• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وقت ، نیند ، موت اور قیامت پر اللہ کا کنٹرول(ملحدین کی بے بسی)

شمولیت
فروری 27، 2025
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
5
ہم میں سے اکثر لوگ ملحدین سے جب بحث کر رہے ہوتے ہیں تو سب سے اہم موضوع یہ ہوتا ہے کہ اس کائنات کو کس نے بنایا ؟ اگر اللہ نے بنایا تو (معاذ اللہ ) اللہ کو کس نے پیدا کیا ، ؟ اور پھر یہ بحث " لا متناہی سلسلہ سوالات" کی طرف چل پڑتی ہے جس کا نتیجہ ، حیرت ، تشکیک اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ لیکن ملحدین بہت کم " موت " پر بحث کرتے ہیں ۔ سائنسدان اور فلسفی یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ انسان اور جدید سائنس ترقی کی اس معراج تک پہنچ چکے ہیں کہ اس نے زندگی کے بہت سے رازوں کو تلاش کر لیا ہے جان لیا ۔ کہ دنیا کیسے تخلیق پائی اور مظاہر قدرت کیسے کام کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اس کائنات کا کیا انجام ہو گا ؟
انسان کو موت کیوں آتی ہے اس پر بہت کم مباحثہ کرتے ہیں ۔
ملحدین کا تو یہ عقیدہ ہے کہ یہ دنیا یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور موت کا عمل صرف کائنات کے توازن کے لئے قائم ہے ۔ کوئی ہستی کسی کو موت نہیں دیتی ۔ ہم بس دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اس دنیا اس کائنات کا کسی آزمائش گاہ ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ۔
اور یہ کائنات کبھی تباہ نہیں ہو گی اور نہ قیامت آئے گی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا ۔
سوال یہ ہے کہ اس کائنات کا وجود اگر " بگ بینگ تھیوری " کے نتیجے پر قائم ہوا اور انسان " نظریہ ارتقاء " یا " فطری انتخاب " کے ذریعے سے پیدا ہوا یعنی یہ سب حادثاتی تھا ۔ اور ملحدین چونکہ " میٹیریل ورلڈ " یعنی مادی دنیا پر یقین رکھتے ہیں تو Modern Human جس کی عمر 2.5 سے 3 لاکھ سال بتائی جاتی ہے ۔ اس نے " مسئلہ موت " پر قابو کیوں نہ پا لیا ؟
ملحدین اکثر مسلمانوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر اللہ واقعی موجود ہے تو وہ انسانوں کو کینسر ، ایڈز جیسی بیماریوں سے مرنے کیوں دیتا ہے ؟
یعنی موت آتی ہی کیوں ہے ؟
عالمی ادارہ ِ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 76 لاکھ افراد کینسر کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ یہ تعدادہر سال ایڈز، ملیریا اور تب ِ دق جیسی بیماریوں سے ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں چھوت کی بیماریوں کو عموما زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ مگر عالمی ادارہ ِ صحت کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق وہ بیماریاں جو ایک انسان سے دوسرے انسان کو نہیں لگ سکتیں عالمی سطح پر زیادہ اموات کا سبب بن رہی ہیں۔
" ایلا ایلوان" عالمی ادارہ ِ صحت سے منسلک ہیں اور اس سلسلے میں تحقیق کرنے والے ماہرین میں شامل ہیں۔ان کا کہناہے کہ دنیا بھر میں ہر سال پانچ کروڑ اسی لاکھ اموات میں سے تین کروڑ پچاس لاکھ افراد امراض ِ دل، سٹروک، ذیابیطیس ، کینسر اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ جو عالمی سطح پر ہونے والی کل اموات کا 60 فیصد ہیں۔
ایسا کیوں ہوا کہ " مادہ پرست " انسان جس کو سب سے زیادہ خوف " موت" کا ہوتا ہے 2.5 سے 3 لاکھ سال گزر جانے کے بعد بھی " موت " پر قابو نہیں پا سکا ؟
دنیا بھر میں 5 کروڑ 80 لاکھ افراد سالانہ اس تلخ حیقیقت یعنی " موت" کا شکار ہو جاتے ہیں ان کو کیوں نہیں بچا لیا جاتا یعنی موت پر قابو پا لیا جاتا ۔ ؟
