگر پھر بھی کوئی ملحد قرآن و حدیث کی حقانیت کو ماننےسے انکار کرے تو اللہ نے اس کے لئے بھی ارشاد فرمایا ہے
وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ
اور اگر واقعی ہم ان کی طرف فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے گفتگو کرتے اور ہم ہر چیز ان کے پاس سامنے لا جمع کرتے تو بھی وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لے آتے مگر یہ کہ اللہ چاہے اور لیکن ان کے اکثر جہالت برتتے ہیں۔
سورہ الانعام : 111
ازقلم عبدالسلام فیصل
نظریہ ارتقاء کے رد میں ہمیں کچھ ایسے منطقی دلائل و استدلال بھی دینے ہوں گے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسانیت کا نقطہ آغاز اللہ کی تخلیق سے ہوا ۔ ملحدین کا ماننا ہے کہ انسان مادے سے ارتقاء کا سفر طے کرنے کے بعد اڑھائی لاکھ سال بعد وجود میں آئے ۔ اور تقریبا 74 ہزار سال بعد انسان نے بولنا شروع کیا ۔ اس کا اظہار حال ہی میں ملحد اویس اقبال نے پروفیسر وقاص احمد (ڈسکہ ) سے اپنے مناظرے کے دوران کیا ۔
" برٹینڈ رسل " نے اپنی کتاب " مغربی فلسفہ کی تاریخ " میں یہ بات لکھی ہے کہ کہ انسان نے تقریبا 6 ہزار سال قبل قدیم مصر میں پہلی بار لکھنا شروع کیا ۔ یعنی جب انسان اڑھائی لاکھ بعد بنا تو اس کو کچھ بولنے کے لئے تقریبا 74 ہزار سال لگ گئے ۔
سوال یہ ہے کہ ان 74 ہزار سالوں میں وہ بات کس طرح کرتے تھے Communication کا کونسا ذریعہ استعمال کرتے تھے ؟ سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت تک ان کے پاس بصارت The Vision نہیں تھا ؟ یعنی وہ ماحول میں موجود مخلوقات کی تفریق کس طرح کیا کرتے تھے ؟ کیا ان کے پاس سماعت Sense of Hearing نہیں تھی ؟ جانداروں کی آوازوں کو وہ کس طرح پہچانا کرتے تھے اور میں تفریق کیسے کرتے تھے ؟
جبکہ قرآن و حدیث میں ہمیں بہت واضح ثبوت ملتے ہیں کہ جب انسان کی تخلیق کی گئی تو اس کو بیان کرنا سیکھایا گیا ۔ اس کو نام سیکھائے گئے اور اس کو قلم سے لکھنا سیکھایا گیا ۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ(3)عَلَّمَهُ الْبَیَانَ(4) انسان کو پیدا کیا۔ اسے بیان سکھایا۔ (الرحمٰن)
اسی طرح اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ۔ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾ جس نے قلم کے ذریعے ( علم ) سکھایا ۔ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا ۔ (اقراء)
یعنی انسان کی جب تخلیق کی گئی تھی اسی وقت اس کو بولنا بھی سیکھایا گیا اور لکھنا بھی سیکھایا گیا وہ سب علم دیا وہ جانتا نہ تھا ۔
اللہ نے وہ حیرت و تشکیک انسان کی اس کی پیدائش کے فوری بعد ہی ختم فرما دی ۔ کیونکہ اگر انسان کو واقعی میں بولنے اور جاننے کے عمل کے لئے 74 ہزار سال کا عرصہ لگ جاتا تو وہ اپنی نسل ، اپنا نسب ، اپنا نقطہ آغاز اپنی پہچان بھول جاتا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو Divine Guidance یعنی وحی الٰہی کے ذریعے سب بتایا گیا اور سمجھا دیا گیا ۔
ملحد اویس اقبال نے مفتی یاس واجدی صاحب سے سوال کیا کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کو کہاں پیدا کیا ؟
جس کا جواب صحیح مسلم کی حدیث میں موجود ہے ۔۔۔
عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لما صوَّرَ اللهُ آدمَ في الجنة تركه ما شاء الله أن يتركه، فجعل إبليسُ يُطيفُ به، ينظر ما هو، فلما رآه أجوفَ عَرف أنه خُلِقَ خَلْقًا لا يَتَمالَك». رواہ مسلم
