عبداللہ کشمیری
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 08، 2012
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 1,657
- پوائنٹ
- 186
وفات پائے ہوئے شخص کے لئے مرحوم ومغفور کے لفظ کا استعمال شریعت کے ماہر علمائے کرام کے یہاں زیر بحث ہے۔ایک فریق کی رائے یہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال درست نہیں ،ان کی دلیل یہ ہے کہ:
مرحوم کا لفظ اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ان پر رحمت ہوچکی ہے، حالانکہ یقین وقطعیت کے ساتھ کسی کے بارے میں فیصلہ دینا شرعی طور پر درست نہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے
² ۔عن خارجة بن زيد بن ثابت، عن أم العلاء وهى امرأة من نسائهم بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ـ قالت طار لنا عثمان بن مظعون في السكنى حين اقترعت الأنصار على سكنى المهاجرين، فاشتكى فمرضناه حتى توفي، ثم جعلناه في أثوابه فدخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلترحمة الله عليك أبا السائب، فشهادتي عليك لقد أكرمك الله. قال "وما يدريك ". قلت لا أدري والله. قال " أما هو فقد جاءه اليقين، إني لأرجو له الخير من الله، والله ما أدري وأنا رسول الله ما يفعل بي ولا بكم ". قالت أم العلاء فوالله لا أزكي أحدا بعده. قالت ورأيت لعثمان في النوم عينا تجري، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له فقال " ذاك عمله يجري له "
خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے کہ ان سے ام علاء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا جو انہیں کی ایک خاتون ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب انصار نے مہاجرین کے قیام کے لیے قرعہ اندازی کی توعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا نام ہمارے یہاں ٹھہرنے کے لیے نکلا۔ پھر وہ بیمار پڑ گئے ' ہم نے ان کی تیمارداری کی لیکن ا ن کی وفات ہو گئی۔ پھر ہم نے انہیں انکے کپڑوں میں لپیٹ دیا۔ اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے تو میں نے کہا ابوالسائب! تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں ' میری گواہی ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے عزت بخشی ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم مجھے معلوم نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا کہ جہاں تک ان کا تعلق ہے تو یقینی بات (موت) ان تک پہنچ چکی ہے اور میں اللہ سے ان کے لیے خیر کی امید رکھتا ہوں لیکن اللہ کی قسم میں رسول اللہ ہوں اوراس کے باوجود مجھے معلوم نہیں کہ میرے ساتھ اور تمھارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ ام العلاء نےکہا کہ واللہ! اس کے بعد میں کسی انسان کی پاکی نہیں بیان کروں گی۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے خواب میں ایک جاری چشمہ دیکھا تھا۔ چنانچہ میں نے حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان کا نیک عمل ہے جس کا ثواب ان کے لیے جاری ہے۔
یہ حدیث امام بخاری اپنی جامع صحیح میں کئی مقامات پر لائےہیں۔ 23 - كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ . 52 - كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ القُرْعَةِ فِي المُشْكِلاَتِ.63 - كتاب مناقب الأنصار بَابُ مَقْدَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ المَدِينَةَ. 91 - كِتَابُ التَّعْبِيرِبَابُ رُؤْيَا النِّسَاءِ وبَابُ العَيْنِ الجَارِيَةِ فِي المَنَامِ
دوسرے فریق کی رائے یہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال جائز ہے ،ان کی دلیل یہ ہے کہ:
لفظ مرحوم خبر کے معنی میں نہیں بلکہ یا تو دعا مقصود ہے یاتفاول ورجا مقصود ہے۔
پہلی رائے قوی معلوم ہوتی ہے لہذا اس کا استعمال ترک کرنےکی افضلیت میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ واللہ اعلم
مرحوم کا لفظ اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ان پر رحمت ہوچکی ہے، حالانکہ یقین وقطعیت کے ساتھ کسی کے بارے میں فیصلہ دینا شرعی طور پر درست نہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے
² ۔عن خارجة بن زيد بن ثابت، عن أم العلاء وهى امرأة من نسائهم بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ـ قالت طار لنا عثمان بن مظعون في السكنى حين اقترعت الأنصار على سكنى المهاجرين، فاشتكى فمرضناه حتى توفي، ثم جعلناه في أثوابه فدخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلترحمة الله عليك أبا السائب، فشهادتي عليك لقد أكرمك الله. قال "وما يدريك ". قلت لا أدري والله. قال " أما هو فقد جاءه اليقين، إني لأرجو له الخير من الله، والله ما أدري وأنا رسول الله ما يفعل بي ولا بكم ". قالت أم العلاء فوالله لا أزكي أحدا بعده. قالت ورأيت لعثمان في النوم عينا تجري، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له فقال " ذاك عمله يجري له "
خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے کہ ان سے ام علاء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا جو انہیں کی ایک خاتون ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب انصار نے مہاجرین کے قیام کے لیے قرعہ اندازی کی توعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا نام ہمارے یہاں ٹھہرنے کے لیے نکلا۔ پھر وہ بیمار پڑ گئے ' ہم نے ان کی تیمارداری کی لیکن ا ن کی وفات ہو گئی۔ پھر ہم نے انہیں انکے کپڑوں میں لپیٹ دیا۔ اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے تو میں نے کہا ابوالسائب! تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں ' میری گواہی ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے عزت بخشی ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم مجھے معلوم نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا کہ جہاں تک ان کا تعلق ہے تو یقینی بات (موت) ان تک پہنچ چکی ہے اور میں اللہ سے ان کے لیے خیر کی امید رکھتا ہوں لیکن اللہ کی قسم میں رسول اللہ ہوں اوراس کے باوجود مجھے معلوم نہیں کہ میرے ساتھ اور تمھارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ ام العلاء نےکہا کہ واللہ! اس کے بعد میں کسی انسان کی پاکی نہیں بیان کروں گی۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے خواب میں ایک جاری چشمہ دیکھا تھا۔ چنانچہ میں نے حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان کا نیک عمل ہے جس کا ثواب ان کے لیے جاری ہے۔
یہ حدیث امام بخاری اپنی جامع صحیح میں کئی مقامات پر لائےہیں۔ 23 - كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ . 52 - كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ القُرْعَةِ فِي المُشْكِلاَتِ.63 - كتاب مناقب الأنصار بَابُ مَقْدَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ المَدِينَةَ. 91 - كِتَابُ التَّعْبِيرِبَابُ رُؤْيَا النِّسَاءِ وبَابُ العَيْنِ الجَارِيَةِ فِي المَنَامِ
دوسرے فریق کی رائے یہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال جائز ہے ،ان کی دلیل یہ ہے کہ:
لفظ مرحوم خبر کے معنی میں نہیں بلکہ یا تو دعا مقصود ہے یاتفاول ورجا مقصود ہے۔
پہلی رائے قوی معلوم ہوتی ہے لہذا اس کا استعمال ترک کرنےکی افضلیت میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ واللہ اعلم