• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح میں ولایت کا مسئلہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
فقہی سوالات و جوابات میں محترم بھائی @محمد نعیم یونس صاحب نے سوال کیا ہے کہ :
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!

ایک بھائی کا سوال ہے:
ایک فلپنی پیدائشی مسلم کنواری لڑکی پاکستان میں رہائش پذیر ہے.
اور وہ یہاں پر ایک مسلم لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے.
اس کی ولایت کے بارے میں کیا فتوی ہے.
والد زندہ ہے وہ فلپائن میں ہے.
لڑکا کہتا ہے کہ لڑکی کے والد نے اجازت دے دی ہے.
کیا اس کا یہ کہنا کافی ہے؟
یا
کوئی پکا ثبوت درکار ہو گا؟..
اور ثبوت کس طرح کا ہو؟..وغیرہ
جزاک اللہ خیرا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب
اس سوال کی دو شقیں ہیں :
(۱) نکاح میں لڑکی کے ولی کی اجازت کی اہمیت
(۲) ولی کی اجازت کا ثبوت کیسے معتبر ہوگا
تو پہلی شق کا جواب یہ ہے کہ :
جمہور علماء کرام جن میں امام شافعی ، امام احمد ، امام مالک رحمہ اللہ تعالی کامسلک ہے کہ کسی بھی مرد کے لیےحلال نہیں کہ وہ عورت سے اس کے ولی کے بغیر شادی کرے چاہے وہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ ۔
ان کے دلائل میں مندرجہ ذيل آیات شامل ہیں :
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے : ( فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ ) البقرۃ ۲۳۲
ترجمہ :{ اورتم انہیں اپنے خاوندوں سے شادی کرنے سے نہ روکو }
مطلب واضح ہے کہ اولیاء کو روکنے کا اختیار ہے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ( اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ عورت اپنا نکاح نہیں کرسکتی، بلکہ اس کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور رضامندی ضروری ہے۔ تب ہی تو اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو اپنا حق ولایت غلط طریقے سے استعمال کرنے سے روکا ہے۔ )

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا : (وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا ۔۔۔) البقرہ ۲۲۱
{ اورمشرکوں سے اس وقت تک شادی نہ کرو جب تک وہ ایمان نہيں لے آتے } ۔

ان آیات میں نکاح میں ولی کی شرط بیان ہوئي ہے اوراس کی وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان سب آیات میں عورت کے ولی کو عقدنکاح کے بارہ میں مخاطب کیا ہے اوراگر معاملہ ولی کا نہیں بلکہ صرف عورت کے لیے ہوتا تو پھر اس کے ولی کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی فقہ ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح بخاری میں ان آیات پر یہ کہتے ہوئے باب باندھا ہے ( باب من قال ) " لانکاح الا بولی " بغیر ولی کے نکاح نہیں ہونے کے قول کے بارہ میں باب ۔

اورحدیث میں بھی یہ وارد ہے کہ : ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 1101 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2085 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر( 1881 ) ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 1 / 318 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
اورام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جوعورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اوراگر ( خاوندنے ) اس سے دخول کرلیا تو اس سے نفع حاصل اوراستمتاع کرنے کی وجہ سے اسے مہر دینا ہوگا ، اوراگر وہ آپس میں جھگڑا کریں اور جس کاولی نہیں حکمران اس کا ولی ہوگا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1102 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2083 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1879 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 1840 ) میں اسے صحیح قرار دیاہے ۔

حدیث میں اشتجروا کا معنی تنازعوا یعنی تنازع ہے ۔

دوم :
اگر عورت کا ولی اسے اپنی پسند کی شادی بغیر کسی عذر کے نہیں کرنے دیتا تواس کی ولایت ختم ہوکر اس کے نزدیکی کے منتقل ہوجائے گی مثلا باب کی بجائے دادا ولی بن جائے گا ۔

سوم :
اوراگر اس کے سب اولیاء نے اسے بغیر کسی عذر شرعی کے شادی کرنے سے روکا تو سابقہ حدیث کی وجہ سے حکمران ولی بنے گا کیونکہ حدیث میں ہے ( ۔۔۔ اگر وہ جھگڑا کریں تو جس کا ولی نہ ہو حکمران اس کا ولی ہے ) ۔

چہارم :
اگر نہ توولی ہواور نہ ہی حکمران تو پھر وہ شخص اس کی شادی کرے گا جسے سلطہ اور اختیار حاصل ہو مثلا گاؤں کا نمبردار ، یا گورنر ، وغیرہ ،اوراگر یہ بھی نہ ہوں تووہ عورت اپنی شادی کے لیے کسی مسلمان امین شخص کو اپنی شادی کے لیے وکیل بنائے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگر نکاح کا ولی نہ ہو تواس حالت میں ولایت اس شخص کی طرف منتقل ہوگی جسے نکاح کے علاوہ دوسرے معاملات میں ولایت حاصل ہو مثلا گا‎ؤں کا نمبردار ، یا قافلے کا امیر وغیرہ ۔ دیکھیں الاختیارات ص ( 350 ) ۔

اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگرعورت کا ولی نہ ہو اورنہ ہی حکمران ملے تو امام احمد کا قول ہے کہ اس عورت کی اجازت سے کوئي عادل شخص اس کی شادی کردے ۔ دیکھیں المغنی ( 9 / 362 ) ۔

عقد نکاح میں واجب اورضروری ہے کہ دو عدد عاقل بالغ مسلمان اس عقدنکاح کی گواہی دیں ۔ آپ اس کی تفصیل دیکھنے کے لیے سوال نمبر ( 2127 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری شق کا جواب یہ ہے :
س1‏:‏ امرأة في بلد غير بلدها ووليها غير موجود معها، هل يجوز التزوج بها، وإذا عقد المأذون بينهما بناء على رغبتها فهل يصح العقد‏؟‏ وإن لم يكن لها أي قريب من أب أو أخ أو عم فمن يكون وليها‏؟‏

ج1‏:‏ المرأة التي ليس لها ولي، أو لها ولي ولكن يتعذر الاتصال به بأي وسيلة من وسائل الاتصال- فإن السلطان هو الذي يزوجها، والقاضي نائب عن السلطان في ذلك، فإذا زوجها السلطان أو نائبه صح العقد‏.‏ وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم‏.‏
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
الرئيس‏:‏ عبد العزيز بن عبد الله بن باز
نائب الرئيس‏:‏ عبد الله بن غديان
ترجمہ :
سوال : ایک عورت جو اپنے ملک میں نہیں ، بلکہ دوسرے ملک میں رہتی ہے ، جہاں اس کے ساتھ اس کا ولی موجود نہیں ،
وہ نکاح کی رغبت رکھتی ہے ،تو کیا اس کی خواہش سے ولی کے بغیر نکاح صحیح منعقد ہوجائے گا ؟
جبکہ کوئی قریبی رشتہ دار جو ولی بن سکے مثلاً والد ، بھائی ، چچا موجود نہیں،
اور ایسی حالت میں کون ولی ہوگا ؟

جواب : ایسی عورت جس کا کوئی ولی نہیں ، یا ولی تو ہے لیکن اس سے رابطہ کی کسی دستیاب صورت رابطہ ممکن نہیں ، تو اس کا نکاح سلطان یعنی اسلامی حکومت کروائے گی ، یا قاضی جو اسلامی حاکم کی نیابت کرتا ہو ،
یعنی ایسی صورت میں سلطان یا اس کا نائب اگر نکاح کروائے تو نکاح صحیح ہوگا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ :
چونکہ ولی موجود ہے ،اور مواصلات کے کئی ذرائع دستیاب ہیں،
رابطہ کی کسی دستیاب صورت رابطہ کرکے ولی کی رضا معلوم کرلی جائے ، شرط یہ ہے رابطہ کی صورت نکاح کے گواہوں کیلئے اطمینان بخش ہو، آڈیو ، ویڈیو ، یا کتابت وغیرہ کوئی بھی صورت جو ممکن ہو ،
 
Last edited:
Top