پنجاب اسمبلی نے حکمران مسلم لیگ (ن) کے وزیر قانون راناثناء اللہ کی پاک فوج کے حق میں پیش کردہ قرار داد منظور کر لی ہے۔ اس میں ایوان نے افواج پاکستان کے ساتھ مکمل اور بھر پور یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔ اس کی خدمات اور قربانیوں کو سراہااور قومی اداروں کو سیاسی و گروہی مفادات کے لیے متنازعہ بنانے کی کوششوں کی مذمت کی گئی ہے۔
پیر کے روز جب ایوان میں یہ قرار داد پیش ہوئی تو اپوزیشن نے سخت ہنگامہ کیا۔ کیونکہ مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر مونس الٰہی بھی اسی طرح کی قرارداد پیش کرنا چاہتے تھے۔ لیکن قائم مقام سپیکر نے پہلے انہیں وقفہ سوالات تک ٹالا اور پھر اجازت دینے کی بجائے وزیر قانون رانا ثناء اللہ سے قرار داد پیش کروا دی۔ جس پر اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن ارکان اسمبلی کی سیڑھیوں پر پاک فوج کی حمایت میں نعرے لگاتے رہے۔ قرار داد پیش کرتے ہوئے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ایک دلچسپ جملہ کہا کہ قرار داد کی آڑ میں کسی کو نوکری کی درخواست دینے نہیں دیں گے۔ گویا یہ درخواست حکومت خود دے گی کہ اس کا استحقاق زیادہ ہے۔ اور ایسا ہی ہؤا۔
حکومت نے اپوزیشن یا ق لیگ کو فوج کے سامنے نمبر بنانے نہیں دئے البتہ خود قرار داد پیش کر کے منظور کروا دی۔ گو یا صرف نوکری کی درخواست ہی نہیں دی بلکہ پہلے سے جاری نوکری پکی کرانے کے لیے حق نمک بھی ادا کر دیا اور یہ فریضہ اسی مرد آہن کے ذریعے ادا کیا گیا جو سابقہ دور میں ایک پریس کانفرنس میں یہ الزامات لگاچکے تھے کہ انہیں پنجاب اسمبلی میں کچھ سخت باتیں کرنے پر فوج کے ادارے آئی ایس آئی نے اغوا کیا اور پھر ان کے سر کے بال، مونچھیں اور بھنویں مونڈ کر ایک ویرانے میں پھینک گئے۔ یہی راناصاحب گزشتہ ایک ماہ سے جیو کے ساتھ کھڑے ہیں جسے عملاً آئی ایس آئی والے اپنے خلاف قرار دیتے ہوں گے۔
پاکستانی سیاست کی اس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہو گی کہ سیاسی جماعتوں پر فوج کی نوکری کرنے یا نوکری کے لیے درخواستیں دینے کے الزامات لگ رہے ہیں اور یہ الزامات کوئی نئے نہیں ہیں۔ قیام پاکستان کے فوری بعد سے لگ رہے ہیں پھر یہ الزامات زیادہ غلط بھی نہیں ہیں۔ زمینی حقائق ان کی صداقت کی چغلی کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح کے الزامات ملکی میڈیا پر بھی ہیں۔ میڈیا ہاؤسز، ان کے مالکان اور صحافیوں کی اچھی خاصی تعداد پر ایسے الزامات ہیں۔ بہت سے صحافی، اینکر اور کالم نگار ان الزامات کو اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں اور اپنے ناقدین پر یہ طعنے کستے ہیں کہ دراصل وہ خود اس چاکری کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کے بارے میں یہی الزام چند دن پہلے وفاقی وزیر ریلوے اور متحرک مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے لاہور پریس کلب میں چند صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں دہرا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور طاہر القادری کے پیچھے فوج نہیں ہے۔ فوج اپنے معاملات میں پہلے ہی بہت زیادہ مصروف ہیں۔ حالات بھی ایسے نہیں ہیں۔ لوگوں کا مزاج بھی جمہوریت کے حق میں ہے۔ اس لئے ان تحریکوں کے پیچھے فوج کا ہاتھ نہیں ہے۔ تاہم یہ سیاسی عناصر خود اپنے لیے روز گار کی تلاش میں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ عوام تک یہ تاثر جائے کہ فوج ان کی پشت پر ہے۔ لیکن ان کی خواہش کے برعکس حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔
حکومت اور اس کے اعلیٰ دماغ یہ بات اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد سے کہہ رہے ہیں اور کبھی ضرورتاً اور کبھی بلا ضرورت اسے دہراتے رہتے ہیں۔ شاید وہ کچھ عرصہ بعد اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوں۔ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر اطلاعات، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد یہ جملہ ضرور دہراتے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ بعض نکتہ سنج دانشوروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو بار بار یہ بات کہنے کی ضرورت ہی اس لیے پیش آتی ہے کیوں کہ حکومت اور فوج ایک پیجپر نہیں ہیں۔
آیئے ذرا دیکھتے ہیں کہ کیا حکومت اور فوج واقعی ایک پیج ہیں۔ 11 مئی کے انتخابات کے فوری بعد غالباً 13 مئی کو مسلم لیگ (ق) کے سربراہ نواز شریف نے بھارتی ٹیلی ویژن این ڈی ٹی وی کی صحافی برکھادت کو ایک انٹرویو دیا جس میں کہا کہ وہ ہمیشہ بھارت سے اچھے اور دوستانہ تعلقات کے قائل ہیں اور ان تعلقات کو بہتر کریں گے۔ وہ خود بھارت جائیں گے بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر بھارتی وزیر اعظم نے انہیں دعوت نہ بھی دی تو وہ پھر بھی بھارت کا دورہ کریں گے۔ اس انٹرویو سے چند ماہ قبل بھارتی سکھوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے بھی انہوں نے بعض ایسی باتیں کی تھیں جنہیں میڈیا نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ان باتوں کو پاکستان کے وقار کے منافی قرار دیا تھا۔
اس ماحول میں جب حلف اٹھانے سے قبل نئے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات ہوئی تو 40 منٹ کی طے شدہ یہ ملاقات ساڑھے تین گھنٹوں تک جاری رہی۔ اور بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس میں پاک بھارت تعلقات اور اس معاملے پر فوج کے خدشات کا بھی تذکرہ ہؤا۔ گزشتہ ستمبر میں جب آل پارٹیز کانفرنس نے طالبان سے مذاکرات کرنے کا حکومت کو مینڈیٹ دیا تو کہا جاتا ہے کے فوج نے اس فیصلے کی تائید نہیں کی تھی۔ شاید اسی وجہ سے یہ معاملہ مزید چند ماہ لٹکتا رہا۔ جب حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے مذاکرات شروع ہوئے تو بات زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔ کیونکہ طالبان کے کئی مطالبات فوج سے متعلق تھے اور طالبان فوج ہی کی گارنٹی چاہتے تھے۔ مگر مذاکرات کے عمل میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔
اس دوران دہشت گرد کارروائیاں بھی جاری رہیں اور فوجی آپریشن بھی۔۔۔ اس طرح مذاکرات اور آپریشن کے ساتھ ساتھ چلنے سے حکومت اور فوج کے ایک بنچ پر ہونے کی اصل صورتحال سب کے سامنے آ گئی۔ پھر وزیر ستان میں آپریشن کی بات آئی تو فوج کا کہنا تھا کہ وہ وزیرستان میں چند ہفتوں میں امن قائم کر دے گی مگر بعد میں اسے طویل عرصہ وہیں قیام کرنا ہو گا۔ شاید حکومت کو یہ بات منظور نہیں تھی چنانچہ اس پر مکمل خاموشی اختیار کر لی گئی۔
سابق صدر پرویز مشرف پر مقدمہ شروع ہؤا تو فطری طور پر فوج کے بڑے حلقے میں اپنے سابق سربراہ کے لیے ہمدردی کے جذبات تھے۔ یہ جذبات حکومت تک پہنچائے بھی گئے۔ لیکن حکومت شاید انتقام کی آگ میں معاملات کو درست سمت میں سمجھنے سے انکاری تھی۔ جنرل پرویز مشرف عدالت جانے کے بجائے فوجی ہسپتال چلے گئے جہاں وہ کافی عرصہ مقیم رہے۔ اس دوران حکومتی وزراء بڑھکیں مارتے رہے اگر حکومت اور فوج ایک پیج پر ہوتے تو فوج پرویز مشرف کو حکومت کے حوالے کر دیتی۔ پھر جب ان پر فرد جرم عائد ہو گئی اور ان کے باہر جانے کے معاملے پر عدالت نے نرم رویہ اپنایا تو حکومت نے کابینہ کا اجلاس بلا کر ان کے باہر جانے کے راستے بند کر دئے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت میں پرویز مشرف کے بیرون ملک بھیجنے پر اتفاق ہو گیا تھا لیکن حکومت نے اس پر عمل نہ ہونے دیا۔ ایسے میں حکومت اور فوج ایک پیج پر کیسے ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد اور اس سے منسلک افواہوں پر بھی حکومتی اور عسکری قیادت کے نقطہء نظر میں اختلاف تھا۔ امریکہ کے ساتھ ہونے والی حکومتی عہدیداروں کی بات چیت اور نکات پر بھی یہی صورتحال تھی۔ اس ساری صورتحال کو حامد میر پر حملہ سے پیدا ہونے والے حالات نے مزید بھڑکا دیا۔ ایک طرف حامد میر کے بھائی آئی ایس آئی کے سربراہ کا نام لے کر ان پر حملے کا الزام لگا رہے تھے اور ان کا چینل یہ خبر جنرل ظہیر الاسلام کی تصویر کے ساتھ تواتر کے ساتھ چلا رہا تھا اور دوسری جانب حکومت صرف تماشہ دیکھ رہی تھی اور شاید صورتحال کو انجوائے کر رہی تھی۔ نہ وزیر اطلاعات اس صورتحال کا نوٹس لے رہے تھے نہ وزیر اعظم کو اس پر کوئی فکر مندی تھی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس معاملے پر جب آئی ایس پی آر نے جیو اور حکومت سے رابطہ کیا تو ابتدا میں جیو انتظامیہ نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔ چنانچہ یہ رائے بن گئی کہ حکومت جیو کے ساتھ ہے۔ چند گھنٹوں بعد جب وزیر اطلاعات ی نے یہ بیان دیا کہ حکومت دلیل والوں کے ساتھ ہے غلیل والوں کے ساتھ نہیں تو تصویر بالکل واضح ہو گئی۔ اگلے چند گھنٹوں میں وزیر اعظم حامد میر کی عیادت کے لیے پہنچ گئے۔ جہاں وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ایک اور چھکا مار دیا کہ سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہم کس کے ساتھ ہیں۔ گویا وہ یہ واضح پیغام دے رہے تھے کہ حکومت اس معاملے میں جیو کے ساتھ ہے۔ آئی ایس آئی کے ساتھ نہیں۔ یہی حال دوسرے وزراء اور حکومتی عہدیداروں کا رہا اور اب تک ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب جیو کی حمایت میں کئے جانے والے صحافی شو میں شریک ہوتے ہیں۔ سینئر صوبائی وزیر جیو کی حمایت میں پیش پیش ہیں سعد رفیق کہتے ہیں کہ آزادئ صحافت پر آ نچ نہیں آنے دیں گے۔ اور اب آخری مرحلے پر جب آئی ایس آئی نے وزارت دفاع کے ذریعے پیمرا میں درخواست دیدی ہے۔ جیو اور حکومتی کوششوں سے پیمرا کے ارکان تقسیم ہو گئے ہیں اور جیو کی معطلی پر حکومتی خاموشی کیا پیغام دے رہی ہے۔ کیا یہ سب واقعات اور باتیں ثابت کر رہے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔
حالات و واقعات خود بول رہے ہیں اور دیوار پر لکھا سب کو نظر آ رہا ہے۔ جنہیں نظر نہیں آ رہا ان کے بارے میں صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے
تحریر:سید تاثیر مصطفیٰ - لاہور
پیر کے روز جب ایوان میں یہ قرار داد پیش ہوئی تو اپوزیشن نے سخت ہنگامہ کیا۔ کیونکہ مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر مونس الٰہی بھی اسی طرح کی قرارداد پیش کرنا چاہتے تھے۔ لیکن قائم مقام سپیکر نے پہلے انہیں وقفہ سوالات تک ٹالا اور پھر اجازت دینے کی بجائے وزیر قانون رانا ثناء اللہ سے قرار داد پیش کروا دی۔ جس پر اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن ارکان اسمبلی کی سیڑھیوں پر پاک فوج کی حمایت میں نعرے لگاتے رہے۔ قرار داد پیش کرتے ہوئے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ایک دلچسپ جملہ کہا کہ قرار داد کی آڑ میں کسی کو نوکری کی درخواست دینے نہیں دیں گے۔ گویا یہ درخواست حکومت خود دے گی کہ اس کا استحقاق زیادہ ہے۔ اور ایسا ہی ہؤا۔
حکومت نے اپوزیشن یا ق لیگ کو فوج کے سامنے نمبر بنانے نہیں دئے البتہ خود قرار داد پیش کر کے منظور کروا دی۔ گو یا صرف نوکری کی درخواست ہی نہیں دی بلکہ پہلے سے جاری نوکری پکی کرانے کے لیے حق نمک بھی ادا کر دیا اور یہ فریضہ اسی مرد آہن کے ذریعے ادا کیا گیا جو سابقہ دور میں ایک پریس کانفرنس میں یہ الزامات لگاچکے تھے کہ انہیں پنجاب اسمبلی میں کچھ سخت باتیں کرنے پر فوج کے ادارے آئی ایس آئی نے اغوا کیا اور پھر ان کے سر کے بال، مونچھیں اور بھنویں مونڈ کر ایک ویرانے میں پھینک گئے۔ یہی راناصاحب گزشتہ ایک ماہ سے جیو کے ساتھ کھڑے ہیں جسے عملاً آئی ایس آئی والے اپنے خلاف قرار دیتے ہوں گے۔
پاکستانی سیاست کی اس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہو گی کہ سیاسی جماعتوں پر فوج کی نوکری کرنے یا نوکری کے لیے درخواستیں دینے کے الزامات لگ رہے ہیں اور یہ الزامات کوئی نئے نہیں ہیں۔ قیام پاکستان کے فوری بعد سے لگ رہے ہیں پھر یہ الزامات زیادہ غلط بھی نہیں ہیں۔ زمینی حقائق ان کی صداقت کی چغلی کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح کے الزامات ملکی میڈیا پر بھی ہیں۔ میڈیا ہاؤسز، ان کے مالکان اور صحافیوں کی اچھی خاصی تعداد پر ایسے الزامات ہیں۔ بہت سے صحافی، اینکر اور کالم نگار ان الزامات کو اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں اور اپنے ناقدین پر یہ طعنے کستے ہیں کہ دراصل وہ خود اس چاکری کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کے بارے میں یہی الزام چند دن پہلے وفاقی وزیر ریلوے اور متحرک مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے لاہور پریس کلب میں چند صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں دہرا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور طاہر القادری کے پیچھے فوج نہیں ہے۔ فوج اپنے معاملات میں پہلے ہی بہت زیادہ مصروف ہیں۔ حالات بھی ایسے نہیں ہیں۔ لوگوں کا مزاج بھی جمہوریت کے حق میں ہے۔ اس لئے ان تحریکوں کے پیچھے فوج کا ہاتھ نہیں ہے۔ تاہم یہ سیاسی عناصر خود اپنے لیے روز گار کی تلاش میں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ عوام تک یہ تاثر جائے کہ فوج ان کی پشت پر ہے۔ لیکن ان کی خواہش کے برعکس حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔
حکومت اور اس کے اعلیٰ دماغ یہ بات اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد سے کہہ رہے ہیں اور کبھی ضرورتاً اور کبھی بلا ضرورت اسے دہراتے رہتے ہیں۔ شاید وہ کچھ عرصہ بعد اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوں۔ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر اطلاعات، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد یہ جملہ ضرور دہراتے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ بعض نکتہ سنج دانشوروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو بار بار یہ بات کہنے کی ضرورت ہی اس لیے پیش آتی ہے کیوں کہ حکومت اور فوج ایک پیجپر نہیں ہیں۔
آیئے ذرا دیکھتے ہیں کہ کیا حکومت اور فوج واقعی ایک پیج ہیں۔ 11 مئی کے انتخابات کے فوری بعد غالباً 13 مئی کو مسلم لیگ (ق) کے سربراہ نواز شریف نے بھارتی ٹیلی ویژن این ڈی ٹی وی کی صحافی برکھادت کو ایک انٹرویو دیا جس میں کہا کہ وہ ہمیشہ بھارت سے اچھے اور دوستانہ تعلقات کے قائل ہیں اور ان تعلقات کو بہتر کریں گے۔ وہ خود بھارت جائیں گے بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر بھارتی وزیر اعظم نے انہیں دعوت نہ بھی دی تو وہ پھر بھی بھارت کا دورہ کریں گے۔ اس انٹرویو سے چند ماہ قبل بھارتی سکھوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے بھی انہوں نے بعض ایسی باتیں کی تھیں جنہیں میڈیا نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ان باتوں کو پاکستان کے وقار کے منافی قرار دیا تھا۔
اس ماحول میں جب حلف اٹھانے سے قبل نئے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات ہوئی تو 40 منٹ کی طے شدہ یہ ملاقات ساڑھے تین گھنٹوں تک جاری رہی۔ اور بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس میں پاک بھارت تعلقات اور اس معاملے پر فوج کے خدشات کا بھی تذکرہ ہؤا۔ گزشتہ ستمبر میں جب آل پارٹیز کانفرنس نے طالبان سے مذاکرات کرنے کا حکومت کو مینڈیٹ دیا تو کہا جاتا ہے کے فوج نے اس فیصلے کی تائید نہیں کی تھی۔ شاید اسی وجہ سے یہ معاملہ مزید چند ماہ لٹکتا رہا۔ جب حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے مذاکرات شروع ہوئے تو بات زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔ کیونکہ طالبان کے کئی مطالبات فوج سے متعلق تھے اور طالبان فوج ہی کی گارنٹی چاہتے تھے۔ مگر مذاکرات کے عمل میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔
اس دوران دہشت گرد کارروائیاں بھی جاری رہیں اور فوجی آپریشن بھی۔۔۔ اس طرح مذاکرات اور آپریشن کے ساتھ ساتھ چلنے سے حکومت اور فوج کے ایک بنچ پر ہونے کی اصل صورتحال سب کے سامنے آ گئی۔ پھر وزیر ستان میں آپریشن کی بات آئی تو فوج کا کہنا تھا کہ وہ وزیرستان میں چند ہفتوں میں امن قائم کر دے گی مگر بعد میں اسے طویل عرصہ وہیں قیام کرنا ہو گا۔ شاید حکومت کو یہ بات منظور نہیں تھی چنانچہ اس پر مکمل خاموشی اختیار کر لی گئی۔
