کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
وہ جو بےنام دفن ہو گئے
پیشکش: ولادیمیر ہرنینڈز اور ناسوس ستیلیانو، بی بی سی نیوز، 10 مئی 2016یورپ کے سفر کے دوران ڈوبنے والے پناہ گزینوں کی ان کہی کہانی
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ 2014 کے آغاز کے بعد سے 1250 سے زیادہ نامعلوم مرد، خواتین اور بچے ترکی، یونان اور اٹلی میں 70 مقامات پر بےنشان قبروں میں دفن کیے گئے ہیں۔ یہ سب افراد یورپ میں ایک نئی زندگی کی تلاش کے لیے بحیرۂ روم عبور کرنے کے عمل کے دوران ہلاک ہوئے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ دو برس کے دوران اندازہ ہے کہ آٹھ ہزار افراد یورپ پہنچنے کی کوشش میں مارے گئے۔
زیادہ تر ہلاکتیں سمندر میں ڈوبنے سے ہوئیں اور ان کی لاشیں بہہ کر یونان، اٹلی اور ترکی کے ساحلوں پر آئیں۔
لیکن ان کی پروا کسے ہے؟ انھیں کہاں دفنایا گیا؟ اور میلوں دور رہنے والے رشتہ دار کیسے پتہ لگا سکتے ہیں کہ مرنے والوں میں ان کے پیارے بھی شامل ہیں یا نہیں؟
2014 سے روزانہ دس افراد بحیرۂ روم عبور کرنے کی کوشش کے دوران مارے گئے
اوسطاً کم از کم ایک شخص روزانہ ایک بےنشان قبر میں دفن ہوا
فاروق کی کہانی
چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں فاروق کی داڑھی سیاہ سے سفید ہو گئی۔
28 اکتوبر 2015 کو انھوں نے آخری مرتبہ اپنے بھائی غلام سے فون پر بات کی۔
طالبان کی جانب سے دھمکیوں کے بعد جانوروں کے ڈاکٹر غلام نبی پکار نے اپنی اہلیہ، تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے ہمراہ پناہ کی تلاش میں یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اپنے بھائی کی کوئی خبر نہ ملنے پر فاروق ( تصویر میں) کو مجبوراً ترکی میں سمگلر سے رابطہ کرنا پڑا
افغانستان کے شہر ہرات میں موجود فاروق کو ان کے بھائی غلام نے بتایا کہ وہ لوگ ترکی پہنچ گئے ہیں۔ وہ ایک انسانی سمگلر کی کشتی پر اس امید کے ساتھ سوار ہونے کے منتظر تھے کہ وہ انھیں یونانی جزیرے لیسبوس لے جائے گی۔ غلام نے وہاں پہنچنے پر دوبارہ کال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
یہ خاندان اسی سمندری راستے پر سفر کرنے والا تھا جو اس سال ترکی سے سمندر عبور کر کے لیسبوس پہنچنے کے لیے کوشاں لاکھوں دیگر افراد نے اپنایا تھا۔
کئی گھنٹے تک بھائی کی کوئی خبر نہ ملنے کے بعد فاروق نے اس سمگلر سے رابطہ کیا تو انھیں یہ خبر ملی کہ ان کے بھائی کو لے جانے والی کشتی ڈوب گئی تھی۔
تاہم سمگلر کا کہنا تھا کہ اس پر سوار زیادہ تر افراد کو بچا لیا گیا تھا اور فاروق غلام کی کال کا انتظار کرے۔ وہ کال جو کبھی نہیں آئی۔
فاروق نے اپنے بھائی کی لاش ایک تصویر میں دیکھی۔ ان کی لاش لیسبوس میں ایک ساحل پر پڑی تھی۔
یورپ پہنچنے کے لیے دس کلومیٹر کا سمندری راستہ
ناسا لینڈ سیٹ، بی بی سی کی تحقیق
ناسا لینڈ سیٹ، بی بی سی کی تحقیق
