osamaanwar
مبتدی
- شمولیت
- فروری 06، 2012
- پیغامات
- 9
- ری ایکشن اسکور
- 21
- پوائنٹ
- 0
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
پاکستان میں جاری جہاد کے حوالے سے کچھ شبہات کا ازالہ
مرتب کردہ: انصاراللہ اردو ٹیم
پاکستان میں جاری جہاد کے حوالے سے کچھ شبہات کا ازالہ
مرتب کردہ: انصاراللہ اردو ٹیم
السلام علیکم !
میں اپنے مجاہد بھائیوں کا تہہ ِدل سے احترام کرتا ہوں جو کفار کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ لیکن مجھے ان تمام لوگوں سے نفرت ہے جو پاکستانی فوج کے خلاف لڑرہے ہیں ۔ حالات پہلے ہی اتنے خراب ہوچکے ہیں اور آپ لوگ پاک فوج کو مرتد کہتے ہیں! پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں میں بلیک واٹر کا بھی ہاتھ ہے لیکن کیا پتہ! کہیں آپ بھی ان کے ہاتھوں میں نہ کھیل رہے ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ عام مجاہد بھائی جنت کے لئے شہید ہو رہا ہے، لیکن آپ کو کیا پتہ کہ آپ کس چیز کے لئے لڑ رہے ہیں؟ آپ پہلے افغانستان میں اپنا قبضہ مستحکم کرلیں، پھر پاکستان کی بات کیجئےگا ۔ اسلام ہمیں تحقیق کا حکم دیتا ہے، آپ بھی پہلے دیکھیں ، غور کریں کہ کہیں آپ غلط ہاتھوں میں تو نہیں استعمال ہورہے ؟ آپ کو فنڈ فراہم کرنے والا کون ہے؟ ان کے عزائم کیا ہیں؟ میرے بھائیو! میں ایک عام آدمی ہوں، میرے خاندان میں کسی کا بھی فوج کے ساتھ تعلق نہیں، لیکن میرے بھائیو ! ذرا غور تو کیجئے ! بھارتی، افغان، ایرانی اور امریکی فوج ، پاکستانی مجاہدین کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ کیونکہ آپ ان کا کام آسان بنارہے ہیں ۔ آپ کی تمام ترتوجہ اور پہلی ترجیح امریکا کو افغانستان سے شکست ہونی چاہئے ۔ اب وہ پاکستان میں آپ لوگوں کی آڑ لے کر ڈرون حملے کر رہا ہے جن میں روز درجنوں بے گناہ مسلمان مرتے ہیں۔ خدارا! اپنے آپ کو اڑانے سے پہلے تھوڑا سوچ لیا کریں ۔ والسلام!
جواب:
بے شک قابلِ احترام ہيں وہ پاک باز ہستياں جو اللہ کی راہ میں اپنا تن من دھن اسکی رضا اور اعلائے کلمۃ اللہ کے ليے قربان کرنے میں مصروف جہاد ہيں کہ اللہ کا دين غالب ہو ، تمام باطل اديان مغلوب ہو جائيں ، روئے زمین پر اللہ کی حاکميت کا قيام عمل ميں آجائے اور صرف اسی کا قانون نافذ العمل ہو ۔سورہ حج میں اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے :
جن سے کافر لڑتے ہیں انہیں بھی لڑنے کی اجازت دی گئی ہے اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور بیشک الله ان کی مدد کرنے پر قادر ہے (۳۹) وہ لوگ جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے صرف اس کہنے پر کہ ہمارا رب الله ہے اور اگر الله لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا توگرجاؤں اور مدرسے اورعبادت خانے اور مسجدیں ڈھا دی جاتیں جن میں الله کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے اور الله ضرور اس کی مدد کر ے گا جو اللہ کی مددکرے گابیشک الله زبردست غالب ہے ۔(۴۰)
اس واضح ارشادِ ربانی کے بعد کسی مومن کو وضاحت کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ فوج سے مجاہدین کیوں لڑ رہے ہیں۔
اگر آپ حالات کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ پاکستانی حکومت ، فوج اور اس کی ذیلی ایجنسیوں نے بش کے اعلان کردہ صلیبی جنگ کے فرنٹ لائن اتحاد کو پسند کیا اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی لشکر کا حصہ بنے ۔ جب افغانستان پر حملہ ہوا تو وہاں سے امارت اسلامیہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے عجم و عرب کے مجاہدین کو حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹنا پڑا۔اس وقت ان مظلوم مسلمانوں کے پاس روئے زمین پر کوئی جائے پناہ نہیں تھی ۔ ایسے میں ان قبائلی مسلمانوں نے اپنے گھروں کے دروازے انکے لیے کھول دیے ۔ انکے بیوی بچوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی ۔ اپنی تمام تر خستہ حالی اور غربت و افلاس کے باوجود انصار مدینہ کی سنت کو پھر سے تازہ کیا ۔ ان غیور قبائلی مسلمانوں نے اپنی ایمانی غیرت کے بل بوتے پر اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد و نصرت کی ، اُن کے شانہ بشانہ ہوکر کفر کی عالمی طاقتوں سے نبردآزما ہوگئے یہاں تک کہ پاکستان کی سرکاری جہادی جماعتوں کا دوغلا کردار کھل کر سامنے آگیا ، ان جماعتوں نے جہاد کی عجیب و غریب تاویلیں پیش کیں اور راہِ جہاد سے عملاً راہِ فرار اختیار کی ۔
آزاد قبائل سے تعلق رکھنے والے اللّٰہ کے ان شیروں نے جب شہید نیک محمد رحمہ اللہ کی قیادت میں امریکہ اور اُس کی حواری فوج کے خلاف عَلمِ جہاد بلند کیا تو امریکہ نے براہِ راست قبائل کے ساتھ الجھنے اور ایک نیا محاذ کھولنے سے بہتر سمجھا کہ اپنے آزموده غلام پاکستان كی تجربہ کار فوج کو آزاد قبائل میں فوج کشی پر لگایا جائے کیونکہ وہ اس خطہ کی تاریخ سے بڑی اچھی طرح واقف تھے ۔ اُن کو معلوم تھا کہ یہ خطہ اس وقت بھی آزاد تھا جب عالم اسلام کے اکثر ممالک کفر کی براہِ راست غلامی میں جاچکے تھے اور خلافتِ عثمانیہ کا سقوط ہوچکا تھا ۔ چند سال قبل ملا کنڈ ایجنسی کے ایک گاؤں ”ملاکنڈ“ کے باشندوں نے ایک سیاسی رہنما سے شکایت کی کہ ملاکنڈ کئی نسلوں سے ہمارا گاؤں ہے۔ اس کی مٹی میں ہمارے آباؤو اجداد کی ہڈیاں ملی ہوئی ہیں،مگر اب پاکستانی فوج ہمیں اپنے گاؤں سے بے دخل کرنا چاہتی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہم نے ۱۸۸۷ءمیں اس علاقے کو فتح کیاتھا، اس لیے یہ ہمارا مفتوحہ علاقہ ہے۔ پاکستان کی وزارت دفاع نے ایک خط میں انھیں یہ لکھ دیا تھا کہ ہم نے اس علاقے کو ۱۸۸۷ءمیں فتح کیا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی فوج آج بھی اپنے آپ کو برطانوی سامراج کی وارث سمجھتی ہے اور ان کے مفتوحہ علاقوں کو اپنا مفتوحہ علاقہ قرار دیتی ہے اورانہی کے بنائے ہوئے قوانین اور طریقہ کار کے مطابق آج تک اپنے تمام معاملات کو چلارہی ہیں۔ اپنی اس تربیت کی بنا پر پاکستانی فوج کو امریکی فوج کے حلیف کے طور پر اپنی ہی قوم کو سوات ، باجوڑ ،مہمند ،وزیرستان ،قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں بم باری اور گولہ باری کا نشانہ بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔اس وقت لاکھوں لوگ اِس فوج کے ہاتھوں اپنے گھروں سے باہر نکالے گئے ہیں اورسخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم تین نسلوں سے سپاہیانہ کردار ادا کررہے ہیں ۔یہ فوج پاکستان کی محافظ نہیں بلکہ رائل انڈین آرمی کی وارث ہے۔ (روزنامہ ’’جسارت ‘‘ کراچی ، ۲۲ نومبر ۲۰۰۸ء)
ان تمام چیزوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ نے پاکستان کوحکم دیا کہ قبائل میں پناہ گزین القاعدہ ، طالبان مجاہدین اور انکی قیادت کو گرفتار کرکے ہمارےحوالے کیا جائے ۔ یہ نسلی غلام فوج اپنے آقا کا حکم اور انعام کا لالچ پاتے ہی قبائل پر چڑھ ددڑی ۔ رائل انڈین آرمی کی عسکری وارث َغلام فوج نے اپنی عددی و عسکری برتری کے نشے میں قبائل کے ان شیروں کو حکم دیا کہ عرب و عجم سے اللّٰہ کی رضا کی خاطر ہجرت کرکےآنے والے اِن مہاجرین کو ہمارے حوالے کر دو ۔تاکہ ہم اپنے آقا امریکا سے اُن کی قیمت وصول کرسکیں اور اُن کی خوشنودی حاصل کر سکیں ۔
لیکن غیرت و حمیت سے معمور قبائل کے اِن شیروں کی طرف سے یہ پیغام آیا کہ اگر ہمارے باپ کا قاتل بھی ہم سےپناہ طلب کرے تو ہم اسکو کبھی بھی اسکے دشمن کے حوالے نہیں کرتے ۔ یہ تو صحابہ رضی اللہ عنہم کے خانوادوں سے تعلق رکھنے والے مجاہدین ہیں ، انکو تمہارے حوالے کیسے کر دیں!