اور اگر کائنات پھیل رہی ہے اور ٹائم اور سپیس بھی اس کے ساتھ مسلسل پھیلائو کا شکار ہے تو کائنات کے تمام وسائل پر بھی " قابو "پا لیا جاتا۔ اور انسانوں کی ہمیشہ کے لئے بڑھتی آبادی کو "یعنی پیدا ہونے والی نئی نسلوں کو " بڑھتی عمروں والے ان زندہ انسانوں کے " تجربات اور علم " کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا اور ساتھ ہی ساتھ طویل درازی عمر والے افراد کو فطری انتخاب کے ذریعے اپنے اندر پائی جانے والی ارتقائی تبدیلیوں کا تجربہ بھی ہو جاتا اور وہ سب سے بڑا " Material Evidence " ہوتا کہ کہ ایک شخص جو موت پر قابو پائے جانے کے بعد 50 ہزار سال تک زندہ رہا ۔ وہ موجودہ انسانی جسم کے ڈھانچے Human Body Structure سے تبدیل ہو کر کسی دوسری نوع کو اختیار کر چکا ہے اور اس کائنات کے وسائل پر قابو پانے والی یہ طویل العمر نئی ارتقائی انواع " طویل العمر پرانی ارتقائی انواع کے لئے ایسے حتمی ثبوت قائم کر لیتی کہ اس کائنات میں خدا کا تصور ہمیشہ سے ختم ہی ہو جاتا (العیاذ باللہ) اور اس کائنات میں لفظ ماضی کو کسی" مؤرخ کی موت " کا محتاج نہ ہونا پڑتا ۔ بلکہ ماضی کو بھی ہمیشہ زندہ لوگوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ۔ سند کے لئے کتابوں کے اوراق نہ چھاننے پڑتے بلکہ زندہ انسان سے خود ملاقات کر لی جاتی اور اس سے خود ثبوت حاصل کر لیا جاتا ہے کہ بتائو آج سے 20 ہزار سال قبل فلاں معاملے میں فلاں واقعے میں فلاں انسان کے ساتھ کیا حالات پیش آئے ؟
موت پر قابو پانا اسی طرح نا ممکن ہے ۔ جس طرح اللہ کے وجود کا انکار کرنا نا ممکن ہے ۔
کیونکہ موت پر قابو پانے کا مطلب کائنات سے بیماری کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہے ، کائنات کے تمام وسائل اور علوم پر انسان کی مکمل اور حتمی رسائی ہے ۔ کائنات میں ماضی اور مستقبل کا خوف ختم کر دیا جانا ہے اور حال کا اتنا مکمل ہو جانا ہے کہ مادہ کو کسی قسم کا نقصان اور آزمائش درپیش نہ ہو سکتی ۔ زلزلے ، طوفان ، قحط سالیاں ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی ہوتیں اور انسان کی بھوک مٹانے کے لئے رزق کمانا اور رزق کی اشیاء پیدا کرنا بھی ضروری نہ رہا ہوتا ۔ حتی کہ انسان کو کھانے کی حاجت تک نہ رہتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان بھوک کی وجہ سے بھی مر جاتا ہے ۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سالانہ 80 لاکھ سے زائد بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے مر جاتے ہیں ۔ وہ بچے نہ مرتے جوان ہوتے اور بوڑھے ہوتے اور لا متناہی حد تک بوڑھے ہو جاتے ۔ (معاذ اللہ )
اس ساری تمہیدی بحث کے بعد ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ موت کیا ہے اور قیامت کیوں قائم ہو گی ؟
قرآن کا پہلا مقام :
نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ

ترجمہ: ہم نے ہی تمھارے درمیان موت کا وقت مقرر کیا ہے اور ہم ہرگز عاجز نہیں ہیں۔ سورۃ الواقعۃ ۔آیت نمبر: ٓ60

قرآن کا دوسرا مقام :
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
وہی تو ہے جس نے تمہیں مٹی سے، پھر نطفہ سے، پھر لوتھڑے سے پیدا کیا، پھر تمہیں بچے کی شکل میں (ماں کے پیٹ سے) نکالتا ہے۔ پھر (انہیں بڑھاتا ہے) تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ۔ پھر (اور بڑھاتا ہے) تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو۔ پھر تم میں سے کسی کو پہلے ہی وفات دے دی جاتی ہے تاکہ تم اس مدت کو پہنچو جو تمہارے لئے مقرر ہے اور (یہ سب کچھ اس لئے ہے) تاکہ تم عقل سے کام لو۔ سورہ غافر : 67
قرآن کا تیسرا مقام :
وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پھر نطفہ سے پیدا کیا ہے، پھر تمہیں جوڑا (میاں بیوی) بنایا، اور کسی عورت کو نہ کوئی حمل قرار پاتا ہے اور نہ وہ کوئی بچہ جنتی ہے مگر اسے اس کا علم ہوتا ہے، اور نہ کسی بڑی عمر والے کی عمر میں کوئی اضافہ ہوتا ہے، اور نہ اس کی عمر میں کوئی کمی ہوتی ہے، مگر یہ چیز لوح محفوظ میں لکھی ہوتی ہے، بے شک یہ کام اللہ کے لئے بڑا آسان ہے۔ سورہ الفاطر : 11
قرآن کا چوتھا مقام :
وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
حالانکہ جب کسی کی موت آجائے تو پھر اللہ کسی کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ سورہ المنافقون: 11
قرآن کا پانچواں مقام :
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
ہر گروہ کے لیے ایک مدت مقرر ہے، جب وہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو پھر (اس گروہ کی گرفت کے لیے) ایک گھڑی بھر کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ سورہ الاعراف : 34
قرآن کا چھٹا مقام :
يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
وہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دے گا اور جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجائے تو اس میں تاخیر نہ ہوگی۔ کاش تم یہ بات جان لو۔ سورہ نوح : 4
قرآن مجید فرقان حمید کے ان تمام مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر انسان کا ایک وقت مقرر ہے ۔ اس وقت پر اسے موت آنی ہی آنی ہے ۔ چاہے وہ پیدائش پر ہو جائے ، چاہے نو عمری میں ، چاہے جوانی میں ، چاہے ادھیڑ عمری میں اور چاہے سخت بڑھاپے میں ۔ کس نے کتنی دیر اس کھیل تماشے کی دنیا میں رہنا ہے اس کا حقیقی علم صرف اللہ کے پاس ہے ۔ اس میں سب سے بڑی بات اس وقت اور اس مدت کا علم ہے جو آج تک کسی انسان نے نہ پایا ۔ یہ کہنا ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی کی سخت بیماری کے بعد اس کی موت کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے لیکن وہ بھی حتمی نہیں ہوتی ۔ ہمارے ہاں اس کی کوئی گارنٹی موجود نہیں ۔
اس کی ایک زندہ مثال میرے والد محترم کی ہے ۔ والد گرامی کو جگر کے کینسر کا عارضہ تھا ۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کے والد صاحب 6 ماہ سے زائد نہیں نکالیں گے ۔ ان کے لئے دعا کییجئے ۔ لیکن اللہ رب العزت نے والد گرامی کو 2.5 اڑھائی سال تک زندہ رکھا اور وہ اس میں صحت یاب بھی ہوئے ۔
موت و حیات کا کنٹرول اللہ کے پاس ہے ۔ (ایک مثال )
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں، پھر اسے روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کیا اور دوسری کو ایک مقرر وقت تک بھیج دیتا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔ سورہ الزمر آیت : 42
﴿وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَ مَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۸۵ ] ’’اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔‘‘
: ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَ يَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ﴾ [ الأنعام : ۶۰ ] ’’اور وہی ہے جو تمھیں رات کو قبض کر لیتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم نے دن میں کمایا۔‘‘ حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( كَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِذَا أَوٰی إِلٰی فِرَاشِهِ قَالَ بِاسْمِكَ أَمُوْتُ وَ أَحْيَا وَ إِذَا قَامَ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَ إِلَيْهِ النُّشُوْرُ )) [ بخاري، الدعوات، باب ما یقول إذا نام : ۶۳۱۲ ] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بستر پر جاتے توکہتے : ’’تیرے ہی نام کے ساتھ مرتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں۔‘‘ اور جب بیدار ہوتے توکہتے : ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں زندگی بخشی، اس کے بعد کہ اس نے ہمیں موت دی اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِيْنَ شَاءَ، وَ رَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِيْنَ شَاءَ)) [بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب الأذان بعد ذھاب الوقت : ۵۹۵ ] ’’اللہ تعالیٰ نے تمھاری ارواح کو قبض کر لیا جب چاہا اور انھیں تمھیں واپس کر دیا جب چاہا۔‘‘
