• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نفاذِ شریعت واجب ہے

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مترجم: شفقت الرحمن​
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرجسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 07-رجب- 1434کا خطبہ جمعہ " نفاذِ شریعت واجب ہے " کے عنوان پر ارشاد فرمایا،جس میں انہوں نے پانچ ممنوع امور پر مشتمل ایک حدیثِ نبوی بیان کی ، جس میں اہم ترین بات : "حکم بغیر ما انزل اللہ " اور بتلایا کہ داخلی انتشار اور فقرو فاقہ سب اسی کی وجہ سے ہے، نیز انہوں نے شریعت کے نفاذ پر زور دیا کیونکہ اسی میں کامیابی اور کامرانی ہے۔

پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، جو عظیم الشان ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، وہ نہایت رحم کرنے والا اور مہربان ہے،میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ہیں، جو کہ آلِ عدنان کے سربراہ ہیں، اللہ تعالی ان پر ، انکی آل ، انکے متقی پرہیز گار صحابہ کرام پر قیامت تک درود ، سلام بھیجے۔
حمد و ثنااور درود و سلام کے بعد!

مسلمانو!میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو[70](اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ [الأحزاب: 70، 71]

مسلمانو!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان حدیث ، جس میں ملک و قوم کے اسبابِ زوال سے خبردار کیا گیا ہے ، جسے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: (مہاجرین کی جماعت! پانچ جیزوں کا ارتکاب مت کرنا -اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم ان کا ارتکاب کرو-(1) کسی بھی قوم میں بے حیائی سرِ عام ہوجائے تو انہیں ایسے وبائی امراض ا ور تکالیف میں مبتلا کر دیا جاتا ہے جو پہلے کبھی نہیں تھیں، (2) ماپ تول میں کمی کرنے پر قحط سالی ، بے روزگاری، اور ظالم حکمرانوں کے پنجے میں جکڑ دیا جاتا ہے، (3) زکاۃ نہ دینے کی وجہ سے بارش روک دی جاتی ہے،اگر جانور نہ ہوں تو کبھی بھی بارش نہ ہو،(4) اللہ اور اسکے رسول کی عہد شکنی کرنے پر بیرونی دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیا جاتا ہے، جو انکے خزانوں کو لوٹ لیں، (5) اور جن کے حکمران قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم نہ کریں ، اللہ تعالی انہیں خانہ جنگی میں مبتلا کر دیتا ہے ) ابن ماجہ وغیرہ نے اسے روایت کیاہے ، حاکم اور ذہبی کے ساتھ ساتھ بہت سے اہل علم نے اسے صحیح قرار دیا۔
یہ حدیث ہمیں فساد کی جڑبتلا رہی ہے اور وہ ہے: منہجِ الہی سے دوری، نبوی طریقہ کار سے انحراف، یہ کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ برائیاں اور گناہ اور شر کی اساس ہیں، اور ہر مصیبت اور تکلیف انہی کے باعث آتی ہے، وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ اور تمہیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمہارے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب سے آتی ہے اور وہ الله تمہارے بہت سے گناہوں سے درگزر بھی کرجاتا ہے [الشورى: 30]
مسلمانوں کے موجودہ حالات ہمیں اس حدیثِ مبارکہ کے سامنے تین جگہوں پر سوچنے کیلئے مجبور کر دیتے ہیں:
پہلی بات: مہلک وبائی اور عجیب و غریب امراض کے پھیلنے کا سبب : کثرتِ خباثت، فحش گوئی، زنا، لواط، اور ہم جنس پرستی ، اور مختلف انداز سے اسکی طرف دعوت دینے والے وسائل کا پھیلنا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (جب کسی قوم میں برائی کرنے والوں کی تعداد نہ کرنے والوں سے کم ہو ، اور پھر بھی وہ برائی کو نہ روکیں تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی انہیں سخت عذاب سے دوچار کردے) اسے اہل علم نے حسن کہاہے۔
