• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

والدين كى اطاعت كرنا افضل ہے يا اپنے خاوند كى اطاعت كرنا ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شيخ الاسلام بن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك عورت شادى شدہ ہے اور وہ والدين كے حكم سے نكل كر خاوند كے حكم ميں آچكى ہے، اس كے ليے والدين كى اطاعت كرنا افضل ہے يا اپنے خاوند كى اطاعت كرنا ؟

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" شادى كے بعد عورت كا خاوند عورت كے والدين سے بيوى كا زيادہ مالك ہے، اور اس پر اپنے خاوند كى اطاعت زيادہ واجب ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ پس نيك عورتيں فرماں بردار ہيں، اور غير حاضرى ميں حفاظت كرنے والى ہيں، اس ليے كہ اللہ نے ( انہيں ) محفوظ ركھا }.

اور حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" دنيا بہترين مال و متاع ہے، اور دنيا كا سب سے بہتر مال و متاع نيك و صالح عورت ہے، جب تم اسے ديكھو تو وہ تمہيں خوش كر دے، اور جب اسے حكم دو وہ تو تمہارى اطاعت كرے، اور جب تم اس سے غائب ( دور سفر پر ) ہو تو وہ آپ كے مال اور اپنى جان كى حفاظت كرتى ہے "

اور صحيح ابى حاتم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب عورت اپنے اوپر پانچ فرض نمازيں ادا كرتى ہو اور رمضان المبارك كے روزے ركھتى ہو، اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اور اپنے خاوند كى اطاعت كرے تو وہ جنت كے جس دروازے سے چاہے جنت ميں داخل ہو گى "

اور سنن ترمذى ميں ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو عورت بھى اس حالت ميں فوت ہوئى كہ اس كا خاوند اس پر راضى تھا تو وہ جنت ميں داخل ہوگى "

اسے امام ترمذى نے روايت كيا اور اسے حسن قرار ديا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر ميں كسى كو كسى دوسرے كے ليے سجدہ كرنے كا حكم ديتا تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے "

اسے ترمذى نے روايت كيا اور اسے حسن قرار ديا ہے اور ابو داود نے درج ذيل الفاظ سے روايت كيا ہے:

" تو ميں عورتوں كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوندوں كو سجدہ كريں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان پر خاوند كے بہت زيادہ حقوق ركھے ہيں "

اور مسند احمد ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

" كسى بھى بشر كو كسى دوسرے بشر كے سامنے سجدہ كرنا صحيح نہيں، اور اگر كسى بشر كے سامنے سجدہ كرنا صحيح ہوتا تو ميں عورت كو حكم ديتا كہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے كيونكہ خاوند كا بيوى پر عظيم حق ہے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے اگر خاوند كے قدم سے اس كے سر تك زخم ہو اور اس سے پيپ اور خون رس رہا ہو اور بيوى اسے آگے بڑھ كر چاٹ لے تو بھى خاوند كا حق ادا نہيں كر سكتى... "

شيخ الاسلام رحمہ اللہ نے خاوند كى اطاعت كى فضيلت والى احاديث بھى نقل كى ہيں.

اس سلسلہ ميں احاديث بہت زيادہ ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:

زيد بن ثابت بيان كرتے ہيں كہ: قرآن مجيد ميں خاوند كو سيد يعنى سردار كا لقب ديا گيا ہے، اور پھر انہوں نے درج ذيل فرمان بارى تعالى تلاوت كيا:

{ اور ان دونوں نے دروازے كے پاس اپنے سردار كو پايا }.

اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:

" نكاح غلامى ہے، جو تم ميں سے ہر ايك دو ديكھنا چاہيے كہ وہ اپنى لخت جگر بيٹى كو كس كى غلامى ميں دے رہا ہے "

اور ترمذى وغيرہ ميں وارد ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عورتوں كے ساتھ بہتر سلوك كرو، كيونكہ يہ عورتيں تمہارے پاس غلام ہيں "

چنانچہ عورت اپنے خاوند كے پاس غلام اور قيدى جيسى ہے اس ليے عورت اپنے خاوند كے گھر سے خاوند كى اجازت كے بغير باہر نہيں نكل سكتى، چاہے عورت كا والد يا والدہ يا پھر كوئى اور حكم بھى دے تو امت كا متفقہ فيصلہ ہے كہ خاوند كى اجازت كے بغير گھر سے باہر نہيں نكل سكتى.

