• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان میں انگریزی کی صورت حال

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
پاکستان میں اِنگلش کی صورت حال​

برٹش کونسل انگریزی کی ترویج میں سرگرم ہے۔

برٹش کونسل نے پاکستان میں انگریزی زبان کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بڑے پیمانے پر ایک تحقیقی کارروائی کی ہے جس کے تحت کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں سیمنار کرائے گئے اور انگریزی زبان کے اساتذہ ، طلبا، صحافیوں ، دانشوروں اور محققین کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔

اِس موقعے پر کچھ برطانوی ماہرین تعلیم اور لسانیات داں موجود تھے اور شرکاء کا مشترکہ موقف یہ دکھائی دیتا تھا کہ پاکستان میں انگریزی تدریس کا غیر یکساں معیار بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے کیونکہ اعلی طبقوں کے جو طلبا انگریزی ذریعہ تعلیم والے اداروں میں داخلہ لینے کے قابل ہیں اُن کی تعداد محض تین فیصد ہے ، باقی ستانوے فیصد طلبا دیسی سرکاری سکولوں میں جانے پہ مجبور ہیں جہاں انگریزی تدریس کا میعار انتہائی پست ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی بہت سے جعلی انگلش میڈیم سکول کُھل گئے ہیں جو ان پڑھ والدین کی جہالت کا فائدہ اُٹھا کر اُن سے پیسے بٹور رہے ہیں۔

معروف صحافی اور دانشور غازی صلاح الدین نے اس موقع پر کہا کہ انگریزی زبان ہمارے سر کا تاج ہے لیکن یہ ہمارے پاؤں کی زنجیر بھی ہے۔ ماہر لسانیات طارق رحمان نے اس بات کی مزید وضاحت اس طرح کی کہ انگریزی کی بین الاقوامی اہمیت مُسّلم ہے اور ہمارے نوجوانوں کے لیے انگریزی سیکھنا بہت اہم ہے لیکن انگریزی تدریس کا انتظام تمام طبقوں کے نوجوانوں کے لیے ہونا چاہیے نا کہ محض مراعات یافتہ لوگوں کی اولاد کے لیے۔

یونیورسٹی آف برمنگھم کے پروفیسر کِرس نے خیال ظاہر کیا کہ کسی طرح کی تدریسی اصلاحات نافذ کرنے سے پہلے مُلک میں ایک واضح اور قابِل عمل لسانی پالیسی کا وجود ضروری ہے۔

کراچی لاہور اور اسلام آباد میں ہونے والے ان اجتماعات کے دوران ابتدائی بحث کے بعد شرکاء کو پانچ گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا جہاں انھوں نے انگریزی تدریس کی راہ میں حائل مختلف مسائل کا جائزہ لیا مثلا مختصر علامتوں کا وہ نظام جو ٹیکسٹ میسج کی روایت سے پیدا ہوا ہے اور جس کے باعث نوجوانوں میں پورا جُملہ لکھنے اور گرامر کا خیال رکھنے کا رجحان ختم ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔ وغیرہ۔

اس موقعے پر برٹش کونسل نے اپنی پہلے سے تحقیق کردہ جو معلومات حاضرین میں تقسیم کیں اُن میں سے کچھ ناقابل یقین ہیں اور اندازِ تحقیق پر ایک سوالیہ نشان لگا رہی ہیں۔ مثلا اُن کا کہنا ہے جنوبی ایشیا میں انگریزی بولنے والوں کا تناسب پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ برطانوی تحقیق کے مطابق بھارت میں کُل آبادی کا صِرف اِکیس فی صد انگریزی بولتا ہے جبکہ پاکستان کی نصف آبادی انگریزی بولنے کی اہل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دعوی عقلِ سلیم اور ہمارے روز مرہ تجربے کے بالکل منافی ہے۔

عارف وقار بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
جمعـہ 28 مارچ 2014
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
پاکستان کی سرکاری زبان جب تک اردو نہیں بن جاتی، اس وقت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ انگریزی کا عمل دخل اس ملک میں جاری و ساری رہے گا اور انگریزی کی معرفت ”انگریزوں“ کے ایجنٹ، ان کا کلچر، ان کا دین و مذہب ہم پر مسلط ہوتے رہیں گے۔ اور عوام میں بھی انگریزی کی پذیرائی کم نہیں ہوگی کہ کیونکہ فی الوقت پاکستان میں اعلیٰ تعلیم، اعلیٰ معاشرتی مقام اور خوشحالی صرف اور صرف انگریزی ہی کی مرہون منت ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
سر کا تاج اور پاؤں کی زنجیر...خواب اور عذاب
غازی صلاح الدین (روزنامہ جنگ 29 مارچ 2014)​

