• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وقت آن پہنچا ہے

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
وقت آن پہنچا ہے

ہفت روزہ جرار
کہتے ہیں کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں… ظالم کی رسی دراز ہے… اللہ بہت ڈھیل اور مہلت دیتا ہے کہ انسان سمجھ جائے اور راہ راست پر آ جائے لیکن … اگر وہ عقل کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے پر تیار نہ ہو تو پھر… پکڑ آ جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے 9سال بعد پرویز مشرف کی آئی، 23 سال بعد زین العابدین بن علی کی آئی۔ 30 سال بعد حسنی مبارک کی آئی اور اب 41 سال بعد کرنل قذافی کی آئی ہوئی ہے۔ پھر جب پکڑ آتی ہے تو زمین اپنے اوپر قدم رکھنے دیتی ہے اور نہ آسمان اپنے نیچے پناہ لینے دیتا ہے۔
لیبیا کتنا بڑا ملک ہے، 20 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے پاکستان کے رقبے سے تقریباً اڑھائی گنا زیادہ رقبہ رکھنے والا اور آبادی شہر لاہور سے بھی کم زیادہ سے زیادہ فیصل آباد کے ضلع جتنی… یعنی کوئی 68 لاکھ… لیکن آج اتنا بڑا ملک اس قذافی کیلئے ’’شجر ممنوعہ‘‘ بن چکا ہے۔ جہاں قذافی کو پائوں رکھنے کی جگہ نظر نہیں آ رہی ہے۔ ذرا یاد کیجئے… پرویز مشرف کی اسلام دشمنیاں، زین العابدین کے ایمان والوں پر برستے کوڑے اور ان کے گلے پر لٹکتے پھندے، حسنی مبارک کے جیل اور اس کے ٹیکسوں تلے کچلے جانے والے لاکھوں مسلمان اور کرنل قذافی کے ظلم و جبر اور دہشت گردی کا شکارہونے والے بیسیوں ہزار مسلمان… کیسے قذافی نے سنوسی تحریک کے پیرو کاروں کو تڑپا تڑپا کر مارا اور پھر اس نے ’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے قرآن کے مقابلے میں ’’کتاب الاخضر‘‘ لکھ کر اسے ملک کا آئین و قانون بنا دیا اور اسے پڑھنا اور یاد کرنا ہر شہری پر لازم قرار دے دیا۔ اس سبز کتاب میں اس نے 3 بڑے حصے بنائے تھے۔ پہلے حصے میں اس نے اپنی ہی جمہوریت کا سبق دیا اور اسے ’’عوام کے اختیار‘‘ سے منسوب کیا۔ دوسرے حصے میں نظام معیشت کیلئے سوشلزم کو پسند کیا اور تیسرے حصے میں عالمی ضابطے کو اگلے سماجی نظام کے طور پر پیش کیا۔ اپنی چودھراہٹ کو قائم رکھنے کیلئے اس نے عوامی کمیٹیوں کے ذریعے عوامی اقتدار کی نئی ترکیب نکالی اور اسے پڑھتا پڑھاتا رہا کہ حالات نے پلٹا کھایا۔
دنیا کو یاد ہے کہ یہ وہی کرنل قذافی ہے جو ایک طرف تو اسلام کے نعرے لگاتا ہے لیکن دوسری طرف وہ یورپ میں لاکھوں مسلمانوں کے اعلانیہ قاتل سلابودان ملاسوچ کا سب سے بڑا حامی اور مداح ہے اور آج بھی کھلے عام اس کی تعریف و توصیف سے نہیں چوکتا حالانکہ ملاسووچ کو دنیا کا شاید ہی کوئی فورم ہو جو اسے دنیا کے سفاک ترین لوگوں میں شامل نہ کرتا ہو… 2009ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں طالبان کی حمایت کرنے والے کرنل قذافی کا حال یہ ہے کہ دہائیوں سے اس نے اپنی سکیورٹی نوجوان اور خوبرو لڑکیوں کے حوالے کر رکھی ہے۔ 40 غیر شادی شدہ لڑکیاں جو مکمل طور پر یورپین لباس پہنے ہوتی ہیں اور جن کے حسن و جمال کے خصوصی پیمانے مقرر ہیں کا انتخاب بھی موصوف خود فرماتے ہیں۔ اس گروپ کو ’’ایمزون گروپ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ موصوف کہتے ہیں کہ وہ کیونکہ مرد وخواتین کی ہر لحاظ سے برابری کے قائل ہیں لہٰذا ان کا یہ اقدام اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
چند ملین آبادی رکھنے والے ملک کے اس فرعون زمانہ نے اپنے آپ کو مسلم دنیا عالم افریقہ، عالم عرب اور نجانے کن کن خطوں اور علاقوں کا قائد، رہبر اور رہنما بنانے کی کوشش کی لیکن اب دماغی کیفیت یہ ہے کہ کہہ رہے ہیں کہ اس کے دشمن امریکہ اور القاعدہ ہیں، یعنی کیا خوب (Cmbination) بنایا ہے۔
ہاں دنیا کو یاد ہے کہ دنیا کی رہبری کے خواب کی تکمیل کیلئے اس نے ایٹمی قوت بننے کی کوشش کی لیکن 2003ء میں اس کا یہ سارا منصوبہ بھی خوب کھل کر سامنے آیا گیا جب اس نے اپنی ساری لیبارٹریاں امریکہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایٹمی صلاحیت دینے میں سب سے مرکزی کردارپاکستان اور خصوصاً ڈاکٹرعبدالقدیر خان کا ہے اور پھر اس نے دنیا میں اسلام کے دشمنوں کے لئے سب سے بڑی چٹان کو سب سے بڑی مصیبت میں ڈال دیا۔ امریکہ کے سبھی ادارے، حکومتی عہدیداران، ناٹو کے جنرل، ایساف کے کمانڈر، یورپی ممالک کے سربراہان اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت سب یہی کہتے ہیں کہ ان سب کے راستے میں واحد رکاوٹ پاکستان ہے۔ ان کے مسائل کی وجہ پاکستان ہے، پاکستان ڈبل گیم کرتا ہے… اور جناب موصوف نے ایسے ملک کے بارے میں زبان درازی کرتے ہوئے اپنے لئے شامت اعمال بننے والوں کو کہہ دیا کہ وہ ملک کو پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔
ان سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اب قیادت صحرائوں پر شاہی خیمے نصب کر کے اور افریقی قبائل کے رنگ رنگ جوکرٹائپ لباس پہننے سے نہیں ملے گی بلکہ اب سان سب کا وقت رحیل ہے اور دنیا اب کلمہ توحید کی صدائوں سے ہی گونج رہی ہے اور مستقبل بعید نہیں مستقبل قریب انہی کا ہے۔ ان شاء اللہ
 
Top