اور اگر خاوند اپنى بيوى كو كسى اور جگہ منتقل كرنا چاہے اور اپنے اوپر واجب كردہ حقوق كى ادائيگى بھى كرے اور بيوى كے متعلق اللہ كى حدود كى بھى حفاظت كرے ليكن عورت كا باپ اپنى بيٹى كو اس ميں خاوند كى اطاعت سے روكے تو عورت كو اپنے خاوند كى اطاعت كرنى چاہيے باپ كى نہيں، كيونكہ اس صورت ميں اس كے والدين اس پر ظلم كر رہے ہيں، انہيں اپنى بچى كو اس طرح كے خاوند كى اطاعت سے روكنے كا كوئى حق حاصل نہيں.

اس عورت كو بھى حق حاصل نہيں كہ وہ خاوند كى نافرمانى ميں اپنى ماں كى اطاعت كرے، كہ اس سے خلع لے يا پھر جھگڑے تا كہ خاوند اسے طلاق دے دے، يعنى بيوى كو حق حاصل نہيں كہ وہ نان و نفقہ اور لباس و مہر كے متعلق ايسا مطالبہ كرے جس كى بنا پر خاوند اسے طلاق دے دے، اگر خاوند متقى ہو اور بيوى كے معاملات ميں وہ اللہ سے ڈرنے والا ہو تو بيوى كو طلاق لينے كے متعلق اپنے والدين كى اطاعت كرنا حلال نہيں ہوگى.

سنن اربعہ اور صحيح ابن ابى حاتم ميں ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى سبب كے طلاق كا مطالبہ كيا تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

اور ايك دوسرى حديث ميں ہے:

" خلع لينے والى ہى منافقات ہيں "

ليكن اگر اس كے والدين اسے اللہ كى اطاعت كا حكم ديتے ہيں، مثلا نماز پنجگانہ كى پابندى اور سچائى اختيار كرنے اور امانت و ديانت اختيار كرنے كے ساتھ ساتھ فضول خرچى سے اجتناب كرنے كا كہيں تو يہ ان احكام ميں شامل ہے جو اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم بھى ہے، يا پھر جس سے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے، اس ليے اسے بھى اس ميں ان كى اطاعت كرنى چاہيے چاہے اسے والدين كے علاوہ كوئى دوسرا بھى يہ باتيں كہے تو اسے يہ ماننا ہونگى تو پھر اگر والدين كہيں تو كيسے نہيں مانےگى ؟

اور جب خاوند اسے كسى ايسے كام سے روكے جس كا حكم اللہ اور اس كى رسول نے ديا ہو، يا پھر اسے كسى ايسے كام كو سرانجام دينے كا حكم دے جس سے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے منع كيا ہو تو اسے اس ميں اپنے خاوند كى اطاعت نہيں كرنى چاہيے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ خالق الملك كى نافرمانى ميں كسى مخلوق كى اطاعت نہيں كى جا سكتى "

بلكہ اگر كوئى مالك اپنے نوكر اور غلام كو اللہ كى معصيت كا حكم دے تو غلام كو اس معصيت ميں اپنے مالك كى اطاعت كرنى جائز نہيں تو پھر عورت كو كيسے مجبور كيا جا سكتا ہے كہ وہ اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ و سلم كى مصيت ميں اپنے خاوند يا والدين كى اطاعت كرے.

كيونكہ خير و بھلائى تو صرف اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى ميں ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمانى و معصيت ميں ہى سارى كى سارى برائى اور شر ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 261 - 264 ).

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا مندرجہ بالا علمى اور مضبوط جواب ہى كافى ہے جس سے مقصد پورا ہو جاتا ہے، كہ آپ كى والدہ كے ليے جائز نہيں كہ وہ آپ اور آپ كى بيوى كے مابين خرابى اور فتنہ پيدا كرے، اور اس سلسلہ ميں آپ كے ليے اس كى اطاعت كرنا حلال نہيں، اور خاوند كا حق اور اس كى اطاعت آپ كى والدہ كى اطاعت سے زيادہ حق ركھتى ہے.

