بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
(ان رپورٹس یا خبروں کو تصاویر ہٹا کر باقی من و عن جیسا ہے ویسے کی بنیاد پر یہاں پوسٹ کیا جاتا ہے۔ تاہم کسی ساتھی کو پڑھنے میں دشواری ہو تو پوسٹ کے آخر میں دیئے گئے لنک پر جا کر اصل خبر یا رپورٹ کا مطالعہ کر سکتے ہیں)۔
جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستانی سیاست پر بھی موروثی سیاست کے رنگ نمایاں ہیں، ایک اندازے کے مطابق ملکی سیاست پر اس وقت تقریبا ستر خاندان چھائے ہوئے ہیں۔
ملک کی تقریبا تمام بڑی جماعتوں میں موجود انہی خاندانوں کے لوگ نسل در نسل کامیاب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہرالقادری کے بقول حالیہ انتخابات کے بعد بھی ایوان اقتدار میں پہنچے والوں میں بیشتر نمایاں چہرے انہی خاندانوں کے چشم و چراغ ہیں۔
پاکستان میں بہت سے مبصرین ایسے بھی ہیں، جن کا خیال ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں موروثی سیاست کرنے والے خاندانوں کا بھی اہم کردار ہے۔ ان کے نزدیک موروثی سیاست کوئی ایسی بری چیز بھی نہیں ہے بشرطیکہ ان سیاست دانوں کے بچے سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار میں آئیں۔ ان کے بقول فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ روایتی سیاست دان کے بچوں کو اپنے بزرگوں کا تجربہ، سیاسی ماحول اور ان کے سیاسی بزرگوں کی مقبولیت ورثے میں ملتی ہے جبکہ عام لوگوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہوتی۔ ایسے تجزیہ نگاروں کے بقول سیاسی خاندانوں کے عوامی مقبولیت نہ رکھنے والے اور خدمت کے جذبات سے عاری بچے خود بخود سسٹم سے آوٹ ہو جاتے ہیں، جیسے حالیہ الیکشن میں سید یوسف رضا گیلانی کے چار بیٹے عبدالقادر گیلانی، علی موسی گیلانی، قاسم گیلانی اور حیدر گیلانی کے علاوہ ان کےایک بھائی مجتبی گیلانی کو کامیابی نہیں مل سکی۔ ان کے ایک بچے حیدر گیلانی کے اغوا کے افسوسناک واقعے کے باوجود ان کے لیے ہمدردی کی لہر بھی انہیں الیکشن نہ جتوا سکی۔
لیکن دوسری طرف ایک تجزیہ نگار حسن نثار بالکل مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ ان کے بقول موروثی سیاست برصغیر کے لوگوں کی طویل غلامی کے اثرات کی وجہ سے ہے۔ ان کے مطابق حالیہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ نون کے میاں نواز شریف کا وزیر اعظم بننا، ان کا اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنوانا، اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو متوقع طور پر خزانہ کی وزارت سے نوازنا ملکی جمہوریت کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ یاد رہے حمزہ شہباز شریف، محسن لطیف، کیپٹن(ر) صفدر، بلال یاسین اور عابد شیر علی سمیت شریف فیملی کے بہت سے لوگ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر نئی اسمبلیوں میں آئے ہیں۔
حسن نثار کے بقول موروثی سیاست پارلیمنٹ میں مناپلی، مافیا، اجارہ داری اور بعض اوقات کارٹل کا روپ دھار لیتی ہے، ’’لوگ ملک و قوم کی بجائے افراد کے مفادات کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں جو کہ اچھی بات نہیں۔ جس طرح چلتا ہوا پانی پاک ہوتا ہے اس طرح حکمرانوں کو بھی بدلتا رہنا چاہیے، جینوئن لیڈرشپ کو آگے آنے کا موقع ملنا چاہیے۔ مہذب ملکوں میں باراک اوباما جیسے لوگ بھی اقتدار کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اہم عہدے بااثر سیاسی خاندانوں میں ہی گھومتے رہتے ہیں۔‘‘
پاکستان کی سیاسی تاریخ موروثی سیاست کی لمبی چوڑی فہرستوں سے بھری پڑی ہے۔ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف نگاہ دوڑائیں تو ہمیں ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، ممتاز بھٹو، بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، غنویٰ بھٹو اور بلاول بھٹو جیسے نام دکھائی دیتے ہیں۔
زرداری فیملی میں حاکم علی زرداری، آصف علی زرداری، ،فریال تالپور، عذرا پیچھوہو اور منور تالپور وغیرہ نمایاں ہیں۔ مسلم لیگ قاف کی طرف دیکھیں تو چوہدری ظہور الٰہی، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، شفاعت حسین، وجاہت حسین، ریاض اصغر، زین الٰہی اور مونس الٰہی وغیرہ بلدیاتی اداروں ، سینٹ ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابی معرکوں میں دکھائی دیتے رہے ہیں۔
عسکری گھرانوں پر نگاہ ڈالیں تو ایوب خان، گوہر ایوب اور عمر ایوب خان کے نام نظر آتے ہیں۔ ضیاالحق کے اقتدار کے بعد ان کے صاحب زادے اعجاز الحق اور انوارالحق بھی میدان سیاست میں دکھائی دیے۔
ایک طرف پاکستان کی سیکولر جماعت عوامی نیشنل پارٹی میں موروثی سیاست کے رنگ، ولی خان، بیگم نسیم ولی خان، اسفند یار ولی خان اور امیر حیدر ہوتی کی صورت نظر آتے ہیں دوسری طرف ملک کی دینی جماعتیں بھی اس صورت حال سے مبرا نہیں ہیں۔ مولانا مفتی محمود کے صاحب زادے جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل ا لرحمٰن کے آس پاس ان کے بھائی مولانا عطاالرحمٰن، مولانا لطف الرحمٰن، مولانا عبیدالرحمٰن اور ان کے سمدھی سینٹر مولانا غلام علی موجود ہیں۔
پاکستانی سیاست، لغاری، جتوئی، رانا، کھوسہ، چیمہ، مخدوم، بھروانہ، کھر، جتوئی، راجہ، جونیجو، نوانی اور اس طرح کے کئی دوسرے خاندانوں کے نرغے میں رہی ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستیں بھی عام طور پر انہی بڑے خاندانوں کی خواتین کے حصے میں ہی آتی رہی ہیں۔
ممتاز کالم نگار عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کا شمار ایسی سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے، جو موروثی سیاست کے اثرات سے قدرے محفوظ رہی ہیں۔ خیبرپختونخواہ کی نئی اسمبلی بھی اس کی ایک جھلک لیے ہوئے ہے۔
ان کے مطابق پاکستانی سیاست دان عام طور پر پاور شیئرنگ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، اس لیے موروثی سیاست، پارٹیوں کی کمزوری اور سیاست دانوں کے عدم تحفظ کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کے بقول سول سوسائٹی اور میڈیا کو سیاسی جماعتوں پر پارٹی الیکشن کروانے اور موروثی سیاست کے خاتمے کے لیے دباؤ بڑھانا چاہیے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: امتیاز احمد
جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستانی سیاست پر بھی موروثی سیاست کے رنگ نمایاں ہیں، ایک اندازے کے مطابق ملکی سیاست پر اس وقت تقریبا ستر خاندان چھائے ہوئے ہیں۔
ملک کی تقریبا تمام بڑی جماعتوں میں موجود انہی خاندانوں کے لوگ نسل در نسل کامیاب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہرالقادری کے بقول حالیہ انتخابات کے بعد بھی ایوان اقتدار میں پہنچے والوں میں بیشتر نمایاں چہرے انہی خاندانوں کے چشم و چراغ ہیں۔
پاکستان میں بہت سے مبصرین ایسے بھی ہیں، جن کا خیال ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں موروثی سیاست کرنے والے خاندانوں کا بھی اہم کردار ہے۔ ان کے نزدیک موروثی سیاست کوئی ایسی بری چیز بھی نہیں ہے بشرطیکہ ان سیاست دانوں کے بچے سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار میں آئیں۔ ان کے بقول فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ روایتی سیاست دان کے بچوں کو اپنے بزرگوں کا تجربہ، سیاسی ماحول اور ان کے سیاسی بزرگوں کی مقبولیت ورثے میں ملتی ہے جبکہ عام لوگوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہوتی۔ ایسے تجزیہ نگاروں کے بقول سیاسی خاندانوں کے عوامی مقبولیت نہ رکھنے والے اور خدمت کے جذبات سے عاری بچے خود بخود سسٹم سے آوٹ ہو جاتے ہیں، جیسے حالیہ الیکشن میں سید یوسف رضا گیلانی کے چار بیٹے عبدالقادر گیلانی، علی موسی گیلانی، قاسم گیلانی اور حیدر گیلانی کے علاوہ ان کےایک بھائی مجتبی گیلانی کو کامیابی نہیں مل سکی۔ ان کے ایک بچے حیدر گیلانی کے اغوا کے افسوسناک واقعے کے باوجود ان کے لیے ہمدردی کی لہر بھی انہیں الیکشن نہ جتوا سکی۔
لیکن دوسری طرف ایک تجزیہ نگار حسن نثار بالکل مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ ان کے بقول موروثی سیاست برصغیر کے لوگوں کی طویل غلامی کے اثرات کی وجہ سے ہے۔ ان کے مطابق حالیہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ نون کے میاں نواز شریف کا وزیر اعظم بننا، ان کا اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنوانا، اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو متوقع طور پر خزانہ کی وزارت سے نوازنا ملکی جمہوریت کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ یاد رہے حمزہ شہباز شریف، محسن لطیف، کیپٹن(ر) صفدر، بلال یاسین اور عابد شیر علی سمیت شریف فیملی کے بہت سے لوگ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر نئی اسمبلیوں میں آئے ہیں۔
حسن نثار کے بقول موروثی سیاست پارلیمنٹ میں مناپلی، مافیا، اجارہ داری اور بعض اوقات کارٹل کا روپ دھار لیتی ہے، ’’لوگ ملک و قوم کی بجائے افراد کے مفادات کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں جو کہ اچھی بات نہیں۔ جس طرح چلتا ہوا پانی پاک ہوتا ہے اس طرح حکمرانوں کو بھی بدلتا رہنا چاہیے، جینوئن لیڈرشپ کو آگے آنے کا موقع ملنا چاہیے۔ مہذب ملکوں میں باراک اوباما جیسے لوگ بھی اقتدار کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اہم عہدے بااثر سیاسی خاندانوں میں ہی گھومتے رہتے ہیں۔‘‘
پاکستان کی سیاسی تاریخ موروثی سیاست کی لمبی چوڑی فہرستوں سے بھری پڑی ہے۔ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف نگاہ دوڑائیں تو ہمیں ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، ممتاز بھٹو، بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، غنویٰ بھٹو اور بلاول بھٹو جیسے نام دکھائی دیتے ہیں۔
زرداری فیملی میں حاکم علی زرداری، آصف علی زرداری، ،فریال تالپور، عذرا پیچھوہو اور منور تالپور وغیرہ نمایاں ہیں۔ مسلم لیگ قاف کی طرف دیکھیں تو چوہدری ظہور الٰہی، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، شفاعت حسین، وجاہت حسین، ریاض اصغر، زین الٰہی اور مونس الٰہی وغیرہ بلدیاتی اداروں ، سینٹ ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابی معرکوں میں دکھائی دیتے رہے ہیں۔
عسکری گھرانوں پر نگاہ ڈالیں تو ایوب خان، گوہر ایوب اور عمر ایوب خان کے نام نظر آتے ہیں۔ ضیاالحق کے اقتدار کے بعد ان کے صاحب زادے اعجاز الحق اور انوارالحق بھی میدان سیاست میں دکھائی دیے۔
ایک طرف پاکستان کی سیکولر جماعت عوامی نیشنل پارٹی میں موروثی سیاست کے رنگ، ولی خان، بیگم نسیم ولی خان، اسفند یار ولی خان اور امیر حیدر ہوتی کی صورت نظر آتے ہیں دوسری طرف ملک کی دینی جماعتیں بھی اس صورت حال سے مبرا نہیں ہیں۔ مولانا مفتی محمود کے صاحب زادے جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل ا لرحمٰن کے آس پاس ان کے بھائی مولانا عطاالرحمٰن، مولانا لطف الرحمٰن، مولانا عبیدالرحمٰن اور ان کے سمدھی سینٹر مولانا غلام علی موجود ہیں۔
پاکستانی سیاست، لغاری، جتوئی، رانا، کھوسہ، چیمہ، مخدوم، بھروانہ، کھر، جتوئی، راجہ، جونیجو، نوانی اور اس طرح کے کئی دوسرے خاندانوں کے نرغے میں رہی ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستیں بھی عام طور پر انہی بڑے خاندانوں کی خواتین کے حصے میں ہی آتی رہی ہیں۔
ممتاز کالم نگار عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کا شمار ایسی سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے، جو موروثی سیاست کے اثرات سے قدرے محفوظ رہی ہیں۔ خیبرپختونخواہ کی نئی اسمبلی بھی اس کی ایک جھلک لیے ہوئے ہے۔
ان کے مطابق پاکستانی سیاست دان عام طور پر پاور شیئرنگ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، اس لیے موروثی سیاست، پارٹیوں کی کمزوری اور سیاست دانوں کے عدم تحفظ کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کے بقول سول سوسائٹی اور میڈیا کو سیاسی جماعتوں پر پارٹی الیکشن کروانے اور موروثی سیاست کے خاتمے کے لیے دباؤ بڑھانا چاہیے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: امتیاز احمد
- تاریخ 27.05.2013
http://www.dw.de/پاکستانی-سیاست-پر-70-خاندانوں-کی-حکمرانی/a-16839450