نسل در نسل غلام رہنے والی اس نام نہاد پاک فوج نے قبائل کو اِس گستاخی کی سزا دینے کا فیصلہ کیا اور ۱۵۰،۰۰۰ کرائے کے سپاہیوں کو اپنے دیرینہ حریف ہندوستان کی سرحد سے ہٹا کر قبائل پر حملہ کر دیا ۔ ایسے میں ایمان و عزیمت کے پیکر اپنے مہاجر بھائیوں کی حفاظت کے لیے سیسہ پِلائی ہوئی دیوار کی مانند ڈٹ گئے ۔ قبائلی ابطالِ اسلام نے وہ لازوال قربانیا ں پیش کیں کہ انسانی تاریخ میں اسکی مثال ملنا مشکل ہے ۔انہیں قربانیوں کی برکت سے انہوں نے عرب دنیا کے نامور علمائے حق سے وہ عقیدہ سیکھا جس میں انکے لیے ایمان اور کفر بالکل واضح ہو گیا اور یوں یہ دفاعی جنگ نفاذ اسلام کی بابرکت جنگ کی صورت اختیار کر گئی جس میں ایک طرف یہ کفر یہ نظام ، مالِ حرام پر پلنے والی اسکی محافظ مرتد فوج اپنے امریکی آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کررہی ہے ، جس کے مد مقابل اللّٰہ کی رضا کی خاطر اسلام کی سربلندی کی غرض سے دُنیا بھر کے سرفروش مجاہدین موجود ہیں ۔
اگر کسی کے لئے اِس بات کا سمجھنا دشوار ہے کہ آخر کسی کلمہ گو کے لئے مرتد کا لفظ کیونکر استعمال ہوسکتا ہے تو اسکے لیے مختصر وضاحت یہ ہے کہ مرتداصول دین کی ایک تسلیم شدہ اصطلاح ہے کہ جب کوئی مسلمان شخص کسی کفریہ قول و فعل کا مرتکب ہو جاتا ہے تو اسکو مرتد کہا جاتا ہے ۔ علماء نے نواقضِ اسلام (وہ کام جن کے انجام دینے سے کوئی کلمہ گو دین سے خارج ہوجاتا ہے) کی ایک فہرست مرتب کی ہے جن میں سے ایک امر مسلمانوں کے مقابلے پر کفار کی مدد کرنا ہے، خواہ یہ مدد زبانی ہی کیوں نہ ہو ، اس کے علاوہ دیگر متعدد ایسے امور اِس ناپاک مرتد فوج کا خاصہ ہیں جن سے کوئی مسلمان دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے مثلاً شریعتِ الٰہی کے عملی نفاذ میں روڑے اٹکانا ، اُس کی جگہ کسی نظام کفر کو لوگوں پر بزور قوت نافذ کرنا اور کسی مسلمان کو اسکے اسلام کی وجہ سے قتل کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔
آپ کے سوال کا ایک حصہ مجاہدین پر دبے لفظوں میں نامعلوم قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے اور اُن کے مذموم مقاصد کی غرض سے استعمال ہونے کے الزام پر مشتمل ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اِس خطے میں استعماری طاقتوں کے آلۂ کار اور اُن کے اصل کارندے کون ہیں ؟ وہ طبقہ جو اُن سے اپنی جان و مال سے جہاد کررہا ہے یا وہ نسل در نسل غلام پاکستانی فوج جس کی تاریخ ہی استعمار کی غلامی سے عبارت ہے اور جو ، اب بھی تاریخ کی سب سے بڑی صلیبی جنگ کی فرنٹ لائن اتحادی ہے۔؟ ایک امریکی اخبار نے ۲۵ فروری ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی طالبان کے خلاف متحد ہیں اور دونوں اداروں سے تعلق رکھنے والے افسران(مجاہدینِ اسلام کیخلاف ہونے والی) بعض کارروائیوں کی کامیابیوں کا جشن بھی اکٹھے ہی مشترکہ طور پر مناتے ہیں ۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سی آئی اے القاعدہ اور طالبان کے خلاف اس جنگ کو پاک افغان سرحدی علاقوں سے پشاور اور کوئٹہ تک لے گئی ہے اور ماضی کی نسبت سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تعلقات زیادہ بہتر ہیں ۔اس کے علاوہ پاکستانی فوج کے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے مطابق امریکی فوج اور نجی سکیورٹی کمپنی بلیک واٹر کو اسلام آباد کے میریٹ اور سیرینا ہوٹلوں اور پشاور کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں مشترکہ ڈرون پروگرام چلانے کے لئے نہ صرف جگہ، خفیہ معلومات، تحفظ فراہم کیا گیا بلکہ ان کے ساتھ مل کر اس پروگرام کو چلایا جا رہا ہے۔
