• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(" نظریہ ارتقاء کا پوسٹ مارٹم" مشہور سائنسدانوں کی عدالت میں ۔)

شمولیت
فروری 27، 2025
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
5
جیسے جیسے مادہ پرستی عروج پاتی گئی ویسے ویسے الحاد بھی عروج پاتا گیا۔ ۔ہمارے معاشروں میں اس وقت جو موجودہ فتنہ الحاد ہے اس کی بنیاد کوئی فلسفیانہ اسلوب نہیں ہے بلکہ ایک سائنسی آمرانہ سوچ ہے جس کو بغیر ثبوت کے انسانی عقلوں پرکئی دہائیوں سے مسلط کیا جاتا رہا ہے ۔ اس آمرانہ سوچ کا نام " نظریہ ارتقاء" ہے ۔ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جدید الحاد کی بنیاد ہی اس وقت نظریہ ارتقاء ہے ۔ نظریہ ارتقاء کا بانی "چارلس ڈارون "تھا ۔ بہت سے ملحدین کا ماننا ہے کہ چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقاء فلسفیانہ اصطلاحات میں قدیم یونانیوں کے علوم میں پایا جا تا رہا ہے ۔ لیکن یہ حققت کے خلاف ہے ۔ چارلس ڈارون کا " نظریہ ارتقاء " 1832 کے بعد وجود مں آیا جب چارلس ڈارون نے برطانیہ سے پوری دنیا کے بری و بحری اسفار کا آغاز کیا اور مختلف علاقوں کی مختلف ماحولیات میں رہنے والے جانداروں کا قریب سے مشاہدہ کیا ۔ ڈارون نے یہ نظریہ قائم کیا کہ " ماحول و جگہ سے مطابقت پذیری " کی وجہ سے مختلف جانداروں نے مادہ کی تخلیق کے بعد خود بخود مختلف شکلیں ، جسم ، رنگ اور آوازیں اختیار کر لیں ۔ اور رفتہ رفتہ وقت گزرنے کے ساتھ ان جانوروں کی جینیاتی تبدیلیاں نسل در نسل دوسری انواع میں منتقل ہوتی گئیں ۔
اور پھر جانوروں نے اپنی پہلی موروثی شکل کو تبدیل کرتے ہوئے نئی شکل اختیار کی ۔ اور یہ ارتقائی عمل تقریبا ہر جاندار کی موجودہ شکل تک چلتا آ رہا ہے ۔ اس دور کے سائنسدانوں نے خاص طور پر جو خدا کی صفت خالق کے منکر تھے ، ڈارون کی اس تھیوری کو پذیرائی دی اور مغربی سائنسدانوں نے اس نظرئیے کو زبردستی علم حیاتیات میں قبول کرنا شروع کر دیا اور بالآخر یہ نظریہ خدا کے وجود کے انکار کی بنیادی دلیل بن گیا۔