ایک اور حدیث میں فرمایا: (میری امت اسوقت تک خیر میں ہوگی جب تک زنا عام نہ ہو جائے ، جیسے ہی زنا عام ہوگیا، تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی سب پر عذاب نازل کردے) ابن حجر نے کہا کہ اسکی سند حسن ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی حدیث کے الفاظ یوں مروی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کسی قوم میں فحاشی پھیلے تو اموات بڑھ جاتی ہیں) کئی محققین نے اسے حسن کہاہے۔
دوسری بات: حرام کھانا اور باطل طریقوں مال ہڑپ کرنے میں نرمی برتنا، حرام کھانے کا گناہ صرف ماپ تول میں کمی پر ہی محصور نہیں ہے، بلکہ مالی معاملات پر بھی مرتب ہوتا ہے، اس لئے واجب ہے کہ یہ عدل و انصاف پر مبنی ہوں، کسی بھی طرح سے ان میں کمی زیادتی اور دھوکہ فراڈ نہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ [البقرة: 188]
قومی خزانے کو لوٹنا مالی غبن کی سب سے سنگین صورت ہے جسکی بنا پر تمام مسائل پیدا ہوئے ہیں، بیت المال اور قومی خزانے کو اپنے منصب اور کرسی کی بنا پر نا جائز طریقے سے کھانا انتہائی گھناؤنا جرم ہے، رشوت خوری کی تمام شکلوں کے بارے میں بات کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں!!
مسلمانوں میں ان تمام برائیوں کا پھیلنا اسبابِ زوال میں سے ہے، انہی کی وجہ سے بلائیں اور تکالیف آتی ہیں، جو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔
لوگوں نے دولت حاصل کرنے کیلئے جب کبھی اسلامی احکام اور نظامِ قرآن و سنت سے رو گردانی کی اللہ تعالی نے انکی زندگی میں تنگی ڈال دی، اور انہیں ہمہ قسم کا نقصان بھی اٹھانا پڑا، کبھی پانی کی کمی تو کبھی بارشیں نہ ہونا، تو کبھی اندھیریاں آنا، برکت ختم ہو جانا، آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، اور غربت ، جبکہ مسلم ممالک میں ظلم و زیادتی بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے !! مسلمان بالکل اس مقولے کا مصداق ہیں: "جیسا کروگے ویسا بھروگے"
اسکے بر عکس لوگ اگر اپنے مالی معاملات شریعتِ محمدی کے مطابق کر لیں تو اللہ تعالی ہر بحران سے نکلنے کا راستہ بھی بنائے گا اور وہاں سے انہیں عنائت کریگا جہاں سے انہیں امید بھی نہ ہو اسی بارے میں فرمایا: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا[2] اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہو [الطلاق: 2، 3]
اسی مناسبت سے ( ) زرعی پیشہ ور لوگ پھلوں کے پکنے کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی خرید وفروخت شروع کرتے ہوئے فرمانِ نبوی کی مخالفت میں پڑ جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کے پکنے کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے انکی خرید وفروخت منع فرمائی ہے، کھجوروں کی علامت یہ ہے کہ انکا رنگ پیلا یا سرخ ہو جائے یا کھانے کے قابل ہوجائیں۔
تیسری بات: اسلامی مملکت پر واجب ہے کہ اپنے تمام امور میں قرآن و سنت کا نفاذ کرے، زندگی کے تمام پہلوؤں پر کتاب و سنت کا نفاذ ہو، لوگ خود بھی اپنے چھوٹے بڑے معا ملات کیلئے دستور اسلامی احکام کو ہی بنائیں، تب ہی امن وامان قائم ہوگا، چین و سکون کی فضا قائم ہوگی، آسودہ زندگی حاصل کر پائیں گے، اور جس قدر انحراف پایا جائے گا اسی قدر عذاب نازل ہونگے، اور بحران پیدا ہونگے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ [طه: 124]

