علی محمد
مبتدی
- شمولیت
- مارچ 03، 2023
- پیغامات
- 52
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 21
تحریر از : ڈاکٹر آصف حسین
(٣) : اس حدیث کا مدعا و مقصد بلکل واضح ہے رکوع کے بعد والے اس قیام میں غایت درجہ اطمنان ہونا چاھے. مگر رہا علماء حجاز وغیرہ کا اس حدیث سے اس قیام میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنے کی سنت پر استدلال کرنا ,حدیث “مسئ الصلواۃ ” کی مجموعی روایات سے بعید ازکار ہی نہیں بلکہ باطل ہے. کیونکہ جب اس حدیث کے کسی لفظ یا سند میں قیام اول میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنے کا ذکر ہی نہیں تو بھلا ( ساری ہڈیاں اپنی جگہ پر آجائیں ) یا ( ساری ہڈیاں اپنے اپنے جوڑوں پر لوٹ آئیں ) کے الفاظ سے رکوع کے بعد والے قیام میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنے پر اس حدیث سے استدلال کس طرح روا ہوگا ؟ یہ تو اس وقت صحیح ہوتا جب حدیث کے مجموعی الفاظ اس استدلال پر مساعد و مددگار ہوتے مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ حدیث کی دلالت واضح طور پر اس استدلال کے برعکس جا رہی ہے.
پھر یہان ہاتھوں کا سینے پر باندھنے کا اس حدیث سے یقیناً کوئی تعلق نہیں.کیونکہ یہاں اس حدیث میں ہڈیوں سے مراد پیٹھ کے ریڑھ کی ہڈیاں ہے. جیسا کہ بیان ہوا اور اسکی تائید نبی صلی علیہ وآلہ کی ماسابق فعل ” آپ رکوع سے اس طرح کھڑے ہوتے ہے ریڑھ کی ساری ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر آگئیں ” سے بھی ہوتی ہے. پس قاری کو بانصاف غور و فکر سے کام لینا چاھئے اور مجھے اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کہ رکوع کے بعد والے اس قیام میں سینے پر ہاتھ باندھنا ایک گمراہ کن بدعت ہے کیونکہ نماز کے بارے میں احادیث کی کثرت کے باوجود اس بات کا کسی بھی حدیث میں بھی ذکر نہیں اور اگر اسکی کوئی حقیقت ہوتی تو کسی ایک ہی سئی روایت میں اس کا ذکر ضرور ہوتا اور اسکی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ میرے علم میں علماء سلف میں کوئی بھی اس پر عمل پیرا نہیں اور نہ ہی ائمہ الحدیث نے اسکو ذکر کیا ہے.
رہا شیخ تو یجری کا اپنے رسالہ صفحہ ١٨ -١٩ میں امام احمد سے نقل کرنا کہ رکوع کے بعد نمازی کو اختیار ہے کہ ہاتھ کھلا چھوڈ دے یا ہاتھ سینے پر باندھ دے. دراصل یہ اس روایت کا خلاصہ ہے جسکو صالح بن احمد نے ” مسائل احمد بن حنبل ” صفحہ ٩٠ پر اپنے والد سے ذکر کیا ہے. لیکن اس سے ھماری بات کی تردید نہیں بلکہ یہ کوئی مرفوع حدیث نہیں بلکہ امام احمد کا قول ہے جسے انہوں نے اپنے اجتہاد و رائے سے کہا ہے اور انسان سے اجتھاد میں غلطی کا امکان موجود ہے. پس جب کسی فعل کے بدعت ہونے پر — جیسا کہ یہ فعل ہے — صحیح دلائل قائم ہو جائے تو کسی امام کا اسکا قائل ہونا اسکے بدعت ہونے کے منافی نہیں جیسا کہ شیخ ابن تیمیہ نے اپنی بعض کتابوں میں اس بات کی وضاحت کی ہے. اور مجھے تو خود امام احمد کی اس بات سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھوں کا اس قیام میں سینے پر رکھنا ان کے یہاں سنت سے ثابت نہیں کیونکہ امام صاحب نے نمازی کو اسکے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا ہے تو کیا شیخ تو یجری صاحب یہ گمان کریں گے کہ امام احمد رکوع سے پہلے والے قیام میں بھی نمازی کو اختیار دے سکھتے ہے. پس ثابت ہوا کہ نماز میں رکوع کے بعد والے قیام میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنا سنت نہیں اور ھم یہی ثابت کرنا چاھتے ہے……….