مندرجہ بالا سطور میں جو تاریخ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے حوالے سے تحریر کی گئی ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جو عمومی طور پر ارتقائی سائنسدانوں اور ملحدین نے اپنے لٹریچر میں درج کر رکھی ہے ۔ لیکن ہمیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا واقعی اس نظریہ کا تعلق سائنسی علم سے ہی ہے ؟ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ علم حیاتیات کے ماہرین کی اس پر کیا آراء ہیں ۔ ہمیں تحقیق کرنی چاہیئے کہ کس طرح ہمارے معاشرے میں اس بے دلیل نظرئیے کی بنیاد پر فتنہ الحاد ہماری نوجوان نسل پر مسلط کیا جا رہا ہے ۔
مشہور لکھاری " ہارون یحییٰ " نے اپنی کتاب" نطریہ ارتقاء ایک فریب " میں چارلس ڈارون کے بارے میں لکھا ہے کہ چارلس ڈارون کوئی ماہر حیاتیات نہ تھا ۔اور نہ ہی اس نے " ارتقاء بذریعہ فطری انتخاب " کا نظریہ
جسے Natural Selection کہا جاتا ہے کسی ٹھوس سائنسی تجربہ کے بعد حاصل ہونے والے شواہد سے قائم کیا یہاں تک کہ ہارون یحییٰ نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 21 میں یہ بات درج کی ہے کہ چارلس ڈارون کی زندگی کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی سائنسی تربیت نہ ہوئی تھی ۔ وہ ایک غیر پیشہ وارانہ ماہر حیاتیات تھا ۔ نظریہ ارتقاء کی تھیوری اس نے اپنی کتاب Origin of Species میں 1859میں پیش کی ۔ چارلس ڈارون یہ بات جانتا تھا کہ اس کا یہ نظریہ بہت سی مشکلات کا شکار ہے ۔
جس کا اظہار اس نے اس کتاب کے باب " نظریئے کی مشکلات " میں بھی کیا ۔ ان مشکلات کا تعلق زیادہ تر رکاز یا فوسل ریکارڈ سے تھا یعنی جانداروں کے ایسے اعضاء جن کو مماثلت کے ذریعے بیان نہیں کیا جا سکتا ، جیسے آنکھ اور جانداروں کی جبلتین وغیرہ ۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ چارلس ڈارون کے نظریہ نے سائنس کو کیا فوائد دئیے ہیں مختلف ماہرین حیاتیات نے کس طریقے سے اس نظریہ کا رد کیا اور اس کو بے دلیل اور بے ثبوت قرار دیا ۔
مشہور سائنسدان ڈاکٹر فلپس ایس سکیل کہتا ہے ۔
“Certainly, my own research with antibiotics during World War II received no guidance from insights provided by Darwinian evolution. Nor did Alexander Fleming’s discovery of bacterial inhibition by penicillin. I recently asked more than 70 eminent researchers if they would have done their work differently if they had thought Darwin’s theory was wrong. The responses were all the same: No.
I also examined the outstanding biodiscoveries of the past century: the discovery of the double helix; the characterization of the ribosome; the mapping of genomes; research on medications and drug reactions; improvements in food production and sanitation; the development of new surgeries; and others.
I even queried biologists working in areas where one would expect the Darwinian paradigm to have most benefited research, such as the emergence of resistance to antibiotics and pesticides. Here, as elsewhere, I found that Darwin’s theory had provided no discernible guidance, but was brought in, after the breakthroughs, as an interesting narrative gloss.”

– Dr. Philip S Skell, “Why Do We Invoke Darwin?” Evolutionary theory contributes little to experimental biology,” The Scientist (August 29, 2005),

یقیناً، میری اپنی تحقیق جو کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران اینٹی بایوٹکس کے بارے میں تھی، اس میں ڈارون کے ارتقائی نظریات سے کوئی رہنمائی نہیں ملی۔ نہ ہی الیگزینڈر فلیمنگ کی پنسیلین کے ذریعے بیکٹیریائی روک تھام کی دریافت میں۔ میں نے حال ہی میں 70 سے زائد ممتاز محققین سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے کام کو مختلف طریقے سے کرتے اگر انہیں لگتا کہ ڈارون کا نظریہ غلط ہے۔ تمام کے جوابات ایک جیسے تھے: نہیں۔
میں نے پچھلی صدی کی نمایاں بائیو دریافتوں کا بھی جائزہ لیا: ڈبل ہیلیکس کی دریافت؛ رائبو سومی کی خصوصیات؛ جینومز کا نقشہ؛ ادویات اور دواؤں کے ردعمل پر تحقیق؛ خوراک کی پیداوار اور صفائی میں بہتری؛ نئی سرجریوں کی ترقی؛ اور دیگر۔ میں نے ان بایولوجسٹوں سے بھی سوال کیا جو ان شعبوں میں کام کر رہے تھے جہاں ڈارون کا نظریہ تحقیق کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی توقع کی جاتی ہے، جیسے کہ اینٹی بایوٹکس اور کیڑے مار ادویات کے خلاف مزاحمت کا ابھار۔ یہاں، جیسے کہ دیگر جگہوں پر، میں نے پایا کہ ڈارون کا نظریہ کوئی قابل شناخت رہنمائی فراہم نہیں کرتا، بلکہ یہ کامیابیوں کے بعد ایک دلچسپ کہانی کے طور پر پیش کیا گیا۔"

