السلام علیکم
ایک بہن جو کہ نماز پنجگانہ ادا کرتی ہے کچھ عرصہ سے جادو کی علامات کا شکار ہے اس میں کیفیت یہ کہ مغرب کے وقت عجیب سی بےچینی ہوتی اور وہ ایک عرصہ سے مغرب و عشاء اکٹھا ادا کرتی ہر دفعہ ارادہ بھی کرتی لیکن مغرب ادا کرتے ہی ساتھ ہی عشاء بھی پڑھ لیتی وہ جانتی بھی کہ اس کو معمول بنا لینا ٹھیک نہیں لیکن پھر بے بس ہو کہ ایسا کر لیتی ان کو کیا کرنا چاہیے
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا
اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ :
﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾... سورةالنساء
"بے شک نماز مومنوں پرمقررہ اوقات میں فرض کی گئی ہے"
اور حدیث میں اول وقت نماز کی ادائیگی کو افضل ترین عمل قراردیا ہے :
عَنْ أُمِّ فَرْوَةَ - وَكَانَتْ مِمَّنْ بَايَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَتْ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «الصَّلَاةُ لِأَوَّلِ وَقْتِهَا»
سنن الترمذی 170 ،وصححہ الالبانی، مسند احمد27103 ،الآحاد والمثانی 3373،المعجم الاوسط 860،
ام فروہ رضی اللہ عنہا (جنہوں نے نبی اکرمﷺ سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھاگیا: کون ساعمل سب سے افضل ہے؟ توآپ نے فرمایا:' اول وقت میں نماز پڑھنا۔
اور صحیح بخاری و دیگر کتب حدیث میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا :
سَ
أَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ العَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ قَالَ: «الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا» قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: «بِرُّ الوَالِدَيْنِ» قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: «الجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» قَالَ: حَدَّثَنِي بِهِنَّ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي
سیدنا عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بیان کیا کہ میں نے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کو ن سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنا ۔ پوچھا کہ پھر کون سا ؟ فرمایا کہ والدین کے سا تھ اچھا سلوک کرنا ، پوچھا پھر کون سا ؟ فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ان کاموں کے متعلق بیان کیا اور اگر میں اسی طرح سوال کرتا رہتا تو آپ جواب دیتے رہتے ۔ "
نماز کی مشہور کتاب نماز نبوی از ڈاکٹر شفیق الرحمن کے حاشیہ میں شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
شدید ضرورت اور شرعی عذر کی بنا پر حضر میں بھی کبھی کبھار جمع بین الصلاتین جائز ہے لیکن یاد رہے کہ بغیر عذر کے ایسا کرنا یا س کو معمول بنا لینا غلط ہے۔ (شیخ زبیرعلی زئی)
اور اسی کتاب نماز نبوی کے حاشیہ نگار شیخ عبدالصمد رفیقی لکھتے ہیں :
یعنی نا گزیر قسم کے حالات (شرعی عذر) میں حالت اقامت میں بھی دو نمازیں جمع کر کے پڑھی جا سکتی ہیں۔ تاہم شدید ضرورت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں، جیسے کاروباری لوگوں کاعام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے دو نمازیں جمع کر لیتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔ ہر نماز اس کے مختار وقت ہی پر پڑھنا ضروری ہے، سوائے ناگزیر حالات کے۔ (ع،ر)
صفحہ 309
نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں
مؤلف : ڈاکٹر شفیق الرحمٰن
تحقیق و تخریج: ابو طاہر حافظ زبیر علی زئی
تصحیح و تنقیح: حافظ صلاح الدین یوسف، عبدالصمد رفیقی
