• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ٹائم اور سپیس Time & Space کب تخلیق کی گئی ۔ ؟

شمولیت
فروری 27، 2025
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
5
ٹائم اور سپیس Time & Space کب تخلیق کی گئی ۔ ؟
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے قلم سے اس کا جاندار جواب دیا ہے۔
اس غلط فہمی کا ازالہ کہ جو ملحدین کہتے ہیں وجود کے لئے " کسی ٹائم اور سپیس " میں پہلے سے ہونا ضروری ہے اور اگر ٹائم اور سپیس پہلے سے موجود ہےتو کسی Divine Being کو ثابت کرنا مشکل ہے ۔"
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :، آسمان اور زمین جس مدت میں پیدا کئے گئے ۔ ان کا تعلق سورج اور چاند کی حرکت کے بعد پیدا ہونے والی مقدار و مدت سے نہیں ہے ۔ بلکہ اس مدت میں اور، چاند اور سورج کی حرکت سے پیدا ہونے والے مدت اور اوقات میں فرق ہے ۔
اس کائنات کے زمان و مکان اور آسمان کے زمان و مکاں میں فرق ہو گا ۔
جیسا کہ قرآن مجید فرقان حمید میں ہے ۔
﴿سَأَلَ سائِلٌ بِعَذابٍ واقِعٍ ﴿١﴾ لِلكـٰفِرينَ لَيسَ لَهُ دافِعٌ ﴿٢﴾ مِنَ اللَّهِ ذِى المَعارِجِ ﴿٣﴾ تَعرُجُ المَلـٰئِكَةُ وَالرّوحُ إِلَيهِ فى يَومٍ كانَ مِقدارُهُ خَمسينَ أَلفَ سَنَةٍ ﴿٤﴾... سورة المعارج

’’ایک طلب کرنے والے نے اس عذاب کی خواہش کی جو ہونے والا ہے کافروں پر، جسے کوئی ہٹانے والا نہیں، اس اللہ کی طرف سے جو بلندیوں والا ہے، جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے۔‘‘
جیسا کہ قیامت کا دن تعداد میں " ایک " ہی ہے لیکن یہ کائنات کے زمانہ میں 50 ہزار سال کے برابر ہو گا ۔
صحیح مسلم میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جو بھی کوئی سونے والا ہوا یا چاندی والا، وہ اگر اس کا حق ادا نہ کرتا رہا تو جب قیامت کا دن ہو گا اس کے لیے اس کے سونے چاندی کو آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا، انہیں جہنم کی آگ سے دہکایا جائے گا اور پھر ان سے اس کی پیشانی، پہلو اور پیٹھ کو داغا جائے گا ۔۔ اور یہ ہوتا رہے گا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے حتیٰ کہ بندوں میں فیصلہ ہو۔" (صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب اثم مانع الزكاة، حديث: 987 و سنن ابي داؤد، كتاب الزكاة، باب فى حقوق المال، حديث:1658)
یعنی قیامت کا دن جب قائم ہو گا اس وقت موجودہ کائنات چونکہ فنا ہو چکی ہو گی اس کے ساتھ کائنات کا زمانہ بھی نہیں ہو گا ۔ لیکن زمانے کی وہ طویل کیفیت ہو گی جسکا تعلق یوم حساب سے ہے ۔ لازم ہے کہ جب کائنات کا اختتام ہو گا تو اس وقت یوم حساب کو کسی مختلف مدت پر قائم کرنا ضروری ہو گا ۔
اسکی دلیل بھی صحیح حدیث میں موجود ہے ۔
و حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَقُولُ يَا خَيْبَةَ الدَّهْرِ فَلَا يَقُولَنَّ أَحَدُکُمْ يَا خَيْبَةَ الدَّهْرِ فَإِنِّي أَنَا الدَّهْرُ أُقَلِّبُ لَيْلَهُ وَنَهَارَهُ فَإِذَا شِئْتُ قَبَضْتُهُمَا
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے وہ کہتا ہے ہائے زمانے کی ناکامی پس تم میں سے کوئی یہ نہ کہے ہائے زمانے کی ناکامی کیونکہ میں ہی زمانہ ہوں میں اس رات اور دن کو بدلتا ہوں اور جب میں چاہوں گا ان دونوں کو بند کر دوں گا۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:گفتگو کا بیان :زمانے کو گالی دینے کی ممانعت کے بیان میں۔۔
