کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
ٹکے سیر بھاجی، ٹکے سیر کھا جا
رئیس فاطمہ، جمعرات 12 نومبر 2015ایک بڑی مشہور کہاوت ہے کہ ’’اندھیر نگری چوپٹ راجا‘ ٹکے سیر بھاجی‘ ٹکے سیر کھا جا‘‘ یعنی بے وقوف اور نااہل بادشاہ کے دور میں ملک تباہ ہو جاتا ہے۔ سبزی اور میوہ جات ایک ہی قیمت پہ بکنے لگتے ہیں۔
جس کا جی چاہے کسی بھی چیزکی قیمت بڑھا دے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ ذرا بغور جائزہ لیجیے تو یہ کہاوت گزشتہ دس بارہ سال سے اپنی پوری توانائی کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ بلکہ مجھے تو کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے جب یہ کہاوتیں وجود میں آئی تھیں، تب غیب کے علم سے کسی سیانے نے دیکھ لیا ہو گا کہ آنے والے زمانوں میں ایک مملکت ایسی بھی وجود میں آئے گی جس کو بس قدرت چلا رہی ہو گی۔ کسی راجا، کسی بادشاہ، کسی سیانے اور دانا وزیر باتدبیر کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔
حکومت کا کوئی وجود نہیں ہوگا ۔ ’’اوپر‘‘ سے جو احکامات نازل ہوں گے انھیں چوپٹ راجا فوری طور پر پورا کریں گے تاکہ ان کے کھیت سرسبز رہیں۔ رعایا قحط اور مہنگائی سے مر رہی ہو تو وہ کہتے تھے ’’چڑھ جا بیٹا سولی پر‘ رام بھلی کرے گا‘‘ آج کہتے ہیں ’’عوام کوکڑوی گولی نگلنی پڑے گی‘‘ آخر ہر بار ’’کڑوی گولی‘‘ عوام کو ہی کیوں نگلنی پڑتی ہے؟ اس لیے کہ ساری ’’میٹھی‘‘ گولیاں حکمرانوں اور ان کے ان آقاؤں کے لیے ہیں جن کی جنبش ابرو کو یہ ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں۔
اسی لیے عوام کی طرف دیکھنے کا انھیں وقت ہی نہیں ملتا۔ کیا بادشاہ؟ کیا وزیر؟ کیا خوشامدی ٹولہ؟ سب ادھر ہی دیکھتے رہتے ہیں اور اس بات کی تنخواہ پاتے ہیں کہ کب بادشاہ بنانے والوں کی آنکھ پھڑکی؟ ان کی آنکھ پھڑکتی ہے، ان کا دل دھڑکتا ہے۔ تب یہ تنخواہ دار مصاحبین آنکھ پھڑکنے کے ساتھ ساتھ ماتھا ٹھنکنے، ابرو پہ بل پڑنے سے لے کر ان کے بھاری بوٹوں کی اس آواز کو بھی محسوس کرلیتے ہیں، جس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لیکن مصاحبین کی نوکریاں بھی تو ’’چوپٹ راجا‘‘ کے ہی طفیل ملی ہوتی ہیں۔
اس لیے یہ حفظ ماتقدم کے طور پر راجہ جی کو ہوشیار کر دیتے ہیں۔ راجہ جی کو اور ان کے طفیلیوں کو زلزلے کی گڑگڑاہٹ تو سنائی نہیں دیتی۔ لیکن ’’گاڈ فادر‘‘ کی ’’ناک چڑھانے‘‘ کے انداز ہی کو وہ زلزلہ سمجھ لیتے ہیں اور ’’حفاظتی اقدامات‘‘ شروع کردیتے ہیں۔ کیونکہ راجہ کی گدّی انھی کے دم سے قائم ہے۔ کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟ اگر راجہ، مہاراجہ اور بادشاہ سلامت رعایا کی نبض پہ ہاتھ رکھتے۔ مہنگائی یعنی مصنوعی مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے؟ اس پر غور کرتے، جب کہ ملک میں ہر شے وافر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اندھیر مچا ہوا ہے۔
پانی وافر ہے، لیکن پانی کا بل ادا کرنے والوں کو نہیں مل رہا۔ البتہ ٹینکر مافیا کو اور لینڈ مافیا کے سرپرستوں کو دیا جا رہا ہے۔ بجلی بھی موجود ہے لیکن قطار میں کھڑے ہو کر یوٹیلیٹی بل جمع کروانے والوں کے بجائے کنڈا لگانے والوں کو مل رہی ہے۔ بل گھریلو صارفین کے زیادہ آرہے ہیں لیکن بجلی پولیس اور کنڈا مافیا کے تعاون سے کھلے عام چوری کی جا رہی ہے۔
آلو، ٹماٹر، پیاز، لہسن ادرک، سبزیاں، پھل، خشک میوہ جات ، اعلیٰ باسمتی چاول، بہترین سوتی کپڑا، چینی، آٹا اور گھی تیل سب کی فراوانی ہے لیکن اپنے ملک کے لوگوں کو تو ’’کڑوی گولی‘‘ نگلنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے اور تمام غذائی اشیا بیرون ملک بھیج کر منافع بھی حکمرانوں کے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کیا جا رہا ہے۔ عوام کے ٹیکس پر پلنے والے اور خود کو خوبرو بنانے والے جس ڈھٹائی سے مال بٹور رہے ہیں اس کی روشنی میں پھر ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ والی کہاوت پہ غور کیجیے۔
