- شمولیت
- جنوری 31، 2015
- پیغامات
- 287
- ری ایکشن اسکور
- 58
- پوائنٹ
- 71
برطانیہ میں ایشین بزنس لیڈر ایوارڈ جیتنے والے پاکستانی نژاد تاجر اسد شمیم نے زمانہ طالب علمی سے ہی اپنے کاروبار کی شروعات کی۔ مانچسٹر کے رہائشی اسد شیم نے بزنس کا آغاز کپڑوں اور گفٹ آئٹم کے ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور سے کیا، جو اب ایک بڑے فرنیچر بزنس میں تبدیل ہوگیا ہے۔ برطانیہ میں ان کی کمپنی ملٹی ملین پاؤنڈز کی ہے، جس کی ویب سائٹ پر یومیہ ہزاروں افراد وزٹ کرتے ہیں۔ وہ معروف بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ باکسنگ پروموٹر، بزنس مینٹور اور مارکیٹنگ کے امور پر ایک برطانوی لا فرم کے سینئر مشیر بھی ہیں۔ ”امت“ سے ٹیلیفونک گفتگو میں اسد شمیم نے جہاں برطانیہ میں اپنے کاروبار اور کامیابیوں سے متعلق بات کی وہیں انہوں نے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال پر تشویش کا بھی اظہار کیا۔ برطانیہ میں ”ڈیجیٹل میڈیا کی کامیاب ایپلی کیشن“ بنانے کا اعزاز پانے والے اسد شمیم کی گفتگو نذر قارئین ہے:
میرا تعلق پنجاب کے علاقے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے، میری پیدائش ساہیوال کی ہے، میں اپنی والدہ کے ساتھ 1976 میں برطانیہ آیا تھا۔ جب میں برطانیہ آیا تو میری عمر پونے 5 برس تھی۔ میں نے یہاں فنانس اور اکاؤنٹنگ میں گروجیشن مکمل کیا۔ بہت چھوٹی عمر سے میں نے اپنا کاروبار اسٹیبلش کر لیا تھا۔ میں پڑھتا بھی تھا اور ساتھ ساتھ کاروبار کو بھی دیکھتا تھا۔ 15 برس کی عمر میں، میں نے 25 ہزار پاؤنڈز کا بزنس کیا تھا، جو اس وقت ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ یہ 1989 کی بات ہے۔ جبکہ میری گریجویشن 1995 میں مکمل ہوئی۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ ہمارے خاندان کا کوئی فیملی بزنس نہیں تھا۔ میں نے اپنا بزنس خود بنایا۔ میرے والد ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر میری رہنمائی کی۔ میری اسکول کے علاوہ تعلیم و تربیت ہمارے گھر میں ہوئی ہے۔ جب بھی والد صاحب مجھے اسکول چھوڑنے جاتے تھے تو راستے میں مجھے سبق دیتے تھے۔ اس دوران جو گفتگو ہوتی تھی وہ سیکھنے کا بہترین عملہ تھا۔ انہوں نے مجھے پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو بھی سکھائی۔ جبکہ یہاں ایشیائی باشندے بھی اپنے گھروں میں انگریزی ہی بولتے ہیں، لیکن ہم نے ہمیشہ اپنی ثقافت اور روایت کو اولین ترجیح رکھا۔ ہم نے اپنی مادری زبان بھی بولی اور انگلش پر بھی ”ہاتھ صاف“ کیا۔
2001 میں اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز سے پاکستان جاتے ہوئے جہاز میں ملاقات ہوئی۔ دوران سفر وہ میری گفتگو سے کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ آپ نے پاکستان میں ایک سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد کرنا ہے۔ جس پر میں نے حامی بھرلی اور پھر برطانیہ میں کلیکسو، فارماسیوٹیکل کمپنیوں، بینکر اور سرمایہ کاروں سمیت تمام ایلیٹ کمپنیوں کو پاکستان جانے پر آمادہ کیا، تاکہ وہ وطن عزیز میں سرمایہ کاری کریں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان کے ساتھ تجارت کریں۔ تاکہ ہماری برآمدات میں اضافہ ہو۔ اس حوالے سے میری دو تین بار شوکت عزیز سے بات بھی ہوئی۔ لیکن اس عرصے میں نائن الیون کا واقعہ ہوگیا، جس کے باعث انیسٹمنٹ کانفرنس منسوخ ہوگئی۔ اس صورتحال پر مجھے بہت افسوس ہوا کیونکہ میں نے اس معاملے میں بہت محنت کی تھی اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ میں اپنے ملک کی خدمت کر سکوں۔ پاکستان نے ہمیں سب کچھ دیا اب میں بھی اپنے ملک کو کچھ لوٹا سکوں۔ میں ابھی بھی سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے کیلئے ناگزیر اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ تجارتی خسارے میں کمی آئے۔ بہرحال نائن الیون کے کچھ عرصے بعد میں نے شوکت عزیز سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی مگر انہوں نے میری کال ہی اٹینڈ نہیں کی۔ وہ وزیر اعظم بن گئے اور پھر رابطہ بھی نہ کیا۔ میں کانفرنس سے متعلق تمام تیاریاں کر بیٹھا تھا، ایک ایک کمپنی کو اپروچ کرکے ایسی فضا قائم کی تھی کہ پاکستان میں تجارت کا ماحول بن سکے، مگر حکومت کی جانب سے دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ تمام بڑی کمپنیاں جو میری credibility کی وجہ سے پاکستان آ رہی تھیں، لیکن حکومت کی جانب سے کوئی مثبت رد عمل سامنے نہیں آیا۔ پاکستان کے ساتھ تجارت میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان کے حکام اور افسران پر اعتماد نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ ایکسپورٹ اورئنٹڈ انڈسٹریز کو فروغ دیں اور جائزہ لیں کہ کن ممالک یا عالمی منڈیوں میں پاکستان کی کون سی مصنوعات جگہ بنا سکتی ہیں، اس سلسلے میں اوور سیز پاکستانی ایک پُل سا کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ہی بیرون ملک پاکستان کا چہرہ ہیں۔ یہاں مقامی طور پر پاکستان میں انویسٹمنٹ سے متعلق بہت سی میٹگنز ہوتی ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے ایک ٹیم متعین کی جانی چاہیئے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان کی حکومت میں بھی وہی کام ہو رہے ہیں جو پہلی حکومتوں میں ہو رہے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو میں نے مختلف مسائل تین لیٹر لکھے ہیں، لیکن انہوں نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔ ان میں ایک تنازعہ پاکستان میں ہی ہماری زمینوں پر قبصے کا بھی تھا۔ میں یہاں کسی معاملے پر توجہ دلانے کیلئے جب برطانوی وزیر اعظم یا ملکہ الزبتھ یا کسی بھی وزیر کو لیٹر لکھتا ہوں تو فوری جواب آتا ہے۔ یہی سوچ اور نظریہ ہے جس کو پاکستان میں بدلنا ہوگا، کیونکہ اگر چیف جسٹس اہم ایشوز پر آفیشل لیٹر کا جواب نہ دیں تو میں ان کے بارے میں کیا سوچوں گا۔ مانتا ہوں کہ برطانیہ میں بھی کرپشن ہے، لیکن پاکستان کو چاروں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ کرپشن کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
1995 میں ورلڈ آف فیشن کے نام سے میں نے ایک اسٹور شروع کیا تھا، جس میں مینز اور ویمنز ویئر کے علاوہ شوز اور گفٹ کلیکشن بھی تھی۔ 2005 میں، میں نے اسی اسٹور میں فرنیچر متعارف کرایا اور اسی نے لوگوں کِلک کیا اور جب یہ کام بڑھنے لگا تو میں نے سوچا کیا کہ 2006 میں فرنیچر کو آن لائن فروخت کیا جائے۔ اسی سال ہم نے فرنیچر اِن فیشن (Furniture in Fashion)کے نام سے ویب سائٹ لانچ کی۔ چین سے آنے والا جو فرنیچر ہم 250 پاؤنڈ میں فروخت کرتے ہیں وہ ہمیں امپورٹ ڈیوٹی اور ٹیکس ملا کر 125 پاؤنڈ یعنی آدھی قیمت میں پڑتا ہے۔ لہٰذا برطانیہ میں فرنیچر کے کام میں بہت منافع ہے۔ ہماری کمپنی کا کاروباری حجم ملین پاؤنڈ میں ہے۔ ویب سائٹ پر کم سے کم 7 اور زیادہ سے زیادہ 10 ہزار افراد ہر روز وزٹ کرتے ہیں۔ دراصل اپنے اسٹور میں فرنیچر رکھنے کا آئیڈیا مجھے یوں آیا کہ میرے پاس ایک جرمن ایجنٹ تھا اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ جرمن کمپنی کا فرنیچر فروخت کرتا ہے۔ لہٰذا اس وقت میں نے ایک چھوٹے پیمانے پر فرنیچر کا بزنس شروع کیا اور اسٹور میں ان کا ایک چھوٹا کلیکشن رکھا۔ اس کے بعد جرمنی کے مزید سپلائرز کو ساتھ ملا کر فرنیچر کے کاروبار کو پروان چڑھایا۔ بعد ازاں میں نے کپڑوں کا کام بتدریج کم کرتے ہوئے بند کر دیا۔
2001 میں میرا ڈپارٹمنٹ اسٹور تھا اور آن لائن خریداری کا تصور بہت کم تھا۔ لیکن میرا ایک ویژن تھا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے طور طریقے بدلتے ہیں۔ فرنیچر میں مسابقت کم تھی، اسی لئے ہم نے کپڑوں کے کاروبار پر فرنیچر کو ترجیح دی۔ کیونکہ فرنیچر کا فیشن بہت جلدی نہیں بدلتا۔ فرنیچر میں ایک، ایک پروڈکٹ 3 سے 5 برس تک فروخت کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس کپڑوں کا فیشن ہر ہفتے بدلتا ہے۔
برطانیہ میں ایک اوسط فرنیچر سیٹ 250 پاؤنڈ کا ہوتا ہے، جو 43500 پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ اس فرنیچر کی اوریج لائف ٹائم 5 برس ہوتی ہے۔ فرنیچر اب ہم خود مینوفیکچر کرتے ہیں، میں نے ایجنٹس کی خدمات حاصل کر رکھی ہے جن کے ذریعے میں چین کی فیکٹریوں سے فرنیچر تیار کراتا ہوں۔ ہمارے باکسز پر برینڈ کا نام لگ کر آتا ہے۔ چین میں ہماری 20 فیکٹریاں کام کر رہی ہیں، جہاں سے فرنیچر بن کر آ رہا ہے۔ یورپ میں فرنیچر کی تیاری کی لاگت بہت بڑھ چکی ہے، جس کے باعث درآمد کنندگان کا جھکاؤچین کی طرف ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ جرمنز بھی بڑی تعداد میں اب اپنا فرنیچر جرمنی میں نہیں بنا رہے بلکہ وہ پولینڈ، ترکی و دیگر ممالک سے فرنیچر تیار کروا رہے ہیں، جس کے باعث جرمن فرنیچر کی ویلیو پہلے جیسی نہیں رہی۔ جرمن سپلائرز نے خود امپورٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔
میرا تعلق پنجاب کے علاقے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے، میری پیدائش ساہیوال کی ہے، میں اپنی والدہ کے ساتھ 1976 میں برطانیہ آیا تھا۔ جب میں برطانیہ آیا تو میری عمر پونے 5 برس تھی۔ میں نے یہاں فنانس اور اکاؤنٹنگ میں گروجیشن مکمل کیا۔ بہت چھوٹی عمر سے میں نے اپنا کاروبار اسٹیبلش کر لیا تھا۔ میں پڑھتا بھی تھا اور ساتھ ساتھ کاروبار کو بھی دیکھتا تھا۔ 15 برس کی عمر میں، میں نے 25 ہزار پاؤنڈز کا بزنس کیا تھا، جو اس وقت ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ یہ 1989 کی بات ہے۔ جبکہ میری گریجویشن 1995 میں مکمل ہوئی۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ ہمارے خاندان کا کوئی فیملی بزنس نہیں تھا۔ میں نے اپنا بزنس خود بنایا۔ میرے والد ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر میری رہنمائی کی۔ میری اسکول کے علاوہ تعلیم و تربیت ہمارے گھر میں ہوئی ہے۔ جب بھی والد صاحب مجھے اسکول چھوڑنے جاتے تھے تو راستے میں مجھے سبق دیتے تھے۔ اس دوران جو گفتگو ہوتی تھی وہ سیکھنے کا بہترین عملہ تھا۔ انہوں نے مجھے پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو بھی سکھائی۔ جبکہ یہاں ایشیائی باشندے بھی اپنے گھروں میں انگریزی ہی بولتے ہیں، لیکن ہم نے ہمیشہ اپنی ثقافت اور روایت کو اولین ترجیح رکھا۔ ہم نے اپنی مادری زبان بھی بولی اور انگلش پر بھی ”ہاتھ صاف“ کیا۔
2001 میں اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز سے پاکستان جاتے ہوئے جہاز میں ملاقات ہوئی۔ دوران سفر وہ میری گفتگو سے کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ آپ نے پاکستان میں ایک سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد کرنا ہے۔ جس پر میں نے حامی بھرلی اور پھر برطانیہ میں کلیکسو، فارماسیوٹیکل کمپنیوں، بینکر اور سرمایہ کاروں سمیت تمام ایلیٹ کمپنیوں کو پاکستان جانے پر آمادہ کیا، تاکہ وہ وطن عزیز میں سرمایہ کاری کریں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان کے ساتھ تجارت کریں۔ تاکہ ہماری برآمدات میں اضافہ ہو۔ اس حوالے سے میری دو تین بار شوکت عزیز سے بات بھی ہوئی۔ لیکن اس عرصے میں نائن الیون کا واقعہ ہوگیا، جس کے باعث انیسٹمنٹ کانفرنس منسوخ ہوگئی۔ اس صورتحال پر مجھے بہت افسوس ہوا کیونکہ میں نے اس معاملے میں بہت محنت کی تھی اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ میں اپنے ملک کی خدمت کر سکوں۔ پاکستان نے ہمیں سب کچھ دیا اب میں بھی اپنے ملک کو کچھ لوٹا سکوں۔ میں ابھی بھی سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے کیلئے ناگزیر اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ تجارتی خسارے میں کمی آئے۔ بہرحال نائن الیون کے کچھ عرصے بعد میں نے شوکت عزیز سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی مگر انہوں نے میری کال ہی اٹینڈ نہیں کی۔ وہ وزیر اعظم بن گئے اور پھر رابطہ بھی نہ کیا۔ میں کانفرنس سے متعلق تمام تیاریاں کر بیٹھا تھا، ایک ایک کمپنی کو اپروچ کرکے ایسی فضا قائم کی تھی کہ پاکستان میں تجارت کا ماحول بن سکے، مگر حکومت کی جانب سے دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ تمام بڑی کمپنیاں جو میری credibility کی وجہ سے پاکستان آ رہی تھیں، لیکن حکومت کی جانب سے کوئی مثبت رد عمل سامنے نہیں آیا۔ پاکستان کے ساتھ تجارت میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان کے حکام اور افسران پر اعتماد نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ ایکسپورٹ اورئنٹڈ انڈسٹریز کو فروغ دیں اور جائزہ لیں کہ کن ممالک یا عالمی منڈیوں میں پاکستان کی کون سی مصنوعات جگہ بنا سکتی ہیں، اس سلسلے میں اوور سیز پاکستانی ایک پُل سا کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ہی بیرون ملک پاکستان کا چہرہ ہیں۔ یہاں مقامی طور پر پاکستان میں انویسٹمنٹ سے متعلق بہت سی میٹگنز ہوتی ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے ایک ٹیم متعین کی جانی چاہیئے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان کی حکومت میں بھی وہی کام ہو رہے ہیں جو پہلی حکومتوں میں ہو رہے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو میں نے مختلف مسائل تین لیٹر لکھے ہیں، لیکن انہوں نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔ ان میں ایک تنازعہ پاکستان میں ہی ہماری زمینوں پر قبصے کا بھی تھا۔ میں یہاں کسی معاملے پر توجہ دلانے کیلئے جب برطانوی وزیر اعظم یا ملکہ الزبتھ یا کسی بھی وزیر کو لیٹر لکھتا ہوں تو فوری جواب آتا ہے۔ یہی سوچ اور نظریہ ہے جس کو پاکستان میں بدلنا ہوگا، کیونکہ اگر چیف جسٹس اہم ایشوز پر آفیشل لیٹر کا جواب نہ دیں تو میں ان کے بارے میں کیا سوچوں گا۔ مانتا ہوں کہ برطانیہ میں بھی کرپشن ہے، لیکن پاکستان کو چاروں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ کرپشن کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
1995 میں ورلڈ آف فیشن کے نام سے میں نے ایک اسٹور شروع کیا تھا، جس میں مینز اور ویمنز ویئر کے علاوہ شوز اور گفٹ کلیکشن بھی تھی۔ 2005 میں، میں نے اسی اسٹور میں فرنیچر متعارف کرایا اور اسی نے لوگوں کِلک کیا اور جب یہ کام بڑھنے لگا تو میں نے سوچا کیا کہ 2006 میں فرنیچر کو آن لائن فروخت کیا جائے۔ اسی سال ہم نے فرنیچر اِن فیشن (Furniture in Fashion)کے نام سے ویب سائٹ لانچ کی۔ چین سے آنے والا جو فرنیچر ہم 250 پاؤنڈ میں فروخت کرتے ہیں وہ ہمیں امپورٹ ڈیوٹی اور ٹیکس ملا کر 125 پاؤنڈ یعنی آدھی قیمت میں پڑتا ہے۔ لہٰذا برطانیہ میں فرنیچر کے کام میں بہت منافع ہے۔ ہماری کمپنی کا کاروباری حجم ملین پاؤنڈ میں ہے۔ ویب سائٹ پر کم سے کم 7 اور زیادہ سے زیادہ 10 ہزار افراد ہر روز وزٹ کرتے ہیں۔ دراصل اپنے اسٹور میں فرنیچر رکھنے کا آئیڈیا مجھے یوں آیا کہ میرے پاس ایک جرمن ایجنٹ تھا اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ جرمن کمپنی کا فرنیچر فروخت کرتا ہے۔ لہٰذا اس وقت میں نے ایک چھوٹے پیمانے پر فرنیچر کا بزنس شروع کیا اور اسٹور میں ان کا ایک چھوٹا کلیکشن رکھا۔ اس کے بعد جرمنی کے مزید سپلائرز کو ساتھ ملا کر فرنیچر کے کاروبار کو پروان چڑھایا۔ بعد ازاں میں نے کپڑوں کا کام بتدریج کم کرتے ہوئے بند کر دیا۔
2001 میں میرا ڈپارٹمنٹ اسٹور تھا اور آن لائن خریداری کا تصور بہت کم تھا۔ لیکن میرا ایک ویژن تھا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے طور طریقے بدلتے ہیں۔ فرنیچر میں مسابقت کم تھی، اسی لئے ہم نے کپڑوں کے کاروبار پر فرنیچر کو ترجیح دی۔ کیونکہ فرنیچر کا فیشن بہت جلدی نہیں بدلتا۔ فرنیچر میں ایک، ایک پروڈکٹ 3 سے 5 برس تک فروخت کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس کپڑوں کا فیشن ہر ہفتے بدلتا ہے۔
برطانیہ میں ایک اوسط فرنیچر سیٹ 250 پاؤنڈ کا ہوتا ہے، جو 43500 پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ اس فرنیچر کی اوریج لائف ٹائم 5 برس ہوتی ہے۔ فرنیچر اب ہم خود مینوفیکچر کرتے ہیں، میں نے ایجنٹس کی خدمات حاصل کر رکھی ہے جن کے ذریعے میں چین کی فیکٹریوں سے فرنیچر تیار کراتا ہوں۔ ہمارے باکسز پر برینڈ کا نام لگ کر آتا ہے۔ چین میں ہماری 20 فیکٹریاں کام کر رہی ہیں، جہاں سے فرنیچر بن کر آ رہا ہے۔ یورپ میں فرنیچر کی تیاری کی لاگت بہت بڑھ چکی ہے، جس کے باعث درآمد کنندگان کا جھکاؤچین کی طرف ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ جرمنز بھی بڑی تعداد میں اب اپنا فرنیچر جرمنی میں نہیں بنا رہے بلکہ وہ پولینڈ، ترکی و دیگر ممالک سے فرنیچر تیار کروا رہے ہیں، جس کے باعث جرمن فرنیچر کی ویلیو پہلے جیسی نہیں رہی۔ جرمن سپلائرز نے خود امپورٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