اب ہم جائزہ لیتے ہیں ان آیات و احادیث کا جس میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ رب العزت نے کائنات کو 6 دن میں پیدا فرمایا ۔ اور ملحدین اعتراض کرتے ہیں دنوں کی تعداد تو 7 ہے تو قرآن کی آیات میں 6 دن کا ذکر کیوں کیا گیا ؟
اس کی ٹھوس وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے وہ 6 دن میں پیدا فرمایا ۔
آسمان اور زمین کے درمیان ، خلا بھی ، سورج اور چاند کی حرکت اور مدار بھی ۔ اور کائنات کا زمان و مکاں لازمی طور پر سورج اور چاند کی تخلیق اور حرکت کے بعد میں وجود میں آیا ۔
کائنات کا Time & Space اللہ کی مخلوق ہیں ۔
اور مصنوع صانع کی اور مخلوق خالق کی محتاج ہوتی ہے ۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ Time & Space کا نقطہ آغاز سمجھنے کے لئے ہمیں کسی " پہلے حتمی شعور " کی ضرورت ہے ۔
جو انسانیت کا نقطہ آغاز ہو ۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو سچ مان لیا جائے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ First Developed Human مادہ کی تخلیق کے 2.5 لاکھ سال بعد وجود میں آیا ۔ اس 2.5 لاکھ سال میں کسی جاندار کے شعور کا " Time & Space " کو دریافت کرنا ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا ۔
ہمیں عقلی طور پر اس 2.5 لاکھ سال کے خلاء کو نکال باہر کرنا ہو گا ۔
جس کے لئے لازمی طور پر ہمیں کسی Divine Guidance یعنی وحی الٰہی کی ضرورت ہو گی ۔ ورنہ اس معمے کو دنیا کا کوئی سائنسدان حل ہی نہ کر سکتا۔ انسانی شعور کے خلاء کو کبھی بھی "لا متناہی سلسلہ شکوک " سے بھرا نہیں جا سکتا ۔ تشکیک کے بعد جو نتائج نکلیں گے وہ سوائے گمراہی اور عدم نتیجیت کے اور کچھ نہیں ہوں گے ۔
۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
اَللّٰهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ۔
خدا ہی خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے وہی اس کو پھر پیدا کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے سورہ الروم : 11
پھر اسی طرح اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔
اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿۶۲﴾
اللہ ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہرچیز پر نگہبان ہے ۔ سورہ الزمر :24
۔
وحی الٰہی نے جو نقطہ آغاز مخلوقات کا بتایا اور سمجھایا ہے وہ یہ ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«إِنَّ أَوَّلَ شَيْءٍ خَلْقَهُ اللَّهُ الْقَلَمَ وَأَمَرَهُ فَكَتَبَ كُلَّ شَيْءٍ» بے شک اللہ نے جو پہلی چیز پیدا کی وہ قلم ہے اور اسے حکم دیا تو اس نے ہر چیز کو لکھ لیا ۔ ( مسند ابی یعلیٰ ج 4 ص 217 ح 2329 و سندہ صحیح )
۔۔۔
قلم سے پہلے کسی چیز کی تخلیق کا ہونا ضروری ہوتا تو اللہ رب العزت ضرور تخلیق فرماتا ۔ انسان اور اس کائنات کی مجموعی تقدیر یعنی ایک مقدار ، مدت لکھ دی گئی ہے ۔ یہ مقدار ، مدت اس وقت لکھی گئی ہے جب ہفتے کے دنوں کو تخلیق نہیں کیا گیا تھا ۔ یا یوں کہہ لیجیئے ان کو لکھا ضرور گیا تھا لیکن ان کی ترتیب نے انسانی شعور تک رسائی حاصل نہ کی تھی ۔ اس کی چند وجوہات ہیں ۔ ہفتے کے دنوں کی ترتیب کے علم کے لئے انسانی شعور کا عدم سے وجود میں آنا ضروری تھا ۔ اورانسانی شعور انسانی وجود پر منحصر ہے ۔ انسانی شعور سے قبل انسانی وجود کا عدم سے وجود میں آنا لازمی و ضروری ہے ۔
قلم کی تخلیق کے بعد اللہ رب العزت نے اس کائنات اور اس کی موجودات کی تقدیر کو تحریر فرمایا :
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«كَتَبَ اللهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ».
