• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وحدت ادیان از شیخ عبدالوکیل ناصر

عمیراشرف

مبتدی
شمولیت
جولائی 30، 2012
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
0
بسم اللہ الر حمن الرحیم

فتنہ وحدت ادیان
تعارف:فی زمانہ کسی بھی بین الاقوامی اجتماع میں جب تمام مذاہب کے ماننے والوں کو جمع کیا جاتا ہے تو مشترکہ طور پر اس اجتماع کا پیغام یہ ہوتا ہے کہ ’’ تمام مذاہب یکساں اور بر حق ‘‘ ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی پیروی سے کا ٰئنات کے خالق اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے ۔لھذا کسی ایک مذہب والے (خصوصاٌ اھل اسلام) کا اس بات پر اصرار کے اب تا قیا مت نجات کی سبیل صرف ہمارا دین و مذہب ہے یہ ایک بے جا سختی اور تشدد یا انتہا پسندی ہے، جس کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔
پھر اس’’ نظریہ وحدت ادیان‘‘ کی تفصیل کچھ یوں بیا ن کی جاتی ہے کہ ’’ جب منزل ایک ہو تو راستوں کے جدا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘ یعنی ہر مذہب والا ایک بزرگ و بر تر ذات کی بات کرتا ہے جسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ، کبھی اللہ تو کبھی بھگوان اور کبھی God جبکہ حقیقتاٌ تمام مذاہب اللہ کی بندگی اور خوشنودی حاصل کرنے کے ذرائع ہیں ، اس لئے ہر مذہب میں حق و انصاف ، انسان دوستی اور انسانی بھائی چارے کی تعلیم دی گئی ہے لھذا تمام انسانوں کو تمام مذاہب کا برابر کا احترام کرنا چاہیے، کسی ایک مذہب یا دین کی پیروی پر اصرار تشدد اور بے جا سختی ہے ، وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ بالا گفتگو گویا’’ وحدت ادیان ‘‘ کے نظریہ کا خلاصہ ہے بسا اوقات اسے یوں بھی تعبیر کردیاجاتا ہے کہ’’ دین و مذہب‘‘ کی پیروی انسان کا ’’پرائیویٹ ‘‘معاملہ ہے خوا ہ جس’’ مذہب ‘‘کی چاہے اتباع کرے ، اس پر ہرگزاعتراض نہیں ہونا چا ہیے۔
صاحب علم و صاحب مطالعہ حضرات جوکہ خصوصاٌ اسلام کا مطالعہ کما حقہ رکھتے ہیں وہ یقیناًاس بات سے اتفاق کرینگے کہ یہ ’’نظریہ وحدت ادیان ‘‘ ایک جدید اصطلاح ہے کہ اسلام دشمن عناصر نے یا احباب نما اغیار نے ایجاد کیا ہے۔اور یقیناًاس نظریہ کا حامل ہو کر کو ئی شخص اسلام کی حقانیت، رفعت اور شان و عظمت کو کبھی اجا گر نہیں کر سکتا کیونکہ جوں ہی وہ اس قسم کی کوئی تحریر یا تقریر ضبط میں لانا چاہے گا تو اسے بے جا سختی اور تشدد و انتہا پسندی کے القابات سے نواز کر چپ رہنے کو کہا جائیگا �آآ ج اس فتنہ ’’وحدت ادیان ‘‘ مذہبی تعصبات کے خاتمے کے خوشنما لیبل کے ساتھ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلانے کی کو شش ہر ہر سطح پر کی جا رہی ہے جس کے اثرات سیۂ سے موجود مسلمان خصو صاٌ نئی نسل کسی حد تک متا ثر بھی دکھا ئی دینے لگی ہے۔
دور حا ضر میں کیونکہ یہ ایک ’’اسلام دشمن ‘‘ عقیدہ اور نظریہ ہے تو اس کی بیخ کنی اور حقیقت اور مسمومیت کو واضح کرنے کیلئے بعض اھل علم نے بر وقت مواد تحریری شکل میں مرتب کیا ہے ، جن میں سے ڈاکٹر بکر ابو زید کی کتاب ’’الابطال لنظرےۃالخلط بین الادیان‘‘ اور مولانا سلطان احمد اصلا حی کی کتاب ’’وحدت ادیان کا نظریہ اور اسلام ‘‘ بہت مفید دکھائی دیتی ہیں ، مولانا مقصود الحسن فیضی (جمیعتہ الغاط الخیریہ، سعودی عرب)
نے بھی اپنی عملی تحریر ’’وفاداری یا بیزاری‘‘ میں اس ’’نظریہ ‘‘ پر تفصیلی نقد کیا ہے۔ ’’نظریہ وحدت ادیان ‘‘ کو ’’تقارب ادیان‘‘ کا راستہ قرار دینے والوں پر شیخ امین اللہ پشاوری نے بھی اپنے فتاویٰ ’’الدین الخالص‘‘ مجلہ نمبر ۹ میں گرفت فرمائی ہے۔
اسی نظریہ سے متاثر ہو کر اھل کفر ۃوالفجرۃ کے کفر میں شک کر نیوالے یا انہیں کافر قرار نہ دینے والے حضرات کے اس ’’غلط نظریہ‘‘ پر شیخ ابن بازؒ نے بھی علمی انداز سے نکیر فرمائی ہے جسے ’’مجموع فتاویٰ و مقالات متنوعہ ‘‘ کی جلد نمبر ۲ میں دیکھا جا سکتا ہے ۔فجزاھم اللہ تعا لیٰ خیرالجزاء وتقبل جھو دھم۔
تاریخی پس منظر:
’’وحدت ادیان ‘‘ کے اس غیر اسلامی نظریہ کو ہم تاریخ میں مرحلہ وار دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کس وقت کس شکل میں کس نعرے کے ساتھ صحیح عقیدے کے ’’بگاڑ‘‘ میں کار فرما رہا یا اسے اس ’’بگاڑ‘‘ کے لئے استعمال کیا گیا ۔اسلامی نظریہ ’’ومن یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآ خرۃمن الخاسرین‘‘ کے خلاف دشمنان اسلام کا یہ ’’ہتھیار‘‘ غالباٌ کافی پرانا ہے اور اس کے موجدین میں مشرکین عرب اور ملت یہودنصا ریٰ سر فہرست ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ اسلام کے مقابلے میں سب سے قبل مشرکین عرب نے اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ سختی ، ظلم و ستم اور تشدد کا راستہ اختیار کیا اور جب اس میں کامیاب نہ ہو سکے تو سودے بازی ، ملمع کاری پر اتر آئے کہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر آجائیں سورۃ الکافرون کا سبب نزول عمومی طور پر اسی موقعہ پر تقریباٌ سارے مفسرین نے بیان کیا ہے کہ مشرکین عرب نے نبی مکرمﷺ کے سامنے ’’اپنے زعم‘‘ میں ایک ’’درست‘‘ بات رکھی اور وہ یہ کہ ایک سال ہم آپ کے معبود اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کریں اور ایک سال آپ ہمارے معبو د (باطلہ) کی عبادت کریں ، ہم حق پر ہوئے تو آپ کو بھی ایک حصہ حق کا مل جائیگا اور انہیں آپ کے دین حق میں سے ایک حصہ مل جائیگا وغیرہ وغیرہ
جواب الہیٰ نازل ہوا ’’قل یاایھاالکافرون ، لا اعبد ماتعبدون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اور پھر جابجا یہی مفہوم اجاگر کیا گیا کہ ’’قل افغیر اللہ تأمرونی اعبدایھا الجاھلون‘‘ الآیہ
’’قل انی نھیت اعبدا لذین تد عون من دون اللہ‘‘ الآیہ
’’وحدت ادیان ‘‘ اور ’’تقارب ادیان ‘‘ کے نام سے آج یہی کچھ ہورہا ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو کے تحت ’’ادیان باطلہ‘‘ کو بھی حق تسلیم کرکے سمجھوتا کرکے گاڑی چلائی جائے ا۔مدینہ منورہ میں بھی یہودو نصاریٰ نے حق جان کر بھی اپنی دعوت دینی چاہی کہ ’’ کو نو ا ھوداٌ او نصاریٰ تعتدوا‘‘ الآیہ جواب ملا ’’بل ملۃ ابراہیم حنیفاوما کان من المشرکین ‘‘ الآیہ
دوسرا دور :
خیرالقرون کے بعد اھل علم سے دوری اور دنیاوی مال و زر کی کثرت نے جب علم تصوف کو رواج دیا تو ’’وحدت ادیان ‘‘ کے فتنے نے پھر جان پکڑی اور یہاں تک کہہ دیا گیا کہ یہودیت، نصرانیت اور اسلام میں باہم حیثیت وہی ہے جو خود اسلام میں مذاہب اربعہ کی ہے ، کسی بھی مذہب پر عمل کرکے انسان اللہ تعا لیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنے فتاویٰ 105/4 میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
’’صوفی ازم ‘‘ جسے آج عیسائی اور یہودی لابی ہر طرح سپورٹ کرکے اس کو بطو ر اسلام کے سامنے لانا چاہتی ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ صوفی ازم ’’وحدت ادیان‘‘ کے نظریہ کو قبول کرتا ہے اس قول کے ساتھ کے انسان اگر محقق بن جائے (یعنی وحدت الوجود کا قائل ہو جا ئے) تو اس کے لئے پھر یہودیت اور عیسائیت قبول کرنے میں کو ئی حرج نہیں۔ کما لیخفیٰ علی اھل العلم۔
تیسرا دور:
چودھویں صدی کے آغاز سے ہی تقریباٌ تمام عالم اسلام پر ہمیں یہو دو نصاریٰ کا تسلط اور غلبہ دکھائی دیتاہے اور وہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں اسلام کے اصل چہرہ کو مسخ کر دینے کے در پر دکھا ئی دیتے ہیں اسی تناظر میں ما سونیت (فری میسنری تحریک) نے ’’وحدت ادیان‘‘ کا نعرہ بلند کیا تاکہ یہودو نصاریٰ کے بارے میں جو نفرت مسلمانوں میں پا ئی جا رہی ہے وہ کم کی جا سکے اور اس طرح وہ جدید عالمی نظام کے تحت تما م ممالک( خصوصاٌاسلامی ممالک) پر قابض ہو سکیں اور اس کام کے لیے انہوں نے مسلمانوں ہی میں سے کچھ لوگوں کو استعمال کیا کہ جنھوں نے باقاعدہ بیروت میں ایک سوسائٹی قائم کی جس کا نام ’’جمعیۃ التالیف والتقریب‘‘ رکھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک و سوسائٹی کے ممبران میں شیعہ، عیسائی اور یہودی بھی شامل تھے تاکہ ’’مقاصد ‘‘ کو حاصل کیا جا سکے ۔
آخری مرحلہ:
غالباٌ یہ ہمارا دور ہے کہ جب ورثۃالانبیاء یکے بعد دیگرے ہم سے رخصت ہورہے ہیں اور بظاہر تسلط اغیار اور مسلمان سرنگوں دکھا ئی دے رہا ہے ایسے میں ’’وحدت ادیان‘‘ کے زہریلے عقیدے کو مزید تقویت دینے کے لئے اپنے اور بیگانے سب ہی ’’فرقہ واریت سے پاک پاکستان‘‘کے خوشنما نعروں کو لیکرمیدان عمل میںآبیٹھے ہیں اور ’’احترام مذاہب ‘‘ کے عملی ثبوت بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔واللہ المستعان
اب مشرک کو مشرک کہنا اور سمجھنا ، کافر کو کا فر کہنے اور لکھنے میں ’’جھجھک ‘‘ محسوس کی جا رہی ہے بلکہ اب تو ’’دلیلیں ‘‘ دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہودو نصاریٰ کو کب کا فر مشرک کہا گیا ہے ؟ اور پھر ستم در ستم یہ کہ دیگر ملۃ کافرہ کو اہل کتاب ہی باور کر لیا جائے تو حرج ہی کیا ہے؟ اور وہ بھی اس طرح کہ گویا ’’اہل کتاب‘‘ تو بس ’’موحد‘‘ ہی ہیں مشرک و کافر تو نہیں !!!
واللہ المستعان علی ھذا الخذلان ۔
قرآن تو علی الاعلان ’’اہل کتاب‘‘ کو کافر اور مشرک کہتا ہے۔
’’لم یکن الذین کفرو امن اھل الکتاب و المشرکین منفکین ‘‘
’’ھوالذی اخرج الذین کفرو امن ااھل الکتاب من دیارھم لاول الحشر‘‘
اور اب تو بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک بھی آ پہنچی ہے کہ ’’وحدت ادیان ‘‘ اور چند خوشنما نعروں کی آڑ میں یہ دعوت دی جا رہی ہے کہ تما م مذاہب کی عبادت گاہیں ایک ہی جگہ اور ایک ہی وال باؤ نڈری میں بنائی جا ئیں ، مسجد،کنیہ، گرجا اور مندر یکجا ہوں حتیٰ کہ تمام مذاہب کی تعلیمات کو ایک ہی کتاب میں جمع کر دیا جائے اور پھر شا ید نماز بھی ایک ہی ’’امام صاحب‘‘ کے پیچھے ہو جائے کہ ’’وحدت‘‘ تو یہی ہے نا!!
حاملین وحدت ادیان کے خوشنما نعرے :
’’نظریہ وحدت ادیان ‘‘ کے حاملین ، قائلین اور فاعلین ’’اقارب و اجانب‘‘ بظاہر بڑے خوبصورت نعرے لئے پھرتے ہیں اور ایسا محسوس ہو تا ہے کہ واقعی اب عالم دنیا کو اسی ڈگر پر چلانے کی ضرورت ہے ، خواہ آخرت برباد ہی کیوں نہ ہو جائے۔معاذاللہ
کہتے ہیں جی ’’وحدت ادیان درحقیقت وحدت ابدان سے ہے‘‘ تقارب بین الادیان تو دلوں کو جوڑنے کا نام ہے ، وحدت ادیان دینی تعصب کا خاتمہ ، دینی بھائی چارے کا پیغام، فرقہ واریت کا خاتمہ ، فتنہ تکفیر کی بیخ کنی ، انسان کی فلاح و بہبود کا راستہ ہے وغیرہ وغیرہ۔
جبکہ سو سائٹی ، تنظیم اور ادارہ جات میں بھی ’’وحدت ادیان ‘‘ کا پیغام دینے کے لئے ’’جمعیۃ التالیف والتقریب‘‘ مجمع الادیان ، مسلم، کرسچن ویلفیئر سوسا ئٹی ایسے ’’گمراہ کن ‘‘ نام اختیار کیے جا تے ہیں۔
انہیں نعروں میں سے یہ نعرے بھی ہیں، شیعہ سنی بھا ئی بھائی ، اپنا مذہب چھوڑو نہیں اور دوسرے کے مذہب کو چھیڑو نہیں۔
حامیان نظریہ وحدت ادیان:
اس نظریہ کی ابتداء (کچھ اختلاف الفاظ کے ساتھ) مشرکین عرب اور یہود و نصاریٰ نے کی تھی جیسا کہ پیچھے گزرچکا ہے بعد ازاں ہندوستان میں اسے پروان چڑھا یا گیا اور آج تو تما م عالم ہی گو یا اس کی تر ویج میں کو شاں ہے حتیٰ کہ سعودی عرب کے ’’شاہ صاحب‘‘ بھی اس کے مؤید دکھا ئی دیتے ہیں ، ذیل میں ہم اجمالاٌ ترتیب سے اس نظریہ کے حامیان کے اسماء لکھتے ہیں مثلاٌ
۱۔یہودو نصاریٰ ۲۔قادیانی ۳۔ شیعہ ۴۔پرویزی ۵۔متحد دین غامدی وغیرہ ۶۔میڈیا اور رسائل کے ذریعے سے اپنی جگہ ’’عوام میں
‘‘ بنانے والے جن میں سر فہرست طاہر القادری اور مولانا وحید الدین خان ہیں۔ ۷۔ویلفیئر کے نام پر ’’انسان سے پیا ر کرو‘‘ کا پیغام دینے والے ’’سماجی ہمدرد ‘‘ ۸۔سیاست دان کہ جن کا کو ئی مذہب نہیں ہوتا ، جیسا دیس ویسا بھیس ۹۔وحدت ادیان کی ترویج و اشاعت اور اسے آگے بڑھانے کی ’’مہم‘‘ کے سلسلے میں کچھ عرصہ قبل ’’مکہ کانفرس‘‘ میڈرڈ کانفرس اور عالمی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ’’مکالمہ بین الادیان‘‘ کے فضا ئل بیا ن کئے گئے اور اس مکمل کاروائی کی سر براہی ’’تو حید کے علمبردار‘‘ مملکت سعودیہ عربیہ کو نصیب ہوئی۔
ایں سعادت بازور بازو ینست۔۔۔۔۔نا
(تفصیل کے لئے دیکھئے سہہ ما ہی ’’ایقاظ‘‘ جنوری تا مارچ ۲۰۰۹)
نظریہ وحدت ادیان کے اثرات سیۂ :
منافی اسلام اور ملحدانہ نظریہ سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے اپنا کس قدر نقصان کیا اس کا اندازہ کافرانہ شعار و تہوار کے بڑھتے ہو ئے رجحانا ت سے کیا جا سکتا ہے ، عملاٌ اس با طل نظریہ کو قبو ل کر لینے کے مظاہر اب ہولی، دیوالی ، ویلنٹا ئن ڈے، بسنت، کرسمس ڈے وغیرہ کی شکل میں پھلتے پھولتے نظر آرہے ہیں اور مختلف تاویلات و حیلوں کے ذریعے انہیں فقط ایک ’’موسمی تہوار‘‘ قرار دیکر مسلمانوں میں رائج کیا جا رہا ہے حتیٰ کہ کرسمس ڈے پر نہ صرف ’’ہیپی کرسمس‘‘ کی صدائیں سنائی دیتی ہیں بلکہ نام نہاد ’’شیخ الاسلام ‘‘ کہلوانے والے مذہبی سکالر اس موقعہ پر سر عام ’’محرف بائبل‘‘ کی ’’تلاوت شریف ‘‘سنتے دکھائی دیتے ہیں اور کیک بھی کاٹتے ہیں کہ کہیں ’’عیسائی مشنریاں ‘‘ ناراض نہ ہو جا ئیں ۔واللہ المستعان
*اس باطل نظریہ ’’وحدت ادیان‘‘ کو غیر محسوس طریقے سے عوام و خواص ہر دو طبقوں نے قبول کر لیا ہے جسکے نتیجے میں ’’موالات محرمہ‘‘ سامنے آ رہی ہیں مثلاٌ کفار کی نصرت و تائید ، محبت اور دوستی ، احترام و تعظیم ، میل جول اور سکونت ،کفار سے مشابہت اور باہم رازداری کے معاملات وغیرہ۔
*اس باطل نظریہ کا ایک اثر یہ ہوا کہ اسلام کو جو فوقیت اور برتری دی گئی تھی کہ ’’لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘‘ وہ آج باقی نہیں رہی ، بلکہ اس برتری اور امتیاز کی بات کو ’’بے جا تشدد‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے ، حتیٰ کہ اس مسموم عقیدے کے حامل لوگوں نے ایک ہی امام ’’پوپ‘‘ کے پیچھے نماز پڑھ کر اسلامی اقدار کی دھجیاں بکھیر دیں ۔ (دیکھئے وفاداری یا بیزاری از مقصود الحسن فیضی )
جب کہ دین اسلام تو کسی کافر جماعت کے رھنما کانام کسی عام مسلمان سے پہلے لینے پر بھی تنبیہ کرتا ہے جیسا کہ فتح مکہ کے سال جب کچھ لوگوں نے ابو سفیان (جو کہ اس وقت مسلمان نہ تھے) کا نام صحابی رسول عائذ بن عمروؓ سے پہلے لیا تو نبی رحمت ﷺ نے عائذؓ کا نام پہلے لے کر جملہ کی تصحیح فرمائی اور فرمایا ’’الاسلام اعزمن ذرک ، الاسلام یعلو ولا یعلی‘‘ (دارقطنی ۳۵۷۸)
*اس باطل نظریہ کو قبول کرنے سے ایک دوسرا خطرناک اثر یہ سامنے آیا کہ شریعت کا حکم ’’الموالاۃ فی اللہ وا لمعاداۃ فی اللہ‘‘ الولا ء والبرارکی تعلیم پس پشت ڈال دی گئی جو ملت ابراہیم کی اساس تھی ، اس نظریہ وحدت ادیان کے حامی ترکی کے صدر نے تمام دینی غیرت و حمیت سے ماورا ہو کر اپنے وزیر سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ قرآن مجید سے ایسی ۳۰۰ آیات حذف کر دی جائیں کہ جن پر اس زمانے میں عمل نہیں کیا جاسکتا ۔(دیکھئے وفاداری یا بیزاری)
*اس وحدت کے نظریے کو عملاٌقبول کرنے میں ایک انتہائی برا اثر یہ ہوا کہ اعلاء کلمۃاللہ کیلئے کیا جانے والا جہاد ’’دہشت گردی اور انتہا پسندی‘‘ قرار دیدیا گیا۔اور یوں اسلام کی کو ہان کو کاٹ کر رکھ دیا گیا ، حالانکہ یہ امر اس وقت تک کیلئے تھا کہ جب تک اس روئے زمین پر ایک اللہ کی بندگی عملاٌنہ اختیار کر لی جائے ۔(تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں کتب احادیث کی طرف مراجعت فرمائیں)
*وحدت ادیان کے نظریہ کو قبول کرنے کا نتیجہ یوں بھی نکلا کہ غیر مسلموں نے جو مسلمانوں اور ان کی اراضی پر جو قبضہ و ظلم و ستم روا رکھا ہوا ہے، اس سے دستبر داری کا اعلان کیا جائے اورا س تنازعہ کو ختم کیا جائے ، خواہ اس سے اھل کفر کے ظلم کو تقویت ہی کیوں نہ ملے ۔مثلاٌ فلسطین پر ظالم یہودیوں کا قبضہ تسلیم کر لیا جائے ، فلسطین اور بیت المقدس کا مطالبہ ترک کیا جائے ، ہندوستانی مسلمان ہندو تہذیب میں بس ضم ہو جا ئیں اور مسلمانان عالم کشمیر، بوسنیا، چیچنیا کے مسلمانوں کی مدد غذا اور لباس سے تو کریں مگر جہادکا نام مٹا ڈالیں، وغیرہ وغیرہ۔
وحدت ادیان کے بارے میں شریعت کا حکم:
اس باطل نظریہ کی حقیقت تاریخی پس منظر ، اس کے علمبردار ، اس کی قبولیت کے ملی مظاہر اور اسکی ’’مسموم‘‘ غرض و غا یت جان لینے کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم اس نظریہ سے متعلق شریعت کا حکم دیکھیں ، کیا شریعت اسلامیہ اس کی گنجائش دیتی ہے ؟ کیا اسلام اسے قبو ل کرتا ہے؟
یقینامذکورہ بالا سوالوں کا جواب نفی میں ہی ہو سکتا ہے خصو صاٌ سورۃ الکافرون تو یہی درس دیتی ہے کہ
کہہ دیجئے :اے کافروں!میں ان کی عبادت نہیں کرتا جنکی تم عبادت کرتے ہو نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔اور نہ تم ہی اسکی عبادت کرنے والے ہو جسکی میں عبادت کرتا ہوں۔تمہارے لئے تمہارادین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔
یہ دو ٹوک اسلامی فیصلہ ہے جس کے بعد’’وحدت ادیان‘‘ کے نظریہ کو قبول کرنے کا کوئی جواز مسلمان کے پاس نہیں رہ جاتا ۔وجوہات درج ذیل ہیں۔
۱۔یہ نظریہ اسلام سے اصو لاٌ و فروعاٌ متصادم ہے ، کیونکہ اسلام کامل مکمل ہے اور اس کے بعد تمام ادیان منسوخ ہو چکے ہیں، اب نجات صرف اور صرف اسلام سے وابستہ ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلق یقبل منہ وھوفی الآخرۃمن الخاسرین‘‘ (آل عمران ۸۵)
مزید فرمایا ’’ان الدین عنداللہ الاسلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔الی آخرہ‘‘ (آل عمران ۲۰،۱۹) (تفصیل کے لئے دیکھئے مجموع فتاویٰ و مقالات متنوعہ از شیخ ابن بازؒ 282-277/2 )
نبی ﷺ نے فرمایا ’’اگر اس امت کا کوئی بھی یہودی یا عیسائی جو میری رسالت کے بارے میں سن چکا ہو اور پھر بھی میری شریعت پر ایمان نہ لایا تو مر کر جہنم میں جا ئے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
۲۔قرآن مجید سا بقہ تما م کتابوں کا نا سخ بھی ہے اور ان پر حاکم و نگہبان بھی ، اس کی موجودگی میں دوسری کسی کتاب (بائبل وغیرہ) کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے قرآن سے ملایا جا سکتا ہے ، منسوخ اور باطل تعلیمات کو حق کی تعلیمات کے مساوی سمجھنا بد ترین گمراہی ہے۔
وانزلنا الیک الکتاب با لحق مصد قا لما بین ید یہ من الکتاب و مھیمنا علیہ فا حکم بینھم بما انزل اللہ۔۔۔ (المائدہ ۴۸)
معروف واقعہ ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے سیدنا عمرؓ کے توراۃ کا ورق پڑھنے پر کس قدر نا راضگی اور غضب کا اظہا ر کیاتھا اور فرمایا تھا ’’لو بدالکم موسیٰ فاتبعتموہ و تر کتمو نی لضللتم عن سواء السبیل ولو کان حیا و ادرک نبوتی لا تبعنی‘‘ (سنن دارمی ۴۳۵)
لہذٰا ’’وحدت ادیان‘‘ کا نظریہ ایک گمراہ کن نظریہ ہے جو یقیناًطریقہ ارتداد ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ تمام کتابوں کو ایک ہی جگہ لکھ کر مساوی درجہ دیا جائے۔معاذاللہ
۳۔وحدت ادیان کا نظریہ قبول کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے احکام اسلام معطل ہو کر رہ جائیں جیسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافریضہ ہے اور معروف عقیدہ توحید اور منکر اکبر شرک ہے ، وحدت ادیان کے نظریہ کو قبول کرکے جب یہ مان لیا گیا کہ کسی کو کافر ، مشرک یا گمراہ نہ کہیں تو پھر آپ کس طرح توحید و سنت کی آ بیاری اور شرک و بدعت کی بیخ کنی کریں گے؟؟؟
۔نظریہ وحدت ادیان ، اسلامی نظر الولاء والبراء (جو کہ اصل التوحید ہے) کے منافی ہے، مسلمان ہر گز اھل کفرۃوفجرۃ سے یارانہ نہیں لگا سکتا ، وہ صرف مسلمانوں سے ہی دوستی لگانے کا پابند ہے جیسا کہ سورۃالمائدہ آیت۵۷،۵۵ اور سورۃالمجادلہ آیت ۲۲ وغیرہ میں بیان ہوا ہے۔
۵۔اس نظریہ مسمو مہ کو وقبو ل کرنا گو یا کہ لوگوں کو اجازت دینا ہے کہ وہ شریعت محمدیہ سے ہٹ کر بھی کسی دوسری شریعت پر عمل کر سکتے ہیں اور کامیاب ہو سکتے ہیں ، جب کہ ایک مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ، شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہابؒ نے مذہب مشرکین و غیر مسلمین کی تصحیح کو نواقض اسلام میں سے شمار کیا ہے۔
 
Top