ڈاکٹر فلپس ایس سکیل کوئی معمولی انسان نہیں تھا ۔ وہ ایک سائنسدان تھا اور 1977 سے 2010 تک وہ امریکہ کی" نیشنل سائنس اکیڈمی "کا ممبر رہا ۔ اس کا ماننا تھا کہ انسانی حیاتیات سے متعلق شعبہ جات ، بائیولوجی ، ایگریکلچر ، کیمیاسائنس یعنی دوا سازی ، حتی کے میڈیکل سائنس میں جدید سرجریوں کی تحقیقا ت تک کسی بھی شعبہ میں چارلس ڈارون کی تھیوری کا کسی سائنسدان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ اس کا ماننا تھا علم حیاتیات میں ہونے والی جدید ترقی کے ارتقاء کو دیکھتے ہوئے اس کہانی کو گھڑا گیا اور عوام پر مسلط کرنے کی آمرانہ کوشش کی گئی۔
پروفیسر مائیکل ایگنور سائنسی معلومات کے ایک میگزین میں رقمطراز ہے ۔
” Recognizing this, neither medical schools nor pharmaceutical firms maintain divisions of evolutionary science. The fabulous advances in experimental biology over the past century have had a core dependence on the development of new methodologies and instruments, not by intensive immersion in historical biology and Darwin’s theory, which attempted to historicize the meager documentation.
Evolution is not an observable characteristic of living organisms. What modern experimental biologists study are the mechanisms by which living organisms maintain their stability, without evolving. Organisms oscillate about a median state; and if they deviate significantly from that state, they die. It has been research on these mechanisms of stability, not research guided by Darwin’s theory, which has produced the major fruits of modern biology and medicine. And so I ask again: Why do we invoke Darwin?

Professor Michael Egnor. Neurosurgeon. Evolution News and Science Today, 14 August 2018.:

یہ تسلیم کرتے ہوئے، نہ تو میڈیکل اسکولز اور نہ ہی فارماسیوٹیکل کمپنیاں ارتقائی سائنس کے شعبے قائم کرتی ہیں۔ پچھلی ایک صدی میں تجرباتی حیاتیات میں شاندار ترقی کا انحصار نئی طریقہ کار اور آلات کی ترقی پر ہے، نہ کہ تاریخی حیاتیات اور ڈارون کے نظریے میں گہرائی سے مشغولیت پر، اس میں جو کمزور دستاویزات کو تاریخی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ارتقاء زندہ موجودات کی قابل مشاہدہ خصوصیت نہیں ہے۔ جدید تجرباتی حیاتیات کے ماہرین ان طریقوں کا مطالعہ کرتے ہیں جن کے ذریعے زندہ موجودات اپنے استحکام کو برقرار رکھتے ہیں، بغیر اس کے کہ وہ ارتقاء پذیر ہوں۔ موجودات ایک اوسط حالت کے گرد جھولتے ہیں؛ اور اگر وہ اس حالت سے نمایاں طور پر انحراف کرتے ہیں تو وہ مر جاتے ہیں۔جدید حیاتیات اور طب ، استحکام کے طریقوں پر تحقیق کی وجہ سے بہت سے بڑے فوائدحاصل کر چکی ہے جس میں ڈارون کے نظرئیے کی رہنمائی میں کوئی تحقیق نہیں ہوئی ۔ اور اس لیے میں دوبارہ پوچھتا ہوں: ہم ڈارون کا ذکر کیوں کرتے ہیں؟ پروفیسر مائیکل ایگنور۔ نیوروسرجن۔ ایولوشن نیوز اینڈ سائنس ٹوڈے، 14 اگست 2018۔

پروفیسر مائیکل ایگنور ایک " نیوروسرجن " دماغ کے ڈاکٹر ہیں ۔ وہ امریکہ کی Stony Brook Universityمیں 1991سے نیورولوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ہیں ۔ انہوں نے نظریہ ارتقاء کے رد پر ایک کتاب Evolution: A Theory in Crisis لکھی ہے جس میں انہوں نے ثابت کیا کہ ارتقائی سائنسدانوں نے نظریہ ارتقاء کو بغیر کسی ثبوت اور ٹھوس وجہ کے علم حیاتیات پر آمرانہ طریقے سے مسلط کر دیا ۔ وہ علم حیاتیات کے متعلقہ مسائل پر Discovery Institute میں بطور لیڈنگ ریسرچر لکھتے رہتے ہیں ۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ اگر سائنسدان علم حیاتیات اور جینیات کی ایجادات ڈارون کی تھیوری کی رہنمائی میں کرتے تو کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کر پاتے۔
ایل ہیریسن میتھیوز لکھتاہے۔
“The fact of evolution is the backbone of biology, and biology is thus in the peculiar position of being a science founded on an unproved theory, is it then a science or a faith? Belief in the theory is thus exactly parallel to the belief in special creation, both are concepts which believers know to be true but neither, up to the present, has been capable of proof.”
– L Harrison Matthews, Introduction to Charles Darwin, Origin of the Species (1971 edition)
حقائق کی ایک عام فہم تشریح یہ تجویز کرتی ہے کہ ایک اعلیٰ ذہن نے طبیعیات، کیمسٹری اور حیاتیات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے، اور یہ کہ قدرت میں کوئی اندھی قوتیں نہیں ہیں جن کا ذکر کیا جا سکے۔" سر فریڈرک ہوئل " کا ماننا ہے کہ ارتقاء کی حقیقت حیاتیات کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اور اس طرح حیاتیات ایک عجیب صورت حال میں ہے کہ یہ ایک ایسی سائنس ہے جو ایک غیر ثابت شدہ نظریے پر قائم ہے، تو کیا یہ سائنس ہے یا ایمان؟ اس نظریے پر یقین بالکل اسی طرح ہے جیسے خاص تخلیق پر یقین، دونوں ایسے تصورات ہیں جنہیں مومن سچ تومانتے ہیں لیکن موجودہ وقت تک، ثابت کرنے کی قابلیت نہیںرکھتے ہیں۔" – ایل ہیریسن میتھیوز، چارلس ڈارون کی کتاب "نوع کی ابتدا" کا مقدمہ (1971 کا ایڈیشن)
"
"لیونارڈ ہیریسن میتھیوز " برطانوی سائنسدان ہے ۔ اس نے زوالوجی اور بیالوجی میں اپنی گراں قدر خدمات دی ہیں ۔ اس نے 1951سے لیکر 1966 تک " زوالوجی سوسائٹی لندن " میں بطور سائنٹیفیک ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا ۔ اور یہ " برطانوی رائل سوسائٹی" کا ممبر بھی رہا ۔ اس نے ایک زبردست بات یہ کی ہے کہ نظریہ ارتقاء کوئی سائنسی ثابت شدہ نظریہ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک عقیدہ ہے ۔ جس پر ارتقائی سائنسدانوں نے اندھا ایمان رکھا ہوا ہے ۔ یہ سائنس دان نظریہ ارتقاء کو سچ تو مانتے ہیں لیکن اس کے حوالے سے ثبوت پیش نہیں کر سکتے۔

جرمن رائٹر سکاٹ ایم ہیوز اپنی کتاب " ارتقاء کے زوال " میں " ڈاکٹر البرٹ فلیش مین کا قول نقل کرتا ہے ۔
“I reject evolution because I deem it obsolete, because the knowledge, hard won since 1830, of anatomy, histology, cytology, and embryology, cannot be made to accord with its basic idea.
The foundationless, fantastic edifice of the evolution doctrine would long ago have met with its long deserved fate were it not that the love of fairy tales is so deep-rooted in the hearts of man.”
– Dr Albert Fleischmann. Recorded in Scott M. Huse, “The Collapse of Evolution”, Baker Book House: Grand Rapids (USA), 1983 p:120

"میں ارتقاء کو مسترد کرتا ہوں کیونکہ میں اسے غیر متعلقہ سمجھتا ہوں، کیونکہ 1830 سے حاصل کردہ علم، جو کہ تشریحی علم، ہسٹولوجی، سائٹولوجی، اور ایمبریولوجی پر مشتمل ہے، اس کو ارتقاء کے بنیادی خیال کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا۔ ارتقاء کے نظریے کی بنیاد سے عاری، خیالی عمارت کب کی اپنے مستحق انجام سے دوچار ہو چکی ہوتی اگر انسان کے دلوں میں کہانیوں کے لئے گہری محبت جڑ نہ پکڑ چکی ہوتی ۔ ڈاکٹر البرٹ فلیشمن۔ سکاٹ ایم ہیوز کی کتاب "ارتقاء کا زوال"، بیکر بک ہاؤس: گرینڈ ریپڈز (امریکہ)1983 صفحہ: 120

ڈاکٹر البرٹ فلیش مین ایک جرمن سائنٹسٹ اور زوالوجسٹ ہے ۔ اس نے ڈارون ازم کے رد میں جرمن زبان میں کتابیں تحریر کیں ۔جس میں قابل ذکر Die Descendenztheorie (1901) اور Die Darwinsche Theorie (1903) شامل ہیں ۔ اس نے ڈارون کی تھیوری کو سرے سے ہی افسانوی نظریہ قرار دے دیا ہے اور ان ارتقائی سائنسدانوں پر بھی الزام لگا دیا ہے کہ جن ارتقائی سائنسدانوں نے علم حیاتیات کے تمام شعبوں کی تاریخی تحقیقات سے بغاوت کر کے اس نظرئیے کو قبول کیا حقیقت میں ان کے دل میں بھی افسانوں اور کہانیوں کے لئے گہری محبت ہے ۔ وہ اندھے مقلد اور لکیر کے فقیر ہیں ۔

ڈاکٹر جارج والڈ کہتا ہے ۔
“There are only two possibilities as to how life arose; one is spontaneous generation arising to evolution, the other is a supernatural creative act of God, there is no third possibility. Spontaneous generation that life arose from non-living matter was scientifically disproved 120 years ago by Louis Pasteur and others. That leaves us with only one possible conclusion, that life arose as a creative act of God. I will not accept that philosophically because I do not want to believe in God, therefore I choose to believe in that which I know is scientifically impossible, spontaneous -generation arising to evolution.” – Dr. George Wald, evolutionist, Professor Emeritus of Biology at the University at Harvard, Nobel Prize winner in Biology, Scientific American, August,1954 Origin of Life article, p.48

