• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وزیراعظم نوازشریف طبی معائنے کے لیے کل لندن جائیں گے

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
"پچھلی حکومتیں کوئی ایسا ہسپتال نہیں بنواسکیں جس میں میرے والد کا علاج ہوسکے"-

مریم نواز کے ٹویٹ پر سنئے مبشرلقمان کا مریم نواز کو جواب



جی ہاں مریم نواز صاحبہ نے صحیح کہا -

دماغی بیماری، پاگل پن ، روپے پیسے کا لالچ ، کرپشن جیسی بیماریاں - جن میں ان کے والد (نواز شریف) عرصہ دراز سے مبتلا ہیں - ان بیماریوں کا پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج ممکن نہیں-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو سالوں اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد بھی پاکستان میں ایک بھی ہسپتال نہیں بنوا سکے جہاں انکا اور انکی فیملی کا علاج اور نہ میڈیکل کالجز سے ایسے ڈاکٹر پیدا کر سکے ہیں جو ان کا چیک اپ کر سکیں ۔۔۔۔۔ تف ہے ایسی سیاست پر اور ایسی سیاست کے پیروکاروں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن کو اپنے وطن سے محبت ہوتی ہے ان کا سب کچھ اپنے وطن کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے ان کا جینا مرنا ان کے وطن کے ساتھ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دھرنے کا تماشہ خندہ پیشانی سے برداشت کیا اب ہمارے صبر کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے، وزیراعظم

لندن پہچتے ہی وزیر اعظم پھٹ پڑے

ویب ڈیسک بدھ 13 اپريل 2016


پاکستان میں ایک صاحب موقع کی تاڑ میں رہتے ہیں لیکن وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوں گے، لندن میں میڈیا سے گفتگو، فوٹو؛ فائل

لندن: وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ ہم نے 2014 میں دھرنے کا تماشہ خندہ پیشانی سے برداشت کیا لہٰذا اب حکومت کے صبر کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔

وزیراعظم نوازشریف نے لندن پہنچنے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں چیک اپ کے لیے لندن آیا ہوں جب کہ پاناما لیکس کے حوالے سے قوم سے خطاب میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ، چوہدری نثار علی نے بھی حکومت کا نقطہ نظر اچھی طرح سے بیان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مجھ پر کیا الزامات ہے اور قانون کی کون سی خلاف ورزی ہوئی ہے حالانکہ ایسا کوئی کام بھی نہیں ہوا، ہم قوم کی خدمت محنت اور دیانت داری کے ساتھ کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ترقی کی رفتار تیز کی جائے جب کہ چیک اپ کے بعد دگنی رفتار سے کام کرکے پاکستان کے مسائل کو حل کریں گے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک صاحب ہر وقت موقع کی تاڑ میں رہتے ہیں اور ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کے بجائے حکومت کو کسی نہ کسی طریقے سے پریشان کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جب کہ 2014 کے دھرنے میں بھی سب نے دیکھا کہ انہوں نے پاکستان کی ترقی کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن ہم نے جمہوری روایات کو آگے بڑھانے کے لیے اس تماشے کو صبرو تحمل سے برداشت کیا لہٰذا اب ہمارے صبر کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ ایک صاحب اپنے مقصد میں پہلے بھی کامیاب نہیں ہوئے تھے اور اب بھی اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوں سکیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ منفی کردار پاکستان کے کسی بھی سیاستدان کو زیب نہیں دیتا، پاکستان ترقی، خوشحالی کو ترس رہا ہے اور ان چیزوں کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی مسئلہ کھڑا کرکے ترقی کا راستہ روکنے کی کوشش کرے اور نہ ہم ایسا ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کے ساتھ ایک اچھا تعلق رہا ہے لیکن آج اس تعلق کی یاد نہیں آرہی اور نہ ہمیں ضرورت ہے، وزیراعظم بننے کے بعد اس وقت کے صدر آصف زرداری کے پاس گیا تھا اور ملتان افتتاح میں بھی یوسف رضاگیلانی کو ساتھ لے کرگیا تاکہ جمہوری روایت مضبوط ہو۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے کبھی بھی استعفوں پر یا حکومت گرانے کی سیاست نہیں کی، خورشید شاہ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اگر کارکردگی دکھاتی ہے تو میں خود ان کا سپورٹ کروں گا، ملک کو آگے لیجانے کے لیے ہمیں ساتھ مل کر چلنا ہوگا اور افراتفری پھیلانے والوں کو بھی یہ بات جلد سمجھ آجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے رائے ونڈ دھرنے میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کی قدر کرتا ہوں اور اگر یہی رویہ رہا تو پاکستان کی ترقی کا راستہ روکنا مشکل ہوجائے گا لیکن ایک شخص ایسی حرکتیں کرکے خود کو تنہا کررہا ہے۔

نوازشریف کا کہناتھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ ملکی کوئلہ بجلی بنانے میں استعمال ہوگا اور یہاں سے جانے کے بعد تھر کا دورہ بھی کروں گا، ہماری نظر تمام منصوبوں کی تکمیل میں ہے تاکہ ملک میں خوشحالی آئے اور آج کل بجلی کی لوڈ شیڈنگ اندسٹری پر لاگو نہیں ہورہی جب کہ جتنی لوڈشیڈنگ اس وقت ہورہی ہے وہ بھی 2018 تک ختم ہوجائے گی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دعا کیجیے کہ ’میاں صاحب‘ کو لندن میں شفاء مل جائے

محمد عثمان فاروق بدھ 13 اپريل 2016

اگر لندن یاترا کے حوالے سے کسی کے ذہن میں بھی کوئی غلط فہمی ہے تو وہ فوری طور پر دور کرلے کیونکہ ہمیں تو نواز شریف سے مطلب ہے، وہ ہیں تو ہم ہیں۔ فوٹو: فائل

یہ 25 دسمبر 1949 کا حسین دن تھا جب میاں شریف کے گھر میاں نوازشریف کی صورت ایک پھول سے بچے کا جنم ہوا۔ اُس وقت تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر دو بار پنجاب کا وزیراعلیٰ اور تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم بنے گا۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ یہ سب ہوا، اور صرف یہی نہیں ہوا بلکہ اسی پھول جیسے نواز شریف کی پارٹی گزشتہ 30 برسوں سے پنجاب میں اقتدار میں ہے۔

سننے میں تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سب کھیل تماشہ ہے، لیکن نہیں جناب اس کے لیے نواز شریف اور ان کے خاندان نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اقتدار کے دوران تمام تر مشکلات اور روڑے اٹکائے جانے کے باوجود میاں نواز شریف نے کبھی عوام کی خدمت سے گریز نہیں کیا، معاملہ یہاں نہیں رکا بلکہ پاکستان کو ترقی کی ایسی راہ پر گامزن کیا کہ جہاں سے واپسی اب ہرگز ممکن نہیں۔ ملک میں سڑکوں کا جال بچھ گیا، موٹر وے نے سفر کو آسان بنادیا، میٹرو بھی بنی اور اورنج لائن کا منصوبہ بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ویسے تو ترقیاتی منصوبوں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن موضوع اس وقت کچھ اور ہے اس لیے کسی اور دن ترقیاتی منصوبوں پر بات کریں گے۔

اصل موضوع اس وقت جناب وزیراعظم کی صحت کا ہے۔ میاں صاحب کو معدے کی تکلیف نے آ گھیرا ہے اور اس خطرناک بیماری کے علاج کے لیے وہ اور اُن کا پورا خاندان لندن روانہ ہوچکا ہے۔ معدے کی تکلیف کا تھوڑا سا اپنے قارئین کو بتادوں کہ یہ بہت خطرناک بیماری ہے اور اس کا علاج ابھی پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ علاج سے ہٹ کر بات کی جائے تو ہمارے گھروں میں کسی کو معدے کی تکلیف ہو تو اسے اجوائین نمک میں ملا کر پھکی بنانے کے بعد ٹھنڈی سیون اپ کے ساتھ پلا دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں فوری طور پر معدے کی تکلیف ٹھیک ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ ٹوٹکا تو عام پاکستانیوں کے لیے ہے مگر وزیراعظم کو سیکورٹی خدشات کے سبب یہ ٹوٹکا پیش نہیں کیا جاسکتا، اس لیے ان کو بحالت مجبوری لندن جانا پڑا۔

اب آپ یہ سوال ضرور اٹھا سکتے ہیں کہ آخر میاں نوازشریف اور ان کی پارٹی نے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے باوجود کوئی ایسا قابل ِ فخر اسپتال کیوں نہیں بنایا جو ’معدے‘ جیسی خطرناک بیماری کا علاج کر سکے؟ ویسے تو اس کا جواب ہم سرسری طور پر اوپر دے چکے ہیں کہ دورِ اقتدار میں مسلسل روڑے اٹکائے جانے کی وجہ سے میاں صاحب کو کام کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ اگرچہ دیگر ترقیاتی کاموں میں تو ان پر بہت آسانیاں رہی لیکن ریاست کے تمام ہی ادارے یہ طے کرچکے تھے کہ کچھ ہوجائے نواز شریف کو اچھا اسپتال نہیں بنانے دیں گے، بس آج نواز شریف کو لندن جانے کی جتنی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اُس کی وجہ وہی ادارے ہیں۔

ورنہ کیا بھلا ہم نواز شریف کے خلوص پر شک کرسکتے ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو؟ ہم نے تو قریبی رفقاء کو یہ بھی کہتے سنا کہ میاں صاحب اکثر اکیلے میں روتے ہیں کہ وہ چاہتے ہوئے بھی غریب عوام کے لیے اچھے اسپتال نہیں بنا سکے، اور کئی بار تو مایوسی اور غصے میں اقتدار کو لات مارنے کا بھی فیصلہ کیا لیکن پھر لوگوں نے سمجھایا کہ ایسا مت کیجیے کہ لوگ یہ غم برداشت نہیں کرسکیں گے۔ عوام کو آپ سے محبت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ تاحیات اس ملک کے وزیر اعظم رہیں، بس یہ الفاظ سننے کے بعد میاں صاحب کو کچھ حوصلہ ملتا ہے اور پھر اقتدار پر قائم و دائم رہتے ہیں۔ ورنہ جو شخص اتنی لمبی موٹر وے بنا سکتا ہے، اونچے پل بنا سکتا ہے اسکے لیے معدے کے علاج کے لیے اسپتال بنانا کونسا مشکل کام تھا؟

مختصر یہ کہ لندن یاترا کے حوالے سے اگر کسی کے ذہن میں بھی کوئی غلط فہمی ہے تو وہ فوری طور پر دور کرلے کیونکہ ہمیں تو نواز شریف سے مطلب ہے، وہ ہیں تو ہم ہیں۔ اگر لندن میں اُن کے معدے کا اچھا علاج ہوجائے تو کیا برائی ہے؟ اگر وہاں اس خطرناک بیماری کا کامیاب علاج ہوجائے تو میں میاں صاحب سے التجا کروں گا کہ مستقبل میں بھی آپ اسی طرح اپنے علاج کے لیے وہیں جایا کریں کیونکہ آپ کی صحت سے بڑھ کر اس قوم کے لیے کچھ بھی اہم نہیں۔

باقی جہاں تک عوام کے علاج کا تعلق ہے تو ہم ٹھہرے غریب لوگ، اگر علاج ہوگیا تو ٹھیک، نہیں ہوا تو کیا ہوا کہ دو چار غریبوں کی دنیا سے رخصتی بھلا کیا حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن ایک بات کا آپ کو ضرور یقین دلانا چاہوں گا کہ ہمارے جانے سے ملک سے غربت میں کمی تو ممکن ہے، لیکن آپ کی مقبولیت میں بالکل بھی فرق نہیں آئے گا۔

کالم پر اپنی رائے ضرور دے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
پاکستان کا وزیراعظم لندن میں
پاکستان کا دوسرا بڑا لیڈر عمران خان لندن میں
پاکستان کا تیسرا بڑا لیڈر زرداری لندن میں
پاکستان کا چوتھا بڑا لیڈر الطاف لندن میں
پاکستان کا بڑا مولوی قادری لندن میں
پاکستان کا جرنیل مشرف لندن میں
پاکستان کے سب سے برے وزیر لندن میں
پاکستان کا پیسہ لندن میں
پاکستان کے سارے فیصلے لندن میں

اور لوڈشیڈنگ، چوری، دہشتگردی، مہنگائی کی ماری عوام پاکستان میں

اور ھم سالوں سے فیس بک پے بیٹھ کر اپنے اپنے لیڈروں کا دفاع کرتے ہوئے

" میاں عاصم "
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میاں صاحب...!!
تهر کے ان بچوں کو بهی علاج کےلئے لندن لے جاتے ...
کم از کم جاتے جاتے اپنی جان کا کچه صدقہ ہی دے دیتے کہ فاقوں او بیماری سے دم توڑتے بچوں کو کچه سانسیں ہی میسر آجاتیں......

سڑک کنارے ایک کتا بهی بهوکا مرے گا تو جواب دہی حکمرانوں کی هے ...

مگر اس ملک کے حکمرنوں کی نظرمیں ‫‏عوام‬ کی حیثیت ایک ‫‏کتے‬ کی سی بهی نہیں ...

تصویر کے لئے لنک پر کلک کریں
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=1733374520219293&set=pcb.1733375066885905&type=3&theater

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لندن کا شفا خانہ


کاشف اعوان
شاید لندن میں ایسا کوئی مقناطیس ہے جو مشکل کی کسی بھی گھڑی میں سیاستدان کو کھینچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ فوٹو:فائل

آخر لندن شہر میں ایسی کیا خوبی ہے کہ پاکستان میں جب بھی سیاسی بھونچال آتا ہے تو لندن شہر سیاستدانوں کی بیٹھک بن جاتا ہے، گزشتہ حکومت میں میمو گیٹ کے معاملے پر لندن توجہ کا مرکز بنا پھر اس کے بعد جب آصف زرداری کچھ عرصہ کے لئے ارادی طور پر بیمار ہوئے تو ایک مرتبہ پھر ملکی سیاست کی ڈوریں لندن سے ہلائی جاتی رہیں۔ اگر دور مشرف پر نظر دوڑائی جائے تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے بھی لندن میں ہی بیٹھ کر ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کو بی بی شہید سے ملنے کے لئے لندن جانا پڑا۔ شاید لندن میں ایسا کوئی مقناطیس ہے جو مشکل کی کسی بھی گھڑی میں سیاستدان کو کھینچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

پاناما لیکس کے بعد ایک مرتبہ پھر لندن سیاست کا مرکز بن گیا اور میڈیا کی تمام تر توجہ لندن میں ہونے والی سرگرمیوں پر لگ گئی ہیں، لیکن اب تک یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ آف شور کمپنیوں کا ہنگامہ برپا ہونے کے بعد وزیراعظم علاج کی غرض سے لندن پہنچ گئے۔ چوہدری نثار بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ بذریعہ لندن جرمنی کے لئے اڑان بھر گئے، شہباز شریف کے اہلخانہ بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پر لندن پہنچے ہیں۔ عمران خان بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ لندن پہنچ گئے جن کی روانگی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ چندہ جمع کرنے لندن گئے۔ اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری تو پہلے ہی لندن میں موجود ہیں اور ملک کی چوتھی بڑی جماعت ایم کیو ایم کے قائد تو رہتے ہی لندن میں ہیں۔

اگر جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی بات کی جائے تو وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے، حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ انہیں قابل قبول ہوگا۔ اس طرح ملک کی 4 بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان لندن میں موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کی کسی دوسرے سربراہ سے ملاقات ہوگی؟

وزیراعظم نواز شریف کے علاج کے لئے پاکستان میں کوئی ایسا اسپتال یا ڈاکٹر نہیں جو ان کا چیک اپ کرسکے، عارضہ کے اعتبار سے وزیراعظم کو پرانا کوئی درد ہے جس کے علاج کے لئے وزیراعظم لندن میں موجود ہیں اور شاید چوہدری نثار کی اہلیہ کے لئے بھی پاکستان میں کوئی ایسا اسپتال نہیں بن سکا جو ان کے علاج کا متحمل ہوسکے۔ آصف زرداری بھی انہیں سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جن کا علاج پاکستان میں نہیں ہوسکتا اور وہ گزشتہ کئی ماہ سے اپنی مرضی سے علاج کی غرض سے لندن میں موجود ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ آصف زرداری کو نہ جانے ایسا کون سا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے لندن میں قیام ان کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے اور وہیں سے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے میں انہیں تشفی حاصل ہوتی ہے۔

پاناما لیکس پر برپا ہونے والے شور شرابے کے بعد معیشت، ملک میں جاری ترقیاتی کام، اسٹاک ایکسچینج کو بھی جھٹکا لگا ہے اور شہریوں میں بھی حکومت کے حوالے سے گومگوں کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ کیا ہمارا قانون اتنا کمزور ہے کہ کسی ایک اسکینڈل، ایک خبر یا ایک شخص کے غلط فعل سے پوری ریاست ہل کر رہ جائے؟ اگر ملکی ادارے مضبوط ہوں اور قانون پر من وعن عملدرآمد ہو تو کسی بھی اسکینڈل پر سیاستدانوں کو لندن میں جمع ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ کسی سیاستدان کو علاج کے لئے لندن کا رخ کرنا پڑے گا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
وجاہت خان کا 8 مئی کا محاذ دیکھیں ، پاکستان میں گتھم گتھا ہونے والے لندن میں کیسے مل جل کر رہ رہے ہیں ۔
 
Top