• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ویلنٹائین ڈے منانے کا شرعی حکم

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

ویلنٹائین ڈے منانے کا شرعی حکم

مختلف علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده وبعد:

مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء اس استفتاء (سوال)پر مطلع ہوئی جو سماحۃ الشیخ مفتی مملکت سے عبداللہ آل ربیعہ نے دریافت کیا، فتوی رقم (5324) بتاریخ 1420/11/3ھ۔

سوال: بعض لوگ 14 فروری کو ہر سال عید الحب (عید ِمحبت) ویلنٹائین ڈے (‎valentine day) مناتے ہیں۔ جس میں سرخ گلاب کے ایک دوسرے کو تحفے دیئے جاتے ہیں اور سرخ لباس پہنے جاتے ہیں، اسی طرح بعض مبارکبادیں بھی دیتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ بیکری والے کیک مٹھائی وغیرہ بھی سرخ رنگ میں بناتے ہیں اور اس پر دل کی شکل بناتے ہیں، اس کےعلاوہ بعض دکانیں اپنی پروڈکٹس پر جو اس دن کی مناسبت سے ہوتی ہیں اعلانات وپیغامات پرنٹ کرتی ہیں۔آپ کی مندرجہ ذیل باتوں کے بارے میں کیا رائے ہے:

اولاً: یہ دن منانا؟

ثانیاً: اس دن دکانوں سے خریداری کرنا؟

ثالثاً: ایسے دکاندار جو یہ دن نہیں مناتے ان کا ایسے لوگوں کو جو یہ دن مناتےہیں ایسی چیزیں فروخت کرنا جنہیں وہ بطورِ تحفہ پیش کرتے ہیں؟

وجزاکم اللہ خیراً

جواب:

اس سوال کو مکمل پڑھنے کے بعد فتوی کمیٹی یہ جواب دیتی ہے کہ کتاب وسنت کے ادلہ صریحہ اور جس پر سلف امت کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میں فقط دو عیدیں ہیں جو عید الفطر اور عید الاضحی ہیں ، ان کے علاوہ جو بھی عیدیں ہیں خواہ وہ کسی شخصیت ، یا کسی جماعت ، یا کسی واقعہ سے متعلق ہوں یا پھر کسی بھی معنی میں ہوں تو یہ بدعتی عیدیں ہیں ، اہل اسلام کے لئے بالکل بھی جائز نہیں کہ وہ اسے منائیں، یا اسے مانیں ، نہ ہی اس میں کسی قسم کی خوشی کا اظہار کریں اور نہ ہی کسی بھی چیز سے اس میں اعانت کریں، کیونکہ یہ اللہ تعالی کی حدود کو پامال کرنا ہے اور جو کوئی بھی حدودِ الہی کو پامال کرتا ہے تو وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرتا ہے۔

مزید برآں اس اختراع شدہ عیدپر اگر یہ بھی اضافہ ہوجائے کہ وہ کافروں کی عیدوں میں سے ہے(ساتھ ہی اس کی بنیاد بیہودگی پرہے)، تو یہ گناہ درگناہ کی موجب ہے، کیونکہ اس میں ان سے مشابہت ہے اور ان سے ایک طرح کی محبت ہےجبکہ اللہ تعالی نے مومنین کو ان سے مشابہت اختیار کرنے اور ان سے محبت کرنے سے اپنی کتاب عزیز میں منع فرمایا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([1])

(جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔

ویلنٹائین ڈے بھی انہی عیدوں میں سے ہے جو بیان ہوئی کیونکہ یہ بت پرستوں اور نصاریٰ کی عید ہے، کسی مسلمان کے لئے جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے حلال نہیں کہ وہ اسے منائے ،یا اسے مانے، یا پھر اس کی مبارکباد دے، بلکہ اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات مانتے ہوئے اور اللہ تعالی کی ناراضگی وعقوبت کے اسباب سے بچتے ہوئے اسے ترک کرنا واجب ہے۔