بيوى كے اپنے خاوند كى اجازت كے بغير سفر كرنا جائز نہيں اور نہ ہى وہ كسى ايسے شخص كو خاوند كے گھر ميں داخل كر سكتى جسے خاوند ناپسند كرتا ہو، اور اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس ميں وہ خاوند كى اطاعت چھوڑ كر اپنى والدہ كى اطاعت نہيں كر سكتى، كيونكہ خاوند كى اطاعت كا زيادہ حق ہے.
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
جزاک اللہ خیرا عامر یونس بھائی
آپ نے بہت ہی عمدہ ٹاپک شیئر کیا ۔اس وقت اس کی بہت زیادہ ضرورت بھی ہے کہ اس قسم کے ٹاپک کو شیئر کیا جائے۔جزاک اللہ خیرا فی الدارین
بھائی میرا یہاں ایک سوال ہے؟
کسی بھی مرد پر ماں کا زیادہ حق ہے یا بیوی کا؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
والدين كے كہنے پر بيوى كو طلاق دينا

والدين كے كہنے پر بيوى كو طلاق دينے كا شرعى حكم كيا ہے ؟

والدين دليل يہ ديتے ہوں كہ وہ عورت ان كے پاس ايك ملازمہ اور خادمہ كى حيثيت سے كام كرتى تھى، اگر وہ طلاق نہ دے تو كيا يہ والدين كى نافرمانى شمار ہوگى، يہ علم ميں رہى كہ يہ بيوى اس وقت عزت و احترام كى زندگى بسر كر رہى ہے ؟


الحمد للہ:

بلاشك و شبہ والدين كا حق بہت زيادہ ہے، اور سب لوگوں سے زيادہ والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آنا چاہيے، بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو والدين كے ساتھ حسن سلوك كا حكم تو اپنى عبادت كے ساتھ ذكر كيا ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

{ اور تيرے پروردگار كا يہ حكم ہے كہ اس كے علاوہ كسى اور كى عبادت نہ كرو، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ }الاسراء ( 23 ).

اولاد پر والدين كى ہر اس معاملہ ميں اطاعت و فرمانبردارى واجب ہے جس ميں بچوں كو نقصان اور ضرر نہ ہو بلكہ والدين كا اس ميں فائدہ و نفع پايا جائے، ليكن جس ميں والدين كا كوئى نفع نہ ہو، يا پھر جس ميں اولاد كو نقصان و ضرر ہو تو پھر اس وقت والدين كى اطاعت واجب نہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" معصيت كے علاوہ والدين كى اطاعت كرنا آدمى پر لازم ہے، چاہے والدين فاسق ہى ہوں.... يہ اس ميں ہے جب والدين كو اس سے فائدہ ہوتا ہو، اور بچے كو كوئى نقصان و ضرر نہ ہو " اھـ
ديكھيں: الاختيارات ( 114 ).

طلاق كے مباح اسباب كے بغير كسى سبب كى بنا پر طلاق دينا اللہ كو ناپسند ہے، كيونكہ اس ميں خاوند و بيوى جيسى نعمت كو ختم كرنا اور خاندان و گھر اور اولاد كو تباہى كى طرف لے جانا ہے.
اور اس ميں عورت پر ظلم بھى ہو سكتا ہے، اور پھر ماضى ميں عورت كا ملازمہ اور خادمہ رہنا كوئى ايسا شرعى سبب نہيں جس كى بنا پر اسے طلاق دى جا سكے، خاص كر جب وہ دينى اور اخلاقى طور پر مستقيم و صحيح ہو.

اس بنا پر اس بيوى كو والدين كے كہنے پر طلاق دينا واجب نہيں، اور نہ ہى اسے نافرمانى ميں شمار كيا جائيگا، ليكن بيٹے كو چاہيے كہ بيوى كو طلاق دينے كے مطالبہ كو بيٹا احسن طريقہ سے رد كرے، اور اس ميں نرم لہجہ اور طريقہ اختيار كرے-

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ نہ ت وانہيں اف كہو اور نہ ہى ان كى ڈانٹ ڈپٹ كرو، اور انہيں اچھى اور نرم بات كہو }الاسراء ( 23 ).

