• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وضو کے ارکان (قسط 3)

شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
684
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
53
6- دونوں پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھونا

دلیل:

ارشاد باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ (المائدة: 6)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرواور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھولو)۔‘‘

جن احادیث ميں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر مسح کرنے کا ذکر ہےاس سے مرادیہ ہے کہ جب آپ موزے پہنتے تھےپاؤں پر مسح کیا کرتے تھے۔

- اگر ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کےدرمیان پانی بغیر خلال کےنہ پہنچے تو ان کا خلال کرنا واجب ہے ورنہ مستحب ہے۔

7- وضو کے اعضاء کو اسی ترتیب سے دھونا جس ترتیب سے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان کا ذکر کیاہے۔


(یعنی پہلے چہرہ دھونا پھر بازوں دھونا، پھر سر کا مسح کرنااور پھر پاؤں دھونا)

وضو میں ترتیب کےرکن ہونےکےحوالے سے علماء کرام کے دو قول ہیں:

1- وضو کے اعضاء کوترتیب سے دھوناواجب ہے، یہ شافعیہ ، حنابلہ، امام ابوثور، امام ابو عبیداور ظاہریہ کاقو ل ہے۔

2- وضو کے اعضاء کوترتیب سے دھونامستحب ہے، یہ امام مالک، امام ثوری، حنفیہ کا قول ہے۔

پہلے قول کی دلیل:

1- اللہ تعالی نے سورہ مائدہ کی آیت میں وضو کے فرائض کو ترتیب کے ساتھ ذکر کیاہے، بازواور پاؤں کےدرمیان سر کے مسح کا ذکرکیا ہے، عرب دو ہم مثل چیزوں کو بغیر کسی فائدہ کے الگ بیان نہیں کرتے اور وہ فائدہ ترتیب کاواجب ہوناہے۔

2- جس صحابی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کرنے کا طریقہ بیان کیا ہے اس نے ترتیب کے ساتھ بیان کیاہے اور آپ کا فعل قرآنی حکم کی وضاحت ہے۔

دوسرے قول کی دلیل:

ارشاد باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ (المائدة: 6)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرواور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھولو)۔‘‘

اللہ تعالی نے وضو کے اعضاء کاذکر واؤ کے ساتھ کیا ہے اور واؤ لغت عرب میں ترتیب کا تقاضا نہیں کرتی۔

8- پے درپے وضو کرنا(معتدل موسم میں پہلے عضو کےخشک ہونےسےپہلے دوسرےعضو کودھونا)

اس بارےمیں علماءکرام کےدو قول ہیں:

1- پےدرپے وضو کرنا واجب ہے، یہ امام شافعی کاقدیم، امام احمد اور امام مالک ([1]) کا قول ہے۔

2- پے در پے وضو کرناواجب نہیں ہے، یہ قول امام ابو حنیفہ ، امام شافعی کاجدید اور امام ابن حزم رحمہم اللہ کا قول ہے۔

پہلے قول کی دلیل:

خالد (خالد ابن معدان) ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جبکہ اس کے پاؤں میں درہم برابر جگہ خشک رہ گئی تھی، اسے پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی کریم ﷺ نے اسے وضو اور نماز کے اعادے کا حکم دیا۔ (سنن ابی داود: 175)

دوسرے قول کی دلیل:

1- اللہ تعالی نےوضو کے اعضاء دھونےکو لازمی قرار دیاہے ، وہ چاہےپے درپے دھو لیے جائیں یا وقفہ کر کےدھو لیےجائیں۔

2- نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدناابن عمر رضی اللہ عنہمانے بازار میں وضو کیا ، انہوں نے اپنےچہرے ،بازوؤں کو دھویا اور سر کامسح کیاپھر انہیں جنازے کے لیےبلایاگیا تو وہ مسجد میں چلے گئے پھر وہاں اپنےموزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھائی۔ (الموطا: 48)

راجح:

پہلا قول راجح ہےکیونکہ اس کی دلیل مضوط ہے، اور وضو میں تمام اعضاء کادھونا ایک ہی عبادت ہے اس لیےان میں تفریق نہیں کی جائےگی۔

دوسرے قول کے دلائل میں مذکور سیدناابن عمر رضی اللہ عنہما کافعل اضطراری حالت ہے اس پر عام حالات کو قیاس نہیں کیاجائے گا۔

([1]) امام مالک رحمہ اللہ کےقول کےمطابق اگرکوئی شخص کسی عذر کی بنا پر پےدر پے وضو نہ کرے اس کاوضو صحیح ہے اور اگر بغیر کسی عذر کے ایساکرے تو اس کاوضو صحیح نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےاسی قول کو راجح قرار دیا ہے۔(دیکھیں: مجموع الفتاوی ، جلدنمبر 21، صفحہ نمبر 135)
 
Top