اسی طرح ایک مسلمان پر یہ بھی حرام ہے کہ وہ اس عید یا کسی بھی حرام عیدوں میں کسی بھی چیز کے ذریعہ تعاون کرے چاہے وہ کھانے، پینے، خرید، فروخت، صناعت، تحفہ، خط وکتابت، اعلان یا پھر اس کے علاوہ جس بھی طریقے سے ہو، کیونکہ یہ سب گناہ وزیادتی اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی میں تعاون ہوگا جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَاب﴾ (المائدۃ: 2)

(اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور برائی اور زیادتی کی کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈرو بےشک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے)

ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے تمام حالات میں خصوصاً فتنوں کے اوقات اور اور فساد کی کثرت کے موقع پر کتاب وسنت سے اعتصام وتمسک اختیارکرے، اسے چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اورڈرے کہ کہیں ان مغضوب علیہم، ضالین اور فاسقین جن کی نظر میں اللہ تعالی کا کوئی وقار نہیں اور جو اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کی گمراہیوں میں واقع نہ ہوجائیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کی ہدایت کو طلب کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے لئے اسی سے لو لگائے، کیونکہ اللہ تعالی کے سوا کوئی ہدایت دینے والا اور ثابت قدمی بخشنے والا نہیں۔

اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد اور آپ کی آل واصحاب پر۔

مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب
رئیس: عبدالعزیز بن عبداللہ بن محمد آل الشیخ
رکن: صالح بن فوزان الفوزان
رکن: عبداللہ بن عبدالرحمن الغدیان
رکن: بکر بن عبداللہ ابو زید


سوال: آخر کچھ برسوں میں عید الحب (ویلنٹائن ڈے) منانا بہت عام ہوتا جارہا ہے خصوصاً طالبات میں، جو کہ نصاریٰ کی عیدوں میں سے ایک عید ہے، جس میں وہ مکمل حلیہ لال رنگ کا اختیار کرتے ہيں کپڑے ہوں یا جوتے، اور لال پھول ایک دوسرے کو دیے جاتے ہیں، ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے امید کرتے ہيں کہ اس عید کے منانے کا حکم بیان فرمائیں، اور اس قسم کے امور کے تعلق سے آپ مسلمانوں کی کیا رہنمائی کرنا چاہیں گے، اللہ تعالی آپ کی حفاظت ورعایت فرمائے؟

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

عید الحب منانا جائز نہیں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر:

1- بلاشبہ یہ ایک بدعتی عید ہے جس کی شریعت میں کوئی اساس نہیں۔

2- بلاشبہ یہ عشق اور شہوت کی طرف دعوت دیتی ہے۔

3- بلاشبہ یہ دل کو اس قسم کے فضول وبیہودہ کاموں کی طرف دعوت دیتی ہے جو سلف صالحین کے طریقے کے خلاف ہیں۔

حلال نہیں کہ اس دن کسی بھی قسم کی ایسی حرکت کی جائے جو عید کے شعائر میں شمار ہو چاہے کھانے پینے کے تعلق سے ہو یا پہننے اور تحائف دینے وغیرہ کے تعلق سے ہو۔

ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین کے ذریعے عزت دار بنے، اور ہر ہانکنے والے کےپیچھے بھیڑ چال چلتا نہ پھرے۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہر قسم کے فتنوں سے خواہ ظاہر ہوں یا باطن محفوظ فرمائے، اور اپنی نگہبانی وتوفیق کے ساتھ ہماری نگہبانی فرمائے۔

(مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين – المجلد السادس عشر – باب صلاة العيدين)

سوال: محترم سائل کہتا ہے کہ: شیخنا! کل اتوار کا روز بمطابق 14 فروری مغر ب میں عید الحب (ویلنٹائن ڈے) کہلاتا ہے جس سے متعلق کلام کیا جاتا رہا ہے۔۔۔

شیخ صالح بن سعد السحیمی حفظہ اللہ: جی، سبحان اللہ!

