محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
نمبر 5 : مثبت سوچ - دل کو اسکی غذا دیجئے
جب ہم پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ کوئی کام کرتے ہیں جیسے کوئی کتاب پڑھنے، یا کچھ اور کرتے ہیں تو ہمارا ذہن پوری طرح اسی کام میں لگا رہتا ہے اور اِدھر اُدھر کی کوئی اور خیال اس میں نہیں آتا، کسی اور سوچ کا ذہن پر یلغار نہیں ہوتا۔ لیکن جوں ہی ہم انہماکیت سے نکلتے ہیں یا ہمارا توجہ بٹتا ہے یا ہماری مصروفیت ختم ہوتی ہے تو ہمارے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
انگریزی کی ایک کہاوت ہے: ’’Empty Mind is Evil’s Workshop’’
یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ جب آدمی فارغ یا بیکار رہتا ہے تو اس کا ذہن خالی رہتا ہے اور اس وقت اس کے ذہن میں زیادہ تر منفی سوچ ہی پیدا ہوتی ہیں۔ ہماری سوچ کا مرکز ہمارا دل ہے۔ سوچ سے کبھی کوئی دل خالی نہیں رہتا۔ چاہے ہم جاگے ہوں یا سوئے ہوں، ہمارا دل ہر لمحہ سوچتا رہتا ہے اور جو سوچتا ہے اسے ہمارے ذہن کو بھیجتا رہتا ہے۔
اگر ہمارے دل کو اسکی غذا ملتی رہے اور وہ تندرست و توانا ہو تو اس میں مثبت اور تعمیری سوچ پیدا ہوتی ہے اور اگر دل کو اس کی صحیح غذا نہیں ملے تو وہ بیمار ہو جائے تو وہ شیطان کا مسکن یا ورکشاپ بن جاتا ہے پھر اس میں زیادہ تر منفی سوچ پیدا ہوتی ہے۔
لہذا مثبت سوچ کیلئے دل کو اس کی صحیح غذا دینا اور اسے اس کی مناسب کام میں لگائے رکھنا اور حرام و مشتبہ کام سے بچائے رکھنا ضروری ہے۔
ہمارے دل کی غذا ’’ایمان اور تقویٰ‘‘ ہے۔ لہذا مثبت سوچ کیلئے دل کو اسکی غذا دیجئے اور اپنے دل کو صحیح کیجئے۔
کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’یاد رکھو انسانی جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے، سن لو! وہ دل ہے‘‘۔ (صحيح البخاري، حدیث نمبر: 52)
پھر آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: بندے کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل صحیح نہ ہو‘‘۔(مسند احمد)
ایمان کیا ہے؟
توحید و رسالت کی گواہی کے ذریعے دین کے دائرے میں داخل ہونا اسلام ہے اور اسلام کو دل میں بسا لینے کا نام ایمان ہے۔ یا یوں سمجھیں کہ اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی تمام باتوں کا یقین کرنے اور دل سے سچ جاننے کا نام ایمان ہے۔ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل میں ایمان ہے یا نہیں، اسے صرف اللہ جانتا ہے لیکن یہ بندۂ مومن کے قول و عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔
تقویٰ کیا ہے؟
تقویٰ کا مطلب ہے پرہیز گاری، نیکی اور ہدایت کی راہ۔
تقویٰ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت، رغبت، خوف و خشیت کے ملے جلے اُس کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ کر گناہوں کو چھوڑنے اور احکام الٰہی کوبجا لانے کا پختہ عزم و ارادہ پیدا ہوتا ہے اور پھر بندے کا عمل بھی اسی کے مطابق ہو جاتا ہے۔
قرآن کریم میں تقویٰ کا اطلاق تین معنی میں ہوا ہے ۔
خوف وخشیت الہٰی
طاعت وعبادت
معاصی اور گناہ سے اجتناب
آپ ﷺ نے اپنے قلبِ اطہر کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا! ’’ تقویٰ یہاں ہوتا ہے' ! تقویٰ یہاں ہوتا ہے' ! تقویٰ یہاں ہوتا ہے‘‘ ۔ (صحیح مسلم)
جب دل کو اخلاص کا تڑکہ کے ساتھ ’ایمان‘ اور ’تقویٰ‘ کی روشنی مل جاتی ہے تو وہ تندرست و توانا ہو جاتا ہے اور اسکی تندرستی ے آثار بندۂ مومن کے اعضاء وجوارح پر ظاہر ہوتے ہیں۔ پھر بندۂ مومن جب نماز، روزہ، عمرہ و حج، ذکاۃ، ذکر و اذکار، قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور و تدبر، علما و صالحین کی صحبت وغیرہ کے ساتھ اپنے دل کو مطلوب کام میں لگائے رکھتا ہے تو ایسا دل مثبت اور تعمیری سوچ میں لگ جاتا ہے اور وہ شیطان کا مسکن یا ورکشاپ نہیں بنتا۔
ذیل کی آیات ان ہی باتوں کو بیان کرتی ہیں:
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّـهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (28)۔ سورة الرعد
’’(یعنی) جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے تسکین ملتی ہے۔ یاد رکھو ذکرِ الٰہی سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘(28)۔ سورة الرعد
۔ ۔ ۔ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (11) سورة التغابن
’’۔ ۔ ۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے، اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے‘‘۔(11) سورة التغابن
وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (2) سورة الطلاق
’’اورجو کوئی تقویٰ الٰہی اختیار کرتا ہے اللہ اس کیلئے (رنج و غم سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دیتا ہے‘‘۔(2) سورة الطلاق
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ایمان اللہ تعالی کی اطاعت سے زیادہ ہوتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کرنے سے کم ہوتا ہے۔
نَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) سورة الأنفال
’’بیشک مومن تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں‘‘۔(2) سورة الأنفال
اللہ اکبر! ایمان اور تقویٰ مومن کا کتنا عظیم ہتھیار ہے۔
لہذا جس دل میں ایمان اور تقویٰ جتنا زیادہ ہوگا، اس میں منفی سوچ کا گزر اتنا ہی کم ہوگا۔
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں دل لگاتے ہیں، ان کے دلوں میں مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے۔
اصول: ایمان، تقویٰ اور عبادتِ الٰہی مثبت سوچ پیدا کرتی ہے۔
مثبت سوچ زندگی بناتی ہے، کامیابی دلاتی ہے
اے اللہ ہمارا ایمان بڑھا دے، ہمارے دلوں میں تقویٰ پیدا فرمادے اور ہمیں اپنی عبادت میں مصروف رکھ تاکہ ہم مثبت سوچیں اور مثبت کام کریں۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔*
جب ہم پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ کوئی کام کرتے ہیں جیسے کوئی کتاب پڑھنے، یا کچھ اور کرتے ہیں تو ہمارا ذہن پوری طرح اسی کام میں لگا رہتا ہے اور اِدھر اُدھر کی کوئی اور خیال اس میں نہیں آتا، کسی اور سوچ کا ذہن پر یلغار نہیں ہوتا۔ لیکن جوں ہی ہم انہماکیت سے نکلتے ہیں یا ہمارا توجہ بٹتا ہے یا ہماری مصروفیت ختم ہوتی ہے تو ہمارے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
انگریزی کی ایک کہاوت ہے: ’’Empty Mind is Evil’s Workshop’’
یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ جب آدمی فارغ یا بیکار رہتا ہے تو اس کا ذہن خالی رہتا ہے اور اس وقت اس کے ذہن میں زیادہ تر منفی سوچ ہی پیدا ہوتی ہیں۔ ہماری سوچ کا مرکز ہمارا دل ہے۔ سوچ سے کبھی کوئی دل خالی نہیں رہتا۔ چاہے ہم جاگے ہوں یا سوئے ہوں، ہمارا دل ہر لمحہ سوچتا رہتا ہے اور جو سوچتا ہے اسے ہمارے ذہن کو بھیجتا رہتا ہے۔
اگر ہمارے دل کو اسکی غذا ملتی رہے اور وہ تندرست و توانا ہو تو اس میں مثبت اور تعمیری سوچ پیدا ہوتی ہے اور اگر دل کو اس کی صحیح غذا نہیں ملے تو وہ بیمار ہو جائے تو وہ شیطان کا مسکن یا ورکشاپ بن جاتا ہے پھر اس میں زیادہ تر منفی سوچ پیدا ہوتی ہے۔
لہذا مثبت سوچ کیلئے دل کو اس کی صحیح غذا دینا اور اسے اس کی مناسب کام میں لگائے رکھنا اور حرام و مشتبہ کام سے بچائے رکھنا ضروری ہے۔
ہمارے دل کی غذا ’’ایمان اور تقویٰ‘‘ ہے۔ لہذا مثبت سوچ کیلئے دل کو اسکی غذا دیجئے اور اپنے دل کو صحیح کیجئے۔
کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’یاد رکھو انسانی جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے، سن لو! وہ دل ہے‘‘۔ (صحيح البخاري، حدیث نمبر: 52)
پھر آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: بندے کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل صحیح نہ ہو‘‘۔(مسند احمد)