برائے مہربانی! ذرا آنکھیں کھول کر یہ ویڈیو کلپ بھی دیکھ لیجئے کہ ناپاک فوج کا عرب مجاہدین سے کیا سلوک ہے:
ملاحظہ کیجئے:Free File Sharing Made Simple - MediaFire
کیا قبائل کے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے ذریعے موت مسلط کرنے والے کلمہ گو مسلمان ہیں؟
ملاحظہ کیجئے:
Free File Sharing Made Simple - MediaFire
Free File Sharing Made Simple - MediaFire
رہی یہ بات کہ ان کے پاس فنڈ کہاں سے آتا ہے تو اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جہاں سے اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں گا ۔ مجاہدین کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ کفر کی عالمی فوج اور اُس کے مقامی آلۂ کار مرتد فوجوں سے چھینا گیا مالِ غنیمت ہے اور پھر جیسا کہ خود اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
ھُوَالَّذِی اَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِاْلمُؤمِنِیْن ْ۔
اے نبی ﷺ! وہ رب وہی ہے جس نے آپ کی مدد کی
اپنی تائید سے اور مومنین کی تائید کے ذریعے سے ۔
اے نبی ﷺ! وہ رب وہی ہے جس نے آپ کی مدد کی
اپنی تائید سے اور مومنین کی تائید کے ذریعے سے ۔
تو ہمارا دوسرا سہارا اہلِ ایمان ہیں ۔ یہ امت ہے جو ہم سے محبت کرتی ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ یہ ہمارے پیچھے کھڑی ہے ۔ جس کی دعاؤں ، جس کے اموال اور جس کی مددو نصرت سے یہ جہاد جاری ہے اور انشاء اللّٰہ کفر و شرک کی بالادستی خاک میں ملانے تک جاری رہے گا ۔
اب سوال یہ کہ پہلے افغانستان میں پہلے امریکہ کو شکست دو پھر پاکستان کی فکر کرنا ۔
تو میرے خیال میں مذکورہ بالا بیان کردہ حقائق کے بعد اس بات کا جواب دینے کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن سوالات کی نوعیت سے سوال کنندہ کے فہم کا ادراک ہوتا ہے ، ا س لیے پھر وضاحت کروں گا کہ طالبانِ پاکستان نے ہی تو امارتِ اسلامی افغانستان کے سقوط کے بعد نئے سرے سے جہاد کا آغاز کیا تھا ۔ درحقیقت افغانستان اور پاکستان تو دونوں ایک ہی محاذ ہیں اور دونوں جگہ جاری جنگ کوئی علیحدہ جنگ نہیں ہے ، ایک ہی جنگ ہے ۔ یہ تو مغرب سے آئے ہوئے ان قوم پرستانہ اور وطن پرستانہ تصورات کا کرشمہ ہے ۔ ان قومی ریاستوں کے تصور کا کرشمہ ہے جو ہمارے ذہنوں میں مغرب سے درآمد کرکے ڈالا گیا ہے کہ ہم شعوراً یا لاشعوراً اپنے آپ کو انہی خانوں میں بند رکھ کر سوچنے پر مجبور رہتے ہیں اور اس جغرافیائی تقسیم سے جو کہ ایک فطری تقسیم نہیں بلکہ کفر کی بنائی ہوئی تقسیم ہے ، ہم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو باہر نکال نہیں پاتا۔ بات صرف اتنی نہیں کہ صرف ہمیں ہی اس حقیقت کا ادراک ہے کہ یہ سارا علاقہ آپس میں ایک مربوط خطہ ہے اور اس کے حالات ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں ، دشمن کو ہم سے بڑھ کر اس کا احساس و ادراک ہے ۔ باوجود اس کے کہ اس نے ہمیں ان جغرافیائی حدود کا پابند کردیا ہے ، وہ خود ان کی پابندی ہرگز نہیں کرتا ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی قریب میں اوباما نے بھی اس خطے کے لئے اپنی نئی پالیسی یا جنگی حکمتِ عملی کا نام پاک افغان حکمتِ عملی (Afpak Strategy) رکھا ہے ۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے دشمن بھی اس پورے خطے کو ایک محاذ کے طور پر دیکھتے ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ جو شخص بھی ماضی قریب کے جہاد کی تاریخ سے واقف ہو ، وہ یہ جانتا ہے کہ روس کے خلاف جہاد کے دوران وہ تمام افغانی کمیونسٹ جنہوں نے روس کا ساتھ دیا تھا ، ان کے خلاف قتال اور ان کو نشانہ بنانے کے جواز کا فتویٰ صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے علماء نے دیا تھا ۔ اور اس کے بعد ابھی بھی جو جہاد افغانستان میں جاری ہے ، اس میں افغانستان بھر کے علمائے حق ، پاکستان کے علمائے حق اور امت کے دیگر علاقوں کے علماء بھی اس بات پر مطمئن ہیں کہ امریکا کا ساتھ دینے والی افغان ملی فوج کے خلاف قتال صرف واجب ہی نہیں بلکہ اس کی فرضیت و اہمیت فرضِ عین کے درجے میں ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہیے کہ کیا پاکستانی فوج بھی امریکہ کی اتحادی نہیں ؟ اگر وہ افغان ملی فوج جس کی کل تعداد پاکستانی فوج کی تعداد کے چوتھائی حصے کے برابر بھی نہیں بنتی ، اور جس کا اپنے عسکری تجربے ، سازوسامان اور اپنی مہارت کے اعتبار سے کسی طرح بھی پاکستانی فوج سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر اس جرم کی بنیاد پر اُس کے خلاف قتال واجب ہے اور امارتِ اسلامیہ کے قیام کی خاطر جہاد کرنے والے تمام مجاہدین اس کو نشانہ بناتے ہیں اور اس کے اوپر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا تو اس پاکستانی فوج کے خلاف قتال عین اسی وجہ سے کیوں نہ واجب ہو ؟ جبکہ اس کی قوت و طاقت بھی ان سے بڑھ کر ہے اور اس کا اس صلیبی جنگ میں کردار بھی ملی فوج سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ۔ یہ سادہ سی بات ہے جس پر کوئی بھی آنکھیں کھول کر غور کرے تو نتیجہ نکالنا اور اس جہاد کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا ۔
امید کرتا ہوں کہ اتنی وضاحت کے بعد کسی مزید سوال کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔۔۔۔۔۔
آخر میں اس دعا پر اختتام کرتا ہوں ۔۔۔۔
اَلَّلھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اِتّبَاعَہ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ باطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ ۔
اے اﷲ،ہمیں حق کو حق کرکے دکھا اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطافرما ،اور ہمیں باطل کو باطل کرکے دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔آمین ۔یارب العالمین۔
ڈاؤن لوڈ کریں:اے اﷲ،ہمیں حق کو حق کرکے دکھا اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطافرما ،اور ہمیں باطل کو باطل کرکے دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔آمین ۔یارب العالمین۔
پی ڈی ایف،یونی کوڈ