حوالہ : صفۃ الصلاۃ النبی – علامہ ناصر الدین البانی ( مترجم ) / صفحہ ٢٠٢ – ٢٠٣ / طبع الھند
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ مسلہ آیا کہاں سے تو اسکا جواب ھمیں سلفیوں کے ایک عالم کی طرف سے یوں ملتا ہے۰ ھندوستان کے ایک مہشور عالم بنام محفوظ الرحمان فیضی نے اس مسلے پر ایک رسالہ لکھا ہے جس میں نے انہوں نے فاضل مدنی کے دلائل کا رد کیا ہے جو اس ہاتھ باندھنے کا قائل تھا ، وہ یوں لکھتا ہے :
۶- پانچویں دلیل یہ بیاں فرمائی گئی ہے :
” علماء سابقین کی ایک جماعت نے رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ رکھنے کی سنیت کی تصریح کی ہے ”
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ” علماء سابقین کی جماعت ” تو کیا ان میں سے کسی ایک عالم نے بھی اس کو سنت نہیں کہا ہے، اور سنیت کی تصریح تو کیا کسی نے اس کا اشارہ بھی نہیں کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰اتنا بڑا دعوہ تو کردیا گیا لیکن ” علماء سابقین ” میں سے کوئی ایک نام بھی پیش نہیں کیا جا سکا ، اور البنایہ – للعینی ( جلد ۲// صفحہ ۲۱۱ ) سے جو دو چار نام پیش کیا گیا ہے وہ بعد کے فقہاء حنفیہ ہیں ، جنھوں نے امام ابو حنیفہ ، ان کے تمام اصحاب اور جملہ فقہاء جنفیہ اور ان کے مذھب سے شذوز اختیار کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ” رکوع کے بعد قومہ میں بھی ہاتھ بھاندھ لیا جائے” لیکن کس دلیل کی بناء پر ؟ نہیں !! محض شیعہ کی مخالفت میں ، چناچہ علامہ عینی اسی البنایہ شرح الہدایہ میں ان فقہاء کی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ موقف اس لے اختیار کیا ہے کہ :
روافض ۰۰۰۰۰ سے امتیاز متحقق رہے کیونکہ روافض کا مذھب ابتداء صلوۃ سے ( قیام ، قومہ ہر حال میں ) ارسال یدین ہے سو ھم اول صلوۃ سے انکی مخالفت کریں گے ( قیام کے ساتھ قومہ میں بھی وضع یدین کریں گے )
یہ بھی کوئی دلیل ہے ؟ کہ اس پر مبنی قول اور اس کے قائل کو بطور حجت قابل ذکر سمجھا جائے ؟
حوالہ : رکوع کے بعد قومہ میں وضع یدین یا ارسال – مولانا محفوظ الرحمان فیضی // صفحہ ۳۶-۳۷ // طبع مرکزی مکتبہ اہلحدیث مئو ناتھ بھنجن
آج کل بعض حضرات کو جب نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو کچھ حضرات رکوع کے بعد قیام میں بھی ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں. علامہ البانی کے نزدیک یہ فعل گمراہ کن بدعت ہے . وہ اسکے بارے میں یوں لکھتے ہیں :
حاشیہ :اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ : ” جب تم رکوع سے اٹھو تو اپنی پیٹھ بلکل سیدھی رکھو اور اپنے سر کو اس طرح اٹھائے رکھو کہ ہڈیاں اپنے جوڑوں پر لوٹ آئیں (٣)
(٣) : اس حدیث کا مدعا و مقصد بلکل واضح ہے رکوع کے بعد والے اس قیام میں غایت درجہ اطمنان ہونا چاھے. مگر رہا علماء حجاز وغیرہ کا اس حدیث سے اس قیام میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنے کی سنت پر استدلال کرنا ,حدیث “مسئ الصلواۃ ” کی مجموعی روایات سے بعید ازکار ہی نہیں بلکہ باطل ہے. کیونکہ جب اس حدیث کے کسی لفظ یا سند میں قیام اول میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنے کا ذکر ہی نہیں تو بھلا ( ساری ہڈیاں اپنی جگہ پر آجائیں ) یا ( ساری ہڈیاں اپنے اپنے جوڑوں پر لوٹ آئیں ) کے الفاظ سے رکوع کے بعد والے قیام میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنے پر اس حدیث سے استدلال کس طرح روا ہوگا ؟ یہ تو اس وقت صحیح ہوتا جب حدیث کے مجموعی الفاظ اس استدلال پر مساعد و مددگار ہوتے مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ حدیث کی دلالت واضح طور پر اس استدلال کے برعکس جا رہی ہے.
پھر یہان ہاتھوں کا سینے پر باندھنے کا اس حدیث سے یقیناً کوئی تعلق نہیں.کیونکہ یہاں اس حدیث میں ہڈیوں سے مراد پیٹھ کے ریڑھ کی ہڈیاں ہے. جیسا کہ بیان ہوا اور اسکی تائید نبی صلی علیہ وآلہ کی ماسابق فعل ” آپ رکوع سے اس طرح کھڑے ہوتے ہے ریڑھ کی ساری ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر آگئیں ” سے بھی ہوتی ہے. پس قاری کو بانصاف غور و فکر سے کام لینا چاھئے اور مجھے اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کہ رکوع کے بعد والے اس قیام میں سینے پر ہاتھ باندھنا ایک گمراہ کن بدعت ہے کیونکہ نماز کے بارے میں احادیث کی کثرت کے باوجود اس بات کا کسی بھی حدیث میں بھی ذکر نہیں اور اگر اسکی کوئی حقیقت ہوتی تو کسی ایک ہی سئی روایت میں اس کا ذکر ضرور ہوتا اور اسکی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ میرے علم میں علماء سلف میں کوئی بھی اس پر عمل پیرا نہیں اور نہ ہی ائمہ الحدیث نے اسکو ذکر کیا ہے.