۔۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کی صورت (ڈھانچہ )بنا لی، تو اپنی مشیت کے بقدر ان (کے جسد) کو وہاں رکھا۔ ابلیس اس کے اردگرد گھوم کر دیکھنے لگا کہ وہ کیسا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ (جسم) اندر سے کھوکھلا ہے تو اس نے جان لیا کہ اسے اس طرح پیدا کیا گیا کہ یہ خود پر قابو نہیں رکھ سکتا“۔
سیدنا آدم علیہ السلام کو جنت میں پیدا کیا گیا ۔مفتی یاسر واجدی صاحب نے اس سوال کا جواب دینے سے نا جانے کیوں انکار کر دیا لیکن ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ شریعت اسلامیہ نے انسانیت کے نقطہ آغاز پر جو معلومات ہمیں فراہم کی ہے ۔ چاہے اس کی حکمت اور فہم ہمیں معلوم ہو یا نہ معلوم ہو ہمیں بیان کر کے حتی الامکان کوشش کرنی چاہیئے کہ ثابت ہو کہ وحی الٰہی اس حد تک حتمی اور نتیجہ خیز ہے کہ ضروری معلومات انسان کو ضرور فراہم کرتی ہے ۔
سیدنا آدم علیہ السلام کو جمعہ کے روز پیدا کیا گیا ۔
حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي، فَقَالَ: " خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَخَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فِي آخِرِ الْخَلْقِ فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ "، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: حَدَّثَنَا الْبِسْطَامِيُّ وَهُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، وَسَهْلُ بْنُ عَمَّارٍ، وَإِبْرَاهِيمُ ابْنُ بِنْتِ حَفْصٍ، وَغَيْرُهُمْ عَنْ حَجَّاجٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
سریج بن یونس اور ہارون بن عبداللہ نے مجھے حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں حجاج بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ابن جریج نے کہا: مجھے اسماعیل بن امیہ نے ایوب بن خالد سے حدیث بیان کی۔انھوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن رافع سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا، پھر فرمایا: "اللہ عزوجل نے مٹی (زمین) کو ہفتے کےدن پیداکیا اور اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن پیدا کیا اور درختوں کو پیر کے دن پیدا کیا اور ناپسندیدہ چیزوں کو منگل کےدن پیدا کیا اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور اس میں چوپایوں کو جمعرات کے دن پھیلادیا اور سب مخلوقات کے آخر میں آخر میں آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد سے لے کر رات تک کے درمیان جمعہ (کے دن کی آخری ساعتوں میں سے کسی ساعت میں پیدا فرمایا۔" جلودی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں امام مسلم رحمۃاللہ علیہ کے شاگرد ابراہیم نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حسین بن علی بسطامی، سہل بن عمار، حفص کے نواسے ابراہیم اور دوسروں نے حجاج سے یہی حدیث بیان کی۔ صحیح مسلم : 7054
یہاں پر ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیئے کہ اللہ رب العالمین نے جن چھ دنوں میں زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے پیدا فرمایا ان میں سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق نہ ہوئی تھی ۔ سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق تمام تخلیقات کے آخر میں جمعہ کے روز عصر سے مغرب کے درمیان ہوئی " ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سیدنا آدم علیہ السلام کو تو جنت میں پیدا کیا گیا تھا لیکن مٹی زمین کی استعمال کی گئی ۔ " جنت کا میٹیریل کیوں استعمال نہ ہوا ۔ جواب عرض ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق " زمین آسمان کی تخلیق میں سب سے پہلے " مٹی " یعنی زمین کو پیدا کیا گیا ۔ جب مٹی پہلے سے پیدا کی جا چکی تھی تو انسانوں کی آزمائش کے لئے انسان کو مٹی سے پیدا کرنا کوئی مشکل کس طرح تھا دوسرا زمین و آسمان کا کنٹرول تو ہے ہی اللہ کے پاس تو جب وہ چاہے جنت میں زمین کا میٹریل یعنی " مٹی " استعمال کر لے ۔۔۔؟
" إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ"( الأعراف: 54)
ترجمہ:’’ یقینا تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے سارے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے۔ پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ وہ دن کو رات کی چادر اڑھا دیتا ہے، جو تیز رفتاری سے چلتی ہوئی اس کو آدبوچتی ہے۔ اور اس نے سورج اور چاند تارے پیدا کیے ہیں جو سب اس کے حکم کے آگے مطیع ہیں۔ یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب اسی کا کام ہے۔ بڑی برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
اویس اقبال نے ایک اصطلاح استعمال کی کہ کیا انسانیت کا آغاز Guided Evolution سے ہوا ؟ تو اس کا جواب ہے جی ہاں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام کو اللہ نے ساٹھ ہاتھ قد و قامت پر پیدا فرمایا تب سے قیامت تک لوگوں کا قد و قامت چھوٹا ہوتا رہے گا ۔۔۔۔
-" خلق الله آدم على صورته: طوله ستون ذراعا، فلما خلقه قال: اذهب فسلم على اولئك النفر من الملائكة جلوس، فاستمع ما يحيونك: فإنها تحيتك وتحية ذريتك فقال: السلام عليكم: فقالوا: السلام عليك ورحمة الله، فزادوه:" ورحمة الله" فكل من يدخل الجنة على صورة آدم، فلم يزل الخلق ينقص بعد حتى الآن".-" خلق الله آدم على صورته: طوله ستون ذراعا، فلما خلقه قال: اذهب فسلم على أولئك النفر من الملائكة جلوس، فاستمع ما يحيونك: فإنها تحيتك وتحية ذريتك فقال: السلام عليكم: فقالوا: السلام عليك ورحمة الله، فزادوه:" ورحمة الله" فكل من يدخل الجنة على صورة آدم، فلم يزل الخلق ينقص بعد حتى الآن".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان کی صورت پر پیدا کیا، ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی تخلیق کی تو فرمایا: جاؤ اور فرشتوں کی بیٹھی ہوئی اس جماعت کو سلام کہو اور غور سے سنو کہ وہ آپ کو جواباً کیا کہتے ہیں، کیونکہ یہی (جملے) آپ اور آپ کی اولاد کا سلام ہوں گے۔ (وہ گئے اور) کہا السلام علیکم۔ انہوں نے جواب میں کہا السلام علیک ورحمۃ اللہ۔ یعنی ”ورحمۃ اللہ“ کے الفاظ کی زیادتی کی۔ جب آدمی بھی جنت میں داخل ہو گا وہ آدم علیہ السلام کی صورت (و جسامت) پر داخل ہو گا۔ لیکن (دنیا میں ولادت آدم سے) آج تک قد و قامت میں کمی آتی رہی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ : 449/3827
ملحدین سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ ہومو سیپینس یا چیمپینزیز جب اڑھائی لاکھ سال بعد انسان کی شکل اختیار کر گئے ۔ اس وقت ان کا قد کتنا تھا؟
جس کا حتمی جواب دینے سے ملحدین کے قاصر ہیں ۔
ملحدین سے سوال کیا جائے کہ ان کی جائے پناہ (رہنے کی جگہ ) کونسی تھی تو حتمی جواب نہیں ملے گا ۔ سوائے مفروضوں اور بناوٹی باتوں کے کچھ بھی بیان نہ کر پائیں گے ۔ جب کہ قرآن و حدیث میں اس بات کے بھی ثبوت موجود ہیں کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے جو الفاظ سب سے پہلے اپنی زبان سے ادا کئے وہ کیا تھے ؟
-" لما نفخ الله في آدم الروح، فبلغ الروح رأسه عطس، فقال: الحمد لله رب العالمين، فقال له تبارك وتعالى: يرحمك الله".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام میں روح پھونکی اور وہ سر تک پہنچی تو وہ چھینکے اور «اَلْحَمْدُ ِللهِ َربِّ الْعَالَمِيْنَ» کہا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں کہا: «يَرْحَمُكَ اللهُ» (یعنی) اللہ تجھ پر رحم کرے۔“ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3824]
جب انسان کی تخلیق کی گئی اور اس میں روح پھونکی گئی تو اس وقت آدم علیہ السلام نے جو سب سے پہلے الفاظ بولے وہ "الحمدللہ" یعنی اللہ رب العزت کی اپنے خالق کی تعریف تھی جو اللہ نے ان کو سیکھائے ۔
یہ ممکن نہیں کہ ملحدین بتا سکیں کہ اڑھائی لاکھ سال بعد جب انسان ارتقاء کے نتیجے میں اپنی اصلی شکل میں آیا تو اس نے کس زبان کو اختیار کیا ملحدین کے پاس اس کا کوئی حتمی جواب نہیں دے سکتے ۔
اگر کوئی سوال کرے کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے کس زبان میں اللہ کی تعریف کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے عربی زبان میں ہی تعریف کی ۔ بالفرض وہ یہ ماننے سے انکار کر دیں تب بھی یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے " اسما" کا علم دیا ۔
یہ مختلف زبانوں کے known ہو سکتے ہیں یعنی لغت کے " اسم " یا ان کی اقسام جن کے بغیر تمام زبانیں مردہ ہو جاتی ہیں بے معنی ہو جاتی ہیں ۔
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـٴُـوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(31)
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے پھر ان سب اشیاء کو فرشتوں کے سامنے پیش کرکے فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔
ملحد اویس اقبال نے ایک اعتراض یہ کیا کہ اللہ رب العزت نے انسان بنانے کی ترکیب کیوں نہ بتائی۔ ؟
جس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کی ترکیب اللہ رب العزت کے علم کے ساتھ خاص ہے ۔ اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ انسان کو یہ بتائے کہ اللہ نے اس کو کس ترکیب سے پیدا فرمایا ۔ کیونکہ یہ اس کی صفت قدرت میں شرک ہے ۔ اللہ کا علم اس کی قدرت کی بھی کوئی مثال موجود نہیں ۔
لیکن اللہ نے جس طرح مٹی سے انسان کو پیدا فرمایا اس کے مختلف مراحل اور اس کی ترکیب ضرور قرآن و حدیث میں بیان فرمائی ہے ۔۔۔
1: هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ
وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔( غافر 67)
تراب یعنی inorganic matter
۔۔۔
2: وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کردیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔ (فرقان :54)
الماء یعنی Water
...
3: هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ
وہی تو ہے جس نے تمہیں گیلی مٹی سے پیدا کیا پھر ایک مدت مقرر کی (یعنی موت) اور ایک اور مدت اس کے ہاں معین ہے (یعنی قیامت) پھر بھی تم (اللہ کے بارے میں) شک کرتے ہو ( الانعام : 02)
طین یعنی Clay .
طین ایسی مٹی کو کہا جاتا ہے جو پانی کے ساتھ مکس ہو یعنی گارا بن گیا ہو ۔ سورہ الانعام کی آیت سے پہلے پانی اور مٹی کا ذکر گزر چکا ہے ۔ لہذا جو ملحد کبھی لفظ " ماء " اور پھر لفظ " تراب "
میں تعارض پیدا کر کے تشکیک پیدا کرتے ہیں اللہ رب العزت نے لفظ " طین کا استعمال کر کے اپنی آیات اپنی نشانیوں کو مزید کھول کر بیان کر دیا ہے اور ان کی تشکیک کا واضح رد فرما دیا ہے ۔
۔۔
4:فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَم مَّنْ خَلَقْنَا ۚ إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ
ان کافروں سے پوچھو تو کہ آیا ان کا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا (ان کا) جنہیں ہم نے ان کے علاوہ پیدا کیا ہے؟ ہم نے (انسانوں) کو لیسدار مٹی سے پیدا کیا ہے؟
طین لازب یعنی Absorb able Clay .
یعنی پانی اور مٹی کے ملاپ سے ایسا گارا بنایا جانا ۔ جو جذب ہونے والا ہو
جڑ جانے والا گارا ہو ۔ جس گارے سے پانی کی مقدار اس حد تک کم ہو جائے کہ مٹی کی جاذبیت میں اضافہ ہو جائے ۔ مٹی اور گارے کی یہ اقسام بیان کرنے کا مقصد قرآن کی فصاحت و بلاغت بھی ہے کہ قاری کے دل میں شیطان اگر کوئی وسوسہ یا تشکیک ڈال دے ۔ تو اس کے دل کے لئے اطمینان کا سامان ہو سکے ۔
۔۔
5: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کیا، جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔
من صلصال من حماء مسنون یعنی Old Physically and Chemically altered mud
ایسا گارا ایسی مٹی جس کا گودا بنا کر کوئی مجسمہ یا کوئی برتن تیار کیا گیا ہو جب وہ سوکھ کر پرانا ہو جائے اور اسے کسی چیز سے کھنکھنایا جائے اور وہ بجنے لگے ۔ (نوٹ اس کی وضاحت اگلی آیت میں ملاحظہ کیجیئے )
۔۔
6: خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ
اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی
من صلصال کالفخار یعنی Dried and Highly Purified Clay
ایسی پرانی مٹی جس کو گوندھا گیا ہو اور آگ میں پکا کر صاف ستھرا کر دیا گیا ہو ۔
۔۔
7: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو حقیر مٹی کے ایک خلاصے سے پیدا کیا۔
یہ ترجمہ( سورہ الفرقان :12 ) مفسر قرآن علامہ حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ کا ہے ۔
سلالۃ من طین یعنی Extract Purified Clay
مختلف اقسام کی مٹیوں کا خلاصہ یا مجموعہ ۔ اس ترجمہ میں احادیث نبویہ ﷺ میں جو سیدنا آدم علیہ السلام اور تخلیق انسانی کی ابتداء کے متعلق بیانات موجود ہیں سب کا احاطہ ممکن ہے ۔
جیسے علامہ البانی رحمہ اللہ طبقات ابن سعد ، تاریخ دمشق سے اپنی سلسلہ صحیحہ میں روایت لائے ہیں ۔
" ان آدم خلق من ثلاث تربات : سداء ، وبیضاء و خضراء "
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : سیدنا آدم علیہ السلام کو تین قسم کی مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ کالی ، سفید ،سبز " سلسلہ صحیحہ : 1580
دوسری حدیث :
عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لما صوَّرَ اللهُ آدمَ في الجنة تركه ما شاء الله أن يتركه، فجعل إبليسُ يُطيفُ به، ينظر ما هو، فلما رآه أجوفَ عَرف أنه خُلِقَ خَلْقًا لا يَتَمالَك». رواہ مسلم
۔۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کی صورت (ڈھانچہ )بنا لی، تو اپنی مشیت کے بقدر ان (کے جسد) کو وہاں رکھا۔ ابلیس اس کے اردگرد گھوم کر دیکھنے لگا کہ وہ کیسا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ (جسم) اندر سے کھوکھلا ہے تو اس نے جان لیا کہ اسے اس طرح پیدا کیا گیا کہ یہ خود پر قابو نہیں رکھ سکتا“۔
ہم ملحدین سے سوال کر سکتے ہیں کہ جب پہلے انسان اس دنیا میں وجود میں آئے تو ان کی رنگت کیا تھی ؟ اور کتنا عرصہ تک وہ کس خاص رنگ میں افزائش نسل کرتے رہے ؟ جس کا کوئی بھی حتمی جواب کسی ملحد کے پاس نہیں ہو گا ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعَبْدُ الْوَهَّابِ قَالُوا حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيُّ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ فَجَاءَ مِنْهُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذَلِكَ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
ترجمہ : ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کے ہر حصے سے ایک مٹھی مٹی لے کر اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، چنانچہ ان کی اولاد میں مٹی کی مناسبت سے کوئی لال، کوئی سفید، کالا اور ان کے درمیان مختلف رنگوں کے اور نرم مزاج وگرم مزاج، بد باطن وپاک طینت لوگ پیدا ہوئے‘‘ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جامع ترمذی حدیث نمبر: 2955
تخلیق آدم علیہ السلام کے متعلق ایسی واضح ، حتمی اور نتیجہ خیز معلومات کسی بھی مذہب میں میسر نہیں ۔
یہ بات ہمیں قرآن و حدیث سے مل جاتی ہے کہ اللہ رب العزت نے کچھ اقوام کو بندر اور سور بنا دیا تھا یا شاید کچھ ایسی مخلوقات جن کو بعض قوموں کے نزدیک کراہت سے دیکھا جاتا ہے ۔ جیسے صحیح مسلم کی یہ حدیث ۔۔۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضٍ مَضَبَّةٍ فَمَا تَأْمُرُنَا أَوْ فَمَا تُفْتِينَا؟ قَالَ ذُكِرَ لِي أَنَّ أُمَّةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسِخَتْ، فَلَمْ يَأْمُرْ وَلَمْ يَنْهَ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَ عُمَرُ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَنْفَعُ بِهِ غَيْرَ وَاحِدٍ، وَإِنَّهُ لَطَعَامُ عَامَّةِ هَذِهِ الرِّعَاءِ وَلَوْ كَانَ عِنْدِي لَطَعِمْتُهُ إِنَّمَا عَافَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
داود نے ابو نضرہ سے ، انھوں نے حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص نے عرض کی : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سانڈوں سے بھری ہوئی سرزمین میں رہتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟یا کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ مجھے بتایاگیا کہ بنو اسرائیل کی ایک امت ( بڑی جماعت ) مسخ کر ( کے رینگنے والے جانوروں میں تبدیل کر ) دی گئی تھی ۔ "" ( اس کے بعد ) آپ نے نہ اجازت دی اور نہ منع فرمایا ۔ حضرت ابوسعید ( خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا : پھر بعد کا عہد آیا توحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اللہ عزوجل اس کے ذریعے سے ایک سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے ۔ یہ عام چرواہوں کی غذا ہے ، اگر یہ میرے پاس ہوتا تو میں اسے کھاتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نامرغوب محسوس کیا تھا ۔ ( اسے حرام قرار نہیں دیا تھا ۔ ) 5043
اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہوا ۔۔۔
وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ الَّذِیۡنَ اعۡتَدَوۡا مِنۡکُمۡ فِی السَّبۡتِ فَقُلۡنَا لَہُمۡ کُوۡنُوۡا قِرَدَۃً خٰسِئِیۡنَ ﴿ۚ۶۵﴾
اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم میں سے ہفتہ کے بارے میں حد سے بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ ۔ سورہ البقرہ
۔۔
وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِۘ-اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَۙ-لَا تَاْتِیْهِمْۚۛ-كَذٰلِكَۚۛ-نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(163)وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَاۙﰳ اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(164)فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَىٕیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ (165)فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىٕیْنَ(166)