_____________
* مقیم آدمی دو نمازیں جمع کر سکتا ہے ،جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا: الظُّهْرَ وَالعَصْرَ وَالمَغْرِبَ وَالعِشَاءَ "،
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: "نبی کریم ﷺ نے مدینہ رہ کر سات رکعات (ایک ساتھ) اور آٹھ رکعات (ایک ساتھ) پڑھیں، یعنی ظہر و عصر (کی آٹھ رکعات) اور مغرب عشاء (کی سات رکعات)۔" [بخاري، مواقيت الصلواة، باب تأخير الظهر إلی العصر: 543 ]
*
رسول اللہ ﷺ سے حضر میں بھی کے دو نمازیں جمع کرنا ثابت ہے :۔
عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: «صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر والعصر جميعا بالمدينة، في غير خوف، ولا سفر» قال أبو الزبير: فسألت سعيدا، لم فعل ذلك؟ فقال: سألت ابن عباس كما سألتني، فقال: «أراد أن لا يحرج أحدا من أمته»
"سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر سفر کے ظہر و عصر کو اکھٹا کر کے پڑھا۔" ابو زبیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ یہی سوال میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا تھا تو انھوں نے فرمایا: آپ ﷺ چاہتے تھے کہ میری امت میں سے کوئی شخص مشکل میں نہ پڑے۔" [ مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب الجمع بین الصلاتين فی الحضر 50/705 ]
* اور مسلم ہی کی ایک حدیث (54/705) میں سفر کی جگہ بارش کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ مدینہ میں بارش اور خوف کے بغیر نمازیں جمع کیں۔ ایک حدیث میں ہے: ((
من غير مرض ولا علة)) [ طبراني كبير : 12/137، ح: 12807، إسناده حسن لذاته ، حلية الأولياء لأبي نعيم : 3/90 ۔ محمد بن مسلم صدوق حسن الحدیث، و ثقه الجمهور۔] "
بغیر کسی مرض اور علت کے (دو نمازیں جمع کیں)۔"
* تو ثابت ہوا کہ بغیر کسی علت کے کبھی کبھار حضر میں دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں، لیکن انھیں معمول بنانا قطعاً جائز نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا معمول نمازوں کو اول وقت میں ادا کرنا تھا۔
جیسا کہ اوپر مضمون کے شروع میں قرآن وحدیث سے واضح کیا گیا ہے ،
تکلیف ما لا یطاق
انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے جو شریعت انسانوں کو دی گئی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی ایسا حکم کبھی نہیں دیتے جو انسان کے تحمل و برداشت سے باہر ہو۔شریعت کے تمام اعمال میں یہ معیار ہمیشہ سے قائم ہے کہ لوگوں کی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ان پر نہ ڈالا جائے اور جو حکم بھی دیا جائے، انسان کی فطرت اور اس کی صلاحیتوں کے مطابق جائے۔
چنانچہ بھول چوک، غلط فہمی اور بلا ارادہ کوتاہی پر اس شریعت میں کوئی مواخذہ نہیں ہے ،اسی طرح بیماری اور دیگر عوارض کے سبب اگر کسی حکم کی تعمیل میں تاخیر ہو یا اس کام کا کرنا انسانی طاقت سے باہر تو بھی مواخذہ نہیں :
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا)
یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس عمل کا جو اس کی طاقت میں ہو)
لوگوں سے اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں وہ پوری صداقت اور ایمان داری کے ساتھ اس کے احکام کی تعمیل کریں۔
لہذا واضح ہے کہ اسلامی شریعت میں جہاں تک ممکن ہو نماز مقررہ اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ،
اور سفر ،بارش ،مرض اور دیگرکسی شرعی عذر کی بنا پر دو نمازیں شریعت کے مقرر طریقہ پر جمع کی جاسکتی ہیں ،
لیکن بلاعذر جمع کرنا یا اس کو معمول بنالینا جائز نہیں ،
اور مسئولہ صورت کہ مریض مسلسل معمول بنا کر دو نمازیں کرتا ہے ،تو اگر اس مریض کیلئے اپنے وقت پر نماز ادا کرنا ممکن ہے تو جمع بین الصلاتین جائز نہیں ۔
واللہ اعلم