ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
وہ چند فرائض و واجبات ۔ اور ۔ حرام و ناجائز امور کی جنہیں اکثر لوگ کچھ اہمیت نہیں دیتے بلکہ معمولی سمجھ کر ان کی کچھ پرواہ نہیں کرتے
(الف) فرائض و واجبات1 ۔ اپنی اولاد کے لیے اللہ تعالٰی کی اطاعت و فرمانبرداری سکھانے کی خاطر ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ۔ ان کی ھدایت اور جو امور و اسباب ان کی ھدایت کے لیے ممد و معاون ہوں ان پر حریص رہنا ۔
اس طرح وہ امور و اسباب جو اولاد کی صحیح دینی تعلیم و تربیت میں آڑے آتے ہوں یا ان کی گمراہی کا سبب بنتے ہون انہیں پوری قوت و طاقت سے دور کرنا۔
2 ۔ بالعموم نیکی کا حکم دینا اور ہر قسم کی برائی سے حسب استطاعت منع کرنا ۔ اور ۔ دعوت الی اللہ دینا
3 ۔ مسجد میں جا کر نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرنا
4 ۔ ہمسایوں اور پڑوسیوں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک سے پیش آنا
5 ۔ ملازمت کی صورت میں جو بھی کام ہو اسے وقت کی پابندی کے ساتھ پوری ایمانداری سے ادا کرنا
6 ۔ بالعموم تمام امت مسلمہ کی حسب استطاعت معاونت کرنا تاکہ ان کی ذلت و رسوائی کا دور ختم ہو کر پھر انہیں گزشتہ عزت و آبرو حاصل ہوسکے ۔
(ب) ناجائز اور حرام امور
1 ۔ غیبت اور چغلی کرنا
2 ۔ مردوں کا عورتوں کی تصاویر دیکھنا۔ ٹی وی ،وڈیو، یا اخبارات و رسائل کی شکل میں ۔
3 ۔ عورتوں کا بہت ہی زیادہ تنگ،چست اور باریک لباس پہننا ۔ جو کہ باوجود لباس پہننے کی بے پرد نظر آئیں ۔
4 ۔ بعض عورتوں کا فیشنی لباس استعمال کرنا ، جو کہ حقیقی اسلامی پردے سے کوسوں دور ہوتا ہے جیسا کہ :
٭ بڑا مزین و منقش قسم کا کڑھائی والا برقعہ پہننا ۔
٭ گھر سے نکلتے وقت عورتوں کا تیز خوشبولگانا اور پھر غیر محرم مردوں کے پاس سے گزرنا ۔
5 ۔ گانے اور موسیقی سننا ۔
6 ۔ وہ چیزیں اور آلات خریدنا جو کہ گھروں میں حرام امور کے داخلے کا سبب بنتے ہیں۔
1 ۔ شرعی طور پر حرام چیزوں کی فروخت ، وہ چاہے اپنے ہی جسم اورعقل کے لیے ضرر رساں ہوں ۔ یا ۔ وہ معاشرے میں کسی قسم کی خرابی اور نقصان کا باعث ہوں ۔
8 ۔ ان معاملات اور امور کو ہلکا اور معمولی سمجھنا جن سے سود یا حرام خوری بشکل عام رواج پا جائے ۔
9 ۔ فاسق و فاجر لوگوں کے ساتھ ان کی دلجوئی کے لیے یا ان کی ہمدردی حاصل کرنے کی خاطر مجلس اختیار کرنا، اور ان کے فسق و فجور کو برا نہ سمجھنا ۔
10 ۔ جو لوگ سنت نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مطابق شرعی وضع قطع کے ساتھ رہتے ہوں ان کا مذاق اڑانا ۔
11 ۔ کفار سے اظہار محبت کرنا اور وضع قطع اور لباس میں ان کی مشابہت اخیتار کرنا ۔
12 ۔ عورتوں کا بغیر محرم کے سفر کرنا ، اور ان کا غیر محرم ڈرائیور کے ساتھ خلوت نشیں ہونا ، اور ان کا غیر محرم مرد سے مصافحہ کرنا ۔
13 ۔ بلا شرعی ضرورت کے غیر مسلم ممالک کا سفر کرنا ۔
٭ حقیر قسم کے معمولی گناہوں سے بچیں !
اے میرے مسلمان بھائی ! ان گناہوں سے متنبہ رہنا اور بچنا بہت ضروری ہے جن کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے '' محقرات الذنوب '' حقیر اور چھوٹے گناہ رکھا ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ چھوٹے گناہ کیا ہیں ؟
وہ ۔ وہ گناہ ہیں کہ جنہیں انسان اپنے ذہن کے مطابق چھوٹا تصور کرتا ہے ، اور پھر ہم میں سے بہت ہی زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ وہ ان کی بالکل پرواہ نہیں کرتے ، اور بلا حساب ان گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ اور ۔ اصرار کی حد تک کرتے ہی چلے جاتے ہیں وہ انہیں ہرگز نہیں چھوڑتے ،جیسا کہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ تو معمولی اور چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں ۔ اور اگر ان گناہوں کو چھوٹا اور معمولی سمجھنے والا شخص جان لے کہ اس کے کتنے خطرات اور دوررس نقصانات ہیں تو پھر وہ ہرگز ان کا ارتکاب نہ کرے ،اور نہ ہی ان پر مُصر رہے ۔
اللہ تعالٰی آپ کو اور مجھے گناہ چھوڑنے اور نیکی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنیں !
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہین کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولم نے ارشاد فرمایا : چھوٹے چھوٹے اور حقیر گناہوں سے اپنے آپ کو بچا لو ! کیونکہ ان کی مثال یہ کہ جیسے کسی وادی میں کچھ لوگ اُترے اور پھر ایک شخص اپنی ایک لکڑی لے آیا اور دوسرا شخص اپنی ایک لکڑی لے آیا۔ حتٰی کہ انہوں نے آگ جلا کر روٹی تیار کر لی ، اسی طرح جب چھوٹے چھوٹے گناہوں کے مرتکب شخص کو پکڑ لیا جائے گا، تو چھوٹے چھوٹے گناہ اسے جلا کر ہلاک کردیں گے (مسند احمد )
تو یہ چھوٹے چھوٹے اور حقیر قسم کے گناہون والا معاملہ بڑا ہی خطرناک ہے ، ہمیں چاہیئے کہ اس پر کچھ سوچیں اور بلکہ گہرا سوچ و بچار کریں،اور پھر یاد رکھیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے گناہ اللہ کے ہاں بڑے بن جاتے ہیں۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :'' یہ معاملہ بڑا ہی اہم اور خطرناک ہے کیونکہ بعض اوقات کبیرہ گناہ، حیا خوف اور اللہ تعالٰی سے ڈر کی وجہ سے صغیرہ گناہوں کے برابر ہوجاتے ہیں
(اور معافی مانگنے پر اللہ تعالٰی بخش بھی دیتا ہے )
اور بعض اوقات چھوٹے چھوٹے اور معمولی گناہ ،قلت حیا ،بے پرواہی ،اللہ تعالٰی کا خوف اور ڈر نہ ہونے اور انہیں حقیر سمجھنے کے باعث کبیرہ گناہون سے جا ملتے ہیںبلکہ یہ ان کبیرہ گناہوں سے بھی بڑے بن جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کا مرتکب ان گناہوں کو معمولی اور حقیر سمجھتا ہوا نہ ان سے کنارہ کش ہوتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالٰی سے معافی کا طلب گار ہوتا ہے''( مدارج السالکین)
لہٰذا ثابت ہوا کہ چھوٹے چھوٹے اور حقیر قسم کے گناہوں کا نتیجہ دو شکلوں میں برآمد ہوتا ہے ۔
1 ۔ ان کی کثرت اور پر مصر رہنا ہلاک کر دیتا ہے۔
2 ۔ انہیں حقیر اور معمولی سمجھ کر ترک نہ کرنا ہی انہیں اللہ تعالٰی کے ہاں کبیرہ بنا دیتا ہے ۔
اور آخر میں اے میرے مسلمان بھائی !
میں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ کسی بھی گناہ اور نافرمانی کے چھوٹا اور حقیر ہونے کی طرف ہر گز نہ دیکھیں بلکہ اس مالک کی عظمت اور کبریائی کو سامنے رکھیں کہ جس کی نافرمانی کی جارہی ہے کہ وہ ذات کون ہے ؟؟؟
اس اعتبار سے تو ہر چھوٹے سے چھوٹا گناہ اور معمولی سے معمولی نافرمانی بھی بڑی سے بڑی نافرمانی ہوئی اور کبیرہ سے کبیرہ گناہ
کیونکہ جس کی نافرمانی کی جارہی ہے وہ ذات بڑی باعظمت اور کبریائی کی مالک ہے ۔
(کتاب ''الطریق الی الجنة ''( جنت کا راستہ) صفحہ 496 تا 498 تالیف عبداللہ بن احمد العلاف الغامدی،طائف سعودی عرب اردو ترجمہ عبدالستار قاسم فاضل ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ)