میرب فاطمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 06، 2012
- پیغامات
- 195
- ری ایکشن اسکور
- 218
- پوائنٹ
- 107
نیت کی درستگی اعمال کی روح مگر سخت ترین مجاہدہ اور انتہائی مشکل کام ہے۔ بار بار ٹھیک کرو، بار بار خراب ہو جاتی ہے۔عمل کرنا آسان جبکہ نیت میں خلوص پیدا کرنا اور پھر اسے قائم رکھنا چوٹی سر کرنے سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ یہی نیت ہے جو زرا سی نیکی کو پہاڑ بنا دے اور یہی نیت ہے کہ زرا سا فتور آیا تو انسان بلندیوں سے پٹخ دیا جاتا ہے۔
نیت ہی ہے کہ شہادت کی آرزو کرنے والاآرزو میں سچا ہوا تو بستر پے مرنے پربھی درجہ شہادت ، یہ نیت ہی ہے کہ ایک نیکی پر ستر،کبھی ستر ہزار تو کبھی ان گنت بے شمار اجر اور یہ بھی نیت ہی ہے کہ بگڑ گئی تو عالم کو، شھید کو، مجاہد کو گھسیٹا جائے گا اور جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ عمل سے پہلے خلوص ،دوران عمل خلوص ،بعد از عمل بھی خلوص اور تادم مرگ خلوص کو قائم رکھنا کہ بیس سال بعد بھی نیکی یاد آئی زرا سا غرور پیدا ،جتا دیا ،خود کو بڑا سمجھا تو بس پھرعمل برباد۔
عمر بھر کی مشقتوں سے تعمیر نیکیوں کے ہزار محلوں کو ایک لمحے میں برباد کرنے کے لئے زرا سے تکبر،دکھاوے یا بدنیتی کی ٹھوکر کافی ہے۔
امام ابن رجب رحمہ اللہ کی کتاب جامع العلوم والحکم شرح اربعین نووی میں حدیث رقم1 کے تحت درج کچھ اقوال:
.
- احمد بن داود حربیؒ بیان کرتے ہیں:
یزید بن ہارونؒ نے عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث انما الاعمال بالنیات(بے شک اعمال کا دورومدار نیتوں پر ہے) روایت کی۔ پاس احمد بن حنبلؒ تشریف فرما تھے۔ احمد یزید کو مخاطب کر کے بولے:
ابو خالد! ہم پھنس گئے۔(یعنی نیت کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئےاور اسی نیت کی وجہ سے ہم پکڑ لیئے جائینگے)
۔
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
میں نے حدیثِ نیت ذکر کرنے کے بعد امام احمد سے دریافت کیا: نیت کیسے ہو؟ فرمایا:
نفس کے ساتھ مسلسل جنگ، جب بھی ’عمل‘ کرے لوگوں کے خیال کو احاطۂ قلب سے باہر نکال کر آئے اور ہر وقت ہی خدا کے لئے اس کو جھاڑ مانجھ کر رکھے۔ مزید فرمایا کہ اللہ کو اصل میں تو تمہارا ارادہ اور تمہاری نیت مطلوب ہے۔
۔
یحییٰ بن کثی رحمہ اللہ رفرماتے ہیں:
عمل سیکھتے ہو؟ نیت بھی تو سیکھو۔ نیت کی پہنچ تو عمل سے بھی دور تر ہے۔
۔
- سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول:
جتنی مشکل مجھے نیت کی درستی میں پیش آئی اتنی کسی چیز میں کبھی پیش نہیں آئی۔ ابھی ٹھیک کر کے ہٹے نہیں کہ معاملہ پھر خراب ہوا پڑا ہوتا ہے۔
۔
یوسف بن الحسین رازیؒ فرماتے ہیں کہ’اخلاص‘ دنیا کی کم یاب ترین جنس ہے۔ میں کتنی ہی محنت کر کے ریاءکو دل سے نکالتا ہوں مگر وہ کسی اور رنگ میں پلنا شروع ہوئی ہوتی ہے۔
۔
- عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا فرمان:
کتنے ہی چھوٹے چھوٹے عمل ایسے ہیں جن کو ’نیت‘ پہاڑوں سے بڑا کر دیتی ہے۔ کتنے ہی عظیم عمل ہیں جنہیں ’نیت‘ رائی سے چھوٹا کر چھوڑتی ہے۔
.
سہل بن عبد اللہ تستری رحمہ اللہ کا قول: ’اخلاص‘ سے بڑھ کر نفس پر کوئی چیز شاق نہیں۔ وجہ یہ کہ نفس کا اس میں کوئی حصہ ہوتا ہی نہیں۔
۔
یوسف بن اسباط رحمہ اللہ کا قول: طویل طویل عبادتیں کر لینا ابھی پھر آسان ہے، مگر نیت کو فساد سے بچانا اور نہایت خالص حالت میں رکھنا تو ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔
اللہ تعالی ہمیں نیتوں کو للہ خالص کر لینے اور اسی پر استقامت کی توفیق دے۔اور نیتوں میں بگاڑ پیدا ہونے سے بچائے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیت ارادے کا نام ہے زبان سے ادائیگی بدعت ہے۔ جیسا کہ ان اقوال سے بھی ثابت ہے کہ یہ دل کا ارادہ ہی ہے۔
قرآن پاک میں بار بار اللہ رب العزت کا فرمانا کہ اللہ جانتا ہے کہ کیا ہے ہمارے نفسوں میں۔ کیا ہے ہمارے دلوں میں۔ اور احادیث میں ذکر کرنا کہ دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ ان کو الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے (اس سے مراد دل کی حالت کا الٹ پلٹ ہونا ہے) اور صدق دل سے کلمہ طیبہ پڑھنے کا ذکر بھی دلیل ہے کہ نیت دل کی حالت دل میں موجود ارادے کی درستگی کا ہی نام ہے۔ دوران نماز نیت تبدیل کر لینا اور نماز کو مختصر کر دینا بھی دلیل ہے کہ نیت دل کے ارادے کا ہی نام ہے۔جس طرح کوئی شخص دکھاوے کے لئے اور تکبرانہ عمل کے لئے بول کر نیت کے الفاظ نہیں کہتا، حدیث کے مطابق جسطرح عالم، مجاہد اور مالدار کو جہنم میں صرف دل میں موجود شہرت ،دکھاوے کی حرص اور بدنیتی کی وجہ سے گھسیٹا گیا جبکہ انہوں نے زبان سے بدنیتی کے الفاظ دہرائے ہی نہیں تو یہ کیسے قابل تسلیم ہے کہ خلوص کے لئے زبان سے الفاظ ادا کیئے جائیں۔ جبکہ زبان دل کی حالت کی تصدیق ہی نہ کرے تو اب کون سی نیت معتبر ہو گی؟ کوئی زبان سے تو کہے کہ نیت کرتا ہوں چار رکعت کی اور دل میں ارادہ رکھے کہ تین پڑھے گا تو اب کس کا اعتبار کیا جائے گا؟
رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیت ہی ہے کہ شہادت کی آرزو کرنے والاآرزو میں سچا ہوا تو بستر پے مرنے پربھی درجہ شہادت ، یہ نیت ہی ہے کہ ایک نیکی پر ستر،کبھی ستر ہزار تو کبھی ان گنت بے شمار اجر اور یہ بھی نیت ہی ہے کہ بگڑ گئی تو عالم کو، شھید کو، مجاہد کو گھسیٹا جائے گا اور جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ عمل سے پہلے خلوص ،دوران عمل خلوص ،بعد از عمل بھی خلوص اور تادم مرگ خلوص کو قائم رکھنا کہ بیس سال بعد بھی نیکی یاد آئی زرا سا غرور پیدا ،جتا دیا ،خود کو بڑا سمجھا تو بس پھرعمل برباد۔
عمر بھر کی مشقتوں سے تعمیر نیکیوں کے ہزار محلوں کو ایک لمحے میں برباد کرنے کے لئے زرا سے تکبر،دکھاوے یا بدنیتی کی ٹھوکر کافی ہے۔
امام ابن رجب رحمہ اللہ کی کتاب جامع العلوم والحکم شرح اربعین نووی میں حدیث رقم1 کے تحت درج کچھ اقوال:
.
