محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
ٹائم منیجمنٹ (Time Management)
وقت ۔۔۔ ایک ایسا خزانہ ہے جسے الله رب العزت نے عورت مرد، بچہ بوڑھا، امیر غریب ، شا ہ و گدا سب کو برابر عطا کیا ہے۔ جسے ایک دن مل گیا اسے چوبیس گھنٹے مل گئے، اسے 1440 منٹ مل گئے، اسے 86,400 سیکنڈ مل گئے۔ ایک دن میں کسی کو ایک سیکنڈ بھی کم نہیں ملے۔ اب جس نے ٹائم منیجمنٹ (Time Management) کرلیا وہ کامیاب رہا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
ٹائم مینجمنٹ پر کتابیں، ویب سائٹیں، یوٹیوب ویڈیوز اور فری لانس اسپیکرز وغیرہ سمیت ٹائم مینجمنٹ ٹریننگ لاکھوں ڈالرز کی صنعت کا حصہ ہے کیونکہ دنیا کے باشعور افراد اپنی اوقات کار کو منظم کرنے یعنی ٹائم منیجمنٹ کے طریقے کار سیکھ کر اپنے آپ کو زیادہ پروڈکٹیو (productive) بنانے اور اپنے اوقات کار سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے میں سرگرداں ہیں۔
آج جدید دنیا کے بڑے بڑے لوگ ٹائم منیجمنٹ سیکھنے کیلئے بڑی بڑی رقم خرچ کرتے ہیں۔
کبھی ہم نےسوچا ہے کہ ہمارے رب نے ہمیں سات سال کی عمر سے ٹائم منیجمنٹ سیکھنے کی ترغیب دی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم مسلمان الله تعالیٰ کی عطا کردہ اس ٹائم منیجمنٹ ٹریننگ سے جو بغیر روپیہ پیسہ خرچ کئے ہمیں ملتی ہے بلکہ جس کے بدلے دنیا و آخرت میں کامیابی اور بے شمار اجر و ثواب کا وعدہ بھی کیا گیا ہے کوئی اہمیت نہیں دیا، کوئی قدر نہیں کیا۔
ذرا سوچئے الله تعالٰی نے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کئے ہیں جسے وقت مقررہ پر ادا کرنا ضروری ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
گرمی ہو یا سردی، دھوپ ہو یا بارش، رات بڑی ہو یا چھوٹی وقت مقررہ پر آذان ہوتی ہے وقت مقررہ پر اقامت کہی جاتی ہے اور ایک منٹ کی بھی دیر نہیں کی جاتی نماز با جماعت شروع ہو جاتی ہے۔ اس سے بہتر وقت پر کام کرنا ہم کہاں سے سیکھ سکتے ہیں؟ اس سے بہتر ٹائم منیجمنٹ ہمیں کون سکھائے گا؟
اسی طرح روزہ ہے۔ چاہے گرمی میں آئے یا سردی میں، دن چاہے چھہ (6) گھنٹے کی ہو یا سولہ (16) گھنٹے کی صبح صادق کو مقررہ وقت پر کھانا بند کرنا ہے اور سورج غروب ہونے کے ساتھ کسی تاخیر کے بغیر روزہ إفطار کرنا ہے۔ اس سے بہتر ٹائم منیجمنٹ ہم کہاں سے سیکھیں گے؟
اب لے لیجئے عیدین کو۔ ایک دن کی بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتی۔ وقت مقررہ پر منانا ہے۔ یہ ٹائم منیجمنٹ نہیں تو اور کیا ہے؟
پھر آتے ہیں حج پر۔ پانچ مقررہ ایام ہیں۔ جس وقت منی جانا ہے بس جانا ہے کوئی تاخیر نہیں کرنی۔ پھر منی سے عرافات جانا ہے اور سارا دن قیام کرکے سورج ڈھلتے ہی مجدلفہ کیلئے روانہ ہونا ہے۔ رات مجدلفہ میں قیام کرنا ہے اور صبح ہوتے ہی پھر منی جانا ہے۔ جمرات کو کنکریا مارنے کا وقت مقرر ہے۔ایک ہی مقررہ وقت کے دوران سب کو قربانی بھی کرنا ہے۔ لاکھوں لوگوں کا ایک ساتھ ٹائم منیجمنٹ کرنے کا بے نظیر مثال کوئی اور پیش نہیں کرسکتا ہے کیا، سوائے دین اسلام کے پیروکار کے؟
لہذا ثابت ہوا کہ ٹائم منیجمنٹ دین اسلام میں فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ آخرت میں ہر انسان سے جو پانچ سوالات پوچھے جائیں گے ان میں پہلے دو سوالات ہی ٹائم منیجمنٹ کے بارے میں ہوں گے۔ جیسا کہ ذیل کی حدیث سے پتہ چلتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا، جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ نہ لیا جائے:
یعنی کہ زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا۔ پھر ذرا سوچئے ہم کہاں کھڑیں ہیں؟
اگر ہم اس دنیا میں وقت کی قدر نہیں کرتے، اپنی ٹائم مینیجمنٹ نہیں کرتے تو ہمیں زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینے کیلئے رب کے پاس کب تک کھڑا رہنا ہوگا؟
ہم نماز، روزہ، حج وغیرہ جیسی عبادات کے معاملے میں تو وقت کی پابندی اور ٹائم مینیجمنٹ کرتے ہیں لیکن دنیاوی معاملات میں ہم وقت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے، وہ اس لئے کہ دنیاوی معاملے میں ہماری سوچ منفی ہے، ہمارا کنسیپٹ غلط ہے۔ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ دنیاوی معاملات عبادات ہیں ہی نہیں۔ صرف نماز، روزہ، حج وغیرہ ہی عبادات ہیں اور صرف ان ہی چیزوں کا حساب دینا ہوگا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارا ہر لمحہ عبادت کا ہے اور ہمیں ہر لمحے کا حساب دینا ہے۔ دین اسلام مکمل دین ہے، ایک مکمل ضابطہ حیات اور مکمل نظام زندگی ہے ۔ 24 گھنٹے کے سارے معاملات دین کا حصہ ہیں اور سب کچھ ہی عبادات میں شامل ہیں، ہر لمحہ عبادت میں داخل ہے۔
دنیا مین جن لوگوں نے وقت کی قدر انہوں نے ترقی کیں اور جن اقوام نے وقت کی قدر کی اور ٹائم منیجمنٹ کی وہ اقوام عروج پر پہنچیں جبکہ وقت کی ناقدری کرکے ہم مسلمان آج پستی میں گرے ہوئے ہیں۔ جبکہ وقت کی قدر کرنا اور ٹائم منیجمنٹ کرنا دین اسلام کا حصہ ہے جس کی پریکٹس سات سال کی عمر سے ہر مسلمان کو کرائی جاتی ہے، لیکن افسوس کہ ہم مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے۔
ہم مسلمان ہیں۔ ہم یہ جانتے بھی ہیں کہ قیامت کے دن ہمیں اللہ تعالٰی کے حضور اپنے ہر لمحے کا حساب دینا ہے۔ لہذا ہمیں دوسرے تمام اقوام سے زیادہ وقت کی قدر اور ٹائم منیجمنٹ کرنی چاہئے۔ اپنی اوقات کار کو مثبت انداز میں صرف کرنا چاہئے، مثبت سوچ، مثبت رویہ اور مثبت کام سرانجام دینا چاہئے اور لایعنی کام سے بچنا چاہئے کیونکہ لایعنی باتوں اور لایعنی کام میں ہی سب سے زیادہ وقت ضائع ہوتا ہے۔
ہم مسلمان ہیں۔ ہم یہ جانتے بھی ہیں کہ قیامت کے دن ہمیں اللہ تعالٰی کے حضور اپنے ہر لمحے کا حساب دینا ہے۔ لہذا ہمیں دوسرے تمام اقوام سے زیادہ وقت کی قدر اور ٹائم منیجمنٹ کرنی چاہئے۔ اپنی اوقات کار کو مثبت انداز میں صرف کرنا چاہئے جس کیلئے ہمیں لایعنی کام اور لایعنی باتوں کو چھوڑنا ہوگا۔
جب ہم لایعنی باتوں اور فضول کام سے بچیں گے تب ہی ہم اپنا وقت مثبت کام میں صرف کر سکیں گے۔
لہذا آج سے ہی شروع کر دیجئے: وقت کی قدر کرنا، وقت کی پابندی کرنا اور ٹائم مینیجمنٹ کرنا تاکہ اللہ تعالٰی کے پاس حساب دینا آسان ہو۔ اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اللہ تعالٰی ہم مسلمانوں کو مثبت سوچنے، مثبت رویہ اپنانے اور مثبت کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تحریر: محمد_اجمل_خان
۔
وقت ۔۔۔ ایک ایسا خزانہ ہے جسے الله رب العزت نے عورت مرد، بچہ بوڑھا، امیر غریب ، شا ہ و گدا سب کو برابر عطا کیا ہے۔ جسے ایک دن مل گیا اسے چوبیس گھنٹے مل گئے، اسے 1440 منٹ مل گئے، اسے 86,400 سیکنڈ مل گئے۔ ایک دن میں کسی کو ایک سیکنڈ بھی کم نہیں ملے۔ اب جس نے ٹائم منیجمنٹ (Time Management) کرلیا وہ کامیاب رہا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
