محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
نمبر 1: حوصلہ دیجئے اور مثبت سوچ پیدا کیجئے
آپ ﷺ غار حرا میں ہیں۔
اللہ کا ایک فرشتہ آتا ہے اور کہتا ہے: پڑھئے
آپ ﷺ کہتے ہیں: میں پڑھنا نہیں جانتا
یہ سن کر فرشتہ آپ ﷺ کو زور سے بھیچتا ہے، پھر چھوڑ کر کہتا ہے: پڑھئے
آپ ﷺ دوبارہ وہی جواب دیتے ہیں کہ : میں پڑھنا نہیں جانتا
فرشتہ آپ ﷺ کو پکڑ کر دوسری بار بھیچتا ہے اور کہتا ہے: پڑھئے
آپ ﷺ تیسری مرتبہ بھی وہی کہتے ہیں: میں پڑھنا نہیں جانتا
اب تیسری بار فرشتہ آپ ﷺ کو پکڑ کر اس زور سے بھیچتا ہے کہ آپ ﷺ کو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے اور چھوڑ کر پھر کہتا ہے:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (١) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (٢) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (٣) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (٤) عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (٥) سورة العلق
’’ پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا (1) جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا (2) پڑھیئے کہ آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے (3) جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا (4) جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا (5)‘‘۔ سورة العلق
پھر آپ ﷺ فرشتہ کے ساتھ ساتھ ان کلمات کو دھرانے لگتے ہیں۔ آپ ﷺ کے قلب مقدس پر وحی کی نزول کا یہ پہلا تجربہ ہے۔ دل پر دباؤں ہے، لرزا طاری ہے، خوف کا غلبہ بھی ہو رہا ہے, سارا جسم کانپ رہا ہے۔ اسی حالت میں وحی مقدس پڑھتے ہوئے غار حرا سے اتر کر آ رہے ہیں۔ آپ ﷺ اپنے گھر تشریف لاتے ہیں اور اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ سے فرماتے ہیں:
’’ مجھے کمبل اوڑھا دو‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’ مجھے کمبل اوڑھا دو‘‘
آپ ﷺ کو کمبل اوڑھا دیا جاتا ہے۔
جب آپ ﷺ کو کچھ سکون ہوتا ہے تو آپ ﷺ حضرت خدیجہؓ سے سارا واقعہ بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’میری جان کو خطرہ ہے‘‘۔
حضرت خدیجہؓ کہتی ہیں:
’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا‘‘۔
کیونکہ
1. آپ (ﷺ) تو صلہ رحمی کرتے ہیں،
2. ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں،
3. محتاجوں کے لئے کماتے ہیں،
4. مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور
5. حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں،
اس بار نبی کریم ﷺکافی پریشان ہیں۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کو اتنا پریشان ہوتے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ایسی حالت میں عام طور پر خواتین خود پریشان ہوکر ہاتھ پاؤں چھوڑ دیتی ہیں۔ لیکن آپ ﷺ کی وفا شعار عقیلہ و فہیمہ بیوی یہ سمجھ گئیں کہ یہ موقع حوصلہ کھونے کا نہیں بلکہ حوصلہ دینے کا ہے۔ آپ جانتی تھیں کہ ایسے موقع پر شوہر کو توجہ اور پیار چاہئے ہوتا ہے، بیوی کو شوہر کا سہارا بننا پڑتا ہے اور شوہر کے دل میں مثبت سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا آپؓ نے وہی کیا۔
دیکھئے ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کس خوبصورت انداز میں آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی اچھائیاں اور خوبیاں یاد دلاتی ہیں اور آپ ﷺ کے دل میں مثبت سوچ پیدا کرتی ہیں۔ آپؓ اپنے اس عمل سے امت کو کسی کے دل میں اور خاص کر امت کی بیٹیوں کو اپنے شوہروں کے دلو میں مثبت سوچ پیدا کرنے کی قاعدہ کلیہ سکھا دیتی ہیں، جس سے امت قیامت تک فائدہ اٹھاتی رہے گی، ان شاء اللہ۔
قاعدہ: کسی میں مثبت سوچ پیدا کرنے کیلئے اُسے اسکی نیکیاں، اچھائیاں اور خوبیاں یاد دلائیے اور حوصلہ دیجئے۔
یاد رکھئے: مثبت سوچ زندگی سنوارتی ہے اور کامیابی دلاتی ہے دنیا و آخرت دونوں میں۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
