• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نمازِ جمعہ سے پہلے اور بعد نماز

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
محترم شیخ @خضر حیات صاحب حفظہ اللہ!
جمعہ کے بعد کتنی رکعات پڑھی جائیں؟؟؟ بظاہر تعداد میں جو تعارض ہے وہ کس طرح رفع ہوگا؟؟؟
کسی میں دو سے زائد کی نفی ہے تو کسی میں چار کا تذکرہ ہے. وغیرہ وغیرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: غلام مصطفے ٰ ظہیر امن پوری
نماز جمعہ سے پہلے ادا کی جانے والی نماز کی تعداد رکعات متعین اور مقرر نہیں، پہلے آنے والا جتنی چاہے عبادت کر سکتا ہے۔
➊ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من اغتسل ثم أتي الجمعة فصلٰي ما قدر له ثم أنصت حتٰي يفرغ الامام من خطبته، ثم يصلي معه غفرله ما بينه و بين الجمعة الأخرٰي و فضل ثلاثة أيام
”جس نے غسل کیا، پھر نماز جمعہ کے لئے آیا، نماز پڑھی جتنی اس کے مقدر میں تھی، پھر خاموش رہا یہاں تک کہ امام اپنے خطبہ سے فارغ ہوگیا، اس کے بعد امام کے ساتھ نماز جمعہ ادا کی، اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک اور تین دن کے مزید اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔“ [صحيح مسلم : 858]

➋ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من اغتسل يوم الجمعة وتطهر بما استطاع من طهر، ثم ادهن أو مس من طيب، ثم راح فلم يفرق بين اثنين، فصلٰي ما كتب له، ثم اذا خرج الامام أنصت، غفرله ما بينه و بين الجمعة الأخرٰي
”جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، بقدر استطاعت طہارت حاصل کی، پھر تیل یا خوشبو لگائی، پھر جمعہ کے لئے چل دیا، دو آدمیوں کے درمیان تفرق نہیں ڈالی (یعنی دو اکٹھے بیٹھے ہوئے آدمیوں کے درمیان سے گھس کر آگے نہیں بڑھا)، پھر نماز پڑھی جو اس کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی، جب امام نکلا (جمعہ کیلئے) تو وہ خاموش رہا، اس جمعہ سے لے کر سابقہ جمعہ کے درمیان جو اس نے (صغیرہ) گناہ کئے، وہ بخش دیئے جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري : 910]
↰ ان احادیث سے ثابت ہو ا کہ نماز جمعہ سے پہلے تعداد رکعات متعین نہیں ہے، جتنی جی چاہے پڑھے۔
◈ حافظ ابن المنذر رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ [الأوسط : 50/4]

➌ نافع کہتے ہیں :
كان ابن عمر يطيل الصلاة قبل الجمعة و يصلي بعدها ركعتين فى بيته و يحدث أن رسول اللٰه صلى اللٰه عليه وسلم كان يفعل ذٰلك
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نماز جمعہ سے پہلے لمبی نماز پڑھتے، جمعہ کے بعد اپنے گھر میں دو رکعتیں پڑھتے اور بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل تھا۔“ [سنن أبى داؤد : 1128، وسنده صحيح] ؟

➍ جبلہ بن سحیم کہتے ہیں :
أنه كان يصلي قبل الجمعة أربعا، لا يفصل بينهن بسلام، ثم بعد الجمعة ركعتين، ثم أربعا
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، ان کے درمیان سلام کے ساتھ فاصلہ نہیں کرتے تھے، پھر جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑھتے تھے۔“ [شرح معاني الآثار : 335/1، وسنده صحيح]

➎ عکرمہ رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
أنه كان يصلي قبل الجمعة ثمان ركعات، ثم يجلس فلا يصلي شيئا حتٰي ينصرف.
”آپ جمعہ کو آنے سے پہلے آٹھ رکعتیں پڑھتے، پھر بیٹھ جاتے، واپسی تک کچھ نہ پڑھتے۔“ [الأوسط : 97/3، ح : 1844 و سنده حسن]
↰ سلم بن بشیر کی امام یحییٰ بن معین [الجرح و التعديل : 266/4، وسنده حسن] اور امام ابن حبان نے توثیق کی ہے، لہٰذا ”حسن الحدیث“ ہے۔

➏ أبو عبدالرحمٰن السلمی کہتے ہیں :
كان ابن مسعود يأمرنا أن نصلي قبل الجمعة أربعا و بعدها أربعا.
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہمیں جمعہ سے پہلے اور بعد میں چار چار رکعت ادا کرنے کا حکم دیتے تھے۔“ [الأوسط لابن المنذر : 1880، وسنده حسن]
↰ سفیان نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے اور عطا بن السائب سے قبل الاختلاط روایت لی ہے۔

◈ صافیہ کہتی ہیں :
رأيت صفية بنت حييي رضي اللٰه تعالىٰ عنها صلت أربع ركعات قبل خروج الامام للجمعة.
”میں نے سیدہ صفیہ بنت حییٔ کو امام کے جمعہ کیلئے نکلنے سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے دیکھا۔“ [طبقات ابن سعد ؛ نصب الراية : 207/2]

اس کی سند“ ضعیف ”ہے، صافیہ کے حالات نہیں ملے۔
➐ نافع کہتے ہیں :
كان ابن عمر يهجر يوم الجمعة، فيطيل الصلوٰة قبل أن يخرج الامام.
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ کے دن جلدی آتے اور امام کے نکلنے سے پہلے لمبی نماز پڑھتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 131/2، وسنده صحيح]

➑ عمران بن حدیر کہتے ہیں :
أنه كان يصلي فى بيته ركعتين يوم الجمعة.
”آپ جمعہ کے دن اپنے گھر میں دو رکعتیں ادا فرماتے۔“ [ مصنف ابن ابي شيبه : 131/2، وسنده صحيح]

➒ عبداللہ بن طاؤس اپنے باپ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
أنه كان لايأتي المسجد يوم الجمعة حتٰي يصلي فى بيته ركعتين.
”آپ جمعہ کے دن گھر میں دو رکعتیں پڑھنے سے پہلے مسجد نہ آتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 131/2، و سنده حسن]
◈ امام سفیان ثوری اور امام عبداللہ بن مبارک جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد چار رکعتوں کے قائل ہیں۔ [جامع الترمذي : تحت حديث : 523]

➓ امام عبدالرزاق بھی اسی کے قائل ہیں۔ [مصنف عبدالرزاق : 247/3]
◈ عقبہ بن علقمہ کہتے ہیں کہ ”میں امام اوزاعی کو جمعہ کے لئے جاتے ہوئے مسجد کے دروازے پر ملا، ان کو سلام کہا اور اور ان کے پیچھے پیچھے گیا، میں نے امام کے نکلنے سے پہلے ان کی نماز شمار کی، وہ چونتیس رکعات تھیں، آپ کا قیام، رکوع اور سجود سب بہترین تھے۔“ [تقدمة الجرح و التعديل : 218، وسنده حسن]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جمعہ سے پہلے کچھ پڑھنا ثابت نہیں ہے :
➊ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يركع قبل الجمعة أربعا (زاد الطبراني ؛ وبعدها أربعا)، لا يفصل فى شيء منهن.
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے (اور بعد) چار رکعتیں پڑھتے، درمیان میں کوئی فاصلہ نہ کرتے۔“ [سنن ابن ماجه : 1129، المعجم الكبير للطبراني : 101/12، ح : 12674]

تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① اس میں مبشر بن عبید راوی ”ضعیف و متروک“ ہے۔
② حجاج بن أرطاۃ ”ضعیف و مدلس“ ہے۔
③ عطیہ العوفی ”ضعیف“ ہے۔
④ بقیہ بن ولید ”تدلیس التسویہ“ کا مرتکب ہے۔
◈ حافظ نووی نے اس حدیث کو باطل (جھوٹی) قرار دیا ہے۔ [خلاصة الأحكام : 813/2]
◈حافظ ابن قیم الجوزیہ لکھتے ہیں : هٰذا الحديث فيه عدة بلايا . ”اس حدیث میں کئی مصیبتیں ہیں۔“ [زاد المعاد : 170/1]
◈ حافظ ابن حجر کہتے ہیں : واسناده ضعيف جدا. ”اس کی سند سخت ترین ضعیف ہے۔“ [التلخيص الحبير : 74/2]
◈ زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وسنده واه جدا فمبشر بن عبيد معدود فى الوضاعين، وحجاج و عطية ضعيفان.
”اس کی سند سخت ترین ضعیف ہے، مبشر بن عبید راوی کا شمار احادیث گھڑنے والوں میں کیا گیا ہے، نیز حجاج (بن أرطاۃ) اور عطیہ (العوفی) دونوں ضعیف ہیں۔“ [نصب الراية : 206/2]
◈ ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب نے لکھا ہے :
وكلام الهيثمي مشعر بأن ليس فى سند الطبراني أحد غيرهما متكلم فيه.
”علامہ ہیثمی کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ طبرانی کی سند میں ان دونوں (حجاج بن أرطاۃ اور عطیہ العوفی) کے علاوہ کوئی متکلم فیہ راوی نہیں۔“ [اعلاء السنن : 1862]
↰ جبکہ واضح ہے کہ طبرانی کی سند میں مبشر بن عبید ”متروک اور وضاع“ راوی موجود ہے،
لہٰذا بعض الناس کا اس کی سند کو ”حسن“ کہنا نری جہالت ہے، یاد رہے کہ بقیہ بن ولید جمہور کے نزدیک ”ثقہ“ ہے، صرف ان پر ”تدلیس تسویہ“ کا الزام ہے۔
——————

➋ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كان سول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل الجمعة أربعا و بعدها أربعا يجعل التسليم فى آخرهن ركعة.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے اور بعد میں چار چار رکعتیں پڑھتے، سلام آخری رکعت میں ہی پھیرتے۔“ [المعجم الأوسط للطبراني : 368/2، ح : 1640، المعجم لابن الأعرابي : 873]

تبصرہ :
اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ :
① اس میں أبواسحٰق السبیعی راوی ”مدلس و مختلط“ ہے۔
② محمد بن عبدالرحمٰن السہمی ”متکلم فیہ“ راوی ہے۔
اس کے بارے میں :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولا يتابع عليه. ”اس کی حدیث پر اس کی متابعت نہیں کی گئی۔“ [التاريخ الكبير : 162/1]
◈ امام ابوحاتم الرازی کہتے ہیں : ليس بمشهور. ”یہ مشہور نہیں تھا۔“ [الجرح و التعديل : 326/7]
◈ امام یحییٰ بن معین نے اسے ”ضعیف“ کہا ہے۔ [لسان الميزان : 245/5]
——————

➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے اور بعد میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ [كشف الأستار فى زوائد البزار : 341/2، تاريخ بغداد : 365/6]
تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ”ضعیف“ ہے۔
اس میں الحسن بن قتیبہ الخزاعی راوی ہے، اس کو :
◈ امام دارقطنی نے متروك الحديث کہا ہے۔ [العلل : 347/5]
◈ نیز ”ضعیف“ بھی کہا ہے۔ [سنن دار قطني : 78/1، العلل : 129/7] ،
◈ امام ابوحاتم کہتے ہیں : ليس بقوي الحديث، ضعيف الحديث . [الجرح و التعديل : 33/3]
◈ حافظ عقیلی نے كثير الوهم کہا ہے۔ [الضعفاء : 241/1]
◈ ذہبی نے هالك کہا ہے۔ [الميزان : 519/1]
اس میں سفیان کی ”تدلیس“ بھی ہے، نیز اسحٰق بن سلیمان البغداد ی کی ”توثیق“ مطلوب ہے۔
——————

➍ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل الجمعة و بعدها أربعا.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے اور بعد چار کعتیں پڑھتے تھے۔“ [المعجم الأوسط للطبرانی : 3971]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف و منقطع“ ہے،
ابوعبیدہ کا اپنے باپ عبداللہ بن مسعود سے ”سماع“ نہیں ہے۔
◈ حافظ ابن حجر کہتے ہیں :
والراجح أنه لا يصح سماع من أبيه.
”راجح بات یہ ہے کہ اس کا اپنے باپ سے کوئی سماع نہیں۔“ [تقريب التهذيب : 8231]
نیز سلمان بن عمرو بن خالد الرقی کی ”توثیق“ مطلوب ہے۔
——————

قال أبو الحسن عبدالرحمٰن بن محمد بن ياسر فى (حديث أبى القاسم على بن يعقوب) عن اسحٰق بن ادريس ثنا أبا ن ثنا عاصم الأحول عن نافع عن عائشة أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يصلي قبل الجمعة ركعتين فى أهله.
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے اپنے گھر میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔“

تبصرہ :
یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔
◈ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
باطل موضوع و آفته اسحٰق هذا وهو الأسواري البصري قال ابن معين ؛ كذاب يضع الحديث.
”یہ جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے، اس میں اسحٰق (بن ادریس) اسواری بصری راوی کی وجہ سے آفت ہے، اس کے بارے میں امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ پرلے درجے کا جھوٹا اور احادیث گھڑتا تھا۔“ [الأجوبة النافعة : 24]
——————

➏ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابوعبیدہ کہتے ہیں :
كان يصلي قبل الجمعة أربعا . ”آپ جمعہ سے پہلے چار رکعت ادا کرتے تھے۔“ [مصنف ابن أبى شيبه : 131/2]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
ابوعبیدہ کا اپنے باپ سے کوئی ”سماع“ نہیں ہے۔
مصنف عبدالرزاق [5524] میں قتادہ نے ابوعبیدہ کی متابعت کر رکھی ہے، یہ بھی ”ضعیف“ ہے، کیونکہ قتادہ کا ابن مسعود سے سماع نہیں ہے۔
——————

➐ ”ابواسحٰق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد چار رکعات ادا کرتے تھے۔“ [مصنف عبدالرزا ق : 5524، المعجم الكبير للطبراني : 310/9]
تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس میں عبدالرزاق اور ابواسحٰق کی ”تدلیس“ ہے۔
——————
➑ ابراہیم نخعی کہتے ہیں : كانوا يصلون قبلها أربعا.
”(صحابہ وتابعین) جمعہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 131/2]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
حفص بن غیاث اور اعمش دونوں ”مدلس“ ہیں۔
——————