"زندگی کے وجود میں آنے کے بارے میں صرف دو امکانات ہیں؛ ایک یہ ہے کہ زندگی خودبخود پیدا ہوئی اور پھر ارتقاء کی طرف بڑھی، دوسرا یہ کہ خدا کی طرف سے ایک مافوق الفطرت تخلیقی عمل ہوا، تیسرا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ بات کہ زندگی غیر جاندار مادے سے پیدا ہوئی، 120 سال پہلے لوئس پاسچر اور دیگر سائنسدانوں نے سائنسی طور پر غلط ثابت کر دی تھی۔ اس سے ہمیں صرف ایک ممکنہ نتیجہ ملتا ہے، کہ زندگی خدا کے تخلیقی عمل کے طور پر وجود میں آئی۔ میں اس بات کو فلسفیانہ طور پر قبول نہیں کروں گا کیونکہ میں خدا پر یقین نہیں رکھنا چاہتا، اس لیے میں اس چیز پر یقین کرنے کا انتخاب کرتا ہوں جو سائنسی طور پر ناممکن ہے، یعنی خودبخود پیدا ہونا اور پھر ارتقاء کی طرف جانا۔" – ڈاکٹر جارج والڈ، ارتقاء پسند، ہارورڈ یونیورسٹی میں حیاتیات کے پروفیسر ایمرٹس، حیاتیات میں نوبل انعام یافتہ، سائنٹیفک امریکن، اگست 1954، زندگی کے آغاز کا مضمون، صفحہ 48
ڈاکٹر جارج والڈ " ہاورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر تھا ۔ اس نے 1967 میں Physiology or Medicine میں نوبل انعام حاصل کیا۔
یہ " نیشنل اکیڈمی آف سائنس " کا الیکٹڈ ممبر بھی رہا ۔ اس نے صاف لفظوں میں یہ بات ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ کائنات میں زندگی اللہ کی صفت خالق کی محتاج نہیں ہے ۔ زندگی کو تخلیق کیا گیا ہے ۔ اس نے اپنی اس کوٹ میں یہ مانا ہے کہ ارتقائی سائنسدانوں نے اس تھیوری کے بہت سارے نقائص کے باوجود صرف اس لئے اس کا انتخاب کیا کہ وہ " خدا کا انکار " کرنا چاہتے ہیں ۔ جس طرح ڈاکٹر جارج خود اپنے ملحدانہ عقائد کو زندہ رکھنے کے لئے مجبوری کے طور پر اس تھیوری کا انتخاب کر رہا ہے ۔ یا ان ارتقائی سائنسدانوں پر طعن کر رہا ہے جو اس تھیوری کو بالکل ایسے ہی مذہب کا درجہ دے چکے ہیں جس طرح ہندو ، ویدوں ، اپنشد کو ، عیسائی ، بائیبل کو اور یہود ، تالمود کو ۔

برطانیہ کے مشہور Criminologist " ڈاکٹر مائیک سٹن " نے Criminology میں P.HD کر رکھی ہے ۔ وہ برطانوی وزارت داخلہ British Home Office میں بطور Senior Criminologist تقریبا 14 سال کام کرتا رہا ہے۔ اور 1999 میں اس نے برطانیہ کا ایک بڑا اعزاز British Journal of Criminology ایوارڈ اپنے نام کیا ۔۔۔۔ 2014 میں اس نے ایک کتاب برطانیہ میں شائع کی جس کا نام Darwin's Greatest Secrets تھا اس میں اس نے انکشاف کیا کہ ایک ایسا راز بھی ہے جو بہت جلد آشکار ہو جائے گا ۔۔۔۔ اور ٹھیک 8 سال بعد 2022 میں Dr Mike Sutton نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام Science Fraud ہے ۔ اس میں اس نے بتایا کہ Patrik Mathew جو ایک Biologist تھا وہ 1831 میں " نظریہ ارتقاء کی تھیوری پیش کر چکا تھا ۔ چارلس ڈارون اور اس کے چار دوست اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ تھیوری موجود ہے ۔ Patrik Mathew چونکہ زیادہ اثرو رسوخ والا شخص نہیں تھا اس لئے وہ نظریہ ارتقاء کی تھیوری کو چھپوا نہ سکا اور چارلس ڈارون نے اس تھیوری کو چوری کر کے 1858 میں چھاپ دیا ۔۔۔ہم اس بات پر بھی بحث کر سکتے ہیں کہ چارلس ڈارون کی تھیوری کو سینکڑوں سائنسدانوں نے رد کیا ہے ۔ لیکن ملحدین نے جس کو اپنا باپ بنایا ہوا ہے ۔ جس کی منطق کو مان کر وہ اپنے خیالی آباؤ اجداد بندر یا بن مانس کو بنا بیٹھے ہیں ۔۔۔ ان کی وہ منطق بھی چوری کی تھی ۔۔۔یعنی انکے الحاد کی عمارت اصل میں خود چوری شدہ نظریہ پر کھڑی تھی ۔۔۔ اور انکا باپ چارلس ڈارون خود ایک چور جھوٹا اور کذاب راوی تھا ۔۔۔۔ اور برطانیہ کا بہترین criminologist اس بات کو اپنی کتاب میں ثبوتوں کے ساتھ ثابت کر چکا ہے ۔
ازقلم : عبدالسلام فیصل
 
Top