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

جب والد صاحب بيٹے سے مطالبہ كريں كہ وہ بيوى كو طلاق دے دے تو اس كا حكم كيا ہوگا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جب والد بيٹے كى بيوى كو طلاق دينے كا مطالبہ كرے تو اس كى دو حالتيں ہونگى:

پہلى حالت:

والد اسے طلاق دينے اور چھوڑنے كا شرعى سبب بيان كرے مثلا وہ كہے: " تم اپنى بيوى كو طلاق دے دو " كيونكہ اس كے اخلاق صحيح نہيں اس ميں شك ہے مثلا وہ مردوں سے تعلقات ركھتى ہے، يا پھر ايسے مقامات پر جاتى ہے جو صاف نہيں اس طرح كا كوئى سبب بيان كرے.

ت واس حالت ميں بيٹا اپنے والد كى بات مانتے ہوئے بيوى كو طلاق دے گا؛ كيونكہ اس نے اپنى خواہش كى بنا پر بيٹے كو طلاق دينے كا نہيں كہا، بلكہ اس ليے طلاق دينے كا كہا ہے تا كہ بيٹے كا بستر محفوظ رہے كہ كہيں وہ اس كے بستر كو گندا كر دے تو پھر اسے طلاق ديتا پھرے.

دوسرى حالت:

والد اپنے بيٹے كو كہے: اپنى بيوى كو طلاق دے دو كيونكہ بيٹا اپنى بيوى سے بہت زيادہ محبت كرتا تھا والد بيٹے كى اس محبت سے غيرت ميں آ گيا، اور پھر ماں تو زيادہ غيرت كرتى ہے كيونكہ بہت سارى مائيں جب ديكھتى ہيں كہ ان كا بيٹا اپنى بيوى سے محبت كرتا ہے تو وہ غيرت ميں آ جاتى ہيں حتى كہ بيوى كو اپنى سوكن سمجھنے لگ جاتى ہيں، اللہ تعالى سے سلامتى و عافيت كى دعا ہے.

اس حالت ميں بيٹے كے ليے والدين كے كہنے پر بيوى كو طلاق دينا لازم نہيں، ليكن اسے چاہيے كہ وہ والدين كى خاطر مدارت كرے اور اپنى بيوى كو اپنے پاس ہى ركھے طلاق نہ دے اور نرم لہجہ سے والدين كو الفت كے ساتھ راضى كرے كہ وہ اسے رہنے ديں، اور خاص كر جب بيوى دين و اخلاق كى مالك ہو.

امام احمد رحمہ اللہ سے بالكل ايسے ہى مسئلہ كے متعلق دريافت كيا گيا ايك شخص ان كے پاس آيا اور عرض كى ميرے والد صاحب مجھے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا كہتے ہيں ؟

امام احمد رحمہ اللہ نے اسے كہا:

تم اسے طلاق مت دو.

وہ كہنے لگا: كيا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بيٹے سے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا حكم ديا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اس كا حكم نہيں ديا تھا ؟

تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمايا:

كيا تمہارا باپ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى طرح ہے ؟

اور اگر باپ اپنے بيٹے پر يہ دليل لے اور اسے كہے: بيٹے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو ان كے باپ عمر كے كہنے كے مطابق طلاق دينے كا حكم ديا تھا تو اس كا جواب يہى ہوگا كہ:

يعنى كيا تم عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى طرح ہو ؟

ليكن يہاں بات ميں نرمى اختيار كرتے ہوئے يہ كہنا چاہيے كہ: عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے كوئى ايسى چيز ديكھى تھى جو طلاق كى متقاضى تھى اور مصلحت اسى ميں تھى كہ وہ بيٹے كو كہيں كہ اسے طلاق دے دے.

اس مسئلہ كے متعلق بہت زيادہ سوال ہوتا ہے تو اس كا جواب يہى ہے " انتہى

ديكھيں: الفتاوى الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 671 ).

مستقل فتاوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

والدہ اپنى شخصى ضرورت كى بنا پر بيوى كو طلاق دينے كا مطالبہ كرتى ہے يہ مطالبہ نہ تو دينى عيب كى بنا پر ہے اور نہ ہى كسى شرعى سبب كى وجہ سے اس مطالبہ كا حكم كيا ہو گا؟


كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا سائل نے بيان كيا ہے كہ اس كى بيوى مستقيم ہے اور دين والى ہے اور وہ اس سے محبت بھى كرتا ہے، اور بيوى كو قيمتى سمجھتا ہے، اور اس نے اس كى والدہ كے ساتھ برا سلوك نہيں كيا، بلكہ والدہ نے اپنى شخصى ضرورت كى بنا پر اسے ناپسند كرنا شروع كر ديا ہے، اور وہ اپنى بيوى كو اپنے ساتھ ركھتا ہے اور يہ نكاح ختم نہيں كرتا تو اس ميں اس كے ليے والدہ كى اطاعت كرنا لازم نہيں.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا صحيح فرمان ہے:

" اطاعت و فرمانبردارى تو نيكى و معروف ميں ہے "

اس بنا پر اسے اپنى والدہ كى زيارت كر كے اور اس سے نرم لہجہ ميں بات چيت كر كے اور اس كے اخراجات برداشت كر كے صلہ رحمى كرنى چاہيے، جس چيز كى وہ محتاج اور ضرورتمند ہے وہ پورى كرے جس سے والدہ كا سينہ ٹھنڈا ہو اور اسے اچھا لگے ليكن وہ اپنى بيوى كو طلاق مت دے، باقى اعمال كرے "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 29 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بوڑھے والدين كى خدمت كے ليے شادى نہ كرنا

ايك اكيس برس كى مسلمان لڑكى كے ليے افضل كيا ہے آيا وہ شادى كرے يا كہ اپنى زندگى بوڑے والدين كى خدمت كے ليے وقف كر دے، كيونكہ اس كے دونوں بھائى ابھى بہت چھوٹى عمر كے ہيں اور انہيں مالى اور تعليمى معاونت كى بھى ضرورت ہے ؟

الحمد للہ:

بلاشك و شبہ والدين كى خدمت كرنا بہت بڑا اجر و ثواب كا كام ہے، اور جنت كے وسيع ترين دروازے ميں شامل ہوتا ہے.

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كرتے ہوئے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سب سے افضل عمل كونسا ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
نمازوں كى بروقت ادائيگى.
ميں نے عرض كيا: اس كے بعد پھر كونسا عمل ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
پھر والدين كى خدمت كرنا.
ميں نے عرض كيا: پھر كونسا عمل ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اللہ كى راہ ميں جھاد كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2782 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 85 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 145627 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

جب والدين كى اطاعت و فرمانبردارى سب سے زيادہ وسيع دروازہ اور اللہ سبحانہ و تعالى كى رضا و خوشنودى كا حصول ہے؛ تو بلاشك و شبہ عفت و عصمت يعنى اپنے آپ كو غلط كارى سے محفوظ ركھنا اور پاكباز بنانا بھى سب سے اہم چيز ہے جس كى آدمى كو حرص ركھنى اور كوشش كرنى چاہيے خاص كر جب وہ جوانى كى عمر ميں ہو اور پھر جہاں فتنہ و فساد بھى زيادہ پايا جائے، اور آدمى اپنے آپ كو فتنہ ميں پڑنے كا ڈر ركھے.

ظاہر تو يہى ہوتا ہے اور اس كا بہت تجربہ بھى ہے كہ جو سوال ميں بيان كيا گيا ہے وہ دونوں چيز آپس ميں تعارض نہيں ركھتيں؛ بلكہ دونوں كا اكٹھا كرنا ممكن ہے كہ انسان شادى بھى كرے اور والدين كى خدمت بھى.

لہذا والدين كى ضروريات پورى كرنا اور ان كى ديكھ بھال اور خدمت كرنا اور ان كے ساتھ صلہ رحمى اور بہتر سلوك كرنا اس بات كا محتاج نہيں كہ آپ اپنى زندگى ان كے ليے وقف كر ديں، اور پھر آپ تو جوانى كى عمر ميں ہيں؛ صرف يہ ديكھيں كہ آپ كے والدين كو كس چيز كى ضرورت ہے اگر انہيں آپ كى خدمت كى ضرورت ہے اور وہ خود اپنى ديكھ بھال نہيں كر سكتے اور آپ كے چھوٹے بھائى ان كى خدمت نہيں كر سكتے تو آپ سے مطلوب يہى ہے كہ آپ كوئى ايسا خاوند تلاش كريں جو آپ كو اپنے والدين كى خدمت كى اجازت دے.

آپ ايسا خاوند اختيار نہ كريں جو آپ كو آپ كے علاقے اور شہر سے كہيں اور لے جائے، بلكہ اس كے بدلے ايسا خاوند اختيار كريں جو اسى علاقے اور شہر كا رہنے والا ہو اور اس كا گھر آپ كے والدين كے گھر كے جتنا زيادہ قريب ہو يہ بہتر اور افضل ہے، تا كہ آپ آسانى سے اپنے والدين كى ضروريات كا خيال ركھ سكيں اور ان كى خدمت كر سكيں.

آپ ايسا خاوند اختيار كريں جو اخلاق حسنہ كا مالك ہو اور نرم طبيعت كا مالك ہو تا كہ آپ كى والدين كى خدمت ميں آپ كا ممد و معاون بن سكے اور آپ كو ايسا كرنے سے منع نہ كرے.

اس كے ساتھ ساتھ يہ بھى كہ اگرچہ والدين بڑى عمر كے ہيں ليكن اكثر طور پر روزانہ ان كے پاس جانے كى ضرورت نہيں ہو سكتى بلكہ آپ معاملات كو منظم و مرتب كريں تا كہ ان كا بہتر طريقہ سے خيال ركھا جا سكے.

بہر حال ہمارے خيال كے مطابق تو ان تفاصيل كو منظم اور مرتب كرنا ممكن ہے، اور ان شاء اللہ بہت آسان بھى ہے.

اور اگر انہيں مالى معاونت كى بھى ضرورت ہے يا آپ كے بھائيوں كو مالى معاونت كى ضرورت ہے، تو آپ بقدر استطاعت ان كى معاونت كر سكتى ہيں، اگر آپ ملازمت كرتى ہوں تو اپنى تنخواہ سے والدين اور بھائيوں كو كچھ رقم دے ديں، اور آپ كو حق ہے كہ اپنے خاوند سے شادى كے وقت شرط ركھيں كہ وہ آپ كو ملازمت كرنے سے نہيں روكےگا اور آپ كو اپنے والدين اور بھائيوں كى معاونت سے منع نہيں كريگا.

اور اگر فرض كريں كہ شادى كے بعد آپ كا اپنے والدين اور بھائيوں كا مالى تعاون كم ہو جاتا ہے، تو اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى ان كے ليے رزق كے دروازے كھول دے اور نعم البدل عطا فرما دے.

اور اگر وہ آپ كے چھوٹے بھائيوں كو تعليم نہيں دلوا سكتے چاہے آپ كى معاونت كے علاوہ كہيں اور سے بھى معاونت حاصل ہونے كے باوجود تعليم نہ دلوا سكيں تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ آپ كى شادى اور آپ كا اپنے نفس كو عفت عصمت والا بنانا آپ كا اپنے بھائيوں كى تعليم ميں معاونت كرنے پر مقدم ہے آپ كا شادى كرانا افضل اولى اور بہتر ہے.

يہ علم ميں ركھيں كہ جب بندہ اپنے مسلمان بھائى كى مدد كرتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى بھى اپنے بندے كى مدد فرماتا ہے، تو پھر جب آپ اپنے سگھے بھائيوں اور والدين كى مدد كرنے كا عزم ركھتى ہيں تو اللہ كى مدد ضرور شامل حال ہوگى.
ہمارا خيال نہيں بلكہ ہميں يقين ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو اپنے فضل و كرم سے اپنے والدين كى خدمت كرنے كا موقع دےگا اور كبھى محروم نہيں كريگا، اور آپ كے ليے ہر مشكل اور تنگى سے آسانى پيدا فرمائيگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور پرہيزگارى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا اور جو كوئى بھى اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كرتا ہے تو اللہ تعالى اس كے ليے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے ہى رہےگا، اللہ تعالى نے ہر چيز كا ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے }الطلاق ( 2 - 3 ).

واللہ اعلم.
الاسلام سوال و جواب
http://islamqa.info/ur/167116
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
بہت اچھی شئیرنگ بھائی
جزاک اللہ خیرا
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
اللہ آپ کو اور محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
بہت اچھی پوسٹ ہے
 
Top