یہ بات کسی نے انگریزی میں کہی تھی اور میں اس کا اردو ترجمہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔'' زندگی ایک غیر ملکی زبان ہے ہم ٹھیک سے اس کی ادائیگی نہیں کرسکتے''۔ اچھا تو یہ جو انگریزی زبان ہے وہ ہمارے لئے ایک غیر ملکی زبان ہے یا اسے ہم اپنی زبانوں میں سے ایک کہہ سکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ سوال آسان نہیں ہے سچی بات یہ ہے کہ انگریزی سے ہمارا رشتہ عجیب سا ہے۔ اجتماعی طور پر شاید یہ وہ حسینہ ہے جس کی طلب میں ہم بے حال ہوئے جاتے ہیں کہ جیسے یہ مل جائے تو ''تقدیر نگوں ہوجائے'' انفرادی سطح پر دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ دولت کی مانند اس زبان کی عنایتیں کسی کسی پر بے شمار ہیں اور زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس دولت اور اس دولت، دونوں سے محروم ہیں۔ یعنی انگریزی زبان بھی طبقاتی تقسیم کا ایک پیمانہ ہے ممکن ہے کہ آپ اسے استعماری طاقتوں کا ایک تحفہ کہیں کہ اس کے ذریعے محروم عوام کے ذہنوں پر حکمرانی کی جائے لیکن تصویر کا دوسرا، روشن رخ بھی تو ہے۔ انگریزی دنیا کی سب سے اہم اور پھیلتی ہوئی زبان ہے۔ اس میں مہارت ہوجائے تو علم اور ادب کی ایک طلسماتی دنیا تک آپ کی رسائی ہوجاتی ہے۔ پوری دنیا سے رشتہ قائم ہوجاتا ہے، اچھی نوکری اور اپنے کام میں ترقی کے علاوہ معاشرے میں آپ کی عزت بھی بڑھ جاتی ہے اور اگر یہ سب کچھ ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ انگریزی بھی ہماری اپنی زبانوں میں سے ایک ہے اور یہ سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ اس سے زیادہ ہماری نہ ہو جتنی وہ زبانیں جن میں ہم پیدا ہوئے ہیں۔

انگریزی کے بارے میں اس پریشان خیالی کا میرے لئے جواز یہ ہے کہ اس ہفتے برٹش کونسل نے ایک اعلیٰ پیمانے پر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں پورے پورے دن کے ''پالیسی ڈائیلاگ'' کا بندوبست کیا۔ ملک کے ماہرین تعلیم اور اساتذہ کے علاوہ ادیبوں اور دانشوروں کو بھی مکالمہ میں شامل کیا گیا۔ برٹش کونسل کے اپنے افسران کے ساتھ برطانیہ سے دو ماہرین کو اپنے خیالات کے اظہار کے لئے مدعو کیا گیا۔ انگریزی زبان کے صحافی اور کالم نگار کی حیثیت سے میں نے ان تینوں شہروں میں ہونے والی کارروائی میں شرکت کی۔ اس طرح مجھے اپنے کسی حد تک باغیانہ خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ کئی دلچسپ معرکے ہوئے ویسے برٹش کونسل کے پالیسی ڈائیلاگ کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ پاکستان میں انگریزی زبان کی حیثیت، اس کے مقام اور مستقبل کے بارے میں پوری توجہ سے گفتگو کی گئی۔ تعلیمی نظام میں زندگی کے کاروبار میں اور کلچر کے احاطے میں انگریزی کا کیا کردار ہے اس پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ انگریزی کی ترویج اور تعلیم کے لئے برٹش کونسل کی سرگرمیاں قابل ذکر ہیں۔ یوں بھی پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے برطانیہ نے کافی امداد دی ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو قابل تحسین ہیں جہاں تک انگریزی کو سرکاری اور اقتدار کی زبان بنائے رکھنے کا تعلق ہے تو یہ ہمارا اپنا فیصلہ ہے اور اس بات سے تو عمران خان بھی اتفاق کریں گے کہ زبانوں کی جنگ ہم پر امریکہ یا برطانیہ نے مسلط نہیں کی اور کرکٹ بھی ہم اپنی مرضی سے کھیلتے ہیں۔ انگریزی بولنے اور کرکٹ کھیلنے میں ہماری صلاحیت کو دنیا مانتی ہے لیکن یہ جو میں نے انگریزی زبان کو کرکٹ سے ملادیا یہ مناسب نہیں گو یہ دونوں تحفے ہمیں اپنے سابق حکمرانوں سے ملے ہیں۔ انگریزی کے راج میں اب امریکہ کا بڑا ہاتھ ہے کیا اسے ہم اپنے پوشیدہ حکمرانوں کی صف میں جگہ دے سکتے ہیں؟ بہرحال یہ فرق بھی دیکھئے کہ گلیوں میں کھیلنے والا کوئی کم تعلیم یافتہ لڑکا کرکٹ میں اپنا نام پیدا کرسکتا ہے لیکن کسی غریب خاندان کا ذہین بچہ ساری ز ندگی کی جدوجہد کے بعد بھی ایسی انگریزی نہیں بول سکتا جیسی انگریزی عمران خان بولتےہیں۔ یہ ہمارے نظام تعلیم کا جبر ہے کہ سب شہری اس کے لئے برابر نہیں ہیں۔ امیروں اور مقتدر طبقوں کی دنیا بھی الگ ہے اور ان کے بچوں کے تعلیمی ادارے بھی۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ عہد حاضر میں تعلیم کو ذہنی صلاحیت کی بنیاد پر برابری پیدا کرنے کا ہتھیار سمجھا جاتا ہے اور ہمارے ملک میں تعلیم کا نظام نچلے طبقے کے مزید استحصال کا ذریعہ ہے۔