- احمد بن داود حربیؒ بیان کرتے ہیں:
یزید بن ہارونؒ نے عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث انما الاعمال بالنیات(بے شک اعمال کا دورومدار نیتوں پر ہے) روایت کی۔ پاس احمد بن حنبلؒ تشریف فرما تھے۔ احمد یزید کو مخاطب کر کے بولے:
ابو خالد! ہم پھنس گئے۔(یعنی نیت کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئےاور اسی نیت کی وجہ سے ہم پکڑ لیئے جائینگے)
۔
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
میں نے حدیثِ نیت ذکر کرنے کے بعد امام احمد سے دریافت کیا: نیت کیسے ہو؟ فرمایا:
نفس کے ساتھ مسلسل جنگ، جب بھی ’عمل‘ کرے لوگوں کے خیال کو احاطۂ قلب سے باہر نکال کر آئے اور ہر وقت ہی خدا کے لئے اس کو جھاڑ مانجھ کر رکھے۔ مزید فرمایا کہ اللہ کو اصل میں تو تمہارا ارادہ اور تمہاری نیت مطلوب ہے۔
۔
یحییٰ بن کثی رحمہ اللہ رفرماتے ہیں:
عمل سیکھتے ہو؟ نیت بھی تو سیکھو۔ نیت کی پہنچ تو عمل سے بھی دور تر ہے۔
۔
- سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول:
جتنی مشکل مجھے نیت کی درستی میں پیش آئی اتنی کسی چیز میں کبھی پیش نہیں آئی۔ ابھی ٹھیک کر کے ہٹے نہیں کہ معاملہ پھر خراب ہوا پڑا ہوتا ہے۔
۔
یوسف بن الحسین رازیؒ فرماتے ہیں کہ’اخلاص‘ دنیا کی کم یاب ترین جنس ہے۔ میں کتنی ہی محنت کر کے ریاءکو دل سے نکالتا ہوں مگر وہ کسی اور رنگ میں پلنا شروع ہوئی ہوتی ہے۔
۔
- عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا فرمان:
کتنے ہی چھوٹے چھوٹے عمل ایسے ہیں جن کو ’نیت‘ پہاڑوں سے بڑا کر دیتی ہے۔ کتنے ہی عظیم عمل ہیں جنہیں ’نیت‘ رائی سے چھوٹا کر چھوڑتی ہے۔
.
سہل بن عبد اللہ تستری رحمہ اللہ کا قول: ’اخلاص‘ سے بڑھ کر نفس پر کوئی چیز شاق نہیں۔ وجہ یہ کہ نفس کا اس میں کوئی حصہ ہوتا ہی نہیں۔
۔
یوسف بن اسباط رحمہ اللہ کا قول: طویل طویل عبادتیں کر لینا ابھی پھر آسان ہے، مگر نیت کو فساد سے بچانا اور نہایت خالص حالت میں رکھنا تو ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔
اللہ تعالی ہمیں نیتوں کو للہ خالص کر لینے اور اسی پر استقامت کی توفیق دے۔اور نیتوں میں بگاڑ پیدا ہونے سے بچائے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیت ارادے کا نام ہے زبان سے ادائیگی بدعت ہے۔ جیسا کہ ان اقوال سے بھی ثابت ہے کہ یہ دل کا ارادہ ہی ہے۔
قرآن پاک میں بار بار اللہ رب العزت کا فرمانا کہ اللہ جانتا ہے کہ کیا ہے ہمارے نفسوں میں۔ کیا ہے ہمارے دلوں میں۔ اور احادیث میں ذکر کرنا کہ دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ ان کو الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے (اس سے مراد دل کی حالت کا الٹ پلٹ ہونا ہے) اور صدق دل سے کلمہ طیبہ پڑھنے کا ذکر بھی دلیل ہے کہ نیت دل کی حالت دل میں موجود ارادے کی درستگی کا ہی نام ہے۔ دوران نماز نیت تبدیل کر لینا اور نماز کو مختصر کر دینا بھی دلیل ہے کہ نیت دل کے ارادے کا ہی نام ہے۔جس طرح کوئی شخص دکھاوے کے لئے اور تکبرانہ عمل کے لئے بول کر نیت کے الفاظ نہیں کہتا، حدیث کے مطابق جسطرح عالم، مجاہد اور مالدار کو جہنم میں صرف دل میں موجود شہرت ،دکھاوے کی حرص اور بدنیتی کی وجہ سے گھسیٹا گیا جبکہ انہوں نے زبان سے بدنیتی کے الفاظ دہرائے ہی نہیں تو یہ کیسے قابل تسلیم ہے کہ خلوص کے لئے زبان سے الفاظ ادا کیئے جائیں۔ جبکہ زبان دل کی حالت کی تصدیق ہی نہ کرے تو اب کون سی نیت معتبر ہو گی؟ کوئی زبان سے تو کہے کہ نیت کرتا ہوں چار رکعت کی اور دل میں ارادہ رکھے کہ تین پڑھے گا تو اب کس کا اعتبار کیا جائے گا؟
رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