[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 2653
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
"اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں تحریر فرما دیں تھیں"۔ فرمایا : اوراس وقت اس کا عرش پانی پر تھا"۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ۔
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَاؕ-وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّؕ-اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ۔
کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے تو ہم نے انہیں کھول دیا اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟ سورہ انبیاء : 112
اسی طرح اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ۔
ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَ لِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاؕ-قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىٕعِیْنَ۔
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں حاضر ہو خوشی سے چاہے ناخوشی سے دونوں نے عرض کی کہ ہم رغبت کے ساتھ حاضر ہوئے۔ سورہ حم سجدہ : 54

اگر ملحدین سوال کر دیں کہ
اللہ رب العزت نے کس دن کیا پیدا فرمایا ۔ اس کی تفصیل بھی احادیث نبویہ ﷺ میں موجود ہے جیسے صحیح مسلم کی یہ حدیث ۔۔
۔۔
حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي، فَقَالَ: " خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَخَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فِي آخِرِ الْخَلْقِ فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ "، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: حَدَّثَنَا الْبِسْطَامِيُّ وَهُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، وَسَهْلُ بْنُ عَمَّارٍ، وَإِبْرَاهِيمُ ابْنُ بِنْتِ حَفْصٍ، وَغَيْرُهُمْ عَنْ حَجَّاجٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
۔۔
سریج بن یونس اور ہارون بن عبداللہ نے مجھے حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں حجاج بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ابن جریج نے کہا: مجھے اسماعیل بن امیہ نے ایوب بن خالد سے حدیث بیان کی۔انھوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن رافع سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا، پھر فرمایا: "اللہ عزوجل نے مٹی (زمین) کو ہفتے کےدن پیداکیا اور اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن پیدا کیا اور درختوں کو پیر کے دن پیدا کیا اور ناپسندیدہ چیزوں کو منگل کےدن پیدا کیا اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور اس میں چوپایوں کو جمعرات کے دن پھیلادیا اور سب مخلوقات کے آخر میں آخر میں آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد سے لے کر رات تک کے درمیان جمعہ (کے دن کی آخری ساعتوں میں سے کسی ساعت میں پیدا فرمایا۔" جلودی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں امام مسلم رحمۃاللہ علیہ کے شاگرد ابراہیم نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حسین بن علی بسطامی، سہل بن عمار، حفص کے نواسے ابراہیم اور دوسروں نے حجاج سے یہی حدیث بیان کی۔ حدیث نمبر: 7054
۔۔۔۔
اس حدیث پر ملحدین اعتراض کرتے ہیں ۔ کہ دنوں کی تقسیم جو کہ ہفتہ ، اتوار ، سوموار ، منگل ، بدھ ، جمعرات اور جمعہ ہیں ۔۔۔
یہ سب دن 7 بنتے ہیں تو چھ دن کا دعویٰ حقیقت میں ثابت ہی نہیں ہوتا ۔
یہ بھی ایک مغالطہ ہے ۔ جس کو ملحدین جہالت کے باعث سمجھ نہیں پائے اور کہتے ہیں کہ قرآن کی آیت اور حدیث متعارض ہیں ۔۔
قرآن مجید فرقان حمید کی آیت :
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ۔
۔۔
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی ہر چیز کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا، اس کے سواتمھارا نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا۔ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ سورہ السجدہ : آیت نمبر 4