تمام اسلامی ممالک یا چند نفاذِ شریعت سے کنارہ کشی کریں توانہیں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، مختلف فتنے ان میں سرائت کرینگے، ماضی یا مستقبل میں اسلامی ممالک کی دگر گوں حالت تو دیکھو، جہاں نسلیں برباد اور قتل و غارت عام ، امن و امان تباہ ہو چکا ہے یہ سب کچھ صرف اور صرف نفاذِ شریعت سے رو گردانی اور وضعی قوانین کے نفاذ اور قرآن و سنت کو چھوڑ کر کسی اور کو قانون کا درجہ دینے کی وجہ سے ہے۔
اسلامی ممالک میں معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ حکمران اور عوام کے مابین بغض اور دشمنی کی فضا پیدا ہو چکی ہے اور لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو ہی بھول بیٹھے: ( تمہارے لئے بہترین حکمران وہ ہیں جو تم سے اور تم ان سے محبت کرتے ہو، تم ان کیلئے دعا کرو اور وہ تمہارے لئے دعائیں کریں، جبکہ بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم اور وہ تم سے بغض رکھیں، وہ تم پر لعن طعن کریں اور تم ان پر) چنانچہ اس مسئلے کا حل یہ ہی ہے کہ شریعت ِمحمدیہ کو نافذ کیا جائے۔
مظاہروں کی فضا میں جکڑے ہوئے ممالک میں رہنے والے عقلمندو!! ملکی نظام میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والو! اپنے نظام کو کتاب و سنت کے مطابق بناؤ، اگر یہ نہ کیا تو سمجھ لو کہ تم نے کچھ نہیں بدلا اور نہ ہی بدل سکو گے، اصلاح کا نعرہ کبھی شرمندہ تعبیر نہ کر سکو گے۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ نفاذِ شریعت کے بغیر نہ ختم ہونے والے بحران پیدا ہونگے، کیونکہ اللہ تعالی تمہیں خانہ جنگی میں مبتلا کر دیگا، جیسے کہ اس حدیثِ مبارکہ میں واضح ہے: (اور جن کے حکمران قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم نہ کریں ، اللہ تعالی انہیں خانہ جنگی میں مبتلا کر دیتا ہے) ایک اور حدیث میں یوں فرمایا: (جو کوئی بھی قرآن و سنت سے ہٹ کر فیصلہ کریگا ان میں غربت پھیل جائے گی)
مؤمنو!! یہ دونوں سزائیں ہم اس وقت حقیقت میں بھگت رہے ہیں، فقر و فاقہ، بے روز گاری، مالی پریشانیاں، اور مسلمانوں میں داخلی انتشار ، یہ سب کچھ قرآنی منہج سے دوری کی بنا پر ہے۔
مسلمانو! قرآن کو بالادستی کیوں نہیں دیتے؟ سنتِ نبوی کو کیوں نہیں نافذ کرتے؟
کیا اللہ نے تم سے عہد و پیمان نہیں لیا کہ قرآن و سنت کو بالادستی دو گے؟! پھر کیوں دائیں بائیں مارے مارے پھرتے ہو؟! سن لو! اگر نفاذِ شریعت نہ کیا تو تم خود ہی اپنے ممالک کو ایسے سنگین بحرانوں میں دھکیل دو گے جس کے نقصانات اللہ ہی جانتاہے۔
کتاب وسنت کو دستور بناؤ سلامتی سے رہو گے اور اسی میں تمہارا فائدہ ہے۔

دینِ اسلام کے سپوتو!
اسلام پر ہی تمہارا اتحاد ممکن ہے، اسی میں تمہاری شان و شوکت ہے، اسی سے زندگی سنورے گی اور آسودہ ہوگی، اگر اس سے دور رہتے ہو تو سن لو! کبھی تم متحد نہیں ہوسکتے، تمہاری سیاست صرف اختلاف پر مبنی ہوگی، ہر ایک ذاتی مفاد کو ترجیح دے گا، تمہارے اندر لڑائی جھگڑے سرائیت کرینگے، بغض اور کینہ کے بعد قتل و غارت تک نوبت پہنچ جائے گی، اور کسی نے کیا ہی خوب کہا:
يتقاتلون على بقايا تمرة فخناجر مرفوعة وحراب
بچی ہوئی صرف ایک کھجور پر لڑنے کیلئے خنجر اور نیزے اٹھا لئے۔

مسلمانو! اتنا ہی کافی ہے کہ تم قرآن بھی پڑھو اور لڑائی جھگڑے بھی کرو، روزِ روشن کی طرح عیاں سنتِ رسول کے ہوتے ہوئے قطع تعلقی بھی اور اختلافات بھی!! وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ یقین کرنے والوں کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہوسکتا [المائدة: 50]، فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہوجائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے[النساء: 59]

اسلام اور شریعتِ محمدی کواپنا دستور ماننے والےملک میں رہنے والو! اس نعمت کو مضبوطی سے تھام لو، اس نعمت پر اللہ کا شکر کرو، اس عظیم منہج سے دائیں بائیں نکلنے کی کوشش مت کرنا، اللہ تعالی اس وقت کسی قوم کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود بدلنے کی کوشش نہ کریں۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو برکت والا بنائے، اور ہمیں اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔


دوسرا خطبہ
اپنے رب کی تعریف اور شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ہیں ، یا اللہ! آپ پر اور آپکی آل و اصحاب پر درود و سلام بھیج دے ۔

مسلمانو!
سب عالمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ : مسلم ممالک معدنیات اور زیر زمین خزانوں کے اعتبار سے امیر ترین ممالک ہیں، انہیں جغرافیائی اعتبار سے بھی اہمیت حاصل ہے، لیکن اسکے باوجود بہت سے مسلم ممالک کا شمار غریب ملکوں میں ہوتا ہے، فقر و فاقہ اور بے روزگاری تو ان ممالک کی علامت ہی سمجھ لیں، اور رپورٹوں کے مطابق بہت سے مسلمان خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
آخر یہ سب کیوں؟؟!!
یہ سب کچھ مختلف اسباب کی وجہ سے ہے جو مجموعی طور پر مکمل اور کامل قرآنی منہج کو چھوڑنے کی وجہ سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو کوئی بھی قرآن وسنت کے مطابق فیصلے نہ کرےان میں فقر و فاقہ پھیل جاتا ہے)
قرآنی منہج کے مخالف یورپی اقتصادی قوانین کو اسلامی اقتصاد میں شامل کرنے والوں کے بارے میں سن لو! یہ لوگ مسلمانوں کو فقر و فاقہ کی جہنم میں دھکیلنا چاہتے ہیں ، اسکے اتنے خطرات ہیں جنہیں اللہ ہی جانتا ہے۔

چند دہائیوں سے امتِ مسلمہ کو کچھ ناعاقبت اندیش مفکرین کا سامنا ہے جو غیر حقیقی تہذیبوں سے مرعوب ہو کر اسلامی احکامات کو اپنی زبان کا نشانہ بناتے ہیں، اور کچھ اسلام کو صرف عبادات تک محصور سمجھتے ہیں، جبکہ اسلام پوری زندگی کیلئے طرزِ حیات ہے، انہی لوگوں کی وجہ سے امت کمزوری اور ذلت و رسوائی سے دوچار ہوئی، انہی کی وجہ سے الٹے قدموں واپس آنا پڑااور انہی کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہوئی۔

ان لوگوں کے افکار کا ڈٹ کر سامنا کرنا انتہائی ضروری ہے، اسکے لئے تمام مسلمان انکے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو روکنے اور نفاذِ شریعت کیلئے ایک دوسرے کا تعاون کریں ، اسی میں امت کی نجات اور بھلائی ہے۔

اللہ تعالی نے ہمیں درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد, كما صليت على إبراهيم , وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد, اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد , كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد.

یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش ، یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش ، یا اللہ! نفاذِ شریعت کے ذریعے ہمارے حالات درست فرما، یا اللہ! سنتِ نبوی کو اپنانے کی توفیق دیتے ہوئے ہمارے حالات درست فرما، یا اللہ! تمام مسلم ممالک میں نفاذِ شریعت سے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب فرما، یا اللہ! تمام مسلم ممالک میں نفاذِ شریعت سے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب فرما۔

یا اللہ مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ! ہم تجھے تیری طاقت کا واسطہ دیتے ہیں تو ہمیں برے حکمرانوں سے بچا، یا اللہ! برے حکمرانوں سے بچا، یا اللہ! برے حکمرانوں سے بچا، یا اللہ! مسلمانوں پر کسی فاجر کو کوئی منصب نہ دے، یا اللہ! کسی فاجر کو مسلمانوں پر مسلط نہ کر، یا اللہ ، یا حیی یا قیوم ، یا ذا الجلا ل والاکرام! کسی بھی فاجر کو مسلمانوں پر مسلط نہ کر۔

یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ اسکی راہنمائی فرما، یا اللہ ! اسکے ذریعے ناعاقبت اندیش لوگوں کا خاتمہ فرما، یا اللہ! اسے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کیلئے سخت بنا۔

یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے علاقوں میں امن و امان پیدا فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے علاقوں میں امن و امان پیدا فرما، یا اللہ اکرم المکرمین! ان علاقوں کو امن وسلامتی والا بنا دے۔
یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ ! ہم سے اور تمام مؤمنین سے راضی ہو جا، یا اللہ ذوالجلال و الاکرام! ہم سے اور تمام مؤمنین سے راضی ہو جا،
یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے گناہ معاف فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مؤمنوں کے گناہ معاف فرما، جو زندہ ہیں انکے بھی اور جو فوت ہوچکے ہیں انکے بھی۔
یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بھی بچا۔
اللہ کا ذکر صبح و شام کثرت سے کیا کرو۔
http://www.facebook.com/photo.php?fbid=528458360523727&set=a.520124531357110.1073741827.476230782413152&type=1&relevant_count=1
 
Top