بات بنیادی طور پر انگریزی زبان کے بارے میں ہورہی ہے اس موضوع پر میں اپنے خیالات کا گاہے گاہے اظہار کرتا رہا ہوں۔ اب برٹش کونسل کے ان مذاکروں میں چند باتوں کو دوہرانے کا موقع ملا چند نئے حوالے بھی تھے جو انگریز ہمارے ساتھ تھے وہ میری اس رائے پر چونک پڑے کہ انگریزی پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ میں نے اپنا ایک جملہ اردو میں کہا اور پھر اس کے انگریزی ترجمے کی ضرورت پڑی ۔ میں نے کہا اور یہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ انگریزی ہمارے سر کا تاج بھی ہے اور ہمارے پائوں کی زنجیر بھی۔ یہی بات میں اس طرح بھی کہتا ہوں کہ انگریزی دیوار بھی ہے اور دروازہ بھی۔ دیوار تقریباً سب کے لئے اور دروازہ آبادی کے ایک چھوٹے حصے کے لئے۔ ایسے موقعوں پر خود اپنی کہانی سنانے کی ضرورت بھی پڑجاتی ہے۔ میں نے یہ کہانی سنائی جو موضوع سے جڑی ہوئی تھی کہ کیسے میں نے خود انگریزی سیکھی اور کیسے کراچی میں برٹش کونسل کی لائبریری میری درسگاہ بن گئی۔ میں نے جس سکول میں تعلیم حاصل کی وہ انگلش میڈیم نہیں تھا بلکہ ہماری کلاس کو انگریزی پڑھانے کے لئے کبھی اچھا استاد نہ ملا، پھر اس کے بعد اپنی آوارگی کی وجہ سے میں نے کسی قسم کی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی جب میں نے صحافی بننے کا فیصلہ کیا تو میں نے دیکھا کہ اچھی تنخواہ کام کرنے کے ماحول اور معاشرے میں مقام کے حصول کے لئے اردو صحافت کے مقابلے میں انگریزی صحافت کا پلہ بھاری تھا، تب میں نے انگریزی صحافت میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی، یہ دشوار کام تھا ۔وقت کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سے میرا رشتہ مستحکم ہوتا گیا۔ یہ سوال میں نے اٹھایا کہ کیا جو میں ایک زمانے پہلے کرسکا وہ آج کے نوجوان کے لئے بھی اسی طرح ممکن ہے۔ میرا خیال ہے کہ نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ کی ابتدائی تعلیم اچھی ہو کہ جو اپنی مادری اور ماحول کی زبان میں ہی ہوسکتی ہے تو پھر دوسری زبان سیکھنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں رہتا۔ انگریزی کو ہم دوسری زبان کہتے ہیں۔ دوسری زبان کہاں سے آئے گی جب پہلی زبان نہ آتی ہو۔ یہ دلیل ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جن کے گھروں میں انگریزی بولی جاتی ہے اور ان کے لئے اردو یا کوئی دوسری اپنی زبان نوکروں سے گفتگو کے کام آتی ہے لیکن وہ بچے جو کم آمدنی رکھنے والے خاندانوں میں پلتے ہیں اور وہ غریب بچے جن کے والدین بھی پڑھے لکھے نہیں ہیں ایک غیر ملکی زبان کو اپنی ابتدائی تعلیم کا حصہ کیسے بناسکتے ہیں۔ اب تو مشکل یہ ہے کہ بچے نہ اپنی زبان ٹھیک سے سیکھ پارہے ہیں اور نہ انگریزی ۔اس طرح ہم ایک بے زبان قوم بنتے جارہے ہیں اتنی دہائیوں سے انگلش میڈیم تعلیم کا چرچا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ اکثر لوگ اپنی ڈگریوں کے باوجود نہ اچھی انگریزی لکھ سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ فکری اور تہذیبی معنوں میں جس انحطاط کا شکار ہے اس کی کئی دوسری وجوہات بھی ہیں، پھر بھی تعلیم کے جس نظام سے ہم کھیل رہے ہیں وہ ہماری نجات کا ذریعہ کبھی نہیں بن سکتا۔ اس نظام کی ایک خرابی ضرور یہ ہے کہ انگریزی اقتدار کی زبان بن کر ہمارے راستے میں کھڑی دیوار بھی ہے اور ہمارے پائوں میں پڑی زنجیر بھی۔
 
Top