ٹائم مینجمنٹ پر کتابیں، ویب سائٹیں، یوٹیوب ویڈیوز اور فری لانس اسپیکرز وغیرہ سمیت ٹائم مینجمنٹ ٹریننگ لاکھوں ڈالرز کی صنعت کا حصہ ہے کیونکہ دنیا کے باشعور افراد اپنی اوقات کار کو منظم کرنے یعنی ٹائم منیجمنٹ کے طریقے کار سیکھ کر اپنے آپ کو زیادہ پروڈکٹیو (productive) بنانے اور اپنے اوقات کار سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے میں سرگرداں ہیں۔
آج جدید دنیا کے بڑے بڑے لوگ ٹائم منیجمنٹ سیکھنے کیلئے بڑی بڑی رقم خرچ کرتے ہیں۔
کبھی ہم نےسوچا ہے کہ ہمارے رب نے ہمیں سات سال کی عمر سے ٹائم منیجمنٹ سیکھنے کی ترغیب دی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم مسلمان الله تعالیٰ کی عطا کردہ اس ٹائم منیجمنٹ ٹریننگ سے جو بغیر روپیہ پیسہ خرچ کئے ہمیں ملتی ہے بلکہ جس کے بدلے دنیا و آخرت میں کامیابی اور بے شمار اجر و ثواب کا وعدہ بھی کیا گیا ہے کوئی اہمیت نہیں دیا، کوئی قدر نہیں کیا۔
ذرا سوچئے الله تعالٰی نے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کئے ہیں جسے وقت مقررہ پر ادا کرنا ضروری ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
إنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا (103) سورة النساء
’’یقیناً نماز مومنوں پر مقرره وقتوں پر فرض ہے‘‘۔(103) سورة النساء
’’یقیناً نماز مومنوں پر مقرره وقتوں پر فرض ہے‘‘۔(103) سورة النساء
گرمی ہو یا سردی، دھوپ ہو یا بارش، رات بڑی ہو یا چھوٹی وقت مقررہ پر آذان ہوتی ہے وقت مقررہ پر اقامت کہی جاتی ہے اور ایک منٹ کی بھی دیر نہیں کی جاتی نماز با جماعت شروع ہو جاتی ہے۔ اس سے بہتر وقت پر کام کرنا ہم کہاں سے سیکھ سکتے ہیں؟ اس سے بہتر ٹائم منیجمنٹ ہمیں کون سکھائے گا؟
اسی طرح روزہ ہے۔ چاہے گرمی میں آئے یا سردی میں، دن چاہے چھہ (6) گھنٹے کی ہو یا سولہ (16) گھنٹے کی صبح صادق کو مقررہ وقت پر کھانا بند کرنا ہے اور سورج غروب ہونے کے ساتھ کسی تاخیر کے بغیر روزہ إفطار کرنا ہے۔ اس سے بہتر ٹائم منیجمنٹ ہم کہاں سے سیکھیں گے؟
اب لے لیجئے عیدین کو۔ ایک دن کی بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتی۔ وقت مقررہ پر منانا ہے۔ یہ ٹائم منیجمنٹ نہیں تو اور کیا ہے؟
پھر آتے ہیں حج پر۔ پانچ مقررہ ایام ہیں۔ جس وقت منی جانا ہے بس جانا ہے کوئی تاخیر نہیں کرنی۔ پھر منی سے عرافات جانا ہے اور سارا دن قیام کرکے سورج ڈھلتے ہی مجدلفہ کیلئے روانہ ہونا ہے۔ رات مجدلفہ میں قیام کرنا ہے اور صبح ہوتے ہی پھر منی جانا ہے۔ جمرات کو کنکریا مارنے کا وقت مقرر ہے۔ایک ہی مقررہ وقت کے دوران سب کو قربانی بھی کرنا ہے۔ لاکھوں لوگوں کا ایک ساتھ ٹائم منیجمنٹ کرنے کا بے نظیر مثال کوئی اور پیش نہیں کرسکتا ہے کیا، سوائے دین اسلام کے پیروکار کے؟
لہذا ثابت ہوا کہ ٹائم منیجمنٹ دین اسلام میں فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ آخرت میں ہر انسان سے جو پانچ سوالات پوچھے جائیں گے ان میں پہلے دو سوالات ہی ٹائم منیجمنٹ کے بارے میں ہوں گے۔ جیسا کہ ذیل کی حدیث سے پتہ چلتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا، جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ نہ لیا جائے:
(1) اس نے اپنی عمر کہاں صرف کیا؟
(2) اپنی نوجوانی کہاں کھپائی؟
(3) مال کہاں سے اور کیسے کمایا؟ اور
(4) کہاں خرچ کیا؟ اور
(5) اس نے اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا؟“
(3) مال کہاں سے اور کیسے کمایا؟ اور
(4) کہاں خرچ کیا؟ اور
(5) اس نے اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا؟“
(سلسلہ احادیث صحیحہ: 3773، ترقيم الباني: 946، سنن ترمذي:2416)
یعنی کہ زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا۔ پھر ذرا سوچئے ہم کہاں کھڑیں ہیں؟
اگر ہم اس دنیا میں وقت کی قدر نہیں کرتے، اپنی ٹائم مینیجمنٹ نہیں کرتے تو ہمیں زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینے کیلئے رب کے پاس کب تک کھڑا رہنا ہوگا؟
ہم نماز، روزہ، حج وغیرہ جیسی عبادات کے معاملے میں تو وقت کی پابندی اور ٹائم مینیجمنٹ کرتے ہیں لیکن دنیاوی معاملات میں ہم وقت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے، وہ اس لئے کہ دنیاوی معاملے میں ہماری سوچ منفی ہے، ہمارا کنسیپٹ غلط ہے۔ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ دنیاوی معاملات عبادات ہیں ہی نہیں۔ صرف نماز، روزہ، حج وغیرہ ہی عبادات ہیں اور صرف ان ہی چیزوں کا حساب دینا ہوگا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارا ہر لمحہ عبادت کا ہے اور ہمیں ہر لمحے کا حساب دینا ہے۔ دین اسلام مکمل دین ہے، ایک مکمل ضابطہ حیات اور مکمل نظام زندگی ہے ۔ 24 گھنٹے کے سارے معاملات دین کا حصہ ہیں اور سب کچھ ہی عبادات میں شامل ہیں، ہر لمحہ عبادت میں داخل ہے۔
دنیا مین جن لوگوں نے وقت کی قدر انہوں نے ترقی کیں اور جن اقوام نے وقت کی قدر کی اور ٹائم منیجمنٹ کی وہ اقوام عروج پر پہنچیں جبکہ وقت کی ناقدری کرکے ہم مسلمان آج پستی میں گرے ہوئے ہیں۔ جبکہ وقت کی قدر کرنا اور ٹائم منیجمنٹ کرنا دین اسلام کا حصہ ہے جس کی پریکٹس سات سال کی عمر سے ہر مسلمان کو کرائی جاتی ہے، لیکن افسوس کہ ہم مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے۔
ہم مسلمان ہیں۔ ہم یہ جانتے بھی ہیں کہ قیامت کے دن ہمیں اللہ تعالٰی کے حضور اپنے ہر لمحے کا حساب دینا ہے۔ لہذا ہمیں دوسرے تمام اقوام سے زیادہ وقت کی قدر اور ٹائم منیجمنٹ کرنی چاہئے۔ اپنی اوقات کار کو مثبت انداز میں صرف کرنا چاہئے، مثبت سوچ، مثبت رویہ اور مثبت کام سرانجام دینا چاہئے اور لایعنی کام سے بچنا چاہئے کیونکہ لایعنی باتوں اور لایعنی کام میں ہی سب سے زیادہ وقت ضائع ہوتا ہے۔
ہم مسلمان ہیں۔ ہم یہ جانتے بھی ہیں کہ قیامت کے دن ہمیں اللہ تعالٰی کے حضور اپنے ہر لمحے کا حساب دینا ہے۔ لہذا ہمیں دوسرے تمام اقوام سے زیادہ وقت کی قدر اور ٹائم منیجمنٹ کرنی چاہئے۔ اپنی اوقات کار کو مثبت انداز میں صرف کرنا چاہئے جس کیلئے ہمیں لایعنی کام اور لایعنی باتوں کو چھوڑنا ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے‘‘۔ (سنن ترمذي: 2317)
لہذا آج سے ہی شروع کر دیجئے: وقت کی قدر کرنا، وقت کی پابندی کرنا اور ٹائم مینیجمنٹ کرنا تاکہ اللہ تعالٰی کے پاس حساب دینا آسان ہو۔ اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اللہ تعالٰی ہم مسلمانوں کو مثبت سوچنے، مثبت رویہ اپنانے اور مثبت کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تحریر: محمد_اجمل_خان
۔