• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نہ اِدھر اُدھر کی تو بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
نہ اِدھر اُدھر کی تو بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا​
دی نیوز ٹرائب 24 مئی 2013 :asif yaseen langy


اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نصب سے زیادہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ حکومت میں شامل تمام اہلکار عوامی خدمت گار ہوتے ہیں۔ بھلے سیاست دان، بیوروکریٹس، افواج و پولیس ہی کیوں نہ ہو، تمام ادارے عوامی کی فلاح کے لئے بنائے گئے ہیں۔ہم عام الفاظ میں نوکری یا ملازمت کہتے ہیں ۔ یہ نوکر و ملازم کسی دیوار یا بنگلے کے نہیں بلکہ ریاست کی حدود کی تمام عوام کے ہوتے ہیں۔ درحقیقت چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی عوامی ملازم ہیں۔ یہ اپنی ٹیم کے ساتھ جس میں لاکھوں افراد بطور سپاہی کام کر رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں افسران بھی ہیں جو قوم کے ملازم ہیں، ان کی زمہ داری اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تمام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ دشمن ممالک کی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کا تھوڑا بھی شک ہو توصورتحال سے نمٹنا اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا ان کی زمہ داری ہے۔

اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ جب تمھیں کوئی زمہ دار ی دی جائے تو ایمانداری اور ہوشیاری سے پورا کرنا ورنہ قیامت کے دن احتساب ہوگا۔ اسی طرح چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت پاکستان کے تمام ہائیکورٹس، سیشن کورٹس ، شرعی کورٹس سمیت تمام عدالتوں کے جج حضرات بھی عوام کے ملازم ہیں۔ ان کی زمہ داری ہے کہ ریاست میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی، ناانصافی، ظلم کرتا ہے یا اس کی جائیداد پر ناجائز قبضہ کرتا ہے یا اس کو راستے میں کوئی بھی شخص لوٹتا ہے تو

چیف جسٹس افتخار چوہدری کی تمام ٹیم کی زمہ داری ہوتی ہے کہ انہیں فوری طور پر انصاف فراہم کریں۔ اسی طرح پولیس کی زمہ داری ہوتی ہے کہ پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کریں، چور ڈاکوؤں سے تحفظ فراہم کریں۔

بیوروکریٹس کی بھی زمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات اٹھائیں ، زندگی کی سہولیات فراہم کریں، عوامی شکایات کو دور کرنا، سیاست دانوں کا بھی یہی کام ہیں۔

اسمبلیوں میں جا کر وقت اور حالات کے مطابق عوامی سہولیات کے قوانیں بنا کر بیوروکریٹس، افواج ، پولیس سے عوام کے لئے سہولیات پیدا کروانا ہے۔

عوام ان حضرات کو عوض میں ٹیکس ادا کرتے ہیں جو سرکاری خزانے میں جمع ہوتے ہیں اور اسمبلی کے ارکان، افواج و پولیس کے سپاہی ، افسران ، بیوروکریٹس اور تمام سرکاری ملازمین کو تنخواہ ملتی ہے۔ اگر عوام وقت پر ٹیکس ادا نہ کریں توخزانہ خالی ہو جائے گا تو ان ملازمین کو تنخواہ نہیں مل سکےگی ۔ عوام سے ٹیکس خود بخود وصول کر لیا جاتا ہے، سبز ی سے لیکر کسی بھی اشیاء کی خریداری پر حکومتی ٹیکس لاگو ہوتا ہے ۔ مثلاً ہم جب اپنے موبائل میں ایزی لوڈ کرواتے ہیں تو ٹیکس کی مد میں رقم کٹ لی جاتی ہے اس طرح عوام کو محسوس بھی نہیں ہوتا اور گورنمنٹ اپنا ٹیکس بھی وصول کر لیتی ہے۔

بحرحال مدعا یہ ہے کہ عوام کو پتہ بھی ہے کہ حکومت اور بیوروکریٹس سمیت تمام سرکاری ملازمین ان کے اصل ملازم ہیں جو ہمہ وقت ان کی تکالیف دور کرنے کیلئے بیٹھنا اورالرٹ کھڑا ہونا ہوتا ہے لیکن عجیب بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چیف جسٹس سمیت تمام ملازمین عوامی خدمت سے بالکل قاصر ہیں۔ آرمی کے ہوتے ہوئے بھی ڈرون حملوں اور بیرونی مداخلت کے باعث بےگناہ شہری قتل ہو رہے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ بلوچستان میں آزادی و فرقہ واریت کے نام پر، کراچی میں بھتہ کے نام پر، پشاور اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے نام پر قتل وغارت گری میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔

اگر ایسی بات ہے تو آرمی کی تمام ٹیم کیا گل کھلا رہی ہے؟،

پاکستان میں دس دس سال تک کیسز کا فیصلہ نہیں ہوتا ایسے میں ہماری عدالتیں کیا کر رہی ہیں؟،

پاکستان بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کے بحران، سڑکوں تعلیمی اداروں، صحت کے مراکز سمیت تمام ضروریات زندگی کے واسطے ترس رہے ہیں تو صحت، واپڈا، گیس اورتعلیمی محکموں کے زمہ داران اور بیوروکریٹس کیا کر رہے ہیں ؟۔

سیاستدان صرف اور صرف ذاتی مفادات ، پرآسائش زندگی، اونچی مراعات اور کرپشن کیلئے برسراقتدار آتے ہیں۔ تمام ادارے اپنی اپنی زمہ داریوں سے غافل ہیں، کوئی محکمہ یا افسر اپنی زمہ داری پوری کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ تمام محکموں کے چوکیدار سے لےکرافسران بالا تک چور اور لٹیرے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری، جنرل کیانی، صدر زرداری، وزیراعظم میر ہزارخان کھوسو سے لیکر تمام سرکاری ملازمین جن کی تعداد کم و بیش دو کروڑ ہوگی اپنی اپنی زمہ داریوں سے غافل ہیں۔ یہ لوگ لاکھوں روپے تنخواہ وصول کرتے ہیں مگر کام ایک فیصد بھی پورا نہیں کرتے، ایسے میں کیا ان کی تنخواہ حلال ہے؟۔

اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے بارے میں تمام زمہ داران کو قیامت کے دن جواب دینا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ اگر بھوک کی وجہ سے دریائے فرات کے قریب ایک کتا بھی ہلاک ہو جائے تو قیامت کے دن عمر کو جواب دینا ہوگا۔ حضرت عمر نے ایک جانور کی بات کی جو ان کی حدود سے بھی باہرتھا۔ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو لوگ بم دھماکوں، ڈروں حملوں، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارنہ ، قبائلی و سیاسی جنگ میں بے گناہ مارے جا رہے ہیں یا بھوک، گرمی و سردی اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے ہیں ہر صورت میں صدر زرداری، آرمی چیف، پولیس چیف سمیت تمام زمہ داران کو اللہ کے حضور پیش ہو کرجواب دینا ہوگا۔ پاکستان میں کون کرتا ہے ؟ کیوں کرتا ہے ؟ کون کرواتا ہے ؟ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔

اس بات کو ایک شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

عوام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں اور ان کی ساری ٹیم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں اور اپنی زمہ داری کیوں نہیں ادا کر رہے ؟۔ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں جب دشمن پاکستان کو گھیر ہوئے ہے اور تباہ کر رہا ہے، اگرآپ میں حالات درست کرنے کی صلاحیت نہیں تو کرسیوں پر کیوں فائز ہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ یہ جنرلز، جج حضرات، بیورو کریٹس اور پولیس سمیت تمام ادارے ناکام ہو چکے ہیں لیکن عوام کی خاموشی بھی ملک وقوم کیلئے نقصان دہ ہے۔ عوام کو خلافتِ راشدہ کیلئے اٹھنا ہو گا۔

۔
 
Top