سابق صدر پرویز مشرف پر مقدمہ شروع ہؤا تو فطری طور پر فوج کے بڑے حلقے میں اپنے سابق سربراہ کے لیے ہمدردی کے جذبات تھے۔ یہ جذبات حکومت تک پہنچائے بھی گئے۔ لیکن حکومت شاید انتقام کی آگ میں معاملات کو درست سمت میں سمجھنے سے انکاری تھی۔ جنرل پرویز مشرف عدالت جانے کے بجائے فوجی ہسپتال چلے گئے جہاں وہ کافی عرصہ مقیم رہے۔ اس دوران حکومتی وزراء بڑھکیں مارتے رہے اگر حکومت اور فوج ایک پیج پر ہوتے تو فوج پرویز مشرف کو حکومت کے حوالے کر دیتی۔ پھر جب ان پر فرد جرم عائد ہو گئی اور ان کے باہر جانے کے معاملے پر عدالت نے نرم رویہ اپنایا تو حکومت نے کابینہ کا اجلاس بلا کر ان کے باہر جانے کے راستے بند کر دئے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت میں پرویز مشرف کے بیرون ملک بھیجنے پر اتفاق ہو گیا تھا لیکن حکومت نے اس پر عمل نہ ہونے دیا۔ ایسے میں حکومت اور فوج ایک پیج پر کیسے ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد اور اس سے منسلک افواہوں پر بھی حکومتی اور عسکری قیادت کے نقطہء نظر میں اختلاف تھا۔ امریکہ کے ساتھ ہونے والی حکومتی عہدیداروں کی بات چیت اور نکات پر بھی یہی صورتحال تھی۔ اس ساری صورتحال کو حامد میر پر حملہ سے پیدا ہونے والے حالات نے مزید بھڑکا دیا۔ ایک طرف حامد میر کے بھائی آئی ایس آئی کے سربراہ کا نام لے کر ان پر حملے کا الزام لگا رہے تھے اور ان کا چینل یہ خبر جنرل ظہیر الاسلام کی تصویر کے ساتھ تواتر کے ساتھ چلا رہا تھا اور دوسری جانب حکومت صرف تماشہ دیکھ رہی تھی اور شاید صورتحال کو انجوائے کر رہی تھی۔ نہ وزیر اطلاعات اس صورتحال کا نوٹس لے رہے تھے نہ وزیر اعظم کو اس پر کوئی فکر مندی تھی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس معاملے پر جب آئی ایس پی آر نے جیو اور حکومت سے رابطہ کیا تو ابتدا میں جیو انتظامیہ نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔ چنانچہ یہ رائے بن گئی کہ حکومت جیو کے ساتھ ہے۔ چند گھنٹوں بعد جب وزیر اطلاعات ی نے یہ بیان دیا کہ حکومت دلیل والوں کے ساتھ ہے غلیل والوں کے ساتھ نہیں تو تصویر بالکل واضح ہو گئی۔ اگلے چند گھنٹوں میں وزیر اعظم حامد میر کی عیادت کے لیے پہنچ گئے۔ جہاں وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ایک اور چھکا مار دیا کہ سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہم کس کے ساتھ ہیں۔ گویا وہ یہ واضح پیغام دے رہے تھے کہ حکومت اس معاملے میں جیو کے ساتھ ہے۔ آئی ایس آئی کے ساتھ نہیں۔ یہی حال دوسرے وزراء اور حکومتی عہدیداروں کا رہا اور اب تک ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب جیو کی حمایت میں کئے جانے والے صحافی شو میں شریک ہوتے ہیں۔ سینئر صوبائی وزیر جیو کی حمایت میں پیش پیش ہیں سعد رفیق کہتے ہیں کہ آزادئ صحافت پر آ نچ نہیں آنے دیں گے۔ اور اب آخری مرحلے پر جب آئی ایس آئی نے وزارت دفاع کے ذریعے پیمرا میں درخواست دیدی ہے۔ جیو اور حکومتی کوششوں سے پیمرا کے ارکان تقسیم ہو گئے ہیں اور جیو کی معطلی پر حکومتی خاموشی کیا پیغام دے رہی ہے۔ کیا یہ سب واقعات اور باتیں ثابت کر رہے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔
حالات و واقعات خود بول رہے ہیں اور دیوار پر لکھا سب کو نظر آ رہا ہے۔ جنہیں نظر نہیں آ رہا ان کے بارے میں صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے
تحریر:سید تاثیر مصطفیٰ - لاہور