• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ولیمے کا مسنون طریقہ اور اس کی خرافات

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
شادی کی تقریبات میں ولیمےایک ایسا عمل ہےجو مسنون ہے،یعنی نبی نے اس کا حکم دیا ہے اور آپ نے خود بھی اپنی شادیوں کا ولیمہ کیا ہے۔اس کا سب سے بڑا مقصد اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ اللہ نے زندگی کے ایک نہایت اہم اور نئے موڑ پر مدد فرمائی اور اسے ایک ایسا رفیق حیات اور رفیق سفر عطا فرمادیا ہے جو اس کے لیے تفریح طبع اور تسکین خاطر کا باعث بھی ہوگا اور زندگی کے نشیب و فراز میں اس کا ہم دم،ہم درداور مدد گاربھی ہوگا۔
اور اللہ کا شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ اسلام میں یہ بھی بتلایا ہے کہ اِطعامِ طعام (کھلانے پلانے)کا اہتمام کیا جائے۔اولاد اللہ کی نعمت ہے ، اس کے ملنے پر حکم ہے کہ جانور قربان کرو اور خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔اولاد میں لڑکےکی ولادت پر زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے،اس لیے اس کی ولادت پر دو بکریاں ذبح کرنے کا حکم ہے۔یعنی بقدر مسرت اطعامِ طعام۔ لڑکی بھی اللہ کی نعمت ہے ،اس کی ولادت پر زمانہ جاہلیت کی طرح غم واندوہ کا اظہار نہیں کرنا بلکہ اظہار مسرت ہی کرنا ہے ،گو لڑکے کے مقابلے میں کم ہی سہی ، اس لیے ایک جانور قربان کردو۔
نکاح بھی نوجوان جوڑے کے لیے بلکہ دو نوں خاندانوں کے لیے بھی خوشی کا ایک موقع ہے ، اللہ نے دونوں خاندانوں کو ایک نہایت اہم فیصلے کی ادائیگی سے نواز دیا اور نوجوان جوڑے کے لیے بھی خوشی کا موقع ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا جیون ساتھی میسر آگیا ہے جو ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھی شریک ہوگا اور شاہراہِ زندگی میں ایک دوسرے کا ہم سفر بھی۔
لیکن اسلام زندگی کے ہر معاملے میں اعتدال اور میانہ روی ک اقائل ہے اور حد سے تجاوز کو نا پسند کرتا ہے ۔ اس لیے اس کے نزدیک اظہارِمسرت میں بھی اعتداء (حد سے تجاوز) اور اسراف(فضول خرچی)ناپسندیدہ ہے ۔علاوہ ازیں تفاخراور شان و شوکت کے بے جا اظہار کو بھی اسلام کی نظرمیں مذموم ہے، چناں چہ اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ
''یقینا فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔
اسلامی ہدایات سے انحراف نہ ہو جب کہ ہمارے ہاں اس کے برعکس ولیمہ بھی اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ بھی شادی بیاہ کی دیگر رسموں کی طرح بہت سی خرافات کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے مثلا:
1ولیمےمیں براءت سے بھی زیادہ ہجوم اکٹھا کیا جاتا ہے۔
2حسب استظاعت زیادہ سے زیادہ انواع و اقسام کے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
3اپنی امارت اور شان وشوکت کا اظہار کیا جاتا ہے۔غربا کی شراکت کو ناپسندیدہ اور اپنے مقام و مرتبہ کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
4جس کے پاس وسائل نہ ہوں یا بہت کم ہوں ،وہ بھی قرض لے کر اپنی استطاعت سے بڑھ کر ولیمہ کرتا ہے۔
5ولیمے میں بھی بے پردگی کا طوفان آیا ہوتا ہے اور اس پر مزید یہ کہ مووی فلم کے ذریعے سے مردوں کے علاوہ تمام خواتین کی حرکات کو بھی محفوظ کیا جاتا ہے اور دونوں خاندانوں میں اس کو ذوق وشوق سے دیکھا جاتا ہے۔