نیند آ جانا اور پھر جاگ جانا ۔ جدید سائنس اس پر بھی کوئی اختیار حاصل نہیں کر سکی ۔ اللہ رب العزت نے نیند کو موت سے تشبیہ دی ہے ۔ اور نیند کا آ جانا انسان کی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری ہے ۔ اگر ملحدین یا کوئی سائنسدان یہ دعویٰ کر بھی دیں کہ انسان نیند پر قابو پا سکتا ہے تو وہ بھی ایک حد تک ہی قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اگر بالفرض کسی میڈیسن سے انسان کو نیند سے جگایا جا سکتا ہے تو اس کی بھی ایک مقدار مقرر ہے ۔ ایک مقولہ مشہور ہے کہ نیند تو انسان کو سولی پر بھی آ جاتی ہے ۔
نیند پر اختیار یا نیند یا اونگھ کا نہ آنا یہ اللہ کی صفت ہے ۔ اگر انسان موت پر قابو پانے کی جدوجہد میں ہوتا تو سب سے پہلے وقت کی تیز رفتاری کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے " نیند" جیسی کمزوری پر قابو پاتا ۔
موت کے بعد یوم انصاف /یوم حساب قائم ہونا ہے ۔
قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
کہہ دے اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کرو، بے شک میں (بھی) عمل کرنے والا ہوں، تو تم عنقریب جان لو گے وہ کون ہے جس کے لیے اس گھر کا اچھا انجام ہوتا ہے۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم لوگ فلاح نہیں پاتے۔ سورہ الانعام : 135

قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ
کہہ دے تمھیں موت کا فرشتہ قبض کرے گا، جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ سورہ السجدہ : 11

وَمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
اور دنیا کی یہ زندگی نہیں ہے مگر ایک دل لگی اور کھیل، اور بے شک آخری گھر، یقیناً وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔ سورہ العنکبوت:64
۔۔
حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔
لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُؤْتٰی بِالْمَوْتِ كَهَيْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ فَيُنَادِيْ مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ! فَيَشْرَئِبُّوْنََ وَ يَنْظُرُوْنَ فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا ؟ فَيَقُوْلُوْنَ نَعَمْ، هٰذَا الْمَوْتُ وَكُلُّهُمْ قَدْ رَاٰهُ، ثُمَّ يُنَادِيْ يَا أَهْلَ النَّارِ ! فَيَشْرَئِبُّوْنَ وَ يَنْظُرُوْنَ فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا ؟ فَيَقُوْلُوْنَ نَعَمْ، هٰذَا الْمَوْتُ وَ كُلُّهُمْ قَدْ رَاٰهُ، فَيُذْبَحُ ثُمَّ يَقُوْلُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ ! خُلُوْدٌ فَلَا مَوْتَ وَ يَا أَهْلَ النَّارِ! خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿ وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ﴾ وَهٰؤُلَاء فِيْ غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْيَا ﴿ وَ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ﴾ )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ عز وجل: ﴿ و أنذرھم یوم الحسرۃ﴾ : ۴۷۳۰ ] ’’موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا : ’’اے جنت والو!‘‘ تو وہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے۔ وہ کہے گا : ’’کیا تم اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں! یہ موت ہے۔‘‘ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے، پھر وہ آواز دے گا : ’’اے آگ والو!‘‘ تو وہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے، وہ کہے گا : ’’کیا تم اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں! یہ موت ہے۔‘‘ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے، تو اسے ذبح کر دیا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا : ’’اے جنت والو! (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں اور اے آگ والو! (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ﴿وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ ﴾ [ مریم : ۳۹ ] ’’اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب فیصلہ کر دیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں۔‘‘ یعنی وہ سراسر دنیا کی غفلت میں ہیں اور وہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ مریم (۳۹)۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے ۔۔
حدثنا الحكم بن موسى ابو صالح ، حدثنا يحيى بن حمزة ، عن عبد الرحمن بن جابر ، حدثني سليم بن عامر ، حدثني المقداد بن الاسود ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " تدنى الشمس يوم القيامة من الخلق حتى تكون منهم كمقدار ميل "، قال سليم بن عامر: فوالله ما ادري ما يعني بالميل امسافة الارض ام الميل الذي تكتحل به العين، قال: " فيكون الناس على قدر اعمالهم في العرق، فمنهم من يكون إلى كعبيه، ومنهم من يكون إلى ركبتيه، ومنهم من يكون إلى حقويه، ومنهم من يلجمه العرق إلجاما "، قال: واشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده إلى فيه.
عبد الرحمٰن بن جابر سے روایت ہے کہا مجھے نیلم بن عامر نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت مقدادبن اسود رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "قیامت کے دن سورج مخلوقات کے بہت نزدیک آجائے گا حتی کہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر ہو گا۔ نیلم بن عامر نے کہا: اللہ کی قسم!مجھے معلوم نہیں کہ میل سے ان (مقداد رضی اللہ عنہ) کی مراد مسافت ہے یا وہ سلائی جس سے آنکھ میں سرمہ ڈالاجاتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگ اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں (ڈوبے) ہوں گےان میں سے کوئی اپنے دونوں ٹخنوں تک کوئی اپنے دونوں گھٹنوں تک کوئی اپنے دونوں کولہوں تک اور کوئی ایسا ہو گا جسے پسینے نے لگام ڈال رکی ہو گی۔" (مقداد رضی اللہ عنہ) کہا: اور (ایسا فرماتےہوئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔
قیامت کے قیام پر رسول اللہ ﷺ نے بہت سی نشانیاں بھی بیان فرمائی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی بعثت
آپ ﷺ کی بعثت قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور قرب ِ قیامت پر دلیل ہے ۔ آپ ﷺ نے خاتم النّبیین ہونے کی حثیت سے یہ خبر دی ہے ۔ اس پر نبی ﷺ سے وارد کئی صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :
«بُعِثْتُ وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ» (صحیح بخاری : 6505 )
’’ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں ۔‘‘
2۔ سہل بن سعد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ وَقَرَنَ بَيْنَ السَّبَّابَةِ وَالوُسْطَى (ایضا: 5104 )
’’ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں ۔ آپ ﷺ نے اپنی تشہد اور درمیانی انگلی کے ساتھ اشارہ فرمایا ۔‘‘
3۔ انس بن کی حدیث ہے ، کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
«بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ»[ كَفَضْلِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى،] وَضَمَّ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَى
’’ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جیسے ان دو انگلیوں میں سے ایک کی دوسری پر برتری ہے ۔ آپ نے سبابہ اور وسطی انگلی کو ملایا ۔‘‘
چاند کا دو ٹکڑے ہونا ۔
﴿اقتَرَبَتِ السّاعَةُ وَانشَقَّ القَمَرُ ﴿١﴾... سورة القمر
’’ قیا مت قریب آگئی اور چاند ہٹ گیا ، یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے سے چلا آتا جادو ہے ۔‘‘
عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے ، کہتے ہیں :
بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى إِذَا انْفَلَقَ الْقَمَرُ فِلْقَتَيْنِ، فَكَانَتْ فِلْقَةٌ وَرَاءَ الْجَبَلِ، وَفِلْقَةٌ دُونَهُ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اشْهَدُوا» (صحیح مسلم :2800)
