• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ویگن کا سفر اور طلباء کی جسارت!

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ویگن کا سفر اور طلباء کی جسارت!

چوہدری خادم حسین: 20 نومبر 2014

دنیا تجربہ گاہ ہے۔ زندگی کے آخری موڑ تک بھی حضرت انسان کو نت نئے تجربات سے واسطہ پڑتا ہے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ خود ہی کسی پریشانی کو آواز دے لیتے ہیں اور جب تکلیف ہوتی ہے تو پھر پہلے پچھتاتے اور پھر اسے بھی تجربہ مان لیتے ہیں، عرصہ ہوا ویگن وغیرہ سے سفر چھوڑے ہوئے کہ اول تو اللہ تعالیٰ نے مہربانی کی اور صاحبزادے عاصم نے موٹربائیک کے ہوتے ہوئے بھی ایک پرانی کار خریدی جو بہرحال بہتر چلتی ہے، برخوردار یہ گاڑی ہمارے لئے چھوڑ دیتے اور خود اپنے دفتر آنے جانے کے لئے موٹرسائیکل استعمال کرتے تھے، اس پر بھی کبھی کبھار اپنی سواری دستیاب نہ ہو تو گھر سے دفتر اور واپسی کے لئے رکشا لیا جاتا ہے۔ مصطفےٰ ٹاؤن سے ہمارے دفتر کا فاصلہ 8 یا نو کلومیٹر کے لگ بھگ ہوگا۔ یہ رکشا والے ایک سو پچاس سے ایک سو ساٹھ روپے میں جیل روڈ تک آ جاتے تھے۔ پھر تیل اور ایل پی جی کے نرخ بڑھے تو ان کے نخرے بھی زیادہ ہو گئے اور یہ حضرات دو سو روپے لینے لگے۔ آج کل ایل پی جی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کافی کمی ہو گئی ہے، لیکن ان رکشا والوں کے ناز اور نخرے وہی کے وہی ہیں، ان دنوں گاڑی خراب ہو کر گھر پر کھڑی ہے، اس کی درستگی کی ذمہ داری بھی عاصم چودھری پر ہے ، لیکن اسے فرصت نہیں مل رہی، یوں ہمارے لئے دفتر آنا رکشا سے لازم ہو گیا۔ مجبوراً دن میں یہ جبر برداشت کرنا پڑتا ہے کہ رکشا والوں نے اپنی طرف سے سواریوں کو رتی بھر یا ٹیڈی پیسے کی بھی رعائت نہیں دی اور وہ بدستور دو سو روپے ہی لیتے ہیں، کبھی کبھار دس بیس روپے کی رعایت ہوتی ہے۔

اس صورت حال سے گھبرا کر کہ عاصم چودھری کی مصروفیت زیادہ ہے اور اسے صبح جلد بھی جانا ہوتا ہے، ہم نے اسے موٹر سائیکل لے جانے کی ہدایت کی اور خود رکشا سے دفتر آنے لگے۔ گزشتہ روز یونہی ذہن میں آیا کہ نہ معلوم گاڑی کس روز ٹھیک ہو، اتنے دنوں رکشا والوں کے ناز اٹھانا مشکل کام ہے، اس لئے کیوں نہ ویگن یا بس سے سفر کیا جائے، بس کے لئے ہمیں مصطفےٰ ٹاؤن سے پہلے بھیکھے والے موٹر تک آنا پڑتا ہے۔ لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی یہ بس جو ترکی کے تعاون سے چل رہی ہے، ایئرکنڈیشنڈ اور آرام دہ ہے کہ سیٹ نہ بھی ہو تو کھڑے ہو کر بھی آیا جا سکتا ہے، تاہم ہماری مشکل یہ ہے کہ مصطفےٰ ٹاؤن سے بھیکھے والا موڑ تک آنا ہوتا ہے جو کسی لفٹ کے بغیر ممکن نہیں اور جب کسی سے لفٹ لے کر یہاں آ بھی جائیں تو انتظار کرنا پڑتا ہے کہ بسوں کی کمی کے باعث بس بھی دیر سے آتی ہے اور اس کے بعد بھی پریشانی ہوتی ہے کہ بس آنے میں تاخیر دفتر پہنچنے میں دیر کا باعث بنتی ہے ۔

جب سے فیروز پور روڈ پر سگنل فری کی عیاشی میسر آئی ہے، بس کے ڈرائیور اور کنڈکٹر نے اسے بھی مشکل بنا دیا کہ واپسی کا روٹ ہی تبدیل کر دیا اب واپسی میں روٹ نمبر 41 کی یہ بس شادمان اور جیل روڈ کو خارج کر دیتی اور فیروز پور روڈ ہی سے قرطبہ چوک آ جاتی اور جیل روڈ کے مسافروں کو یہاں اتارتی ہے جو یہاں سے پیدل سفر کرتے ہیں، یوں بس سے سفر کے لئے پہلے مرحلے (مصطفےٰ ٹاؤن سے بھیکھے والا موڑ) سے گزر جانے کے بعد دوسرا مرحلہ مزید مشکل پیدا کرتا ہے کہ قرطبہ چوک (مزنگ چونگی) سے سڑک پار کرنے کے لئے سیڑھیاں چڑھنا لازم ہو جاتا ہے اور پھر باقی سفر پیدل ہی طے کرنا پڑتا ہے، بس والوں پر مسافروں کی پریشانی کا کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن ویگن والے روٹ پورا کرتے ہیں۔ گزشتہ روز خیال آیا کہ کیوں نہ اس پریشانی اور کوفت سے بچنے کے لئے ویگن کا سفر کیا جائے کہ حاجی اجمل کا تجربہ بھی یہی سمجھا رہا تھا، چنانچہ ہم نے رکشا کا خیال تو چھوڑا ساتھ ہی بس کو بھی ذہن سے نکال دیا اور وحدت روڈ کامران بلاک چوک تک پیدل آ گئے۔

یہاں سے ہم قارئین کو بھی اپنے ساتھ اس تجربے میں شامل کر لیتے ہیں کہ یہ کئی لحاظ سے تلخ ثابت ہوا، پہلے تو دو تین ویگنیں گزر گئیں کہ سواریاں زیادہ تھیں، بالآخر ایک ویگن رکی، کنڈکٹر نے جلد بیٹھنے کو کہا اور خود بھی وہ دھکا نما کوشش کی، اس وقت ہمیں نشست ملی لیکن یہاں ایک اور تجربہ ہوا کہ ویگن والوں نے نشستوں کے درمیانی فاصلوں کو کم کر کے زیادہ نشستوں کی گنجائش نکالی ہوئی ہے۔ پھر جو نشست ہمارے حصے میں آئی وہ تنگ تو تھی ہی، جھول بھی رہی تھی اور جھٹکے لگ کر جھولے ملتے تھے۔ پھر راستے بھر کنڈکٹر صاحب سواریاں اتارتے اور بٹھاتے رہے، حتیٰ کہ نشستوں کے پر ہو جانے کے بعد ایک دو مسافروں کو درمیان میں کھڑا بھی کر لیتے جن کو کمر جھکا کر یہ سفر برداشت کرنا پڑتا، حالانکہ کرایہ ان سے بھی پورا ہی وصول کیا گیا، یوں یہ تلخ سفر بس کی نسبت تین گنا وقت میں گزرا۔

یہ تجربہ اپنی جگہ تلخ ہی سہی، لوگ سفر کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کو بسیں مہیا نہیں کی گئیں، اس دوران ایک مزید وقوعہ پیش آیا جو بہت ہی افسوسناک ہے اور اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ نئی نسل کیا تربیت حاصل کر رہی ہے، وحدت روڈ پر گورنمنٹ سائنس کالج سے پہلے ہی ایک ویگن سڑک سے اتری کھڑی تھی اور کنڈکٹر مسافروں کو کرایہ واپس کر رہا تھا، ہمارے والی ویگن کو دوسری طرف سے آنے والی ویگن نے روک لیا اور منع کیا کہ سائنس کالج کی طرف سے نہ جایا جائے کہ وہاں طالب علم ویگنیں روک کر مسافروں کو اتار دیتے اور ویگن پر قبضہ کر رہے ہیں، یہ طلباء جو یوں بھی روزانہ مفت سفر کرنے کے عادی ہیں اس روز ان طلباء نے کسی یوتھ کنونشن میں شرکت کرنا تھی اور بعد میں اجتماع کے لئے ان کو ویگنیں ہی لے کر جانا تھا، چنانچہ یہ زبردستی کی جا رہی تھی۔ ہماری ویگن والوں نے یہیں سے گاڑی روک کر موڑی اور گلشن اقبال کے سامنے سے ہوتے ہوئے اقبال ٹاؤن کی مرکزی سڑک پر آئے اور وہاں سے مسلم ٹاؤن کو مڑے، بتایا گیا کہ طلباء کا تعلق اسلامی جمعیت طلباء سے ہے اور وہ مسافروں کی تکرار بھی نہیں مانتے یوں مسافر پریشان ہو رہے ہیں، یہ جان کر حقیقتاً دکھ ہوا کہ اسلامی جمعیت طلباء کے نوجوان ایسا کر رہے ہیں، قیادت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور لاہور ٹرانسپورٹ کے چیئرمین خواجہ حسان سے تو یہی عرض ہے کہ صرف شہری ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے بسیں چلائیں اور ان کی تعداد میں بہت اضافہ کریں کہ عوام کی مشکلات کم ہوں۔ میٹرو بس مثال تو ہے، وہاں بھی بسیں کم ہیں۔

ح
 
Top