ایمان کیا ہے؟
توحید و رسالت کی گواہی کے ذریعے دین کے دائرے میں داخل ہونا اسلام ہے اور اسلام کو دل میں بسا لینے کا نام ایمان ہے۔ یا یوں سمجھیں کہ اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی تمام باتوں کا یقین کرنے اور دل سے سچ جاننے کا نام ایمان ہے۔ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل میں ایمان ہے یا نہیں، اسے صرف اللہ جانتا ہے لیکن یہ بندۂ مومن کے قول و عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔
تقویٰ کیا ہے؟
تقویٰ کا مطلب ہے پرہیز گاری، نیکی اور ہدایت کی راہ۔
تقویٰ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت، رغبت، خوف و خشیت کے ملے جلے اُس کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ کر گناہوں کو چھوڑنے اور احکام الٰہی کوبجا لانے کا پختہ عزم و ارادہ پیدا ہوتا ہے اور پھر بندے کا عمل بھی اسی کے مطابق ہو جاتا ہے۔
قرآن کریم میں تقویٰ کا اطلاق تین معنی میں ہوا ہے ۔
خوف وخشیت الہٰی
طاعت وعبادت
معاصی اور گناہ سے اجتناب
آپ ﷺ نے اپنے قلبِ اطہر کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا! ’’ تقویٰ یہاں ہوتا ہے' ! تقویٰ یہاں ہوتا ہے' ! تقویٰ یہاں ہوتا ہے‘‘ ۔ (صحیح مسلم)
جب دل کو اخلاص کا تڑکہ کے ساتھ ’ایمان‘ اور ’تقویٰ‘ کی روشنی مل جاتی ہے تو وہ تندرست و توانا ہو جاتا ہے اور اسکی تندرستی ے آثار بندۂ مومن کے اعضاء وجوارح پر ظاہر ہوتے ہیں۔ پھر بندۂ مومن جب نماز، روزہ، عمرہ و حج، ذکاۃ، ذکر و اذکار، قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور و تدبر، علما و صالحین کی صحبت وغیرہ کے ساتھ اپنے دل کو مطلوب کام میں لگائے رکھتا ہے تو ایسا دل مثبت اور تعمیری سوچ میں لگ جاتا ہے اور وہ شیطان کا مسکن یا ورکشاپ نہیں بنتا۔
ذیل کی آیات ان ہی باتوں کو بیان کرتی ہیں:
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّـهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (28)۔ سورة الرعد
’’(یعنی) جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے تسکین ملتی ہے۔ یاد رکھو ذکرِ الٰہی سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘(28)۔ سورة الرعد
۔ ۔ ۔ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (11) سورة التغابن
’’۔ ۔ ۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے، اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے‘‘۔(11) سورة التغابن
وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (2) سورة الطلاق
’’اورجو کوئی تقویٰ الٰہی اختیار کرتا ہے اللہ اس کیلئے (رنج و غم سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دیتا ہے‘‘۔(2) سورة الطلاق
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ایمان اللہ تعالی کی اطاعت سے زیادہ ہوتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کرنے سے کم ہوتا ہے۔
نَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) سورة الأنفال
’’بیشک مومن تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں‘‘۔(2) سورة الأنفال
اللہ اکبر! ایمان اور تقویٰ مومن کا کتنا عظیم ہتھیار ہے۔
لہذا جس دل میں ایمان اور تقویٰ جتنا زیادہ ہوگا، اس میں منفی سوچ کا گزر اتنا ہی کم ہوگا۔
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں دل لگاتے ہیں، ان کے دلوں میں مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے۔
اصول: ایمان، تقویٰ اور عبادتِ الٰہی مثبت سوچ پیدا کرتی ہے۔
مثبت سوچ زندگی بناتی ہے، کامیابی دلاتی ہے
اے اللہ ہمارا ایمان بڑھا دے، ہمارے دلوں میں تقویٰ پیدا فرمادے اور ہمیں اپنی عبادت میں مصروف رکھ تاکہ ہم مثبت سوچیں اور مثبت کام کریں۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔*