حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
بسترِمر گ پر لیٹے ہوئے میرے بابا نے میرے ہاتھ میں پانی کا کٹورا دیکھ کر کہا :۔ آﺅ بیٹی !
آج میں تمہیں پانی کی کہانی سنا ﺅ ں۔
" شبنم " کی حیا سے بھرپورزندگی پرغورکرو ...."رات " جب کائنات کو اپنے " گھونگٹ " میں چھپا لیتی ہے۔ اسوقت شبنم نئی نویلی دلہن کی مانند "حیا " میں سمٹی ہوئی بغیر کسی آہٹ کے زمین پر اترتی ہے تو پھولوں کی
نوخیز پتیاں بڑھ کر اسے اپنے " دامن " پرسجالیتی ہیں۔ یہا ں براجمان ہوکر یہ آبدار " موتیو ں " کی صورت رات بھر جگمگاتی ہے۔
پھر "نسیم سحری " ان پتیوں کوجھولا جھلاتی ہے۔ اور اسطرح اسکی زندگی کی یہ سہانی مہکتی مختصررات پھول کی پتیوں کی "سیج " پر جھو لتے ہوئے " اختتام " کو پہنچ جا تی ہے۔ اور
اس کے بر عکس ....
" با رش کے پانی ' ' کی زندگی پر غور کرو!
گرجتے، چمکتے سیاہ بادل اپنے دوش پر پانی کو اٹھائے نمودار ہو تے ہیں۔ " تند و تیز " چنگھاڑتی ہوائیں "قیامت " کا سماں باندھتی ہیں اور یہ بارش کا پانی "شوروشر " برپا کر تا ہوابرستا ہے۔ اورپھر " انجام کار" سارے شہر کا گردو غبار کوڑا کرکٹ سر پر اٹھائے، نا لوں کی گندگیوں کو سمیٹے دریا میں غر ق ہو جا تاہے۔
میری بیٹی ! یہی مثال انسانو ں پر لا گو کر کے دیکھو گی تو با آسانی سمجھ جا ﺅ گی کہ " حیا " اور " بے حیا ئی " میں کیا فر ق ہے ؟؟؟ یہ کہہ کر میرے بابا نے میری جانب دیکھا اور پوچھا !
بیٹی ! یہ تمہار ی آنکھو ں میں آنسو کیوں ! میں نے کہا : "با با ! یہ پانی کی زبان ہے۔ " ( بنتِ یو سف)
آج میں تمہیں پانی کی کہانی سنا ﺅ ں۔
" شبنم " کی حیا سے بھرپورزندگی پرغورکرو ...."رات " جب کائنات کو اپنے " گھونگٹ " میں چھپا لیتی ہے۔ اسوقت شبنم نئی نویلی دلہن کی مانند "حیا " میں سمٹی ہوئی بغیر کسی آہٹ کے زمین پر اترتی ہے تو پھولوں کی
نوخیز پتیاں بڑھ کر اسے اپنے " دامن " پرسجالیتی ہیں۔ یہا ں براجمان ہوکر یہ آبدار " موتیو ں " کی صورت رات بھر جگمگاتی ہے۔
پھر "نسیم سحری " ان پتیوں کوجھولا جھلاتی ہے۔ اور اسطرح اسکی زندگی کی یہ سہانی مہکتی مختصررات پھول کی پتیوں کی "سیج " پر جھو لتے ہوئے " اختتام " کو پہنچ جا تی ہے۔ اور
اس کے بر عکس ....
" با رش کے پانی ' ' کی زندگی پر غور کرو!
گرجتے، چمکتے سیاہ بادل اپنے دوش پر پانی کو اٹھائے نمودار ہو تے ہیں۔ " تند و تیز " چنگھاڑتی ہوائیں "قیامت " کا سماں باندھتی ہیں اور یہ بارش کا پانی "شوروشر " برپا کر تا ہوابرستا ہے۔ اورپھر " انجام کار" سارے شہر کا گردو غبار کوڑا کرکٹ سر پر اٹھائے، نا لوں کی گندگیوں کو سمیٹے دریا میں غر ق ہو جا تاہے۔
میری بیٹی ! یہی مثال انسانو ں پر لا گو کر کے دیکھو گی تو با آسانی سمجھ جا ﺅ گی کہ " حیا " اور " بے حیا ئی " میں کیا فر ق ہے ؟؟؟ یہ کہہ کر میرے بابا نے میری جانب دیکھا اور پوچھا !
بیٹی ! یہ تمہار ی آنکھو ں میں آنسو کیوں ! میں نے کہا : "با با ! یہ پانی کی زبان ہے۔ " ( بنتِ یو سف)