جمعہ کے بعد نماز
جمعہ کے بعد صرف دو رکعتیں بھی پڑھی جا سکتی ہیں، چار بھی پڑھی جا سکتی ہیں، دو پڑھ کر پھر چار یعنی چھ بھی پڑھی جا سکتی ہیں، گھر میں پڑھیں یا مسجد میں، دونوں صورتیں جائز ہیں۔
➊ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
كان لا يصلي بعد الجمعة حتي ينصرف، فيصلي ركعتين فى بيته.
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد گھر لوٹ کر دو رکعتیں ادا کرتے۔“ [صحيح بخاري : 937، صحيح مسلم : 882]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت فرماتے :
والعمل عليٰ هٰذا عند بعض أهل العلم، وبه يقول الشافعي و أحمد .
”بعض اہل علم کا اس پر عمل ہے، امام شافعی اور امام احمد کا یہی مذہب ہے۔“ [ترمذي تحت : 521]
——————
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا صلٰي أحدكم الجمعة فليصل بعدها أربعا.
”جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھے، تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے۔“ [صحيح مسلم : 67/881]
❀ صحیح مسلم [69/881] ہی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من كان منكم مصليا بعد الجمعة فليصل أربعا.
”تم میں سے جو جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہے، وہ چار رکعتیں پڑھے۔“
——————
➌ ابن جریج کہتے ہیں کہ عطاء نے مجھے بتایا کہ انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جمعہ کے بعد نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ اپنی جمعہ والی جگہ سے تھوڑا سا سرک جاتے اور دو رکعتیں پڑھتے، پھر اس سے زیادہ چلتے اور چار رکعتیں ادا کرتے، میں نے عطا سے پوچھا : کہ آپ نے کتنی مرتبہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایسا کرتے دیکھا، تو کہا :، کئی مرتبہ۔ [سنن أبى داود : 1133، جامع ترمذي : 523، وسنده صحيح]
◈ حافظ نووی نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔ [خلاصة الأحكام : 812/2]
——————
➍ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں :
كان اذا كان بمكة فصلي الجمعة تقدم، فصلٰي ركعتين، ثم تقدم، فصلٰي أربعا، واذا كان بالمدينة صلى الجمعة، ثم رجع اليٰ بيته فصلٰي ركعتين ولم يصل فى المسجد، فقيل له ؛ فقال ؛ كان رسول اللٰه صلى اللٰه عليه وسلم يفعل ذٰلك.
”عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما جب مکہ ہوتے اور جمعہ پڑھتے تو (تھوڑا سا) آگے ہو کر دو رکعتیں پڑھتے اور جب مدینہ میں ہوتے تو جمعہ پڑھ کر گھر لوٹ آتے، پھر دو رکعتیں پڑھتے، مسجد میں نہ پڑھتے، ان سے پوچھا گیا تو فرمایا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کرتے تھے۔“ [سنن أبى داؤد : 223، وسنده صحيح]
◈ حافظ نووی نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔ [خلاصة الأحكام : 812/2]
فائدہ :

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت یہ پیش کی جاتی ہے :
أنه كان يكره أن يصلي بعد صلوة الجمعة مثلها.
”آپ رضی اللہ عنہ جمعہ کے بعد اسی طرح کی (دو رکعت) نماز پڑھنا ناپسند کرتے تھے۔“ [شرح معاني الآثار للطحاوي : 337/1]

↰ اس کی سند سفیان ثوری اور اعمش کی ”تدلیس“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
——————
➎ جبلہ بن سحیم کہتے ہیں :
انه كان يصلي قبل الجمعة أربعا لا يفصل بينهن بسلام، ثم بعد الجمعة ركعتين، ثم أربعا.
”ابن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، ان میں سلام کے ساتھ فاصلہ نہ ڈالتے، پھر جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے، پھر چار پڑھتے۔“ [شرح معاني الآثار : 335/1، وسنده صحيح]
——————
➏ ابوعبدالرحمٰن السلمی کہتے ہیں :
كان ابن مسعود يأمرنا أن نصلي قبل الجمعة أربعا و بعدها أربعا.
”سیدنا عبداللہ بن مسعود ہمیں نماز جمعہ سے پہلے اور بعد چار رکعتیں پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔“ [الأوسط لابن المنذر : 1880، وسنده حسن]

◈ عبداللہ بن حبیب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 133/2]
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس میں شریک اور ابواسحٰق دونوں ”مدلس“ ہیں۔
◈ ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 133/2]

اس کی سند“ ضعیف ”ہے،
ابوعبیدہ کا اپنے باپ سے کوئی سماع نہیں۔
◈ مسیب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 33/2 و سنده صحيح]

علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود جمعہ کے بعد چار اکٹھی رکعات ادا کرتے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 133/2]
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس میں حجاج بن ارطاۃ ”ضعیف و مدلس“ اور حماد بن ابی سلیمان ”مختلط“ اور ابراہیم نخعی ”مدلس“ ہے،
لہٰذا سند ”ضعیف“ ہے۔
——————
◈ ابوحصین کہتے ہیں :
رأيت الأسود بن يزيد صلٰي بعد الجمعة أربعا.
”میں نے اسود بن یزید کو دیکھا، آپ نے جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑھیں۔“

◈ عمران بن حدیر کہتے ہیں :
اذا سلم الامام صلٰي ركعتين يوم الجمعة، واذا رجع صلٰي ركعتين .
”ابومجلز جب جمعہ کے دن امام سلام پھیرتا تو دو رکعتیں پڑھتے، پھر واپسی کے وقت دو رکعتیں ادا کرتے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 133/2، وسندهما صحيح]
جمعہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چار رکعتیں پڑھنا ثابت نہیں ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

◈ ابوعبدالرحمٰن السلمی سے روایت ہے :
أنه كان يصلي بعد الجمعة ستا.
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ جمعہ کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے تھے۔“ [تقدمة الجرح و التعديل : 167، وسنده صحيح]

◈ ابوبکر بن ابی موسیٰ اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتے ہیں :
انه كان يصلي بعد الجمعة ست ركعات.
”آپ جمعہ کے بعد چھے رکعات ادا کرتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 132/2، و سنده صحيح]

◈ ابراہیم نخعی کہتے ہیں :
صل بعد الجمعة ركعتين، ثم صل بعد ما شئت.
”جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھ، پھر اس کے بعد جتنی چاہے پڑھتا رہ۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 132/2 و سنده حسن]

◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں :
ان شئت صليت أربعا، وان شئت صليت ست ركعات مثنٰي مثنٰي، كذا أختار أنا، وان شئت صليت أربعا فلا بأس.
”اگر چاہے تو چار پڑھ اور چاہے تو چھ پڑھ، دو دو کر کے، یہ مجھے پسند ہے، اگر چاہے تو چار پڑھ لے اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔“ [مسائل احمد لابنه عبدالله : 123]

◈ امام ابن المنذر فرماتے ہیں :
ان شاء صلى ركعتين، وان شاء أربعا، ويصلي أربعا يفصل بين كل ركعتين بتسليم أحب الي.
” نماز جمعہ ادا کرنے والا چاہے تو دو رکعتیں پڑھے، چاہے چار، چار پڑھے تو دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرنا مجھے زیادہ پسند ہے۔“ [الأوسط لا بن المنذر : 127/4]
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے علمی اور تحقیقی مضامین کے اختتام پر عام قارءین کے لءے ایک دو سطور میں تحقیق کا نتیجہ بھی لکھ دیا جاءے کہ اس تحقیق کی روشنی میں بہترین عمل یہ ہوگا کہ: (مثال کے طور پر) جمعہ کے لءے مسجد پہنچ کر کم از کم ۲ رکعت نماز ادا کرے۔ یا خطبہ شروع ہونے تک دو دو رکعت کرکے حسب توفیق نماز ادا کرے۔ پھر خطبہ اور فرض جماعت میں شرکت کرے۔ اور جمعہ کے بعد کم از کم دو رکعت یا زاءد حسب توفیق نماز ادا کرے۔ چاہے تو مسجد میں ہی پڑھ لے یا گھر واپس آکر گھر میں ادا کرلے۔ دو دو رکعت کرک پڑھنا بہتر ہے لیکن چاہے تو چار چار رکعت بھی سکتا ہے۔ (مثال ختم)
کیونکہ عام قارءین ایسے علمی و تحقیقی تحریروں سے کنفیوز سے ہوجاتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔
واللہ اعلم بالصواب
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے علمی اور تحقیقی مضامین کے اختتام پر عام قارءین کے لءے ایک دو سطور میں تحقیق کا نتیجہ بھی لکھ دیا جاءے
اس فورم کے تعلق سے میرا نظریہ یہ ہے کہ جس تھریڈ میں بھی علمی مباحثے ہوئے وہاں آخر میں انتظامیہ کی جانب سے نتیجہ اور خلاصہ بحث درج کیا جائے کیونکہ عام قاری کو مباحثے سے نتیجہ نہیں مل پارہاہے بلکہ مزید کنفیوزن کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: غلام مصطفے ٰ ظہیر امن پوری
نماز جمعہ سے پہلے ادا کی جانے والی نماز کی تعداد رکعات متعین اور مقرر نہیں، پہلے آنے والا جتنی چاہے عبادت کر سکتا ہے۔
➊ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من اغتسل ثم أتي الجمعة فصلٰي ما قدر له ثم أنصت حتٰي يفرغ الامام من خطبته، ثم يصلي معه غفرله ما بينه و بين الجمعة الأخرٰي و فضل ثلاثة أيام

”جس نے غسل کیا، پھر نماز جمعہ کے لئے آیا، نماز پڑھی جتنی اس کے مقدر میں تھی، پھر خاموش رہا یہاں تک کہ امام اپنے خطبہ سے فارغ ہوگیا، اس کے بعد امام کے ساتھ نماز جمعہ ادا کی، اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک اور تین دن کے مزید اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔“ [صحيح مسلم : 858]
➋ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من اغتسل يوم الجمعة وتطهر بما استطاع من طهر، ثم ادهن أو مس من طيب، ثم راح فلم يفرق بين اثنين، فصلٰي ما كتب له، ثم اذا خرج الامام أنصت، غفرله ما بينه و بين الجمعة الأخرٰي

”جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، بقدر استطاعت طہارت حاصل کی، پھر تیل یا خوشبو لگائی، پھر جمعہ کے لئے چل دیا، دو آدمیوں کے درمیان تفرق نہیں ڈالی (یعنی دو اکٹھے بیٹھے ہوئے آدمیوں کے درمیان سے گھس کر آگے نہیں بڑھا)، پھر نماز پڑھی جو اس کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی، جب امام نکلا (جمعہ کیلئے) تو وہ خاموش رہا، اس جمعہ سے لے کر سابقہ جمعہ کے درمیان جو اس نے (صغیرہ) گناہ کئے، وہ بخش دیئے جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري : 910]
↰ ان احادیث سے ثابت ہو ا کہ نماز جمعہ سے پہلے تعداد رکعات متعین نہیں ہے، جتنی جی چاہے پڑھے۔
◈ حافظ ابن المنذر رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ [الأوسط : 50/4]

➌ نافع کہتے ہیں :
كان ابن عمر يطيل الصلاة قبل الجمعة و يصلي بعدها ركعتين فى بيته و يحدث أن رسول اللٰه صلى اللٰه عليه وسلم كان يفعل ذٰلك

”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نماز جمعہ سے پہلے لمبی نماز پڑھتے، جمعہ کے بعد اپنے گھر میں دو رکعتیں پڑھتے اور بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل تھا۔“ [سنن أبى داؤد : 1128، وسنده صحيح] ؟
➍ جبلہ بن سحیم کہتے ہیں :
أنه كان يصلي قبل الجمعة أربعا، لا يفصل بينهن بسلام، ثم بعد الجمعة ركعتين، ثم أربعا

”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، ان کے درمیان سلام کے ساتھ فاصلہ نہیں کرتے تھے، پھر جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑھتے تھے۔“ [شرح معاني الآثار : 335/1، وسنده صحيح]
➎ عکرمہ رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
أنه كان يصلي قبل الجمعة ثمان ركعات، ثم يجلس فلا يصلي شيئا حتٰي ينصرف.

”آپ جمعہ کو آنے سے پہلے آٹھ رکعتیں پڑھتے، پھر بیٹھ جاتے، واپسی تک کچھ نہ پڑھتے۔“ [الأوسط : 97/3، ح : 1844 و سنده حسن]
↰ سلم بن بشیر کی امام یحییٰ بن معین [الجرح و التعديل : 266/4، وسنده حسن] اور امام ابن حبان نے توثیق کی ہے، لہٰذا ”حسن الحدیث“ ہے۔
➏ أبو عبدالرحمٰن السلمی کہتے ہیں :
كان ابن مسعود يأمرنا أن نصلي قبل الجمعة أربعا و بعدها أربعا.

”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہمیں جمعہ سے پہلے اور بعد میں چار چار رکعت ادا کرنے کا حکم دیتے تھے۔“ [الأوسط لابن المنذر : 1880، وسنده حسن]
↰ سفیان نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے اور عطا بن السائب سے قبل الاختلاط روایت لی ہے۔
◈ صافیہ کہتی ہیں :
رأيت صفية بنت حييي رضي اللٰه تعالىٰ عنها صلت أربع ركعات قبل خروج الامام للجمعة.

”میں نے سیدہ صفیہ بنت حییٔ کو امام کے جمعہ کیلئے نکلنے سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے دیکھا۔“ [طبقات ابن سعد ؛ نصب الراية : 207/2]
اس کی سند“ ضعیف ”ہے، صافیہ کے حالات نہیں ملے۔
➐ نافع کہتے ہیں :
كان ابن عمر يهجر يوم الجمعة، فيطيل الصلوٰة قبل أن يخرج الامام.

”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ کے دن جلدی آتے اور امام کے نکلنے سے پہلے لمبی نماز پڑھتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 131/2، وسنده صحيح]
➑ عمران بن حدیر کہتے ہیں :
أنه كان يصلي فى بيته ركعتين يوم الجمعة.

”آپ جمعہ کے دن اپنے گھر میں دو رکعتیں ادا فرماتے۔“ [ مصنف ابن ابي شيبه : 131/2، وسنده صحيح]
➒ عبداللہ بن طاؤس اپنے باپ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
أنه كان لايأتي المسجد يوم الجمعة حتٰي يصلي فى بيته ركعتين.

”آپ جمعہ کے دن گھر میں دو رکعتیں پڑھنے سے پہلے مسجد نہ آتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 131/2، و سنده حسن]
◈ امام سفیان ثوری اور امام عبداللہ بن مبارک جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد چار رکعتوں کے قائل ہیں۔ [جامع الترمذي : تحت حديث : 523]
➓ امام عبدالرزاق بھی اسی کے قائل ہیں۔ [مصنف عبدالرزاق : 247/3]
◈ عقبہ بن علقمہ کہتے ہیں کہ ”میں امام اوزاعی کو جمعہ کے لئے جاتے ہوئے مسجد کے دروازے پر ملا، ان کو سلام کہا اور اور ان کے پیچھے پیچھے گیا، میں نے امام کے نکلنے سے پہلے ان کی نماز شمار کی، وہ چونتیس رکعات تھیں، آپ کا قیام، رکوع اور سجود سب بہترین تھے۔“ [تقدمة الجرح و التعديل : 218، وسنده حسن]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جمعہ سے پہلے کچھ پڑھنا ثابت نہیں ہے :
➊ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يركع قبل الجمعة أربعا (زاد الطبراني ؛ وبعدها أربعا)، لا يفصل فى شيء منهن.

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے (اور بعد) چار رکعتیں پڑھتے، درمیان میں کوئی فاصلہ نہ کرتے۔“ [سنن ابن ماجه : 1129، المعجم الكبير للطبراني : 101/12، ح : 12674]
تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① اس میں مبشر بن عبید راوی ”ضعیف و متروک“ ہے۔
② حجاج بن أرطاۃ ”ضعیف و مدلس“ ہے۔
③ عطیہ العوفی ”ضعیف“ ہے۔
④ بقیہ بن ولید ”تدلیس التسویہ“ کا مرتکب ہے۔
◈ حافظ نووی نے اس حدیث کو باطل (جھوٹی) قرار دیا ہے۔ [خلاصة الأحكام : 813/2]

◈حافظ ابن قیم الجوزیہ لکھتے ہیں : هٰذا الحديث فيه عدة بلايا . ”اس حدیث میں کئی مصیبتیں ہیں۔“ [زاد المعاد : 170/1]
◈ حافظ ابن حجر کہتے ہیں : واسناده ضعيف جدا. ”اس کی سند سخت ترین ضعیف ہے۔“ [التلخيص الحبير : 74/2]
◈ زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وسنده واه جدا فمبشر بن عبيد معدود فى الوضاعين، وحجاج و عطية ضعيفان.

”اس کی سند سخت ترین ضعیف ہے، مبشر بن عبید راوی کا شمار احادیث گھڑنے والوں میں کیا گیا ہے، نیز حجاج (بن أرطاۃ) اور عطیہ (العوفی) دونوں ضعیف ہیں۔“ [نصب الراية : 206/2]
◈ ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب نے لکھا ہے :
وكلام الهيثمي مشعر بأن ليس فى سند الطبراني أحد غيرهما متكلم فيه.

”علامہ ہیثمی کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ طبرانی کی سند میں ان دونوں (حجاج بن أرطاۃ اور عطیہ العوفی) کے علاوہ کوئی متکلم فیہ راوی نہیں۔“ [اعلاء السنن : 1862]
↰ جبکہ واضح ہے کہ طبرانی کی سند میں مبشر بن عبید ”متروک اور وضاع“ راوی موجود ہے،
لہٰذا بعض الناس کا اس کی سند کو ”حسن“ کہنا نری جہالت ہے، یاد رہے کہ بقیہ بن ولید جمہور کے نزدیک ”ثقہ“ ہے، صرف ان پر ”تدلیس تسویہ“ کا الزام ہے۔
——————
➋ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كان سول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل الجمعة أربعا و بعدها أربعا يجعل التسليم فى آخرهن ركعة.

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے اور بعد میں چار چار رکعتیں پڑھتے، سلام آخری رکعت میں ہی پھیرتے۔“ [المعجم الأوسط للطبراني : 368/2، ح : 1640، المعجم لابن الأعرابي : 873]
تبصرہ :
اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ :
① اس میں أبواسحٰق السبیعی راوی ”مدلس و مختلط“ ہے۔
② محمد بن عبدالرحمٰن السہمی ”متکلم فیہ“ راوی ہے۔
اس کے بارے میں :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولا يتابع عليه. ”اس کی حدیث پر اس کی متابعت نہیں کی گئی۔“ [التاريخ الكبير : 162/1]

◈ امام ابوحاتم الرازی کہتے ہیں : ليس بمشهور. ”یہ مشہور نہیں تھا۔“ [الجرح و التعديل : 326/7]
◈ امام یحییٰ بن معین نے اسے ”ضعیف“ کہا ہے۔ [لسان الميزان : 245/5]
——————
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے اور بعد میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ [كشف الأستار فى زوائد البزار : 341/2، تاريخ بغداد : 365/6]

تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ”ضعیف“ ہے۔
اس میں الحسن بن قتیبہ الخزاعی راوی ہے، اس کو :
◈ امام دارقطنی نے متروك الحديث کہا ہے۔ [العلل : 347/5]

◈ نیز ”ضعیف“ بھی کہا ہے۔ [سنن دار قطني : 78/1، العلل : 129/7] ،
◈ امام ابوحاتم کہتے ہیں : ليس بقوي الحديث، ضعيف الحديث . [الجرح و التعديل : 33/3]
◈ حافظ عقیلی نے كثير الوهم کہا ہے۔ [الضعفاء : 241/1]
◈ ذہبی نے هالك کہا ہے۔ [الميزان : 519/1]
اس میں سفیان کی ”تدلیس“ بھی ہے، نیز اسحٰق بن سلیمان البغداد ی کی ”توثیق“ مطلوب ہے۔
——————
➍ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل الجمعة و بعدها أربعا.

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے اور بعد چار کعتیں پڑھتے تھے۔“ [المعجم الأوسط للطبرانی : 3971]
تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف و منقطع“ ہے،
ابوعبیدہ کا اپنے باپ عبداللہ بن مسعود سے ”سماع“ نہیں ہے۔
◈ حافظ ابن حجر کہتے ہیں :
والراجح أنه لا يصح سماع من أبيه.

”راجح بات یہ ہے کہ اس کا اپنے باپ سے کوئی سماع نہیں۔“ [تقريب التهذيب : 8231]
نیز سلمان بن عمرو بن خالد الرقی کی ”توثیق“ مطلوب ہے۔
——————
قال أبو الحسن عبدالرحمٰن بن محمد بن ياسر فى (حديث أبى القاسم على بن يعقوب) عن اسحٰق بن ادريس ثنا أبا ن ثنا عاصم الأحول عن نافع عن عائشة أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يصلي قبل الجمعة ركعتين فى أهله.

”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے اپنے گھر میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔“
تبصرہ :
یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔

◈ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
باطل موضوع و آفته اسحٰق هذا وهو الأسواري البصري قال ابن معين ؛ كذاب يضع الحديث.

”یہ جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے، اس میں اسحٰق (بن ادریس) اسواری بصری راوی کی وجہ سے آفت ہے، اس کے بارے میں امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ پرلے درجے کا جھوٹا اور احادیث گھڑتا تھا۔“ [الأجوبة النافعة : 24]
——————
➏ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابوعبیدہ کہتے ہیں :
كان يصلي قبل الجمعة أربعا . ”آپ جمعہ سے پہلے چار رکعت ادا کرتے تھے۔“ [مصنف ابن أبى شيبه : 131/2]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
ابوعبیدہ کا اپنے باپ سے کوئی ”سماع“ نہیں ہے۔
مصنف عبدالرزاق [5524] میں قتادہ نے ابوعبیدہ کی متابعت کر رکھی ہے، یہ بھی ”ضعیف“ ہے، کیونکہ قتادہ کا ابن مسعود سے سماع نہیں ہے۔

——————
➐ ”ابواسحٰق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد چار رکعات ادا کرتے تھے۔“ [مصنف عبدالرزا ق : 5524، المعجم الكبير للطبراني : 310/9]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس میں عبدالرزاق اور ابواسحٰق کی ”تدلیس“ ہے۔
——————
➑ ابراہیم نخعی کہتے ہیں : كانوا يصلون قبلها أربعا.

”(صحابہ وتابعین) جمعہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 131/2]
تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
حفص بن غیاث اور اعمش دونوں ”مدلس“ ہیں۔
——————

جمعہ کے بعد نماز
جمعہ کے بعد صرف دو رکعتیں بھی پڑھی جا سکتی ہیں، چار بھی پڑھی جا سکتی ہیں، دو پڑھ کر پھر چار یعنی چھ بھی پڑھی جا سکتی ہیں، گھر میں پڑھیں یا مسجد میں، دونوں صورتیں جائز ہیں۔
➊ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
كان لا يصلي بعد الجمعة حتي ينصرف، فيصلي ركعتين فى بيته.

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد گھر لوٹ کر دو رکعتیں ادا کرتے۔“ [صحيح بخاري : 937، صحيح مسلم : 882]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت فرماتے :
والعمل عليٰ هٰذا عند بعض أهل العلم، وبه يقول الشافعي و أحمد .

”بعض اہل علم کا اس پر عمل ہے، امام شافعی اور امام احمد کا یہی مذہب ہے۔“ [ترمذي تحت : 521]
——————
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا صلٰي أحدكم الجمعة فليصل بعدها أربعا.

”جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھے، تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے۔“ [صحيح مسلم : 67/881]
❀ صحیح مسلم [69/881] ہی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من كان منكم مصليا بعد الجمعة فليصل أربعا.
”تم میں سے جو جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہے، وہ چار رکعتیں پڑھے۔“
——————
➌ ابن جریج کہتے ہیں کہ عطاء نے مجھے بتایا کہ انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جمعہ کے بعد نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ اپنی جمعہ والی جگہ سے تھوڑا سا سرک جاتے اور دو رکعتیں پڑھتے، پھر اس سے زیادہ چلتے اور چار رکعتیں ادا کرتے، میں نے عطا سے پوچھا : کہ آپ نے کتنی مرتبہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایسا کرتے دیکھا، تو کہا :، کئی مرتبہ۔ [سنن أبى داود : 1133، جامع ترمذي : 523، وسنده صحيح]

◈ حافظ نووی نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔ [خلاصة الأحكام : 812/2]
——————
➍ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں :
كان اذا كان بمكة فصلي الجمعة تقدم، فصلٰي ركعتين، ثم تقدم، فصلٰي أربعا، واذا كان بالمدينة صلى الجمعة، ثم رجع اليٰ بيته فصلٰي ركعتين ولم يصل فى المسجد، فقيل له ؛ فقال ؛ كان رسول اللٰه صلى اللٰه عليه وسلم يفعل ذٰلك.

”عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما جب مکہ ہوتے اور جمعہ پڑھتے تو (تھوڑا سا) آگے ہو کر دو رکعتیں پڑھتے اور جب مدینہ میں ہوتے تو جمعہ پڑھ کر گھر لوٹ آتے، پھر دو رکعتیں پڑھتے، مسجد میں نہ پڑھتے، ان سے پوچھا گیا تو فرمایا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کرتے تھے۔“ [سنن أبى داؤد : 223، وسنده صحيح]
◈ حافظ نووی نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔ [خلاصة الأحكام : 812/2]
فائدہ :
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت یہ پیش کی جاتی ہے :
أنه كان يكره أن يصلي بعد صلوة الجمعة مثلها.

”آپ رضی اللہ عنہ جمعہ کے بعد اسی طرح کی (دو رکعت) نماز پڑھنا ناپسند کرتے تھے۔“ [شرح معاني الآثار للطحاوي : 337/1]
↰ اس کی سند سفیان ثوری اور اعمش کی ”تدلیس“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
——————
➎ جبلہ بن سحیم کہتے ہیں :
انه كان يصلي قبل الجمعة أربعا لا يفصل بينهن بسلام، ثم بعد الجمعة ركعتين، ثم أربعا.

”ابن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، ان میں سلام کے ساتھ فاصلہ نہ ڈالتے، پھر جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے، پھر چار پڑھتے۔“ [شرح معاني الآثار : 335/1، وسنده صحيح]
——————
➏ ابوعبدالرحمٰن السلمی کہتے ہیں :
كان ابن مسعود يأمرنا أن نصلي قبل الجمعة أربعا و بعدها أربعا.

”سیدنا عبداللہ بن مسعود ہمیں نماز جمعہ سے پہلے اور بعد چار رکعتیں پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔“ [الأوسط لابن المنذر : 1880، وسنده حسن]
◈ عبداللہ بن حبیب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 133/2]
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس میں شریک اور ابواسحٰق دونوں ”مدلس“ ہیں۔
◈ ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 133/2]

اس کی سند“ ضعیف ”ہے،
ابوعبیدہ کا اپنے باپ سے کوئی سماع نہیں۔
◈ مسیب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 33/2 و سنده صحيح]

علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود جمعہ کے بعد چار اکٹھی رکعات ادا کرتے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 133/2]
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس میں حجاج بن ارطاۃ ”ضعیف و مدلس“ اور حماد بن ابی سلیمان ”مختلط“ اور ابراہیم نخعی ”مدلس“ ہے،
لہٰذا سند ”ضعیف“ ہے۔
——————
◈ ابوحصین کہتے ہیں :
رأيت الأسود بن يزيد صلٰي بعد الجمعة أربعا.

”میں نے اسود بن یزید کو دیکھا، آپ نے جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑھیں۔“
◈ عمران بن حدیر کہتے ہیں :
اذا سلم الامام صلٰي ركعتين يوم الجمعة، واذا رجع صلٰي ركعتين .

”ابومجلز جب جمعہ کے دن امام سلام پھیرتا تو دو رکعتیں پڑھتے، پھر واپسی کے وقت دو رکعتیں ادا کرتے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 133/2، وسندهما صحيح]
جمعہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چار رکعتیں پڑھنا ثابت نہیں ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
◈ ابوعبدالرحمٰن السلمی سے روایت ہے :
أنه كان يصلي بعد الجمعة ستا.

”سیدنا علی رضی اللہ عنہ جمعہ کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے تھے۔“ [تقدمة الجرح و التعديل : 167، وسنده صحيح]
◈ ابوبکر بن ابی موسیٰ اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتے ہیں :
انه كان يصلي بعد الجمعة ست ركعات.

”آپ جمعہ کے بعد چھے رکعات ادا کرتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 132/2، و سنده صحيح]
◈ ابراہیم نخعی کہتے ہیں :
صل بعد الجمعة ركعتين، ثم صل بعد ما شئت.

”جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھ، پھر اس کے بعد جتنی چاہے پڑھتا رہ۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 132/2 و سنده حسن]
◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں :
ان شئت صليت أربعا، وان شئت صليت ست ركعات مثنٰي مثنٰي، كذا أختار أنا، وان شئت صليت أربعا فلا بأس.

”اگر چاہے تو چار پڑھ اور چاہے تو چھ پڑھ، دو دو کر کے، یہ مجھے پسند ہے، اگر چاہے تو چار پڑھ لے اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔“ [مسائل احمد لابنه عبدالله : 123]
◈ امام ابن المنذر فرماتے ہیں :
ان شاء صلى ركعتين، وان شاء أربعا، ويصلي أربعا يفصل بين كل ركعتين بتسليم أحب الي.

” نماز جمعہ ادا کرنے والا چاہے تو دو رکعتیں پڑھے، چاہے چار، چار پڑھے تو دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرنا مجھے زیادہ پسند ہے۔“ [الأوسط لا بن المنذر : 127/4]
اس تھریڈ کی مناسبت سے ناچیز کی ایک ادنی کوشش بھی دیکھ لی جائے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اس تھریڈ کی مناسبت سے ناچیز کی ایک ادنی کوشش بھی دیکھ لی جائے ۔
نماز جمعہ کی رکعات اور اس کے چند مسائل



شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)


