عبدالرحمن لاہوری
رکن
- شمولیت
- جولائی 06، 2011
- پیغامات
- 126
- ری ایکشن اسکور
- 462
- پوائنٹ
- 81
اگرچہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ کسی وقت اگر نماز جنازہ میں فاتحہ جہرا یعنی اونچی آواز سے پڑھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن ہمارے اہل حدیث حضرات کے ہاں تو یہ ایک مستقل طریقہ بن گیا ہے اور سری طور جنازہ تو پڑھا ہی نہیں جاتا الا ماشاء اللہ۔ عموما جن روایات سے جہر بالفاتحہ کا استدلال کیا جاتا ہے وہ سب کی سب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثار ہیں:
عن طلحة بن عبد الله بن عوف أخي عبد الرحمن بن عوف قال : صليت خلف ابن عباس على جنازة ، فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة ، فجهر حتى سمعنا ، فلما انصرف أخذت بيده فسألته عن ذلك ؟ فقال : سنةٌ وحقٌ .
عن زيد بن طلحة التيمي قال : سمعت ابن عباس قرأ على جنازة فاتحة الكتاب وسورة وجهر بالقراءة ، وقال : إنما جهرتُ لأعلمكم أنها سنةٌ والإمام كفاها ، وسنده صحيحٌ .
عن محمد بن عجلان ، عن سعيد بن أبي سعيد قالا : سمعت ابنُ عباس يجهر بفاتحة الكتاب في الجنازة ويقول : إنما فعلتُ لتعلموا أنها سنةٌ ، وسنده جيدٌ .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ إنما جهرتُ لأعلمكم أنها سنةٌ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ اپنے مقتدیوں کو یہ تعلیم دے رہے تھے کہ نماز جنازہ میں بھی فاتحہ پڑھنا سنت سے ثابت ہے لحاظہ اس کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔ جمہور علماء نے نماز جنازہ میں جہر بالفاتحہ کو عوام الناس کو تعلیم دینے کے ساتھ خاص کیا ہے اور قراۃ و دعا کو سری طور پر پڑھنے کو مستحب کہا ہے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیشتر احادیث سے ثابت ہے:
فالسنة أن يسر بالقراءة والدعاء في الصلاة على الجنازة، قال ابن قدامة في المغني: فصل: ويسر القراءة والدعاء في صلاة الجنازة لا نعلم بين أهل العلم فيه خلافاً، ولا يقرأ بعد أم القرآن شيئاً، وقد روي عن ابن عباس أنه جهر بفاتحة الكتاب، قال أحمد: إنما جهر ليعلمهم. انتهى.
"سنت یہ ہے کہ نماز جنازہ میں قراۃ و دعا سری طور پر پڑھی جائے، ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نماز جنازہ میں قراۃ و دعا سری طور پر پڑھی جائے گی اور ہمیں اس بارے میں اہل علم کے کسی اختلاف کا علم نہیں ہے اور ام القران (فاتحہ) کے بعد کچھ نہیں پڑھا جائے گا اور تحقیق ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فاتحہ جہری طور پر پڑھی، امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: حقیقتا انہوں نے جہر اس لئیے کیا تاکہ لوگوں کو تعلیم دے سکیں"
بہر حال تعلیم کی غرض سے جہر کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہمارے علماء دونوں طرح پڑھنے کو سنت مانتے ہیں تو صرف جہر کیوں کرتے ہیں جبکہ یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اثر ہے اور سری طور پر پڑھنا نبی علیہ السلام کی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
عن طلحة بن عبد الله بن عوف أخي عبد الرحمن بن عوف قال : صليت خلف ابن عباس على جنازة ، فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة ، فجهر حتى سمعنا ، فلما انصرف أخذت بيده فسألته عن ذلك ؟ فقال : سنةٌ وحقٌ .
عن زيد بن طلحة التيمي قال : سمعت ابن عباس قرأ على جنازة فاتحة الكتاب وسورة وجهر بالقراءة ، وقال : إنما جهرتُ لأعلمكم أنها سنةٌ والإمام كفاها ، وسنده صحيحٌ .
عن محمد بن عجلان ، عن سعيد بن أبي سعيد قالا : سمعت ابنُ عباس يجهر بفاتحة الكتاب في الجنازة ويقول : إنما فعلتُ لتعلموا أنها سنةٌ ، وسنده جيدٌ .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ إنما جهرتُ لأعلمكم أنها سنةٌ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ اپنے مقتدیوں کو یہ تعلیم دے رہے تھے کہ نماز جنازہ میں بھی فاتحہ پڑھنا سنت سے ثابت ہے لحاظہ اس کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔ جمہور علماء نے نماز جنازہ میں جہر بالفاتحہ کو عوام الناس کو تعلیم دینے کے ساتھ خاص کیا ہے اور قراۃ و دعا کو سری طور پر پڑھنے کو مستحب کہا ہے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیشتر احادیث سے ثابت ہے:
فالسنة أن يسر بالقراءة والدعاء في الصلاة على الجنازة، قال ابن قدامة في المغني: فصل: ويسر القراءة والدعاء في صلاة الجنازة لا نعلم بين أهل العلم فيه خلافاً، ولا يقرأ بعد أم القرآن شيئاً، وقد روي عن ابن عباس أنه جهر بفاتحة الكتاب، قال أحمد: إنما جهر ليعلمهم. انتهى.
"سنت یہ ہے کہ نماز جنازہ میں قراۃ و دعا سری طور پر پڑھی جائے، ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نماز جنازہ میں قراۃ و دعا سری طور پر پڑھی جائے گی اور ہمیں اس بارے میں اہل علم کے کسی اختلاف کا علم نہیں ہے اور ام القران (فاتحہ) کے بعد کچھ نہیں پڑھا جائے گا اور تحقیق ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فاتحہ جہری طور پر پڑھی، امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: حقیقتا انہوں نے جہر اس لئیے کیا تاکہ لوگوں کو تعلیم دے سکیں"
بہر حال تعلیم کی غرض سے جہر کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہمارے علماء دونوں طرح پڑھنے کو سنت مانتے ہیں تو صرف جہر کیوں کرتے ہیں جبکہ یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اثر ہے اور سری طور پر پڑھنا نبی علیہ السلام کی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