اس رات غرق ہونے والی کشتی سے 242 افراد کو بچایا گیا لیکن درجنوں کے لاپتہ ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا
جہاں 50 سالہ غلام اور ان کی 34 سالہ اہلیہ کی لاشیں مل گئیں وہیں ان کے چار بچوں، 16 سالہ تمیم، 14 سالہ صمیم، 12 سالہ نازلہ اور 10 سالہ حصیم کا کچھ پتہ نہیں چلا۔
فاروق آج بھی پرامید ہیں کہ یہ بچے زندہ یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ سمندر میں ڈوبنے کے بعد لاوارث ہونے کی وجہ سے بےنشان قبروں میں دفن کر دیے گئے ہوں۔
بائیں سے دائیں: حصیم 10، نازلہ 12، غلام
(والد)
50، تمیم 16، صمیم 14
لاشوں کو کہاں دفنایا گیا ہے؟
بحیرۂ روم عبور کرنے کی کوشش میں مرنے والے ایک ہزار سے زیادہ پناہ گزین اٹلی، یونان اور ترکی میں بےنشان قبروں میں دفن ہیں۔
لاشیں کشتی کی غرقابی کے دنوں یا پھر ہفتوں کو بعد بری حالت میں ساحل تک پہنچتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی شناخت کا عمل انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ دیگر واقعات میں پورا کا پورا خاندان ہی سمندر برد ہو گیا اور ان کی لاشوں کی شناخت کرنے والا کوئی نہ رہا۔
بےنشان قبروں میں دفن پناہ گزینوں کی درست تعداد جاننا مشکل ہے۔ بی بی سی کی تحقیق دستیاب اعدادوشمار اور مقامی حکام سے بات چیت پر مبنی ہے لیکن یہ اعدادوشمار حقیقت کے قریب تر ہیں۔
پناہ گزینوں اور ساحلوں پر بہہ کر آنے والی لاشوں کی بڑی تعداد سے نمٹنے کے لیے کوشاں یونان اور ترکی میں کچھ مقامی حکام نے بی بی سی سے بات چیت میں تسلیم کیا کہ وہ تدفین کا درست ریکارڈ رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔
بی بی سی کی تحقیق بحیرۂ روم کے شمالی ساحلی ممالک اٹلی، یونان اور ترکی تک محدود تھی۔ جنوبی بحیرۂ روم میں بھی غرق ہونے والی کشتیوں کے ثبوت ملے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یورپ کا رخ کرنے والے پناہ گزین لیبیا میں بھی بےنشان قبروں میں دفنائے گئے ہوں لیکن لیبیا میں سکیورٹی کی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے وہاں سے اعدادوشمار جمع نہیں کیے جا سکے۔
مزید براں، استنبول کے کیلیوس قبرستان میں موجود 880 بےنام قبریں اس گنتی میں شامل نہیں کیونکہ حکام اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ ان میں سے کتنے وہ پناہ گزین تھے جو یورپ پہنچنے کی کوشش میں مارے گئے۔
بحیرۂ روم عبور کرتے ہوئے کتنے لوگ جان سے گئے؟
بحیرۂ روم: اٹلی، مالٹا، لیبیا، مصر، یونان، ترکی، لیسبوس
گوگل، آئی او ایم کا لاپتہ پناہ گزین پروجیکٹ، بی بی سی کی تحقیق۔ کچھ مقامات قریب ترین اندازوں پر مبنی ہیں۔ یہ ڈیٹا یکم جنوری 2014 سے 30 اپریل 2016 تک کا ہے۔ مغربی بحیرۂ روم میں پیش آنے والے کچھ واقعات نقشے پر ظاہر نہیں کیے گئے لیکن وہ خطے میں پیش آنے والے کل واقعات کا حصہ ہیں۔