’’ ایک دفعہ منیٰ میں ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے کہ اچانک چاند دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے پیچھے اور دوسرا اس کے سامنے تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ہم سے کہا : گواہ ہو جاؤ ۔ ‘
فتنوں کا وقت / زمانہ
(1 )حضرت زبیر بن عدی سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ ہم انس بن مالک کے پاس آئے تو ہم نے حجاج سے ملنے والی تکالیف کی آپ سے شکایت کی تو آپ نے کہا : میں نے تمہارے نبی سے سنا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
«اصْبِرُوا، فَإِنَّهُ لاَ يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ إِلَّا الَّذِي بَعْدَهُ شَرٌّ مِنْهُ، حَتَّى تَلْقَوْا رَبَّكُمْ»(صحيح بخارى :7068)
’’میں نے تمہارے نبی ﷺ سے سنا ہے ، صبر کرو تم پر جوزمانہ گزرے گا، اس کے بعد اس سے بدتر زمانہ ہوگا یہاں تک کہ تم اپنے ربّ سے جا ملو ۔‘‘
(2)حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ بلا شبہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا»(صحيح مسلم :118)
’’ تم نیک اعمال میں جلدی کرو ، ان فتنوں سے پہلے جو اندھیر ی رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے ۔ ( اس وقت) آدمی صبح کو مؤمن ہوگا او رشام کو کافر یا شام کو مؤ من ہوگا اور صبح کو کافر ، وہ اپنے دین کو دنیا کے فائدے کے بدلے فروخت کر دے گا ۔‘‘
(3)حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو ہم نے ایک جگہ قیام کیا ، ہم میں سے کچھ لوگ اونٹ لے کر چراگاہ میں گئے تھے کہ ا چانک اللہ کے رسول ﷺ نے منادی کی نماز کے لیے جمع ہو جاؤ ۔ پس ہم نبی کے پاس جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :
« إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ، وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، وَتَجِيءُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ هَذِهِ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ،»(صحيح مسلم : 1844)
مجھ سے پہلے بھی بنی گزرا ، اس پر واجب تھا کہ اپنی امت کو خیر کی طر ف راہنمائی کرے اور ان کو برائی سے روکے ۔ اس امت کی عافیت اس کی ابتدا میں رکھی گئی ہے او راس کے آخر میں لوگ آزمائش اور ناپسندیدہ امور کا سامنا کریں گے ۔ کوئی فتنہ آئے گا تو اس کا بعض حصہ بعض حصے کو خوشنما بنا دے گا ، پھر فتنہ آئے گا تو مؤمن کہے گا : یہ مجھے ہلاک کر دے گا ، جب وہ گزر جائے گا تو مؤمن کہے گا کہ یہ میری ہلاکت کا باعث ہے ۔ جو آدمی چاہتا ہے کہ وہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو تو پھر اس کی موت ا س حال میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں سے ایسا سلوک کرے جس کی توقع وہ اپنے لیے کرتا ہے ۔‘‘
جھوٹے مدعیان نبوت کا آنا ۔
جھوٹے مد عیانِ نبوت دجالوں کا خروج
قیامت کی علامات اور نشانیوں میں سے جھوٹے دجالوں کا نکلنا ہے جو نبوت کا دعویٰ کریں گے اور اپنے سر کردہ قائد کے ساتھ فتنے کو ہوا دیں گے ۔ نبی اکرم ﷺ نے خبر دی ہے کہ ان کی تعداد تیس (30) کے قریب ہے ، فرمایا :
لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، قَرِيبًا مِنْ ثَلاَثِينَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ»(صحيح بخارى 3413)
’’ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ تیس کے قریب جھوٹے دجال نکلیں گے ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۔ ‘‘
اس نشانی کا وقوع ثابت ہوا اور یہ قیامت کی علامات میں سے ہے ۔ قدیم اور جدید زمانے میں بہت سے مدعیانِ نبوت نکلے او ریہ بعید نہیں کہ جھوٹے ، کانے دجال کے ظاہر ہونے تک ابھی او ر دجال ظاہر ہوں ۔ ہم دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے ہیں !
(2)نبی مکرم ﷺ نے ایک دن خطبہ دیا ، فرمایا :
«والله لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلَاثُونَ كَذَّابًا آخرهم الأعور الكذاب»(مسند احمد : 5/16)
’’ بلا شبہ اللہ کی قسم قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تیس جھوٹے نکلیں گے ان میں سے آخری جھوٹا ، کانا ( دجال ) ہوگا ۔‘‘
(3)حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا
«لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالمُشْرِكِينَ، وَحَتَّى يَعْبُدُوا الأَوْثَانَ، وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي»(جامع ترمذى 2229 )
’’ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میرے اُمت کے کچھ قبائل مشرکین سے مل جائیں گے او روہ بتوں کو پو جا کریں گے اور بلا شبہ میری اُمت میں تیس جھوٹے ہوں گے ۔ ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے او رمیں خاتم النّبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ ‘‘
علم کا اٹھ جانا اور جہالت کا عام ہو جانا ۔
علم کا اُٹھ جانا اور جہالت کا عام ہو جانا
قیامت کی جن نشانیوں کے بارے میں آپ نے بتلایا ہے ، ان میں سے یہ بھی ہے کہ علم اٹھ جائے گا اور جہالت عام ہو جائے گی ۔ چنانچہ ابو موسیٰ اور عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
’’ بلا شبہ قیامت سے پہلے چند دن ایسے بھی آئیں گے جن میں علم اُٹھ جائے گا، جہالت اُتر پڑے گی او راس میں قتل فساد کثرت سے ہوگا ۔‘‘ (صحیح بخاری : 7066 )
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ بے شک علم کا اُٹھا لیا جانا ، جہالت کا عام ہو جانا ، شراب پیا جانا اور زنا عام ہو جانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ‘‘ (صحیح بخاری: 6808)
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں ، آپ نے فرمایا :
’’ وہ وقت قریب آ رہا ہے جب عمل کم ہو جائے گا ، فتنے ظاہر ہون گے اور قتل و فساد بہت زیادہ ہو گا ۔ ‘‘ (صحیح بخاری 7061 )
فسادات کا عام ہو جانا ، بری ہمسائیگی اور رشتہ داروں سے قطع تعلقی کا ہونا ۔
’ قیامت اس وقت ہی آئے گی جب فواحش ومنکرات اور قطع رحمی و بری ہمسائیگی عام ہو جائے گی ۔ ‘‘ (مسند احمد : 10 ۔26تا31 )
زلزلوں ، طوفانوں کا ظاہر ہونا
)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ علم قبض کرلیا جائے اور زلزلوں کی کثرت ہو جائے ۔‘‘(جامع ترمذی: 1947)
(2)حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
’’ اس امت کے آخر میں خسف ، قذف اور مسخ ہوگا ۔ فرماتی ہین : میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے اور ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے ؟ فرمایا ہاں ! جب خباثت عام ہو جائیگی ۔‘‘
(3)عمران بن حصین ؓ فرماتے ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ اس امت میں خسف، مسخ اور قذف ہے ۔ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! وہ کب ہو گا ۔ فرمایا : جب آلاتِ موسیقی اور مغنّیات کی کثرت کی کثرت ہو جاے گی ۔ مزید کہ شراب پینا عام ہو جائے گا ۔‘ (جامع ترمذی : 1947)
