• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

٭٭٭ مقلد کی الجھن ٭٭٭

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جب تم اپنی بات کسی کو سمجھا نہ پاؤ تو اسے الجھا دو پڑھنے میں شاید آپکو یہ مضحکہ خیز لگے لیکن یہ بات ہے دلچسپ اور سوچنے والی آیئے جانتے ہیں کہ کیا دلچسپ اور سوچنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے مقلد بھائی ایک تو تقلید کے بارے میں الجھن کا شکار ہیں نہ خود سمجھ پا رہے ہیں کہ تقلید ہے کیا چیز اور نہ ہی لوگوں کو سمجھا پا رہے ہیں نتیجہ یہ کہ یہ لوگ خود الجھے ہیں اور دوسروں کو بھی الجھا رکھا ہے دوسرے سے مراد خود ہمارے مقلد بھائی جو ذرا علم میں کم ہیں آیئے جانتے ہیں کہ کیسے :

ہمارے بھائی کہتے ہیں کہ تقلید پر اجماع ہو چکا ہے اب سوال یہ ہے کہ کب ہوا کس نے کیا صرف ہوا میں بول نے سے تو مان نہیں لیا جائیگا تو آیئے پتا لگاتے ہیں کہ اس بات کی حقیقت آخر ہے کیا سب سے پہلے جانتے ہیں کہ اجماع کی تعریف کیا ہے -

اجماع کی تعریف :- نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد کسی بھی زمانہ میں آپ کی امت کے تمام مجتہد علماء کا کسی دینی معاملے پر اکھٹے ہوجانا۔

امام ابو حنیفہ رحمہ الله کی پیدائش کوفہ میں 80ھ میں ہوئی جبکہ وفات ١٥٠ھ میں ہوئی -

امام مالک رحمہ الله کی پیدائش مدینہ منورہ میں ٩٣ھ میں ہوئی جبکہ وفات ١٧٩ھ میں ہوئی-

امام شافعی رحمہ الله کی پیدائش ملک شام میں ١٥٠ھ میں ہی جبکہ وفات ٢٠٤ھ میں مصر میں ہوئی-

امام احمد بن حنبل رحمہ الله کی پیدائش عراق میں ١٦٤ھ میں ہوئی جبکہ وفات ٢٤٠ھ عراق میں ہوئی-

یہ مکمل تین صدیاں تقلید سے خالی رہیں یعنی کہ تقلید کا نام و نشان نہیں رہا تو ان صدیوں میں اجماع کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور اس وجہ سے بھی نہیں ہو سکتا کہ ان چاروں ائمہ نے اپنی تقلید سے روکا تو ظاہر سی بات ہے آنے والے وقت میں اجماع ہونا نا ممکن ہے بلکہ اجماع نہ ہونے پر اجماع ہو چکا ہے آیئے جائزہ لیتے ہیں -

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:-
اول سے آخر تک تمام صحابہ رضی اللہ عنھم اور اول سے آخر تک تمام تابعین کا اجماع ثابت ہےکہ ان میں سے یا ان سے پہلے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) کسی انسان کے تمام اقوال قبول کرنا منع اور ناجائز ہے۔ جو لوگ ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد رضی اللہ عنھم میں سے کسی ایک کے اگر سارے اقوال لے لیتے ہیں(یعنی تقلید کرتے ہیں)، باوجود اسکے کہ وہ علم بھی رکھتے ہیں اور ان میں سے جس کو اختیار کرتے ہیں اس کے کسی قول کو ترک نہیں کرتے، وہ جان لیں کہ وہ پوری امت کے اجماع کے خلاف ہیں۔ انہوں نے مومنین کا راستہ چھوڑ دیا ہے۔ ہم اس مقام سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تمام فضیلت والے علماء نے اپنی اور دوسروں کی تقلید سے منع کیا ہے پس جو شخص ان کی تقلید کرتا ہے وہ ان کا بھی مخالف ہے۔۔۔
(النبذة الکافیة فی احکام اصول الدین ص ۱۷ والردعلی من اخلد الی الارض للسیوطی ص۱۳۱،۲۳۱)

شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:-
تمام صحابہ کرام، تمام تابعین اور تبع تابعین کا اس بات پر اجماع ثابت ہو چکا ہے کہ انہوں نےنہ صرف اپنے آپ کو تقلید سے محفوظ رکھا بلکہ اس کو شجر ممنوعہ قرآر دیا ہے کوئی ایسا شخص جس کا تعلق قرون ثلاثہ سے ہو صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی نے بھی اس کی ہر بات کو تسلیم نہیں کیا ہے اور جن باتوں کو قبول کیا ہے وہ صرف اور صرف دلیل کی بنیاد پر یہ ان کے صریح اجماع کی دلیل ہے
(عقدالجید لشاہ ولی اللہ محدث دھلوی رح ص:۴۱)

لھٰذا ثابت ہوا کہ تقلید اجماع نہیں بلکہ یہ ایک ڈھکوسلا ہے جو خود تو الجھے ہوئے ہیں اور دوسروں کو الجھا بھی رہے ہیں -

یہ بھی ایک بات بہت زور و شور ہمیں بتلائی جاتی ہے کہ چارو امام برحق ہے آیئے اس بات کی حقیقت دیوبند کے ایک فتوے سے لگاتے ہیں :-

Question: 2078
میرے ذہن میں ایک سوال ہے جس کی وضاحت چاہتاہوں ۔ ہم لوگ حنفی مذہب کی تقلید کرتے ہیں (دیوبندی)، یہ ماناجاتاہے کہ چاروں امام حق پر ہیں، تو کوئی حنفی تینوں اماموں میں سے ایک امام کے اجتہاد پر کیوں نہیں عمل کرسکتاہے؟ جب کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ چاروں امام بر حق ہیں۔ کسی صحیح مسئلہ پر چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلیدکر نے کی اجازت ملنی چاہئے، یعنی میں امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کے قول پر عمل کروں گا اور کسی معاملہ میں تینوں اماموں میں سے کسی بھی ایک امام کے قو ل پر عمل کرسکتاہوں، کیا یہ عمل کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث شریف یا اجماع کے خلا ف ہے؟

(۲) میں نے یہ سنا ہے کہ تمام نمازوں کے بعد اجتماعی دعا احادیث سے ثابت نہیں ہے حالانکہ یہ اکابرین دیوبندکا عمل ہے، تو پھر نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
Nov 25,2007 Answer: 2078
فتوی: 529/ ل= 529/ ل

یہ بات صحیح ہے کہ چاروں امام برحق ہیں اور آدمی کو اختیار ہے کہ جس امام کی چاہے تقلید کرلے لیکن کسی مسئلہ میں کسی امام کی تقلید کرنے اور دوسرے مسئلہ میں دوسرے امام کی تقلید کرنے سے دین کھلونا بن جائے گا کیونکہ آدمی ہرمذہب میں سے جو صورت اپنی مطلب کی ہوگی اسے اختیار کرلیے گا مثلاً اگر وضو کے بعد اس کے خون نکل آیا، اب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر تو وضو ٹوٹ گیا اور امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب پر نہیں ٹوٹا تو یہ شخص امام شافعی علیہ الرحمہ کا مذہب اختیار کرلے گا اور پھر اس نے بیوی کو ہاتھ لگایا تو اب امام شافعی علیہ الرحمہ کے مذہب پر وضو ٹوٹ گیا اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر وضو نہیں ٹوٹا تو یہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب لے لے گا حالانکہ اس صورت میں کسی امام کے نزدیک اس کا وضو نہیں رہا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خون نکلنے کی وجہ سے ٹوٹ گیا اورامام شافعی علیہ الرحمہ کے نزدیک عورت کو چھونے کی وجہ سے۔ مگر اس شخص کو ذرا بھی پرواہ نہیں ہوگی، سو دین تو رہے گا نہیں غرض اور نفس پرستی رہ جائے گی: في وقتٍ یقلدون من یفسد النکاح وفي وقت من یصححہ بحسب الغرض والھوی ومثل ھذا لا یجوز (فتاویٰ ابن تیمیہ بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ: ج۴ ص۱۹۱) اسی وجہ سے تقلید شخصی پر متواتر عمل جاری ہے اور یہ اس کے اجماع پر قوی ترین دلیل ہے۔
(۲) نماز جنازہ خود دعا ہے اور میت کے لیے اس میں دعائے مغفرت ہی اصل ہے نماز جنازہ کے بعد مستقلاً دعا کرنا ثابت نہیں بلکہ کتب فقہ میں اس کومنع کیا گیا ہے لا یقوم بالدعاء بعد صلاة الجنازة (خلاصة الفتاویٰ: ج۱ ص۲۲۵)
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