ولیمے کے بارے میں اسلامی ہدایات
حالاں کہ اسلامی ہدایات کی رو سے مذکورہ سب باتیں غلط ہیں۔ اس لیے دعوتِ ولیمہ میں بھی اصلاح کی اور اپنے رویوں میں تبدیلی کی شدید ضرورت ہے ۔ اسلامی تعلیمات میں ہمیں اس بات کی بابت جو ہدایات ملتی ہیں ان سے حسب ذیل چیزوں کا اثبات ہوتا ہے :
اسراف اورفضول خرچی سے بچا جائے،سادہ اور مختصر ولیمہ ہو،سارے خاندان اور دوست احباب کو اکٹھا کرنا ضروری نہیں ہے ۔ عہد نبوی میں صحابہ کرام اپنے بیٹوں۔بیٹیوں کی شادیاں کرتے تھے۔ لیکن دعوت علیمہ وغیرہ میں کسی بڑے اجتماع کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ حتی کہ صحابہ کرام جو رسول اللہ  تک کے ساتھ خصوصی قربت کا تولق رکھتے تھے خود اپنی شادی میں رسولاللہ تک کو مدعو نہیں کیا کرتے تھے۔ جیسے عبدالرحمان بن عوف کی شادی ہوئی تو رسول اللہنے ان کے لباس پر زردی دیکھی تو ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟انھوں نے کہا: میں نے کھجور کی ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے پر ایک خاتون سے شادی کر لی ہے ۔ آپ نے فرمایا: «اولم ولو بشاۃ »ولیمہ کرو (اگر زیادہ استطاعت نہ ہوتو) ایک بکری ہی کا کرو۔ (صحیح البخاری،النکاح،حدیث:۵۱۵۳،۵۱۵۵)
خیبر سے واپسی پرجب رسول اللہ نے حضرت صفیہ کو آزاد کرکے اپنے حبالہ عقد مقدس میں لے لیا تو راستے ہی میں مدینہ پہنچنے سے قبل ہی آپ نے حضرت صفیہ سے خلوت فرمائی اورصبح کو آپ نے ولیمہ کیا جس میں کھجور،پنیراور گھی کا ملیدہ بنا کر
صحابہ کی تواضع کی گئی، نہ گوشت تھا اور نہ روٹی۔ یہ چوں کہ سفر کا واقعہ ہے ، مجاہد صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ساتھ گئی تھی جو خیبر میں آباد یہودیوں سے جہاد کرنے کے لیے آپ کے ساتھ گئی تھی تو آپ نے اس میں ان کو شریک فرمایا۔
(صحیح البخاری،النکاح،باب البناءفی السفر،حدیث:۵۱۵۹)
یہ ولیمہ بھی رسول اللہ نے صحابہ کرام کے تعاون سے کیا تھا ، چوں کہ آپ سمیت سب سفر میں تھے ، آپ خیبر فتح کرکے مدینہ واپس آرہے تھے ، راستے میں آپ نے یہ نکاح فرمایا تھااور شب باشی کے بعد آپ نے صبح صحابہ سے فرمایا:
«مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَلْيَجِئْ بِهِ»
''جس کے پاس جو چیز بھی ہے،وہ لے آئے، آپ نے چمڑے کا ایک دسترخوان بچھادیا ، کوئی کھجور لے آیا،کوئی پنیر لے آیااور بعض سَتو، ان سب کو ملا کر ملیدہ بنا لیا گیا،یہی رسول اللہ کے ولیمے کا کھانا تھا۔(صحیح البخاری،حدیث:۳۷۱)
رسول اللہ کا سب سے گراں ولیمہ وہ تھا جو آپ نے حضرت زینب سے نکاح کے بعد کیا تھا ، اس میں آپ نے گوشت روٹی کا اہتمام فرمایاتھا۔ (صحیح مسلم،النکاح،باب زواج زینب بنت جحش،حدیث:۱۴۲۸)
ان واقعات سے معلوم ہوا کہ ولیمے میں زیادہ ہجوم جمع کرنے کی ضرورت نہیں ہے،نہ پر تکلف انواع و اقسام کے کھانوں اور ڈشوں کی۔
تھوڑے سے افراد کو بلایا جائے اور گھر ہی میں ان کی خاطر تواضع کر دی جائے،شادی ہال وغیرہ بک کروانے کی ہی نہیں ہے۔
اپنی امارت اور شان وشوکت کے اظہار کی بھی ضرورت نہیں ہے ، اللہ نے دنیاوی وسائل سے نوازا ہے تو اسے ان ضرورتوں پر خرچ کیا جائے جن کی معاشرے میں ضرورت ہے، اللہ کے دین کی نشر و اشاعت اور اللہ کے دین کے داعیوں اور محافظوں پر خرچ کیا جائے،جہاد اور مجاہدین پر خرچ کیا جائے ، وعلی ہذا القیاس۔ولیمے وغیرہ کی دعوتوں میں اسراف و تبذیر کا مظاہرہ کر کےکم وسائل والے افراد احساسِ محرومی پیدا نہ کیا جائے
رسول اللہ نے خیبر سے واپسی پر راستے میں جو ولیمہ کیا تھا ، وہ مسلمانوں کے باہمی تعاون سے ہوا تھا ، جیسا کہ اس کی تفصیل گزری ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اس معاملے میں اصحاب ثروت لوگوں کو بے وسیلہ لوگوں کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر تعاون کرنا چاہیے ، ان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا عند اللہ ناپسندیدہ روش ہے۔
ولیمہ گوشت کے بغیر دوسری چیزوں سے بھی کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ کے مذکورہ بالا ولیمے میں ہوا،ولیمے میں محض رشتےداریوں اور دوستانہ تعلقات کی بنیاد ہی پر نہ بلایا جائے بلکہ نیک لوگوں کوبھی شریک کیا جائے، اسی طرح غربا و مساکین کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے،جس ولیمے میں محض اغنیاہی شریک ہوں،اسے نبی نے شر الطعام(بدترین کھانا)قرار دیا ہے۔صحیح بخاری میں موقوفا حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے،وہ کہا کرتے تھے:
«شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الوَلِيمَةِ، يُدْعَى لَهَا الأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الفُقَرَاءُ»
''بدترین کھانا ولیمے کا وہ کھانا ہے جس میں مال داروں کو بلایا جائے اور فقرا کو چھوڑ دیا جائے۔ (صحیح البخاری، النکاح،باب :۷۳،حدیث:۵۱۷۷)
حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ یہ قول مرفوع کے حکم میں ہے(فتح الباری) اس کی تائید صحیح مسلم کی روایت سے بھی ہوتی ہےجس میں نبی کریم نے فرمایا ہے:
«شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ، يُمْنَعُهَا مَنْ يَأْتِيهَا، وَيُدْعَى إِلَيْهَا مَنْ يَأْبَاهَا، وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّعْوَةَ، فَقَدْ عَصَى اللهَ وَرَسُولَهُ»
''بدترین کھانا ولیمے کا وہ کھانا ہے جس میں ان (غرباء) کو تو روک دیا جائے جو اس میں آتے ہیں اور ان کو بلایا جاتا ہے جو اس میں آنے سے انکار کرتے ہیں اور جس نے دعوت قبول نہیں کی ،اس نے اللہ عز وجل اور اس کے رسول کی نا فرمانی کی۔
(صحیح مسلم،النکاح،باب الامر باجابۃ الداعی الی دعوۃ،حدیث:۱۴۳۲)
ایک اور حدیث ہے جس میں نیکوں ہی کو کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے ،فرمایا:
«لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ»
''دوست اور ساتھی مومن ہی کو بناؤ اور تمہاراکھانا بھی سوائے متقی کے اور کوئی نہ کھائے۔ (سنن ابوداود:الادب،باب من یؤمر ان یجالس،حدیث:۴۸۳۲)
اوپر حدیث گزری ہے کہ جس نے دعوت قبول نہ کی ،اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی،اس سے معلوم ہوا کہ دعوت قبول کرنا،چاہے وہ ولیمے کی ہو یا عام دعوت ضروری ہے ،حتی کہ اگر کسی نے نفلی روزہ رکھا ہوا ہے تو اس کو بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ نفلی روزہ توڑ لے اور دعوت میں شریک ہو جائے،بالخصوص جب دعوت کرنے والا اصرار کرے۔اگر اصرار نہ کرے تو روزے دار کی مرضی ہے توڑے یا نہ توڑے،روزہ نہ توڑے تو دعوت کرنے والے کے حق میں دعائے خیر کردے۔ (صحیح مسلم،حدیث:۱۴۳۲)
اگر نفلی روزہ توڑ کر دعوت کھائی جائے تو اس نفلی روزے کی قضا ضروری نہیں ۔نبی ایک دعوت میں تشریف فرما تھے ،صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ تھی ،جب کھانا شروع ہوا تو ایک شخص الگ ہو کر بیٹھ گیا،نبی کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ نفلی روزے سے ہے،آپ نے فرمایا: «أفطروصم مكانه يوما إن شئت»
تم دعوت کھالو،اگر چاہو تو بعد میں اس کی جگہ روزہ رکھ لینا۔حافظ ابن حجر اور شیخ البانی رحمھما اللہ نے اس کو حسن کہا ہے۔ (ارواء الغلیل:ج۷،ص۱۱،حدیث:۱۹۵۲)
معصیت والی دعوت میں شریک ہونے کی اجازت نہیں
دعوت قبول کرنے کی اتنی تاکید کے باوجود شرعی دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس دعوت میں یا دعوت والے گھر میں اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب ہو یا وہاں معصیت والی چیز ہو تو اس دعوت میں اس شخص کا شریک ہونا تو جائز ہے جو اصحاب ِدعوت کے ہاں اتنےاثر و رسوخ کا حامل ہو کہ وہ معصیت کاری رکوا سکتا ہو،تو اس کو شریک ہو کر اس کو رکوانے کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے اور جو شخص ایسی پوزیشن کا حامل نہ ہو ،اگر اس کے علم میں پہلے سے یہ بات ہو کہ وہاں فلاں فلاں معصیت کا ارتکاب ضروری ہوگا ،جیسے آج کل میوزک ،ویڈیو،بے پردگی جیسی معصیتیں عام ہو گئی ہیں تو اس کا اس دعوت میں جانے کے بجائے اس کا بائیکاٹ ضروری ہے اور اگر پہلے اس کے علم میں نہیں تھا،وہاں جا کر دیکھا کہ وہاں ان شیطانی کاموں کا اہتمام ہے تو اس میں شرکت نہ کرے اور واپس آجائے۔ اگر ان معصیت کاریوں کے باوجود وہ شریک ہوگا تو وہ بھی گناہ گار ہوگا،بالخصوص اصحابِ علم و فضل کی اس قسم کے اجتماعات میں شرکت بہت بڑا جرم ہے،ان کی شرکت ان معصیت کاریوں کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے،رسول اللہ تو تصویر والا پردہ دیکھ کر بھی دعوت کھائے بغیر واپس آجاتے تھے،حضرت علی فرماتے ہیں:میں نے ایک دن کھانا تیار کیا اور رسول اللہ کو دعوت دی ،آپ تشریف لائے تو گھر میں تصاویر دیکھ کر واپس چلے گئے، حضرت علی نے کہا: میرے ماں باپ آپ قربان ،آپ کو کس چیز نے واپس ہونے پر مجبور کردیا؟آپ نے فرمایا:گھر میں ایک تصویروں والا پردہ ہےاور جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ (مسند ابی یعلی للموصلی:۱/۳۴۲،حدیث:۴۳۶)
رسول اللہ نے تو خود ایک مرتبہ اپنے گھر یعنی حضرت عائشہ کے گھر کے دروازے پر ایک تصویر والا پردہ لٹکا ہوا دیکھا تو آپ نے اندر داخل ہو نا پسند نہیں فرمایا،جس پر حضرت عائشہ نے معذرت کی۔
(صحیح البخاری،اللباس،باب من لم یدخل بیتا فیہ صورۃ،حدیث:۵۹۶۱)
صحابہ کرام کا عمل بھی یہی تھا۔
حضرت عمر اپنے دور خلافت میں جب شام تشریف لے گئے تو شام کے ایک نہایت معزز عیسائی نے آپ کی اور آپ کےساتھ جو لوگ تھے ان کر دعوت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو حضرت عمر نے فرمایا:
" إِنَّا لَا نَدْخُلُ كَنَائِسَكُمْ مِنْ أَجْلِ الصُّوَرِ الَّتِي فِيهَا "
تمہارے گرجوں میں تصویریں ہوتی ہیں اس لیے ہم وہاں نہیں آسکتے۔
(السنن الکبری للبیہقی:ج۷،ص۲۶۷،حدیث:۱۴۵۶۴،بسند صحیح)
حضرت ابو مسعود کا واقعہ ہے ،ان کی ایک شخص نے دعوت کی ،انہوں نے اس سے پوچھا:گھر میں کوئی تصویر ہے ؟ اس نے کہا :ہاں،آپ نے تصویر کو توڑنے تک گھر میں داخل ہونے سے انکار کر دیا جب تصویر کو توڑ دیا گیا تو پھر آپ داخل ہوئے۔( السنن الکبری للبیہقی:ج۷،ص۲۶۷،حدیث۱۴۵۶۵،بسند صحیح)
امام اوزاعی فرماتے ہیں: لا ندخل وليمة فيها طبل ولا معزاف(الفوائد المنتقاة لأبی الحسن الحربی: 4/3/1 بسند صحيح)
ہم اس ولیمے میں شریک نہیں ہوتے جس میں ڈھول تماشے یا گانے بجانے کے کوئی اور آلات ہوں۔
دعوت کھلانے والے کے لیے دعا
نبی نے متعدد مواقع پر صحابہ کرام کے ہاں کچھ کھایا یا پیاتو آپ نے ان کے حق میں دعائےخیر فرمائی،اس سلسلے میں آپ سے تین دعائیں منقول ہیں جو آپ نے مختلف اوقات میں صاحب خانہ کے لیے فرمائیں: «اللهُمَّ، بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ»
اے اللہ ! ان کو جو کچھ تو نے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما،ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم فرما۔ (صحیح مسلم:حدیث:۲۰۴۲،سنن ابو داود،حدیث:۳۷۲۹)
۲ «اللهُمَّ، أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي، وَأَسْقِ مَنْ أَسْقَانِي»
اے اللہ! جنھوں نے مجھے کھلایاتو اسے کھلا اور جس نے مجھے پلایا تو اسے پلا۔(صحیح مسلم:الاشربۃ،حدیث:۲۰۵۵)
۳ «أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ»
روزے دار تمہارے پاس روزے کھولتے رہیں،نیک لوگ تمہارا کھانا کھاتے رہیں اور فرشتے تمہارے لیے دعائے خیر کرتے رہیں۔
۹ دولھا کے لیے خصوصی دعا
دولھا کے لیے خاص طور پر پر ان الفاظ میں دعا دی جائے: «بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ»
''اللہ تعالی تمہیں برکت دے اور تم پر اپنی برکت فرمائے اور تم دونوں کو خیر کے ساتھ اکٹھا رکھے۔ (سنن ابو داود،النکاح،باب ما یقال للمتزوج،حدیث:۲۱۳۰)
۱۰ ولیمہ کب کیا جائے؟
حضرت زینب بنت جحش اور حضرت صفیہ دونوں کےساتھ نکاح کے بعد جب رسول اللہ نے خلوت فرمائی تو احادیث میں صراحت ہے کہ اس کے بعد دوسرے دن آپ نے ولیمہ کی دعوت کی۔ اس سے اسی بات کا اثبات ہوتا ہے کہ ولیمہ نکاح سے پہلے نہیں ہے، بلکہ نکاح کے بعدہونا چاہیے۔ البتہ شب باشی کے بعد دوسرے روز ہی ضروری نہیں بلکہ دو تین دن کے وقفے کے بعد بھی جائز ہے۔
علاوہ ازیں ولیمے سے قبل خلوت صحیحہ بھی ضروری ہے یا نہیں یا اس کے بغیر ولیمہ جائز ہے؟ بعض لوگ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم بستری سے پہلے ولیمہ جائز نہیں ہے، لیکن ایسا سمھجنا صحیح نہیں ہے ، کیوں کہ بعض دفعہ پہلی رات کو جب خلوت میں میاں بیوی کی ملاقات ہوتی ہے تو عورت کے حیض کےایام ہوتے ہیں، اس لیے ایسی حالت میں بوس و کنار سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا نیز کسی اور وجہ سے بھی بعض دفعہ ہم بستری نہیں ہو پاتی۔ اس لیے ولیمے کی صحت کے لیے ہم بستری کولازم خیال کرنا صحیح نہیں ہے ،مخصوص قسم کے حالات میں اس کے بغیر بھی ولیمہ صحیح ہوگا۔ واللہ اعلم
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
کیا دعوت ولیمہ میں مختصر لوگوں کو مدعو کیا جائے؟ ؟
جن کو نہ بلائیں وہ معترض ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف "افراد کا چناؤ" کس بنیاد پر کیا جائے گا؟؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کیا دعوت ولیمہ میں مختصر لوگوں کو مدعو کیا جائے؟ ؟
جن کو نہ بلائیں وہ معترض ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف "افراد کا چناؤ" کس بنیاد پر کیا جائے گا؟؟؟

وليمہ ميں مدعوين كے ليے كوئى حد مقرر نہيں، بلكہ اس ميں وليمہ كرنے والےشخص كى استطاعت اور قدرت ديكھى جائے گى.
ابن بطال رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" وليمہ حسب استطاعت آسانى كے ساتھ واجب ہے، اور اس ميں مدعو كرنے كے ليے افراد كى كوئى حد اور عدد متعين نہيں كہ اس سےكم نہيں بلائے جا سكتے " : شرح صحيح البخارى ( 13 / 282 )
اور ايک مقام پر رقم طراز ہيں:
" جو كوئى بھى وليمہ كى دعوت ميں زيادہ افراد بلائےگا وہ افضل ہے، كيونكہ اس طرح نكاح كا اعلان زيادہ ہوگا، اور پھر جتنے زيادہ لوگ ہونگے ،اس كے مال و اہل ميں بركت كى دعا بھى زيادہ ہو گى شرح صحيح البخاری(:13 / 282 )
 
  • پسند
Reactions: Dua

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ولیمہ کب کیا جائے؟

حضرت زینب بنت جحش اور حضرت صفیہ دونوں کےساتھ نکاح کے بعد جب رسول اللہ نے خلوت فرمائی تو احادیث میں صراحت ہے کہ اس کے بعد دوسرے دن آپ نے ولیمہ کی دعوت کی۔ اس سے اسی بات کا اثبات ہوتا ہے کہ ولیمہ نکاح سے پہلے نہیں ہے، بلکہ نکاح کے بعدہونا چاہیے۔ البتہ شب باشی کے بعد دوسرے روز ہی ضروری نہیں بلکہ دو تین دن کے وقفے کے بعد بھی جائز ہے،جیسا کہ علما ئے کرام نے اس کی وضاحت کی ہے، امام بخارى رحمہ اللہ رقم طراز ہيں:
" باب ہے ولیمہ اور دعوت قبول كرنے كا حق، اور جو سات ايام وغيرہ ميں ولیمہ كرے، نبى كريم  نے ايک يا دو دن مقرر نہيں كيے۔ " (صحیح البخاری:النکاح،باب حق اجابۃ الدعوۃ و الولیمۃ ومن اولم سبعۃ ایام و بعدہ و یوقت النبی یوما ولا یومین)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" یعنی نبى كريم نے ولیمہ كے ليے كوئى معين وقت مخصوص نہيں فرمايا كہ وہ وقت واجب يا مستحب ہو، اسے اطلاق سے اخذ كيا گيا ہےاور صحابہ کرام نے سات دن تک ولیمہ کھایا ہے۔" (فتح الباری:۹/۲۴۲)
اور دميرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" فقہائے كرام نے شادى كے ولیمہ كے وقت ميں بحث نہيں كى، صحيح يہى ہے كہ يہ رخصتى اور دخول كے بعد ہے، شيخ سبكى كہتے ہيں: دخول كے بعد اور دخول سے قبل جائز ہے، بغوى رحمہ اللہ كے بيان كے مطابق ولیمہ كا وقت وسيع ہے۔ " (النجم الوھاج : 7 / 393 )
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" شادى كے ولیمہ كا وقت وسيع ہے، جو عقد نكاح سے شروع ہو كر شادى كے ايام ختم ہونے تک رہتا ہے " ( الملخص الفقھى : 2 / 364 )
علاوہ ازیں ولیمے سے قبل خلوت صحیحہ بھی ضروری ہے یا نہیں یا اس کے بغیر ولیمہ جائز ہے؟ بعض لوگ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم بستری سے پہلے ولیمہ جائز نہیں ہے، لیکن ایسا سمجھنا صحیح نہیں ہے ، کیوں کہ بعض دفعہ پہلی رات کو جب خلوت میں میاں بیوی کی ملاقات ہوتی ہے تو عورت کے حیض کےایام ہوتے ہیں، اس لیے ایسی حالت میں بوس و کنار سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا نیز کسی اور وجہ سے بھی بعض دفعہ ہم بستری نہیں ہو پاتی۔ اس لیے ولیمے کی صحت کے لیے ہم بستری کولازم خیال کرنا صحیح نہیں ہے ،مخصوص قسم کے حالات میں اس کے بغیر بھی ولیمہ صحیح ہوگا۔ واللہ اعلم
 
شمولیت
مارچ 13، 2014
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
ماشاءاللہ بہت خوب لگتا ہے میرے بھائی نے اپنے ولیمے کی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے۔
جزیتَ خیرًا وزوجتَ بکِرًا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ماشاءاللہ بہت خوب لگتا ہے میرے بھائی نے اپنے ولیمے کی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے۔
جزیتَ خیرًا وزوجتَ بکِرًا
حافظ عمران بھائی! اگر دل کرے تو مجھے اور مدثر صاحب کو اپنے ولیمے پر بُلا لینا۔
 
Top