(4)ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جب ن فے کو دولت امانت کو غنیمت ، زکاۃ کو قرض سمجھ لیا جائے گا ، جب دین کے علاوہ تعلیم حاصل کی جا گی ، جب آدمی اپنی بیوی کی فرمانبرداری اور ماں کی نافرمانی کرے گا ، ، اپنے دوست سے قربت ، باپ سے دوری اختیار کرے گا ، مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی ، جب قبیلہ کا سردار ان میں سے زیادہ فاسق شخص ہوگا ، ان میں سے ذلیل ترین قوم کا قائد ہوگا ، موسیقی ظاہر ہو جائیں گے ، جب شراب پی جائے گی ، جب اس امت کے بعد والے پہلوں پر لعنت بھیجیں گے تو اس وقت سرخ آندھی ، زلزلہ ، خسف ، مسخ اور قذف کا انتظار کرو۔‘‘(جامع ترمذی : 2211)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ بے شک خسف اور قذف زنا دقہ اہل قدر (’’ تقدیر کا انکار کرنے والے کہ انسان خود اپنے اقوال و افعال میں خود مختار ہے ۔‘‘) میں ہوگا ۔‘‘
یہ وہ تمام چھوٹی نشانیاں ہیں جنہیں آج انسان وقوع پذیر ہوتے دیکھ رہا ہے ۔ دنیا میں فسادات عام ہیں ۔ کون کس کو کس لئے مار رہا ہے کون کس وجہ سے مارا جا رہا ہے کسی کو صحیح علم نہیں ، علماء کرام کی کثرت سے وفات ہو رہی ہے ، شعائر اسلام کی توھین ہو رہی ہے ، جھوٹے مدعیان نبوت کا ظہور ہوتا جا رہا ہے ، کم لباسی اور بے حیائی عام ہو رہی ہے ، زنا بالجبر اور زنا بالرضا عام ہو رہا ہے ۔عرب کے بدو بلند و بانگ عمارتیں بنانے پر فخر و تکبر میں مبتلا ہیں ۔ اہلیان اسلام کے پاس دنیا کی آدھی سے زائد دولت اور وسائل موجود ہیں لیکن اس کے باوجود مسلمان کمزور و مغلوب ہیں ۔ کفار ان پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے ہیں ۔ کیا کوئی بھی انسان سوچ سکتا ہے آج سے 14.5 سو سال قبل جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی ، انسولین و پینسلین ایجاد نہیں ہوئی تھی ، الٹراسائونڈ ، ایم آر ائی مشینیں موجود نہ تھیں ، انسان نے خلاء کو چاند اور مریخ کی حد تک تسخیر نہ کیا تھا ۔ ایکسرے مشینیں ایجاد نہیں تھیں آسٹرونومی اور آسٹرولوجی جیسے جدید علوم کی ایجادات اور جدید ٹیلی سکوپس ، دوربینیں اور کیمرے موجود نہ تھیں ۔ اس کے باوجود ایک عظیم شخص نے انسان کی فسادی طبیعت کو کنٹرول کرنے کے لئے اس دور میں ایسی پیشین گوئیاں کی جو آج ہو بہو پوری ہو رہی ہیں اور ان کا مصدقہ ہونا 1000 فیصد درست ہے بلکہ ہر فیصد درست ہی درست ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہو گیا ۔ آج کے جدید دور میں سائنسدان بارش کی پیشگوئی بھی 100 فیصد حتمی نہیں دے سکتے ۔ بادل بنتے ہیں اس کے باوجود ہوا چلتی ہے اور بادلوں کو اڑا کہیں دور لے جاتی ہے ۔ اس دور میں رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا تھا کہ بارش کب ہو گی اس کا حقیقی علم اللہ کے پاس ہے ۔ یقینی طور پر ایک ایسی ذات موجود ہے جو مستقبل میں ہونے والے واقعات کی خبر رسول اللہ ﷺ کی ذات با برکات کو دیا کرتی تھی تو آج وہ پیشین گوئیاں بالکل اسی طرح پوری ہوئیں جس طرح بیان کی گئیں تھی ۔ یہ نہ صرف اللہ رب العزت کے علم حقیقی کے حتمی اور حق ہونے کی دلیل ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کے صادق و مصدوق ہونے کی بھی حتمی اور سچی دلیل ہے ۔ یہ ملحدین کی بے بسی ہی تو ہے کہ وہ نہ وقت پر قابو پا سکے ، نہ نیند پر ، نہ موت پر اور نہ ہی ان کی آنے والی نسلیں روز قیامت کو روک سکیں گی ۔ ازقلم : عبدالسلام فیصل
 
Top