اس فتوے میں بھی چاروں امام کو برحق باور کرایا جا رہا ہے بڑی قابل غور بات ہے کہ ایک ہی وقت میں چار چیزیں کیسے برحق ہو سکتی ہیں اگر برحق ہوتیں تو چاروں کو چار جگہ کرنے کی کیا ضرورت تھی چاروں کو ایک ہی شمار کرتے اتنا الجھن میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی اگر چاروں برحق تھے تو پھر رفع اليدين آمين بالجهر فاتحہ خلف الامام اور بھی بے شمار مسئلوں میں احناف کو سفید اوراق سیاہ کرنے کی کیا ضرورت تھی اہلحدیثوں کے خلاف کیونکہ اہلحدیث بھی وہی کہتے ہیں جو حنبلی شافعی اور مالکی کہتے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہیں کہ بات ایسی نہیں ہے جیسا کہ بتلایا جا رہا ہے -

اگر سارے برحق ہیں تو پھر یہ آپس میں لڑیں کیوں ؟ نیچے کی سطروں میں ملاحظہ کریں :-

محمد بن موسی البلاغونی حنفی سے مروی ہے کہ اس نے کہا: "اگر میرے پاس اختیار ہوتا تو میں شافعیوں سے (انہیں کافر سمجھ کر) جزیہ لیتا۔
(میزان الاعتدال للذہبی ج4ص52)

عیسی بن ابی بکر بن ایوب الحنفی سے جب پوچھا گیا کہ تم حنفی کیوں ہو گئے ہو جب کہ تمھارے خاندان والے سارے شافعی ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ گھر میں ایک مسلمان ہوں -
(الفوائد البہیہ ص152-153)

حنفیوں کے ایک امام السفکردری نے کہا: "حنفی کو نہیں چاہئے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح کسی شافعی مذہب والے سے کرے لیکن وہ اس (شافعی) کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے (فتاوی بزازیہ علی ہامش فتاوی عالمگیریہ ج 4 ص 112) یعنی شافعی مذہب والے (حنفیوں کے نزدیک) اہل کتاب کے حکم میں ہیں۔
(البحرالرائق جلد2ص46)

تقلید شخصی کی وجہ سے حنفیوں اور شافعیوں نے ایک دوسرے سے خونریز جنگیں لڑیں۔ایک دوسرے کو قتل کیا، دکانیں لوٹیں اور محلے جلائے۔

تفصیل کے لیئے دیکھئے یاقوت الحموی (متوفی626ھ) کی معجم البلدان (ج1ص209 "اصبہان"ج3ص117"ري") تاریخ ابن اثیر (الکامل ج 9 ص92 حوادث سنة 561ھ)

تقلید شخصی کی وجہ سے جامد و غالی مقلدین نے بیت اللہ میں چار مصلے بنا ڈالے تھے جن کے بارے میں رشید احمد گنگوہی صاحب فرماتے ہیں:

"البتہ چار مصلی کو مکہ میں مقرر کئے ہیں لاریب یہ امر زبوں ہے کہ تکرار جماعات و افتراق اس سے لازم آ گیا کہ ایک جماعت ہونے میں دوسرے مذہب کی جماعت بیٹھی رہتی اور شریک جماعت نہیں ہوتی اور مرتکب حرمت ہوتے ہیں"

(تالیفات رشیدیہ ص517)

علامہ یاقوت الحموی "الری" کے حالات و واقعات پر تبصرہ کرتے ہوے رقم طراز ہیں:-

احناف اور شوافع کے مابین لڑائیاں ان کی باہمی عصبیت کی وجہ سے ہوئیں،شافعی تعداد مین کم ہونے کے باوجود ہر بار غالب آئے ، الرستاق کے حنفی بھی اپنے ہم نواؤں کی امداد کے لیے آتے مگر کوئی پیش نہ جاتی یہاں تک کہ شوافع اور احناف میں وہی بچ سکا جس نے اپنے مسلک کو چھپاے رکھا یا اپنے چھپنے کے لیے گھروں کو تہ خانوں میں منتقل کر لیا اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکتا۔"
(معجم البلدان:ج3ص117)

محمد بن موسی الحنفی جو دمشق کے منصب قضا پر فایز تھے کہا کرتے تھے:-

لوکان لی امر لاخذت الجزیۃ من الشافعیۃ"

اگر میری حکومت ہوتی تو میں شافعیوں سے جزیہ وصول کرتا"
(الکامل:ج9ص614)


علامہ یاقوت الحموی نے اصبہان کے حالات بیان کرتے ھوے لکھا ہے :-

اس زمانہ میں اوراس سے پہلےاصبھہان اور اس کے گرد و نواح میں شافعیوں اور حنفیوں کے ما بین تعصب کے نتیجہ میں تباھی پھیل گئی دونوں میں مسلسل آٹھ دن تک لڑائی جاری رھی۔ جب کوئی ایک دوسرے پر غلبہ پا لیتا تووہ ان کے مکانات اکھاڑ پھینکتااور انھیں جلا ڈالتا اور انھیں یہ گھناونا کردار ادا کرتے ھوے کوئی عار محسوس نہ ھوتی، خلق کثیر اس ہنگامہ کی نظر ہوئی۔
(معجم البلدان:ج۱،ص۲۰۹)


اور آج لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ یہ چار فرقے برحق ہیں ان کی تقلید واجب ہے اگر ان کی تقلید واجب ہے تو ان کی جنگیں کس لیے تھی، اگر یہ چاروں برحق تھے تو کیا حق آپس میں دست و گریبان بھی ہوتا ہے؟پورا کا پورا معاملہ الجھن سے بھرا ہوا ہے نہ یہ لوگ خود حقیت سے آگاہ ہے اور نہ لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں اور کچھ لوگ جاننے کے باوجود بھی اوم کو نہیں بتاتے کیونکہ اگر بتائينگے تو برحق ہونے کا راز افشاں ہو جائيگا-

اور اوپر والے فتوے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ '' کسی مسئلہ میں کسی امام کی تقلید کرنے اور دوسرے مسئلہ میں دوسرے امام کی تقلید کرنے سے دین کھلونا بن جائے گا'' افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دین تو کھلونا تبھی بن گیا تھا جب زبردستی ان چاروں مذاہب کی بنیاد رکھی گئی دین آسان تھا دو ہی چیزوں کی اتباع کرنی تھی قرآن اور حدیث لیکن اسکو مشکل چار حصّوں میں بانٹ کر کر دیا گیا ہے اتباع جسکا نام تھا لوگوں نے تقلید نام دے دیا قرآن اور حدیث جسکا نام تھا لوگوں نے تقلید نام دے دیا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم الجھ کر رہ گئے-

اور مزید یہ کہ احناف علماء نے جو تقلید کی تعریف کی عوام اس تعریف سے بالکل نا آشنا ھے۔ اور اگر معلوم ھو بھی جائے تو اول تو وہ پوری کوشش کرتے ھیں کہ اس تعریف کو تاویل کر کے اچھی شکل میں پیش کر کے اس سے بھی تقلید کے حق ھونے کا ثبوت نکال لیں۔۔ مگر حیلوں سے حقیقت بدلا نہیں کرتی۔۔

ابھی اگر آپ کسی بھی مقلد سے پوچھیں گے کہ تقلید کسے کہتے ھیں تو وہ مقلد کہے گا۔ عالم کی بات ماننا تقلید ھے۔۔ چلیں اگر ہم انکی بات مان لیں تو سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اگر عالم کی بات ماننا ہی تقلید ھے تو تم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد کیسے ھو گئے؟؟؟تم تو اپنے علماء کے مقلد ھوئے ناں؟؟؟؟مگر وہ اسکا جواب نہیں دینگے۔ کیونکہ وہ خود اس بارے میں شدید الجھن کا شکار ہیں۔ کہ دراصل تقلید ہے کیا بلا۔۔

اب دیکھیں۔سرفرازخان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں: اور یہ طے شدہ بات ہے کہا کہ اقتداءو اتباع اور چیز ہے اور تقلید اور چیز ہے (المنہاج الواضح یعنی راہ سنت۔ ص53)
یہاں سرفراز خان صاحب تقلید اور اتباع کو الگ الگ چیز بتا رھے۔ مگر مقلدبھائی کہتا ھے کہ یہ ایک ہی چیز ھیں۔۔اور اشرف علی تھانوی کے ملفوضات میں لکھا ہے: ایک صاحب نے عرض کیا تقلید کی حقیقت کیا ہے؟ اور تقلید کسے کہتے ہیں؟ فرمایا : تقلید کہتے ہیں: ”اُمتی کا قول بنا دلیل ماننا“ عرض کیا کہ کیا اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا بھی تقلید ہے؟ فرمایا اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ (الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت ج۳ص۹۵۱ ملفوض:۸۲۲)
حنفیوں کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“میں لکھا ہے: ”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ (مسلم الثبوت ص۹۸۲طبع ۶۱۳۱ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص600

لیکن ایک عام مقلد بھائی اسکو ماننے کو تیار ہی نہیں۔اس کے نزدیک تقلید اور اتباع ایک ہی شے ھے ۔ معلوم نہیں کہ اب یہاں مقلد بھائی الجھ کا شکار ہیں یا ان کے یہ علماء۔۔خیر جو بھی ہی۔ مگر سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ جب ھم یہ بات کہتے ھیں کہ تقلید الگ ہے اور اتباع الگ تو ہم پر اعتراضات کئے جاتے ھیں۔ اور زبردستی ہمیں تقلید کی من گھڑت تعریف ماننے پر مجبور کیا جاتا ھے۔ لیکن جب یہی بات ان کے علماء کہتے ھیں تو یہ ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے اور نہ یہ اھلحدیث کی طرح ان سےاعلان برات کرتے ھیں۔ ہمیں غیر مقلد کہہ کر بھی ھمارے علماء کے اقوال ہمارے سر تھوپے جاتے ہیں اور خود مقلد ہو کر بھی اپنے علماء کے اقوال قبول نہیں کرتے۔

اور اس پر ایک اور بات یاد آئی کہ یہ لوگ اپنے امام صاحب رحمہ اللہ کو امام اعظم کہتے تو ھیں مگر مانتے نہیں۔۔۔۔اب آپ سوچ رہےھونگے کہ کیسے نہیں مانتے تو اسکا ثبوت یہ ہے کہ بقول حنفی علماء کے ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام اعظم اور مجتھد عظیم ھیں۔ انہوں نے لاکھوں کی تعداد میں مسائل اخذ کئے۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بنا ان لاکھوں مسائل کا؟؟؟

کیا اپنے امام اعظم کے تمام مسائل بسروچشم قبول کرلئے؟؟؟ نہیں جی۔ ان لوگوں نے لاکھوں میں سے سوائے چند ہزار کے باقی سب کو غیر مفتی بہا کہہ کر رد کردایا۔۔ اگر وہ ان کے امام اعظم اور مجتھد عظیم تھے تو انکے مسائل قابل رد کیسے ھو گئے؟؟؟ اور جن لوگوں نے ان کے مسائل کو غیر مفتی بہا کہا۔ وہ ایسا انہوں نے کس بنیاد پر کہا؟ کیا انہوں نے امام صاحب کی دلیل دیکھ لی تھی؟؟ اگر دیکھ لی تھی تو دلیل دیکھنے والا تو ان کے بقول مجتھد ہوتا ھے۔ تو وہ مجتھد ہو گیا ۔ اور جب باقی مسائل کو غیر حق سمجھتے ھوئے غیر مفتی بہا کہا گیا تو وہ یقینا ان کے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بڑا مجتھد ہوا۔۔
اور اگر یہ کہیں کہ نہیں تو ان سے پوچھیں کہ اگر ان سے بڑا مجتھد نہیں تو اسکو یہ تقسیم کا حق کس نے دیا؟؟ اور جن لوگوں نے اسے حجت مانا کیوں مانا؟؟؟ کس بنیاد پر مانا؟؟؟ جو شخص امام اعظم تھا اسکا مسئلہ غیر مفتی بہا کیسے ھوگیا؟؟؟

ایک مفتی صاحب سے مفتی بہا اور غیر مفتی بہا کے بارے میں پوچھا گیا کہ ایسی تقسیم کیوں ہے تو انکا جواب یہ تھا کہ جو مسائل امام صاحب سے ثابت ھیں وہ مفتی بہا ہیں اور جو غیر ثابت ہیں وہ غیر مفتی بہا۔۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مفتی صاحب کی نظر میں جو ثابت مسائل ہیں انکے ثابت ہونے کی دلیل کہاں ہے؟؟آج تک کس حنفی عالم نے با سند ان مسائل کو صحیح ثابت کیا ہے؟ دلیل ہے بھی یا پھر مفتی صاحب بھی الجھن کا شکار ھیں ؟؟؟
مقلدین نے اجماع کو حجت مانا مگر مقلد کے جاھل ھونے پر اجماع ھوا تو نہیں مانا۔۔ احناف علماء نے مقلد کو جاھل کہا ۔ مقلد نے مقلد ھونے کے باوجود نہیں مانا۔ اور اپنے اصولوں کو خود ہی توڑ دیا۔۔ اپنے امام صاحب کے اقوال نہ ماننے والے پر ریت کے ذروں کے برابر لعنت بھیجی مگر امام صاحب نے جب اپنی تقلید سے روکا تو انکے قول کو نہ مان کر اسی وعید کو خود پر چسپاں کر لیا۔۔ آخر مقلد کیوں اتنا الجھا ہوا ھے؟؟؟

تو معلوم ھوا کہ مقلد اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔۔ نہیں نہیں۔۔ جھوٹا نہیں بلکہ الجھن کا شکار ہے۔ کیونکہ عامی کی تو حقیقت تک رسائی ہی نہیں۔ اور جن کی ہے وہ حقیقت بتا دیں تو مسلک باقی نہیں بچتا۔۔

اسلیئے انکا ایجنڈا ہے۔ خود بھی الجن کا شکار رہو اور دوسروں کو بھی الجھاؤ۔
الجھ الجھ کر جیو۔۔۔۔
والسلام؛ میرب
 
Top