ان کے پاس اپنے ’’ان داتا‘‘ کے چہرے کے بدلتے رنگ کو نوٹ کرنے کے لیے تو مصاحبین کی پوری ٹیم موجود ہے، لیکن افسوس کہ موسم کے تیور بدلنے کے آثار جو بہت واضح ہوتے ہیں، ان کو نوٹ کرنے اور حفاظتی اقدامات کے لیے کوئی ٹیم نہیں۔ زمینی تبدیلیوں، زلزلوں اور آتش فشاں پھٹنے، سمندری طوفانوں سے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے نہ ماہرین ارضیات ہیں نہ ماہرین فلکیات۔ کیونکہ وجود تو سب کا ہے لیکن کام کوئی نہیں کر رہا، صرف تنخواہیں لے رہے ہیں اور ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
پھر وہی کہاوت کہ ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ پھر بھی ایک محکمہ ہے جو پوری تندہی اور جانفشانی سے کام رہا ہے۔ اس اندھیر نگری میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس کی مرضی سے ہو رہا ہے ہوسکتا ہے اس کی علامتی پیشن گوئی ’’ناسٹر ڈیمس‘‘ نے کہیں کی ہو۔ بہت سے علامہ ابن علامہ حضرات زلزلوں، سیلاب، برفباری اور طوفانوں کو عذاب الٰہی سے تعبیر کرتے ہیں؟ ٹھیک ہے چلیے مان لیا کہ ہمارے گناہ بہت بڑھ گئے ہیں؟ اگر یہ زلزلے گناہوں کی سزا ہیں تو اس سے حکمران اور ان کے خاندان تباہ کیوں نہیں ہوتے؟ ان کے محلات شاہی کی دیواریں کیوں نہیں گرتیں؟
ان کے گناہوں کے حساب سے تو ان کے لیے کئی زلزلے آنے چاہئیں؟ اور اگر یہ قیامت کی نشانیاں ہیں تو عرض ہے کہ قیامتیں تو روز گزر رہی ہیں۔ کسی کو اولاد چھوڑ گئی، کسی کا گھر گر گیا، کسی کے معصوم بچے سیلاب اور زلزلے میں دب گئے، کسی کا گھرانہ سیلاب کی نذر ہوگیا۔ کس پر کس وقت کیا قیامت گزری ہے کون جانے؟ یا وہ خود جانے یا خدا جانے۔
ان والدین کا سوچیے، اس ماں کا سوچیے جس نے زندگی بھر کی پونجی لگا کر بیٹے کو پروان چڑھایا، سہرا بندھوایا اور وہ ’’ہائی جیک‘‘ ہو گیا اور جیتے جی ماں باپ کو مار کر کہیں چھپ گیا۔ اپنے اپنے حصے کی قیامتیں ہم روز بھگتے ہیں۔ ہمارے علمائے کرام نہ جانے کون سی قیامت کی بات کرتے ہیں۔ قیامتیں تو زندگی میں ہی بھگتنی پڑتی ہیں۔ مرنے کے بعد کس کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا کبھی کوئی بتانے آیا؟
سیانے کہتے ہیں کہ حکومت اندرائن کا پھل ہے، جو باہر سے بہت خوشنما اور خوبصورت لیکن چکھنے پر نہایت کڑوا اور بدمزہ۔ لیکن یہ بھی ہمارا المیہ ہے کہ یہی اندرائن کا پھل کسی کی ناگہانی موت کے بعد ’’اقتدار کا لڈو‘‘ بن جاتا ہے۔ اقتدار کے کڑوے پھل کو بہت سے بادشاہوں اور راجوں مہاراجوں نے بہت سوچ سمجھ کے چکھا تھا۔
اسی لیے آج اشوک دی گریٹ، جلال الدین اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں کو لوگ نہیں بھولے۔ شاہ جہاں نے تو لازوال عمارتیں تعمیر کروائیں جن کی آمدنی سے بھارت کا خزانہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس وقت شاہ جہاں نے کوئی یونیورسٹی یا اسپتال نہیں بنوایا۔ لیکن آج کے حکمرانوں نے کیا بنایا؟ ہے کوئی ایسی عمارت جسے آپ تاج محل کا متبادل قرار دیں اور جو انھوں نے بنائی ہو؟ انھوں نے صرف مال بنایا ہے، بکاؤ خچر خریدے ہیں اور قبرستان آباد کیے ہیں۔
وہ زمانے گئے جب بادشاہ ’’ظل الٰہی‘‘ یعنی خدا کا سایہ ہوتا تھا۔ اسی لیے اندرائن کے پھل کی کڑواہٹ کو اپنے عدل و انصاف اور رعایا کی خبر گیری سے بدل دیتا ہے۔ آج ہر طرف اندھیر نگری چوپٹ راجا کے جلوے بکھرے پڑے ہیں۔ الیکشن پہ کروڑوں خرچ ہو رہے ہیں۔ یوتھ اور سندھ فیسٹیول پہ اربوں لٹائے گئے ، لیکن زمینی اور آسمانی آفات سے تباہ ہونے والوں کے لیے صرف ایک تقریر اور بس۔۔۔۔؟
ح