آپ ﷺ غار حرا میں ہیں۔
اللہ کا ایک فرشتہ آتا ہے اور کہتا ہے: پڑھئے
آپ ﷺ کہتے ہیں: میں پڑھنا نہیں جانتا
یہ سن کر فرشتہ آپ ﷺ کو زور سے بھیچتا ہے، پھر چھوڑ کر کہتا ہے: پڑھئے
آپ ﷺ دوبارہ وہی جواب دیتے ہیں کہ : میں پڑھنا نہیں جانتا
فرشتہ آپ ﷺ کو پکڑ کر دوسری بار بھیچتا ہے اور کہتا ہے: پڑھئے
آپ ﷺ تیسری مرتبہ بھی وہی کہتے ہیں: میں پڑھنا نہیں جانتا
اب تیسری بار فرشتہ آپ ﷺ کو پکڑ کر اس زور سے بھیچتا ہے کہ آپ ﷺ کو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے اور چھوڑ کر پھر کہتا ہے:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (١) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (٢) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (٣) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (٤) عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (٥) سورة العلق
’’ پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا (1) جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا (2) پڑھیئے کہ آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے (3) جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا (4) جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا (5)‘‘۔ سورة العلق
پھر آپ ﷺ فرشتہ کے ساتھ ساتھ ان کلمات کو دھرانے لگتے ہیں۔ آپ ﷺ کے قلب مقدس پر وحی کی نزول کا یہ پہلا تجربہ ہے۔ دل پر دباؤں ہے، لرزا طاری ہے، خوف کا غلبہ بھی ہو رہا ہے, سارا جسم کانپ رہا ہے۔ اسی حالت میں وحی مقدس پڑھتے ہوئے غار حرا سے اتر کر آ رہے ہیں۔ آپ ﷺ اپنے گھر تشریف لاتے ہیں اور اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ سے فرماتے ہیں:
’’ مجھے کمبل اوڑھا دو‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’ مجھے کمبل اوڑھا دو‘‘
آپ ﷺ کو کمبل اوڑھا دیا جاتا ہے۔
جب آپ ﷺ کو کچھ سکون ہوتا ہے تو آپ ﷺ حضرت خدیجہؓ سے سارا واقعہ بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’میری جان کو خطرہ ہے‘‘۔
حضرت خدیجہؓ کہتی ہیں:
’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا‘‘۔
کیونکہ
1. آپ (ﷺ) تو صلہ رحمی کرتے ہیں،
2. ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں،
3. محتاجوں کے لئے کماتے ہیں،
4. مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور
5. حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں،
اس بار نبی کریم ﷺکافی پریشان ہیں۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کو اتنا پریشان ہوتے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ایسی حالت میں عام طور پر خواتین خود پریشان ہوکر ہاتھ پاؤں چھوڑ دیتی ہیں۔ لیکن آپ ﷺ کی وفا شعار عقیلہ و فہیمہ بیوی یہ سمجھ گئیں کہ یہ موقع حوصلہ کھونے کا نہیں بلکہ حوصلہ دینے کا ہے۔ آپ جانتی تھیں کہ ایسے موقع پر شوہر کو توجہ اور پیار چاہئے ہوتا ہے، بیوی کو شوہر کا سہارا بننا پڑتا ہے اور شوہر کے دل میں مثبت سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا آپؓ نے وہی کیا۔
دیکھئے ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کس خوبصورت انداز میں آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی اچھائیاں اور خوبیاں یاد دلاتی ہیں اور آپ ﷺ کے دل میں مثبت سوچ پیدا کرتی ہیں۔ آپؓ اپنے اس عمل سے امت کو کسی کے دل میں اور خاص کر امت کی بیٹیوں کو اپنے شوہروں کے دلو میں مثبت سوچ پیدا کرنے کی قاعدہ کلیہ سکھا دیتی ہیں، جس سے امت قیامت تک فائدہ اٹھاتی رہے گی، ان شاء اللہ۔
قاعدہ: کسی میں مثبت سوچ پیدا کرنے کیلئے اُسے اسکی نیکیاں، اچھائیاں اور خوبیاں یاد دلائیے اور حوصلہ دیجئے۔
یاد رکھئے: مثبت سوچ زندگی سنوارتی ہے اور کامیابی دلاتی ہے دنیا و آخرت دونوں میں۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