رہا شیخ تو یجری کا اپنے رسالہ صفحہ ١٨ -١٩ میں امام احمد سے نقل کرنا کہ رکوع کے بعد نمازی کو اختیار ہے کہ ہاتھ کھلا چھوڈ دے یا ہاتھ سینے پر باندھ دے. دراصل یہ اس روایت کا خلاصہ ہے جسکو صالح بن احمد نے ” مسائل احمد بن حنبل ” صفحہ ٩٠ پر اپنے والد سے ذکر کیا ہے. لیکن اس سے ھماری بات کی تردید نہیں بلکہ یہ کوئی مرفوع حدیث نہیں بلکہ امام احمد کا قول ہے جسے انہوں نے اپنے اجتہاد و رائے سے کہا ہے اور انسان سے اجتھاد میں غلطی کا امکان موجود ہے. پس جب کسی فعل کے بدعت ہونے پر — جیسا کہ یہ فعل ہے — صحیح دلائل قائم ہو جائے تو کسی امام کا اسکا قائل ہونا اسکے بدعت ہونے کے منافی نہیں جیسا کہ شیخ ابن تیمیہ نے اپنی بعض کتابوں میں اس بات کی وضاحت کی ہے. اور مجھے تو خود امام احمد کی اس بات سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھوں کا اس قیام میں سینے پر رکھنا ان کے یہاں سنت سے ثابت نہیں کیونکہ امام صاحب نے نمازی کو اسکے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا ہے تو کیا شیخ تو یجری صاحب یہ گمان کریں گے کہ امام احمد رکوع سے پہلے والے قیام میں بھی نمازی کو اختیار دے سکھتے ہے. پس ثابت ہوا کہ نماز میں رکوع کے بعد والے قیام میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنا سنت نہیں اور ھم یہی ثابت کرنا چاھتے ہے……….
حوالہ : صفۃ الصلاۃ النبی – علامہ ناصر الدین البانی ( مترجم ) / صفحہ ٢٠٢ – ٢٠٣ / طبع الھند
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ مسلہ آیا کہاں سے تو اسکا جواب ھمیں سلفیوں کے ایک عالم کی طرف سے یوں ملتا ہے۰ ھندوستان کے ایک مہشور عالم بنام محفوظ الرحمان فیضی نے اس مسلے پر ایک رسالہ لکھا ہے جس میں نے انہوں نے فاضل مدنی کے دلائل کا رد کیا ہے جو اس ہاتھ باندھنے کا قائل تھا ، وہ یوں لکھتا ہے :
۶- پانچویں دلیل یہ بیاں فرمائی گئی ہے :
” علماء سابقین کی ایک جماعت نے رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ رکھنے کی سنیت کی تصریح کی ہے ”
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ” علماء سابقین کی جماعت ” تو کیا ان میں سے کسی ایک عالم نے بھی اس کو سنت نہیں کہا ہے، اور سنیت کی تصریح تو کیا کسی نے اس کا اشارہ بھی نہیں کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰اتنا بڑا دعوہ تو کردیا گیا لیکن ” علماء سابقین ” میں سے کوئی ایک نام بھی پیش نہیں کیا جا سکا ، اور البنایہ – للعینی ( جلد ۲// صفحہ ۲۱۱ ) سے جو دو چار نام پیش کیا گیا ہے وہ بعد کے فقہاء حنفیہ ہیں ، جنھوں نے امام ابو حنیفہ ، ان کے تمام اصحاب اور جملہ فقہاء جنفیہ اور ان کے مذھب سے شذوز اختیار کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ” رکوع کے بعد قومہ میں بھی ہاتھ بھاندھ لیا جائے” لیکن کس دلیل کی بناء پر ؟ نہیں !! محض شیعہ کی مخالفت میں ، چناچہ علامہ عینی اسی البنایہ شرح الہدایہ میں ان فقہاء کی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ موقف اس لے اختیار کیا ہے کہ :
روافض ۰۰۰۰۰ سے امتیاز متحقق رہے کیونکہ روافض کا مذھب ابتداء صلوۃ سے ( قیام ، قومہ ہر حال میں ) ارسال یدین ہے سو ھم اول صلوۃ سے انکی مخالفت کریں گے ( قیام کے ساتھ قومہ میں بھی وضع یدین کریں گے )
یہ بھی کوئی دلیل ہے ؟ کہ اس پر مبنی قول اور اس کے قائل کو بطور حجت قابل ذکر سمجھا جائے ؟
حوالہ : رکوع کے بعد قومہ میں وضع یدین یا ارسال – مولانا محفوظ الرحمان فیضی // صفحہ ۳۶-۳۷ // طبع مرکزی مکتبہ اہلحدیث مئو ناتھ بھنجن
Last edited: