محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 684
- ری ایکشن اسکور
- 26
- پوائنٹ
- 53
2- دونوں بازوؤں کو کہنیوں سمیت دھونا ، یاد رہے کہ بازو کے ساتھ ہتھیلی کو دھونا بھی ضروری ہے
دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ (المائدة: 6)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرواور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھولو)۔‘‘
3- سر کامسح کرنا
سر کا مسح کرنا تمام فقہاء کے ہاں ضروری ہے ، لیکن اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر پورے سر کے مسح کی بجائے بعض سر کا مسح کر لیاجائے تو کیاکافی ہوگا، علماء کےاس بارےمیں دو اقوال ہیں:
1- پورے سر کا مسح کرناواجب ہے، یہ امام مالک، امام احمد ، امام ابوعبید، امام ابن المنذرٰ اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ کا قول ہے۔
2- بعض سر کا مسح کرناکافی ہے، یہ امام ابوحنیفہ ، امام شافعی رحمہما اللہ کا قول ہے۔
پہلے قول کی دلیل:
1- وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ میں باء الصاق کے معنی کے لیے ہے تو عبارت یوں ہو گی : ((وامسحوارءوسکم))
2- قرآن مجیدکے اس حکم کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی وضو کیا ہے پورے سر کامسح کیاہے۔
حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو ہم نے آپ کے لیے ایک طشت میں پانی پیش کیا جو پیتل کا بنا ہوا تھا۔ آپ نے وضو فرمایا، یعنی تین بار منہ دھویا، دو، دو بار اپنے ہاتھ دھوئے۔ پھر اپنے سر کا اس طرح مسح کیا کہ آگے سے پیچھے اور پیچھے سے آگے لائے۔ آخر میں آپ نے اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ (صحيح البخارى: 197)
دوسرے قول کی دلیل:
وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ میں باء بعض کا معنی دینے کے لیے آئی ہے یعنی مفہوم یہ گا ’’تم اپنے بعض سر کا مسح کرو‘‘۔
راجح:
پہلا قول راجح ہے کیونکہ اس کی دلیل مضبوط ہے۔
دوسرے قول کی دلیل کاجواب یہ ہے کہ نحو کے امام سیبویہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں بار بار اس بات کاذکر کیا ہے کہ عربی زبان میں باء بعض کا معنی دینے کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ ایسا ہی قول امام ابن برہان رحمہ اللہ سے منقول ہے۔ (دیکھیں: نیل الاوطار، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 155، المغنی ، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 87)
نوٹ:
اگر سر پر مہندی وغیرہ لگی ہو تو اس پر مسح کرنا جائز ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہے کہ آپ نے اپنے بالوں کو احرام کی حالت میں جمایا ہوا تھا۔ (صحیح البخاری: 1540)
4- سر کے ساتھ کانوں کا مسح کرنا بھی واجب ہے، کیونکہ یہ سر کا حصہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہے کہ آپ نے سر اور کانوں کا ایک مرتبہ مسح کیا۔ (سنن ابن ماجہ: 442)
کانوں کے لیے نیا پانی نہیں لیا جائے گابلکہ سر کے ساتھ ہی ان کا مسح کیاجائے گا۔
وضو کرتے ہوئے گردن کامسح کرناجائز نہیں ہے کیونکہ اس حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز صحیح سند کےساتھ ثابت نہیں ہے۔ (دیکھیں: مجموع الفتاوی از ابن تیمیہ، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 56، زاد المعاد، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 49)
دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ (المائدة: 6)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرواور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھولو)۔‘‘
3- سر کامسح کرنا
سر کا مسح کرنا تمام فقہاء کے ہاں ضروری ہے ، لیکن اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر پورے سر کے مسح کی بجائے بعض سر کا مسح کر لیاجائے تو کیاکافی ہوگا، علماء کےاس بارےمیں دو اقوال ہیں:
1- پورے سر کا مسح کرناواجب ہے، یہ امام مالک، امام احمد ، امام ابوعبید، امام ابن المنذرٰ اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ کا قول ہے۔
2- بعض سر کا مسح کرناکافی ہے، یہ امام ابوحنیفہ ، امام شافعی رحمہما اللہ کا قول ہے۔
پہلے قول کی دلیل:
1- وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ میں باء الصاق کے معنی کے لیے ہے تو عبارت یوں ہو گی : ((وامسحوارءوسکم))
2- قرآن مجیدکے اس حکم کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی وضو کیا ہے پورے سر کامسح کیاہے۔
حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو ہم نے آپ کے لیے ایک طشت میں پانی پیش کیا جو پیتل کا بنا ہوا تھا۔ آپ نے وضو فرمایا، یعنی تین بار منہ دھویا، دو، دو بار اپنے ہاتھ دھوئے۔ پھر اپنے سر کا اس طرح مسح کیا کہ آگے سے پیچھے اور پیچھے سے آگے لائے۔ آخر میں آپ نے اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ (صحيح البخارى: 197)
دوسرے قول کی دلیل:
وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ میں باء بعض کا معنی دینے کے لیے آئی ہے یعنی مفہوم یہ گا ’’تم اپنے بعض سر کا مسح کرو‘‘۔
راجح:
پہلا قول راجح ہے کیونکہ اس کی دلیل مضبوط ہے۔
دوسرے قول کی دلیل کاجواب یہ ہے کہ نحو کے امام سیبویہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں بار بار اس بات کاذکر کیا ہے کہ عربی زبان میں باء بعض کا معنی دینے کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ ایسا ہی قول امام ابن برہان رحمہ اللہ سے منقول ہے۔ (دیکھیں: نیل الاوطار، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 155، المغنی ، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 87)
نوٹ:
اگر سر پر مہندی وغیرہ لگی ہو تو اس پر مسح کرنا جائز ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہے کہ آپ نے اپنے بالوں کو احرام کی حالت میں جمایا ہوا تھا۔ (صحیح البخاری: 1540)
4- سر کے ساتھ کانوں کا مسح کرنا بھی واجب ہے، کیونکہ یہ سر کا حصہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہے کہ آپ نے سر اور کانوں کا ایک مرتبہ مسح کیا۔ (سنن ابن ماجہ: 442)
کانوں کے لیے نیا پانی نہیں لیا جائے گابلکہ سر کے ساتھ ہی ان کا مسح کیاجائے گا۔
وضو کرتے ہوئے گردن کامسح کرناجائز نہیں ہے کیونکہ اس حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز صحیح سند کےساتھ ثابت نہیں ہے۔ (دیکھیں: مجموع الفتاوی از ابن تیمیہ، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 56، زاد المعاد، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 49)