گوگل، آئی او ایم کا لاپتہ پناہ گزین پروجیکٹ، بی بی سی کی تحقیق۔ کچھ مقامات قریب ترین اندازوں پر مبنی ہیں۔ یہ ڈیٹا یکم جنوری 2014 سے 30 اپریل 2016 تک کا ہے۔ مغربی بحیرۂ روم میں پیش آنے والے کچھ واقعات نقشے پر ظاہر نہیں کیے گئے لیکن وہ خطے میں پیش آنے والے کل واقعات کا حصہ ہیں۔
بحیرۂ روم کا وسطی راستہ
کشتیاں ڈوبنے کے مہلک ترین حادثے شمالی افریقہ سے اطالوی جزیرے لیمپیدوسا کے سفر کے دوران پیش آئے۔
مالٹا، لیمپیدوسا اور سسلی تک کشتی کا سفر طویل اور ترکی سے براستہ بحیرۂ ایجیئن یونان کے سفر سے مشکل ہے۔ یہ سفر کرنے والی کشتیاں اکثر کمزور اور گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہوتی ہیں۔
ڈوبنے والے افراد میں سے بیشتر کی لاشیں کبھی نہیں ملیں۔ 18 اپریل 2015 کو جب اٹلی کے جنوب میں وہ کشتی ڈوبی جس پر 800 افراد سوار تھے تو صرف 28 افراد کو بچایا گیا اور 120 لاشیں ہی مل سکیں۔ یہ کسی ایک واقعے میں یورپ جانے والے پناہ گزینوں کا سب سے بڑا جانی نقصان تھا۔
بحیرۂ روم: اٹلی، مالٹا، لیبیا، پالیرمو، کتانیہ، لیمپیدوسا، مصراتہ
گوگل، آئی او ایم کا لاپتہ پناہ گزین پروجیکٹ، بی بی سی کی تحقیق۔ کچھ مقامات قریب ترین اندازوں پر مبنی ہیں۔ یہ ڈیٹا یکم جنوری 2014 سے 30 اپریل 2016 تک کا ہے۔ مغربی بحیرۂ روم میں پیش آنے والے کچھ واقعات نقشے پر ظاہر نہیں کیے گئے لیکن وہ خطے میں پیش آنے والے کل واقعات کا حصہ ہیں۔
بحیرۂ روم کا مشرقی راستہ
2015 میں سمندر کے راستے یورپ پہنچنے والے دس لاکھ پناہ گزینوں میں سے 80 فیصد ترکی سے یونان تک بحیرۂ روم کے مشرقی راستے پر سفر کر کے وہاں پہنچے۔
یونان جانے کے خواہشمندوں کو ترکی سے لیسبوس، کوس، چیئوس اور ساموس کے جزائر تک کا نسبتاً مختصر بحری سفر کرنا پڑا۔
اگرچہ ترکی سے لیسبوس کا سمندری فاصلہ دس کلومیٹر کے برابر ہے لیکن لکڑی اور ربر کی چھوٹی کشتیوں پر یہ سفر کرنے والے سینکڑوں افراد نے اپنی جان گنوائی ہے۔
یونان، ترکی، بحیرۂ ایجیئن، ایتھنز، لیسبوس
گوگل، آئی او ایم کا لاپتہ پناہ گزین پروجیکٹ، بی بی سی کی تحقیق۔ کچھ مقامات قریب ترین اندازوں پر مبنی ہیں۔ یہ ڈیٹا یکم جنوری 2014 سے 30 اپریل 2016 تک کا ہے۔ مغربی بحیرۂ روم میں پیش آنے والے کچھ واقعات نقشے پر ظاہر نہیں کیے گئے لیکن وہ خطے میں پیش آنے والے کل واقعات کا حصہ ہیں۔
2002 میں ترکی سے ایک پیڈل بوٹ کے ذریعے لیسبوس پہنچ کر وہیں رہ جانے والے سابق پناہ گزین اور افغان رضا کار نعیم محمدی کا کہنا ہے کہ 'جب بات ڈوبنے والوں کی آتی ہے تو وہاں ایک بڑا خلا موجود ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ 'ہر کوئی چاہے وہ این جی او ہو یا حکومتیں یا پھر رضا کار سب کی توجہ بچ جانے والوں پر ہے۔ کوئی یہ جاننے کی کوشش نہیں کر رہا کہ ڈوب جانے والوں پر کیا گزری۔‘
نعیم افغان رضاکاروں کے اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو لیسبوس میں ان افراد کی مدد کرتا ہے جو اپنے لاپتہ پیاروں کو ڈھونڈنے آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'دفنا دیے جانے والوں یا پھر لاپتہ افراد کی تعداد کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔‘
'صرف یہ معلوم ہے کہ وہ ترکی سے روانہ ہوئے تھے اور پھر غائب ہو گئے۔‘
پناہ گزین لیسبوس پہنچنے کے لیے زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں
بچوں کی تلاش
تصویر میں اپنے بھائی کو پہچاننے کے بعد فاروق نے جرمنی میں مقیم اپنی بہن کو کال کی اور یہ خبر دی۔ وہ اپنے خاوند کے ہمراہ لیسبوس پہنچیں اورغلام اور ان کی اہلیہ کی لاشیں شناخت کیں۔
لیکن ان کے بچوں کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔
'جب میں آن لائن تلاش کر رہا تھا تو مجھے ایک واقعے کی تصویر ملی جس میں ایک رضاکار کے ہاتھوں پر ایک بچہ تھا جو زندہ لگ رہا تھا اور بالکل میرے ایک بھتیجے جیسا تھا۔‘
فاروق نے اس رضاکار کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اسے بتایا گیا کہ وہ تصویر کھینچے جانے کے کچھ عرصہ بعد لیسبوس سے چلا گیا تھا۔ فاروق کی بہن اور بہنوئی غلام کی اہلیہ کی لاش افغانستان بھجوانے میں کامیاب رہے۔
فاروق کے بھائی کشتی کے جس حادثے میں ہلاک ہوئے، اس کے بعد لیسبوس کے قبرستان میں جگہ ختم ہوگئی۔ نتیجتاً مقامی حکام نے کاتوتریتوس کے دوردراز گاؤں میں زیتون کے ایک باغ کے ساتھ تدفین کے لیے جگہ مختص کر دی۔
غلام ان ابتدائی افراد میں سے تھے جو کاتوتریتوس میں دفنائے گئے۔ اس کے بعد سے وہاں 70 سے زیادہ افراد دفنائے جا چکے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ کی شناخت نہیں ہو سکی۔
اپنے بھتیجوں اور بھتیجی کے بارے میں معلومات کی تلاش میں فاروق رواں برس کے آغاز میں ترکی پہنچے کہ کہیں ان لاشیں بہہ کر ترکی کے ساحلوں پر نہ آ گئی ہوں۔
'یہ حادثہ ترکی اور یونان کے درمیان پیش آیا تھا۔ میرے بھائی اور ان کی اہلیہ کی لاشیں یونان سے ملیں لیکن میرے بھتیجوں یا بھتیجی کی نہیں اس لیے میں نے سوچا کہ کہیں انھیں لہریں بہا کر ترکی نہ لے گئی ہوں۔‘
'میں نے 1800 کلومیٹر کے علاقے میں انھیں تلاش کیا۔ میں ہسپتالوں میں گیا، کوسٹ گارڈز سے رابطہ کیا غرض کہ ہر جگہ گیا۔ میرے پاس ان کی تصاویر تھیں لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔‘
صرف ایک عدد نہیں بلکہ ایک نام
اٹلی، یونان اور ترکی میں غیرشناخت شدہ مردہ پناہ گزینوں کی لاشوں کی رجسٹریشن کا عمل ایک جیسا ہے۔ لاش کی تصویر لی جاتی ہے، معائنہ ہوتا ہے، شناختی نشان ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور ڈی این اے کا نمونہ لیا جاتا ہے۔
لیکن یہ عمل ہر مرتبہ مکمل طور پر نہیں ہوتا۔ مثلاً یونانی جزائر پر جہاں کوئی ڈاکٹر نہیں مقامی افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ غیرشناخت شدہ لاشوں کو اکثر بغیر رجسٹریشن کے دفنا دیا جاتا ہے۔
تھیوڈور نوسیاس لیسبوس کے ڈاکٹر ہیں۔ انھیں اکثر قریبی جزائر میں بھی طلب کیا جاتا ہے جب وہاں کوئی لاش ساحل پر ملتی ہے۔
'بعض اوقات مجھ سے وہ لوگ رابطہ کرتے ہیں جن کے اہلِ خانہ لاپتہ ہیں۔ وہ تصاویر دیکھنے ہسپتال آتے ہیں پھر وہ اپنا ڈی این اے لیبارٹری کو بھیجتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کا ڈی این اے متوفی سے ملتا ہے یا نہیں۔‘
اس شعبے کی سربراہ ویٹوریو پیسیٹیلی کے مطابق فی الوقت یہاں ہونے والا دو تہائی کام لاپتہ پناہ گزینوں کی شناخت سے متعلق ہے۔
جب کسی متوفی کے بارے میں سب معلومات مل جاتی ہیں تو انھیں ایک فولڈر میں جمع کیا جاتا ہے جسے ایک کیس نمبر الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ یہی نمبر اس پناہ گزین یا اس کی قبر کی نئی شناخت بن جاتا ہے۔
'ہم انھیں ایک عدد کی بجائے قبر پر ایک نام دے کر کچھ عزت دینا چاہتے ہیں۔‘ویٹوریو پیسیٹیلی، اٹلی میں لاپتہ افراد کا قومی دفتر
پیسیٹیلی کا کہنا ہے کہ 'پھر ہم ہر کیس کے لیے ایک کتابچہ بناتے ہیں جن میں اس سے متعلق تمام معلومات ہوتی ہیں جیسے کہ اس کے پاس سے ملنے والی چیزیں۔ اس کتابچے کو متعدد این جی اوز اور تھانوں کو بھیجا جاتا ہے تاکہ اگر کوئی اسے تلاش کر رہا ہے تو اسے بتا دیا جائے۔‘
پیسٹیلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ 'روزانہ ہمیں ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ایک نام دینے کی کوشش کرتے ہیں جنھیں سمندر نے نگل لیا اور جنھوں نے اپنی زندگی، مستقبل، خاندان یہاں تک کہ اپنی شاخت سمیت سب کچھ کھو دیا۔‘
'یہ لوگ تو بھوت بن کر رہ گئے ہیں جن کی کوئی انسانی تکریم نہیں۔ ہم ان کی قبروں پر کسی عدد کی جگہ نام دے کر کچھ عزت دینا چاہتے ہیں۔‘
ڈی این اے سے مدد کی امید
رواں برس کے آغاز میں ترکی کے دورے کے علاوہ فاروق اپنے بھتیجوں اور بھتیجی کی تلاش میں لیسبوس بھی گئے اور یہاں ان کی ملاقات افغان رضاکار نعیم سے ہوئی۔
نعیم کہتے ہیں 'جب وہ یہاں آئے تو میں انھیں پولیس کے پاس، ہسپتال اور موریا کے مرکزی پناہ گزین کیمپ لے گیا لیکن ہمیں ان بچوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملیں۔‘
'لیکن اس حادثے میں مرنے والے بہت سے بےشناخت بچے ایسے ہیں جو نئے قبرستان میں دفن ہیں۔ اس لیے میں نے اس امید کے ساتھ ڈی این اے کا نمونہ ایتھنز بھجوانے میں ان کی مدد کی کہ شاید اسے اپنے بھتیجوں اور بھتیجی کے بارے میں نئی معلومات مل سکیں۔‘
فاروق کو تاحال ڈی این اے ٹیسٹ کے نتیجے کا انتظار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'میرے لیے یہ جاننا بہت اہم ہے کہ وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔ اگر وہ اس دنیا میں نہیں تو کم از کم ہمیں یہ تو پتہ چل جائے گا کہ وہ کہیں سکون سے ہیں۔‘
فاروق افغانستان میں ہیں اوریونان واپس جانے کے لیے نیا ویزا حاصل کرنے کی کوشش میں ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے یورپ کا ویزا لینا آسان نہیں اور گذشتہ برس بھی انھیں ویزا ملنا ایک غیرمعمولی بات تھی۔
میری خواہش ہے کہ میں وقت کو لوٹا سکوں اور انھیں ایک کمرے میں بند کر کے جانے سے روک سکوں۔فاروق پکار
لیکن فاروق اپنے سوال کے جواب کی تلاش کے لیے پرعزم ہیں اور اپنے بھتیجوں اور بھتیجی کی تلاش کے لیے انھوں نے اپنی آبائی زمین بھی فروخت کر دی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'اگر وہ مجھے لاشیں واپس لانے کی اجازت دیتے ہیں تو ہمیں انھیں ہر قیمت پر واپس لاؤں گا۔‘
'ہم نے اپنے خاندان کے چھ ارکان کھو دیے ہیں۔ ہماری زندگی اور خاندان ٹوٹ گیا ہے۔‘
فاروق غلام، تمیم، صمیم، نازلہ اورحاسم کی تصاویر اپنے پاس رکھتے ہیں تاکہ روزانہ انھیں دیکھ سکے۔
'میں نے اسے ترکی میں رکنے کو کہا تھا لیکن اس نے آگے جانے پر اصرار کیا۔ کاش میں وقت کو لوٹا سکتا اور اسے ایک کمرے میں بند کر کے جانے سے روک سکتا۔‘
ڈیٹا کیسے جمع کیا گیا
بی بی سی نے مارچ اور اپریل 2016 کے درمیان اٹلی، یونان اور ترکی میں موجود کئی بےنشان قبروں پر تحقیق کی۔
ذرائع میں مقامی حکام سے بات چیت شامل تھی لیکن زیادہ تر اعدادوشمار قریب ترین اندازوں پر مبنی ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ لیبیا میں بھی بےنشان قبروں میں پناہ گزین دفن ہوں لیکن وہاں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے ڈیٹا جمع نہیں کیا جا سکا۔
ایسے واقعات کا ڈیٹا جن میں پناہ گزین ہلاک یا لاپتہ ہوئے آئی او ایم کے مسنگ مائگرینٹ منصوبے سے لیا گیا ہے۔ یہ ان پناہ گزینوں کو شمار کرتا ہے جو اپنے ملک کی عالمی سرحد پر یا کسی عالمی مقام کی جانب ہجرت کے دوران ہلاک یا لاپتہ ہوئے۔
بحیرۂ روم عبور کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونے والے پناہ گزینوں کو عموماً مردہ تصور کر لیا جاتا ہے۔ آئی او ایم کے مطابق ہجرت کے عمل کے دوران مہاجرین کی صحیح تعداد جاننے کا عمل مشکل ہے اور اعدادوشمار اندازوں پر مبنی ہی ہوتے ہیں۔ لاپتہ پناہ گزینوں کے منصوبے میں ڈیٹا جمع کرنے کے طریقے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے یہاں کلک کریں: http://www.missingmigrants.iom.int/methodology
نقشے میں دکھائے گئے مقامات بعض صورتوں میں قریب ترین اندازے پر مبنی ہیں۔
اصطلاحات کے بارے میں: بی بی سی پناہ گزین اور تارکینِ وطن کے الفاظ ان تمام افراد کے لیے استعمال کرتی ہے جو نقل مکانی کر چکے ہیں لیکن قانونی لحاظ سے ان کا پناہ کے حصول کا عمل مکمل نہیں ہوا۔ ان افراد میں شام جیسے جنگ زدہ ممالک سے نقل مکانی کرنے والے لوگ بھی ہیں جن کی پناہ کی درخواستیں قبول ہونے کے واضح امکانات ہیں اور ایسے لوگ بھی جو روزگار کی تلاش اور بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنے ملک سے نکلے ہیں اور جنھیں حکومتیں اقتصادی تارکینِ وطن کہتی ہیں۔
ح