سائل کہتا ہے: یقیناً ہمارے بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس عید کے فتنے میں مبتلا ہوچکے ہيں، پس آپ اس بارے میں کچھ فرمائیں اور نصیحت کیجئے؟

الشیخ: یہی تو میرے خطبۂ جمعہ کا موضوع تھا یعنی سابقہ جمعے کا۔ اگر طلبہ میں سے کسی نے اسے ریکارڈ کیا ہو، میرے خیال سے مسجد الامیر سلطان میں وہ ریکارڈ ہوا ہے، لہذا میں نے اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ وہاں بحث کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جسے یہ عید الحب کا نام دیتے ہیں اس میں سات ممنوعہ باتیں پائی جاتی ہیں:

1- بلاشبہ اس کی اصل رومانیہ سے ہے ، ان کے وہاں اسے ایک خدا کی عید کہا جاتا ہے یعنی محبت کے خدا کی! پس اس سے تعلق رکھنا گویا کہ وثنیت (بت پرستی) سے تعلق رکھنا ہے۔ کیونکہ بے شک یہ تقلید ہے کن کی؟ اوثان(بت یا کوئی بھی غیراللہ) پرستوں کی۔

2- بلاشبہ اس میں یہود ونصاری کی تقلید ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے متعلق ہمیں خبر دی ہے کہ:

’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ۔۔۔ قِيلَ:الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى؟ فَقَالَ: وَمَنِ القَومُ إِلَّا أُولَئِكَ!‘‘([2])

(تم ضرور گذشتہ قوموں کے طریقوں کی اتباع کرو گے۔۔۔ کہا گیا: کیا یہود ونصاری کی؟! فرمایا: اور نہیں تو کیا ، ان کے علاوہ اور کونسی قومیں مراد ہیں(یعنی انہی کی کروگے))۔

اور ایک روایت میں ہے:

’’فَارِسُ وَالرُّومُ‘‘

(فارس وروم کی)۔

3- بلاشبہ اس میں مطلقا ًکفار کی مشابہت ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہے:

’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([3])

(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔

4- بلاشبہ یہ ان بدعات میں سے ہے جو لوگوں نے ایجاد کی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([4])

(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہ تھی، تو وہ مردود ہے)۔

5- بلاشبہ یہ ایک منکر ہے اور جو کچھ بھی اس میں کیا جاتا ہے وہ بھی منکر ہے، جیسے لڑکے لڑکیوں سے ملتے ہيں(جسے وہ ڈیٹ کا نام دیتے ہیں)، آپس میں مراسلات (خط ومیسج وغیرہ)، دل کی تصویر بھیجنا اور اس قسم کے دیگر بیہودگیاں ہوتی ہیں۔ اور یہ سب مغرب کی تقلید میں کیا جاتا ہے، جبکہ ہمیں ان کے ساتھ مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔

6- بلاشبہ خود ان میں سے جو عقل رکھنے والے لوگ ہیں وہ اس عید سے منع کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ میرے خیال سے ویٹیکن سٹی کے بڑے پاپ یعنی تحریف کرنے والے نصرانی نے بھی اس سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔

7- بلاشبہ یہ ایک عظیم خرافت پر مبنی ہے یعنی وہ چیز جیسے یہ محبت کا نام دیتے ہيں، پھر اسے فاسد معانی کی طرف لے جاتے ہیں، کیونکہ محبت ان کے نزدیک صرف زنا اور اس کے مقدمات (یعنی جو چیزیں اسے سازگار بنانے کے لیے ہوتی ہیں) کا نام ہے۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ان کفار سے مشابہت کرنے سے بچیں۔ اور میرے خیال سے یہ جواب کافی ہے۔ میں نے اس کی تفصیل اس خطبے میں بیان کردی تھی جو میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا۔ تو ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، اور کل کے درس تک آپ کو الوادع کہتے ہيں۔

وصلَّى الله وسلَّم وبارك على نبيِّنا محمَّدٍ وعلَى آلِهِ وصحبِهِ۔
(بواسطہ ویب سائٹ البیضاء العلمیۃ)


[1] صحیح ابی داود 4031۔
[2]البخاري أحاديث الأنبياء (3269) ، مسلم العلم (2669) ، أحمد (3/89).
[3] صحیح ابی داود 4031۔
[4] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
 
Top