• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلہ

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85


وسیلہ۔
مسلمانوں اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور اس کا وسیلہ﴿قرب﴾ تلاش کرو اور اسکی راہ میں جہاد کرو تاکہ تمہارابھلا ہو۔
سورة المائدہ آیت 35
وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا زریعہ ہو۔ اللہ تعالی کی طرف وسیلہ تلاش کرو کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو جائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں وسیلہ جو قربت کے معنی میں ہے تقوی اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے جن کے زریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں اسی طرح منہیات و محرمات کے اجتناب سے بھی اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے منہیات ومحرمات کا ترک بھی قرب الہی کا وسیلہ ہے۔ لیکن جاہلوں نے اس حقیقی وسیلے کو چھوڑ کر قبروں میں مدفون لوگوں کو اپنا وسیلہ سمجھ لیا لے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔
﴿حضرت آدم علیہ اسلام﴾ نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے سورة البقرہ آیت 37
حضرت آدم علیہ اسلام جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ و استغفار میں مصروف ہوگئے اس موقعے پر بھی اللہ تعالی نے رہنمائی فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو سورة الاعراف میں بیان کیے گئے ہیں۔
﴿ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا﴾
بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ اسلام نے عرش پر لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلےسے دعا مانگی تو اللہ تعالی نے انہیں معاف فرما دیا۔
یہ روایت بے سند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے علاوہ ازیں اللہ تعالی کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے۔ تمام انبیا علیہم اسلام نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں کسی نبی ولی بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا کا طریقہ دعا یہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسلیے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔
اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو یہ چیز شاق ہے مگر ڈررکھنے والوں پر۔
سورة البقرہ آیت 45
صبر اور نماز ہر اللہ والے کے دو بڑے ہتھیار ہیں نماز کے زریعے سے ایک مومن کا رابطہ وتعلق اللہ تعالی سے استوار ہوتا ہے جس سے اسے اللہ تعالی کی تائیدونصرت حاصل ہوتی ہے صبر کے زریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے حدیث میں آتا ہے ﴿اذا حزبہ امر فزع الی الصلوة﴾ ﴿احمد و ابوداود بحوالہ فتح القدیر﴾
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم مسلہ پیش آتا آپ فورا نماز کا اہتمام فرماتے۔
یہود کو یہ دھوکہ بھی تھا کہ ہم تو اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں اس لیے مواخذہ آخرت سے محفوظ رہیں گے اللہ تعالی نے فرما دیا کہ وہاں اللہ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا اسی فریب میں امت محمدیہ بھی مبتلا ہے اور مسلہ شفاعت کو جو اہل سنت کے یہاں مسلمہ ہے اپنی بد عملی کا جواز بنا رکھا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم یقینا شفاعت فرمائیں گے اور اللہ تعالی ان کی شفاعت قبول بھی فرمائے گا احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے لیکن یہ بھی احادیث میں آتا ہے کہ احداث فی الدین بدعت کے مرتکب اس سے محروم ہی رہیں گے گناہ گاروں کو جہنم میں سزا دینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر جہنم سے نکالا جائے گا کیا جہنم کی یہ چند روزہ سزا قابل برداشت ہے کہ ہم شفاعت پر تکیہ کر کے معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں؟

 
Top