ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
نعمت سماعت
اللہ مالک الملک کے ہم پر اتنے زیادہ احسانات اور انعام ہیں کہ اُن کا شمار کرنا چاہیں تو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا، انہیں انعامات میں ایک نعمت سننے کی نعمت ہے
ایمان والے اس نعمت کا استعمال کیسے کرتے ہیں ؟
الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّـهُ وَأُولَـٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿الزمر: ١٨﴾
جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں (18)
اللہ کے نافرمان اس نعمت کی ناشکری کیسے کرتے ہیں ؟
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٧﴾سورة لقمان
جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منھ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں، آپ اسے درد ناک عذاب کی خبر سنا دیجئے (7)
اور ایسے ہی لوگ قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں عرض کریں گے
وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ﴿١٢﴾ سورة السجدة
کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناه گار لوگ اپنے رب تعالیٰ کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں (12)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
یعنی اپنے کفر و شرک اور معصیت کی وجہ سے مارے ندامت کے۔
یعنی جس کو جھٹلایا کرتے تھے، اسے دیکھ لیا، جس کا انکار کرتے تھے، اسے سن لیا۔ یا تیری وعیدوں کی سچائی کو دیکھ لیا اور پیغمبروں کی تصدیق کو سن لیا،
لیکن اس وقت کا دیکھنا، سننا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا۔
لیکن اب یقین کیا تو کس کام کا ؟ اب تو اللہ کا عذاب ان پر ثابت ہو چکا جسے بھگتنا ہوگا۔
اور جب جھنم میں پھینکے جائیں گے تب کہیں گے :
وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿الملك: ١٠﴾
اور کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں (شریک) نہ ہوتے (10)
اس آیت کے تحت حافظ صاحب لکھتے ہیں :
یعنی غور اور توجہ سے (پیغمبروں کی باتوں کو) سنتے اور ان کی باتوں اور نصیحتوں کو آویزہ گوش بنا لیتے، اسی طرح اللہ کی دی ہوئی عقل سے بھی سوچنے سمجھنے کا کام لیتے تو آج ہم دوزخ والوں میں شامل نہ
ہوتے۔
اور یہ نعمت ایسی نعمت ہے کہ کہتے ہیں جب انسان سو جاتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے حواس بھی سو جاتے ہیں ، مثلاً وہ دیکھ نہیں سکتا اور نہ ہی سونگھ سکتا ہے ،لیکن اس کے سننے کی حس بیدار ہوتی ہے اگر ذرا اونچی آواز میں بولا جائے تو وہ بیدار ہوجاتا ہے
اسی لیے اللہ مالک الملک نے اصحاب کہف جو کہ تین سو نو سال سوئے رہے ان کے قصہ میں فرمایا :
فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ﴿١١﴾سورة الكهف
ہم نے ان کے کانوں پر گنتی کے کئی سال تک اسی غار میں پردے ڈال دیئے (11)
خلاصہ کلام یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر کی جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے اور بہترین شکر یہ ہے کہ اسے ان کاموں میں استعمال کیا جائے جس سے مالک خوش ہوتا ہے
یاد رکھیئے اس نعمت کے بارے میں سوال ہونے والا ہے
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴿٣٦﴾ سورة الإسراء
جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے (36)
اللہ مالک الملک کے ہم پر اتنے زیادہ احسانات اور انعام ہیں کہ اُن کا شمار کرنا چاہیں تو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا، انہیں انعامات میں ایک نعمت سننے کی نعمت ہے
ایمان والے اس نعمت کا استعمال کیسے کرتے ہیں ؟
الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّـهُ وَأُولَـٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿الزمر: ١٨﴾
جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں (18)
اللہ کے نافرمان اس نعمت کی ناشکری کیسے کرتے ہیں ؟
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٧﴾سورة لقمان
جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منھ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں، آپ اسے درد ناک عذاب کی خبر سنا دیجئے (7)
اور ایسے ہی لوگ قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں عرض کریں گے
وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ﴿١٢﴾ سورة السجدة
کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناه گار لوگ اپنے رب تعالیٰ کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں (12)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
یعنی اپنے کفر و شرک اور معصیت کی وجہ سے مارے ندامت کے۔
یعنی جس کو جھٹلایا کرتے تھے، اسے دیکھ لیا، جس کا انکار کرتے تھے، اسے سن لیا۔ یا تیری وعیدوں کی سچائی کو دیکھ لیا اور پیغمبروں کی تصدیق کو سن لیا،
لیکن اس وقت کا دیکھنا، سننا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا۔
لیکن اب یقین کیا تو کس کام کا ؟ اب تو اللہ کا عذاب ان پر ثابت ہو چکا جسے بھگتنا ہوگا۔
اور جب جھنم میں پھینکے جائیں گے تب کہیں گے :
وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿الملك: ١٠﴾
اور کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں (شریک) نہ ہوتے (10)
اس آیت کے تحت حافظ صاحب لکھتے ہیں :
یعنی غور اور توجہ سے (پیغمبروں کی باتوں کو) سنتے اور ان کی باتوں اور نصیحتوں کو آویزہ گوش بنا لیتے، اسی طرح اللہ کی دی ہوئی عقل سے بھی سوچنے سمجھنے کا کام لیتے تو آج ہم دوزخ والوں میں شامل نہ
ہوتے۔
اور یہ نعمت ایسی نعمت ہے کہ کہتے ہیں جب انسان سو جاتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے حواس بھی سو جاتے ہیں ، مثلاً وہ دیکھ نہیں سکتا اور نہ ہی سونگھ سکتا ہے ،لیکن اس کے سننے کی حس بیدار ہوتی ہے اگر ذرا اونچی آواز میں بولا جائے تو وہ بیدار ہوجاتا ہے
اسی لیے اللہ مالک الملک نے اصحاب کہف جو کہ تین سو نو سال سوئے رہے ان کے قصہ میں فرمایا :
فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ﴿١١﴾سورة الكهف
ہم نے ان کے کانوں پر گنتی کے کئی سال تک اسی غار میں پردے ڈال دیئے (11)
خلاصہ کلام یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر کی جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے اور بہترین شکر یہ ہے کہ اسے ان کاموں میں استعمال کیا جائے جس سے مالک خوش ہوتا ہے
یاد رکھیئے اس نعمت کے بارے میں سوال ہونے والا ہے
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴿٣٦﴾ سورة الإسراء
جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے (36)