اسلام میں نماز جمعہ کی بڑی اہمیت، اس کےبے شمار فضائل اوراس دن کےبے پناہ فیوض وبرکات ہیں ، اس اہمیت وفضیلت کے پیش نظر اس کی تیاری کا خصوصی حکم دیا گیا ہے اوراس نماز کے واسطے آنے کے آداب اور اس سے متعلق متعدد احکام بھی بیان کئے گئے ہیں ۔ خوش نصیب وہ ہے جوجمعہ کی عمدہ تیاری کرے، وقت سے پہلے مسجد میں حاضر ہو، توفیق الہی کے بقدر نوافل کی ادائیگی کرے، خطبہ غور سے سنے اور فرائض وسنن کی ادائیگی سے لیکر اس دن سے متعلق مسنون اعمال وافعال انجام دے مثلا غسل ، خوشبو ، مسواک ،سورہ کہف کی تلاوت ، کثرت درود اور قبولیت کی ساعت سے استفادہ وغیرہ ۔
اس جگہ صحیح احادیث میں وارد نماز جمعہ کی رکعات کو بیان کرنا مقصود ہے تاکہ عوام کو اس نمازکی اصل رکعات سے آگاہی ہو اور لوگوں میں پھیلے نماز جمعہ سے متعلق غلط خیال کا سد باب ہو۔ نماز جمعہ کی رکعات کو میں تین صورتوں میں بیان کروں گا ۔
پہلی صورت : اس صورت میں تین باتیں ذکر کرنا مفیدسمجھتا ہوں ۔
(1) یہ بات جانتے ہوئے کہ نماز جمعہ سے قبل جمعہ کی کوئی مخصوص سنت نہیں ہے پھر بھی خطبہ سے قبل جس قدر نوافل پڑھنا چاہیں ہم پڑھ سکتے ہیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من اغتسل ، ثمَّ أتَى الجمعةَ ، فصلَّى ما قُدِّر له . ثمَّ أنصت حتَّى يفرَغَ من خطبتِه . ثمَّ يصلِّي معه ، غُفر له ما بينه وبين الجمعةِ الأخرَى ، وفضلُ ثلاثةِ أيَّامٍ(صحيح مسلم:857)
ترجمہ: جس نے غسل کیا،پھر جمعے کے لئے حاضر ہوا،پھر اس کے مقدر میں جتنی نفل نماز تھی پڑھی،پھر خاموشی سےخطبہ سنتا رہا حتیٰ کہ خطیب اپنے خطبے سے فارغ ہوگیا،پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی،اس کے اس جمعے سے لے کر ایک اور جمعے تک کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور مزید تین دنوں کے بھی۔
تو یہ نماز نوافل شمار ہوں گی اور اس کی کوئی تحدید نہیں ہے جس کو جتنی رکعت پڑھنے کی خواہش ہو پڑھے ۔دو، چار، چھ ، آٹھ، بارہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ صحابہ کرام سے نماز جمعہ سے قبل متعدد رکعات پڑھنا منقول ہے مثلاقتادہ رضی اللہ عنہ سے چاراور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بارہ رکعات تواس سے ہم یہ دلیل نہیں اخذ کریں گے کہ یہ نماز جمعہ سے قبل کی سنن مؤکدہ ہے بلکہ نوافل کے ہی زمرے میں داخل ہے اس لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ جمعہ کی نماز سے قبل کچھ بھی سنت نماز ثابت نہیں ہے ۔
(2) خطبہ سے پہلے آنے والا نوافل نہ ادا کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن پھر بھی کم ازکم دو رکعت اسے تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہئے جیساکہ فرمان نبوی ہے :
إذا دخَل أحدُكمُ المسجدَ، فلا يَجلِسْ حتى يصلِّيَ ركعتينِ .(صحيح البخاري:1167)
ترجمہ:جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو دو رکعت نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔
(3) بسا اوقات ہم میں سے کسی کو جمعہ کے دن اس وقت آنا ممکن ہوتا ہے جب امام ممبر پر خطبہ کے لئے آجائے یا خطبہ دے رہاہوں ۔ یاد رہے جان بوجھ کرجمعہ کے دن تاخیر سے آنا بڑی محرومی کا سبب ہے۔ جب امام ممبر پر بیٹھ جائے یا خطبہ دے رہاہوں تو اس حالت میں مسجد میں داخل ہونے والا دو رکعت تحیۃ المسجد ہلکے انداز میں پڑھ کر بیٹھے گا ۔ اس کی دلیل جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ ایک مرتبہ ایک صحابی سلیک غطفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کے دن اس وقت آئے جب رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے تو وہ بیٹھ گئے۔آپ نے ان سے مختصرا دو رکعت نماز ادا کرنے کو کہا اور فرمایا:
إذا جاء أحدكم ، يومَ الجمعةِ ، والإمامُ يخطبُ ، فليركع ركعتينِ ، وليتجوَّزْ فيهما(صحيح مسلم:875)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی جمعہ کےدن آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھے اور ان میں اختصار کرے۔
اس دلیل سے ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ جو لوگ خطبہ کے وقت آنے والے کو دو گانہ ادا کرنے سے منع کرتے ہیں دراصل وہ لوگ سنت کی مخالفت کرتے ہیں ۔
دوسری صورت : اس صورت میں یہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ نماز جمعہ کے طور پر صرف دو رکعت فرض ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن أدرَكَ منَ الجمعةِ رَكْعةً فليصلِّ إليها أخرَى . (صحيح ابن خزيمة للالبانی:1851)
ترجمہ: جو شخص جمعہ سے ایک رکعت پالے تو اسکے ساتھ دوسری آخری رکعت ملا لے۔
ایک دوسری روایت میں اس طرح سے وارد ہے :
من أدرَكَ رَكعةً منَ الجمعةِ أو غيرِها فقد تمَّت صلاتُهُ(صحيح النسائي:556)
ترجمہ: جس نے جمعہ کی یا کسی اور نماز کی ایک رکعت پالی تو اس کی نماز پوری ہوگئی ۔
مذکورہ پہلی حدیث سے نماز جمعہ کے طور پر دو رکعت فرض ہونا ثابت ہوتا ہے وہ اس طرح کہ نماز جمعہ میں دیر سے آنے والے کسی مسبوق کو ایک رکعت امام کے ساتھ ملے تو اسے نبی ﷺ نے قضا کے طورپرصرف ایک رکعت مزید پڑھنے کا حکم دیا ہے گویا کل دو رکعتیں ہی ہوئیں ۔ دوسری حدیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جس نے جمعہ کی ایک رکعت بھی پالی تو اس نے جمعہ کی نماز پالی البتہ جو ایک رکعت بھی نہ پاسکے وہ جمعہ کی نماز سے محروم ہوگیا اسے اب جمعہ کی جگہ ظہر کی چار رکعت نماز ادا کرنا پڑے گا ۔مثال سے یوں سمجھ لیں کہ کوئی امام کو دوسری رکعت کے سجدہ میں یا تشہد میں پائے تو اس سے نماز جمعہ فوت ہوگئی اسے ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی ۔
ایک امر کی وضاحت : حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ جس سے خطبہ جمعہ چھوٹ جائے وہ چار رکعت نماز ادا کرے ۔
كانتِ الجمعةُ أربعًا فجُعِلَتْ ركعتينِ من أجلِ الخُطبةِ فمن فاتتهُ الخطبةُ فليُصَلِّ أربعًا۔(رواه ابن أبي شيبة :1/461)
ترجمہ: جمعہ کی نماز چار رکعت تھی پس خطبہ کی وجہ سے دو رکعت کردی گئی توجس سے خطبہ فوت ہوجائے وہ چار رکعت ادا کرے ۔
اسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس روایت کو شیخ البانی نے منقطع کہا ۔(إرواء الغليل:3/72)
تیسری صورت : اب یہاں نماز جمعہ کے بعد وارد شدہ روایات بیان کی جاتی ہیں جن میں تین قسم کی باتیں منقول ہیں ۔
(1) ایک قسم نماز جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھنے کی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہےوہ نبی ﷺ کے متعلق بیان کرتے ہیں:
وكان لا يُصلِّي بعدَ الجمُعةِ حتى يَنصَرِفَ، فيُصلِّي ركعتَينِ .(صحيح البخاري:937)
ترجمہ: جمعہ کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے تاآنکہ گھر لوٹ آتے، واپس آ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
(2) دوسری قسم جس میں چار رکعتیں پڑھنے کا ذکر ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا صلَّى أحدُكم الجمعةَ فليصلِّ بعدها أربعًا(صحيح مسلم؛881)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھ چکے تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے۔
(3) اور تیسری قسم میں چھ رکعات کا ذکر آیا ہے ۔
عنِ ابنِ عمرَ قالَ : كانَ إذا كانَ بمَكةَ فصلَّى الجمعةَ تقدَّمَ فصلَّى رَكعتَينِ ثمَّ تقدَّمَ فصلَّى أربعًا وإذا كانَ بالمدينةِ صلَّى الجمعةَ ثمَّ رجعَ إلى بيتِه فصلَّى رَكعتَينِ ولم يصلِّ في المسجدِ فقيلَ لَه فقالَ كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يفعلُ ذلِك(صحيح أبي داود:1130)
ترجمہ: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق عطاء کہتے ہیں کہ وہ جب مکے میں ہوتے ، اور جمعہ پڑھتے تو آگے بڑھ کر دو رکعتیں پڑھتے ، پھر آگے بڑھتے اور چار رکعتیں پڑھتے اور جب مدینے میں ہوتے اور جمعہ پڑھتے تو اس کے بعد گھر لوٹ جاتے اور دو رکعتیں ادا کرتے اور مسجد میں نہ پڑھتے ۔ آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایسے ہی کیا کرتے تھے ۔
ان ساری روایات کو سامنے رکھتے ہوئےشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر مسجد میں جمعہ کے بعد سنت ادا کریں تو چار رکعت اور گھر میں ادا کرنا چاہیں تو صرف دو رکعت پڑھیں ۔ مسجد میں چھ رکعت بھی سنت ادا کرسکتے ہیں جیساکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے تاہم گھر میں ادا کرتے وقت دو رکعتیں ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نماز جمعہ سے پہلے کوئی سنت نہیں ہے صرف دو رکعت تحیۃ المسجد ہے البتہ نفل کے طور پر کوئی جس قدر چاہے پڑھے اس کی تحدید نہیں ہے اور نماز جمعہ کے بعد سنت نماز دو ، چار اور چھ رکعات تک پڑھنا ثابت ہے لہذا کوئی دو پڑھ لے یا کوئی چار اور کوئی چھ پڑھ لے سارے طریقے درست ہیں ۔
بعض تنبیہات و اصلاحات :
پہلی بات :احناف کے یہاں نماز جمعہ سے قبل چار سنت موکدہ اور بعد میں چار یا چھ سنت موکدہ بیان کیا جاتا ہے سو معلوم ہونا چاہئے کہ نماز جمعہ سے قبل سنت نماز ثابت نہیں ہے اوراس سے متعلق جن آثار صحابہ کو بنیاد بناکر سنت موکدہ کا حکم لگایا جاتا ہے وہ دراصل نوافل ہیں سنن نہیں ۔
دوسری بات: یہ کہ نماز جمعہ کو نماز ظہر پر قیاس نہیں کیا جائے گا ، نہ ہی اس کی طرح رکعات ادا کئے جائیں گے ۔ نماز جمعہ الگ نماز ہے اور اس کے احکام ورکعات بھی مستقل طور پر بیان کئے گئے ہیں۔
تیسری بات : یہ ہے کہ جو لوگ گاؤں دیہات میں نماز جمعہ کے بعد ظہر احتیاطی کے طور چار رکعت پڑھتے ہیں وہ سراسر سنت کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل سنت میں موجود نہیں ہے ۔
 
Top