اس آیت کریمہ میں اللہ نے کہیں پر ذکر نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ان 6 دنوں کی مدت میں پیدا کیا گیا اس میں انسان کی تخلیق بھی کی گئی ۔ یعنی سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق ۔
اس حساب سے دیکھا جائے تو
1: ہفتے کے روز مٹی ( زمین ) کو
2: اتوار کے روز پہاڑوں کو
3: پیر کے دن درختوں اور سبزے کو ۔
4: منگل کے دن نا پسندیدہ چیزوں کو ۔
5: بدھ کے دن نور(روشنی جس میں چاند ، سورج اور ستارے وغیرہ) کو
6: جمعرات کو اس میں چوپائیوں (جانوروں ) کو پیدا کیا ۔
قرآن مجید کی سورہ السجدہ کی آیت نمبر 4 کے مطابق زمین و آسمان اور اس کے درمیان جن چیزوں کی تخلیق 6 دنوں میں ہوئی اس میں انسان کی تخلیق شامل نہ تھی ۔
7: اب رہ گیا جمعہ کا روز جس کا اس آیت میں ذکر نہیں ۔ حدیث میں ذکر ہے ۔ جیسے فرمایا :
وَخَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فِي آخِرِ الْخَلْقِ فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ "
۔۔
اور سب مخلوقات کے آخر میں آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد سے لے کر رات تک کے درمیان جمعہ (کے دن کی آخری ساعتوں میں سے کسی ساعت میں پیدا فرمایا۔"
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہفتے کے دنوں کی تخلیق ۔ مخلوقات کی مجموعی تخلیق کے ساتھ بتدریج کی گئی ۔ اس میں حکمت یہ تھی کہ
سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو سورج و چاند کی حرکت سے دنوں کو ہفتوں میں بانٹنے میں آسانی ہو ۔ اور وہ زمین پر اپنے پیٹ کو بھرنے کے لئے کام کاج کرنے کے لئے ، اللہ کی عبادت کرنے کے لئے اپنے اوقات کار کا تعین کر سکیں ۔
لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَاۤ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِؕ-وَ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۔
سورج کو لائق نہیں کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جانے والی ہے اور ہر ایک ایک دائرے میں تیر رہا ہے۔ سورہ یسین : 40
جمعہ کے روز کا انکار تو منکرین حدیث بھی کرنے سے قاصر ہیں ۔
کیونکہ قرآن مجید میں " سورہ الجمعہ " اسی نسبت سے نازل کی گئی ہے ۔
جس میں مسلمانوں پر عبادت کو فرض کیا گیا ہے ۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ۔۔۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو
سورہ الجمعہ : 9
۔۔
نفس واحد سے تخلیق کا ثبوت بھی قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا[1]
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں سے بھی، بے شک اللہ ہمیشہ تم پر پورا نگہبان ہے۔ سورہ النساء : 1[
اب آپ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا اس پر منہج ملاحظہ کیجیئے ۔

هل هي موجودة قبل هذا العالم؟ وهل كان قبله مدة ومادة، أم هو أبدع ابتداء من غير تقدم مدة ولا مادة؟فالذي جاء به القرآن والتوراة، واتفق عليه سلف الأمة وأئمتها مع أئمة أهل الكتاب: أن هذا العالم خلقه الله وأحدثه من مادة كانت مخلوقة قبله، كما أخبر في القرآن أنه: {استوى إلى السماء وهي دخان} أي بخار {فقال لها وللأرض ائتيا طوعا أو كرها} [فصلت: ١١] ، وقد كان قبل ذلك مخلوق غيره كالعرش والماء، كما قال تعالى {وهو الذي خلق السماوات والأرض في ستة أيام وكان عرشه على الماء} [هود: ٧] وخلق ذلك في مدة غير مقدار حركة الشمس والقمر، كما أخبر أنه خلق السماوات والأرض وما بينهما في ستة أيام.والشمس والقمر هما من السماوات والأرض، وحركتهما بعد خلقهما، والزمان المقدر بحركتهما ـ وهو الليل والنهار التابعان لحركتهما ـ إنما حدث بعد خلقهما، وقد أخبر الله أن خلق السماوات والأرض وما بينهما في ستة أيام، فتلك الأيام مدة وزمان مقدر بحركة أخري غير حركة الشمس والقمر.وهذا مذهب جماهير الفلاسفة الذين يقولون: إن هذا العالم مخلوق محدث، وله مادة متقدمة عليه، لكن حكي عن بعضهم أن تلك المادة المعنية قديمة أزلية، وهذا أيضاً باطل، كما قد بسط في غير هذا الموضع، فإن المقصود هنا إشارة مختصرة إلي قول من يقول: إن أقوال هؤلاء دل عليها السمع.
..
کیا یہ دنیا پہلے سے موجود تھی؟ کیا اس سے پہلے کوئی مدت اور مادہ تھا، یا یہ بغیر کسی پیشگی مدت یا مادے کے مخلوقات پیدا کی گئی؟ قرآن اور تورات میں جو بات آئی ہے، اور جس پر امت کے سلف اور ان کے اماموں نے اہل کتاب کے اماموں کے ساتھ اتفاق کیا ہے: وہ یہ ہے کہ اس دنیا کو اللہ نے پیدا کیا اور یہ ایک ایسے مادے سے وجود میں آئی جو اس سے پہلے مخلوق تھا، جیسا کہ قرآن میں خبر دی گئی ہے کہ: {وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھواں تھا} یعنی بخار {پھر اس نے کہا کہ تم دونوں (آسمان اور زمین) خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے} [فصلت: ١١]، اور اس سے پہلے کچھ اور مخلوق تھی جیسے عرش اور پانی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا {اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا} [ہود: ٧] اور یہ سب کچھ ایک ایسی مدت میں پیدا کیا گیا جو سورج اور چاند کی حرکت کی مقدار سے مختلف ہے، جیسا کہ اس نے خبر دی کہ اس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے، چھ دنوں میں پیدا کیا۔ سورج اور چاند آسمانوں اور زمین میں شامل ہیں، اور ان کی حرکت ان کے پیدا ہونے کے بعد ہوئی، اور وقت جو ان کی حرکت کے ساتھ مقرر ہوا — یعنی رات اور دن جو ان کی حرکت کے تابع ہیں — یہ سب ان کی تخلیق کے بعد وجود میں آیا، اور اللہ نے خبر دی کہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے، چھ دنوں میں پیدا کیا، تو یہ دن ایک مدت اور وقت ہیں جو سورج اور چاند کی حرکت سے مختلف ہے۔ یہ فلسفیوں کی اکثریت کا نظریہ ہے جو کہتے ہیں: یہ دنیا مخلوق اور جدید ہے، اور اس کا ایک مادہ ہے جو اس سے پہلے موجود تھا، لیکن کچھ لوگوں سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ یہ مادہ قدیم اور ازلی ہے، اور یہ بھی باطل نظریہ ہے، جیسا کہ اس موضوع میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، کیونکہ یہاں مقصد ان لوگوں کے قول کی طرف مختصر اشارہ کرنا ہے جو کہتے ہیں: ان کے اقوال کی دلیل سمعی ہے۔
۔۔
در تعارض العقل والنقل : جلد نمبر 1 ، صفحہ نمبر 123 از امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ۔۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ملحدین اور فلسفیوں کے اس نظریئے کا رد کر دیا ہے کہ یہ دنیا مخلوق اور جدید ہے لیکن اس کا مادہ ازلی اور قدیم ہے ۔
ازلی رہنے والی ذات اللہ رب العزت کی ہے ۔ اور مخلوق کا ازلی اور قدیم ہونا نہ قرآن سے ثابت ہے ، نہ حدیث نبوی ﷺ سے ، نہ اقوال صحابہ و سلف سے نہ دیگر آئمہ محدثین سے ۔ اگر فلسفیوں کی اس بات کو دلیل مان لیا جائے تو بہت سی چیزوں کا انکار آئے گا ۔ جیسے قلم کا تخلیق کیا جانا ۔ قلم کی تخلیق کے بعد تقدیر کا لکھا جانا ، تقدیر لکھے جانے کے بعد زمین و آسمان اور اس میں جو کچھ ہے اس کا تخلیق پانا اور پھر انسانیت کا نقطہ آغاز یعنی سیدنا آدم علیہ السلام کا تخلیق پانا ۔ کیونکہ ان تمام کی پیدائش عدم سے وجود پا کر ہوئی ۔ اور مادے کا وجود بھی کسی نقطہ آغاز کا متقاضی ہے۔
اور جس کا آغاز ہو وہ ازلی نہیں ہو سکتا ۔ اور لازم آتا ہے کہ اس کے قدیم ہونے کی کوئی مدت قائم ہو ۔ کسی آغاز کے لئے اس کے پیچھے کسی زندہ وجود کے شعور کا ہونا ضروری ہے ۔ اور ایسے وجود کا ہونا بھی ضروری ہے جو قطعی طور پر غیر مخلوق ہو ۔ اور اللہ کے غیر مخلوق ہونے ، خالق کل ہونے میں اور قطعی طور پر ازلی و قدیم ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
" إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ"( الأعراف: 54)

ترجمہ:’’ یقینا تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے سارے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے۔ پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ وہ دن کو رات کی چادر اڑھا دیتا ہے، جو تیز رفتاری سے چلتی ہوئی اس کو آدبوچتی ہے۔ اور اس نے سورج اور چاند تارے پیدا کیے ہیں جو سب اس کے حکم کے آگے مطیع ہیں۔ یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب اسی کا کام ہے۔ بڑی برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
ازقلم : عبدالسلام فیصل
 
Top