۔اور ان سے حال پوچھو اس بستی کا کہ دریا کنارے تھی جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھتے جب ہفتے کے دن ان کی مچھلیاں پانی پر تیرتی ان کے سامنے آتیں اور جو دن ہفتے کا نہ ہوتا نہ آتیں اس طرح ہم انہیں آزماتے تھے ان کی بے حکمی کے سبباور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کیوں نصیحت کرتے ہو ان لوگوں کو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں سخت عذاب دینے والا بولے تمہارے رب کے حضور معذرت کو اور شاید انہیں ڈر ہوپھر جب وہ بھلا بیٹھے جو نصیحت انہیں ہوئی تھی ہم نے بچالیے وہ جوبرائی سے منع کرتے تھے اور ظالموں کو بُرے عذاب میں پکڑا بدلہ ان کی نافرمانی کاپھر جب انہوں نے ممانعت کے حکم سے سرکشی کی ہم نے اُن سے فرمایا ہوجاؤ بندر دُتْکارے(دُھتکارے ) ہوئے(الاعراف )
اللہ نے انسانوں بنی اسرائیل میں یہ عذاب نازل کیا کہ ان کو نافرمانی کرنے کے سبب بندر بنا دیا ، عین ممکن ہے کہ آج کے دور میں وہ ہوموسیپیئنس یا چیمپینزیز کی نسلیں زندہ ہوں جن کا ڈی این اے نظریہ ارتقاء کو سچ ثابت کرنے کے لئے انسان کے ڈی این اے سے مماثلت چیک کرنے کے لئے ٹیسٹ کیا گیا۔
اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھا جا سکتا ہے کہ اللہ نے بطور عذاب انسانوں پر ایسی بیماریاں بھی نازل کی جن سے ان کے جسمانی خدو خال تبدیل ہوئے ۔ اور آج بھی ایسی بیماریاں موجود ہیں جن سے انسان اپنی اصل بناوٹ و پہچان کھو دیتا ہے ۔ اس لئے یہ عذاب الٰہی ہی ہو سکتا ہے کہ جو بنی اسرائیل کی اولادوں کے نافرمانوں نے اپنے آبائو اجداد کو پہچان لیا ہو ۔
اور یہ بھی اللہ کی حقانیت کا ثبوت ہو ۔۔۔
قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَیْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَؕ-اُولٰٓىٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ(60)
اے محبوب! تم فرماؤ: کیا میں تمہیں وہ لوگ بتاؤں جو اللہ کے ہاں اس سے بدتر درجہ کے ہیں ، یہ وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر غضب فرمایا اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو بندر اور سور بنادیا اور جنہوں نے شیطان کی عبادت کی، یہ لوگ بدترین مقام والے اور سیدھے راستے سے سب سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ۔ (المائدہ )
نہ ملحدین اس زبان کا بتا سکتے ہیں کہ پہلے ارتقائی انسان نے اختیار کی ۔
نہ اس کا حلیہ بتا سکتے ہیں ، نہ علاقہ ، نہ ترقیب خلق ، اور نہ ہی اس کی خد و خال کی موروثیت اور اس کے ارتقاء کی سند ۔ جب کہ اگر مسلمان اس بات پر غور کریں کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں اتنی زیادہ تفصیلات کیوں ارشاد فرمائی تو اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کو یہ علم اس لئے عطا کیا تھا کہ آنے والے وقتوں میں نظریہ ارتقاء کے فتنے سے اللہ کی صفت خالق کا انکار کر کے ، اللہ کے وجود کا انکار کیا جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سیدنا آدم علیہ السلام کی جائے پیدائش ، ترکیب تخلیق ، تک کا علم دیا ۔ تاکہ شعور انسانی کے مغالطوں اور تشکیکات کو علم وحیٰ کی حتمیت سے شکست دی جا سکے ۔ اگر پھر بھی کوئی ملحد قرآن و حدیث کی حقانیت کو ماننےسے انکار کرے تو اللہ نے اس کے لئے بھی ارشاد فرمایا ہے
وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ
اور اگر واقعی ہم ان کی طرف فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے گفتگو کرتے اور ہم ہر چیز ان کے پاس سامنے لا جمع کرتے تو بھی وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لے آتے مگر یہ کہ اللہ چاہے اور لیکن ان کے اکثر جہالت برتتے ہیں۔
سورہ الانعام : 111
ازقلم عبدالسلام فیصل