• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد 'فی الحال مؤخر'

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد 'فی الحال مؤخر'
پاکستان میں کل سات ہزار کے قریب قیدیوں پر سزائے موت کے مقدمات ہیں

پاکستان کی حکومت نے ملک میں سزائے موت کے قیدیوں کو دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد مؤخر کر دیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صدر آصف علی زرداری کے ملک واپس لوٹنے پر ان سے اس سلسلے میں بات چیت کریں گے۔

صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صدر آصف علی زرداری کو سزائے موت کے دو مجرمان کی جانب سے رحم کی اپیلیں موصول ہوئی تھیں تاہم آئین کے تحت صدر خود ہی ان کی سزائیں مؤخر نہیں کر سکتے۔ چنانچہ صدر نے ان اپیلوں کو حکومت کے پاس بھجوایا ہے اور وزیر اعظم نواز شریف سے اس معاملے پر گفتگو کے لیے کہا ہے جس کے بعد حکومت نے صدر کی وطن واپسی تک یہ سزائیں مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی صدر دو بار وزیرِاعظم کو اس حوالے سے ملاقات کے لیے کہہ چکے ہیں تاہم وزیرِاعظم ہاؤس سے اس سلسلے میں بھیجے گئے خطوط کا کوئی جواب نہیں آیا۔

صدارتی ترجمان کا کہنا تھا کہ گذشتہ حکومت میں پی پی پی کی کوشش تھی کہ اگر ملک سے سزائے موت ختم نہیں کی جا سکی تو کم از کم ایسے جرائم کی تعداد میں کمی کی جائے جن میں پاکستان کے قانون کے تحت سزائے موت دی جا سکتی ہے۔

مسلم لیگ نواز کے رہنما پرویز ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک جمہوری حکومت ہے جو آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے اور کسی دہشت گرد یا تنظیم سے خوفزدہ نہیں ہو گی۔

پرویز ملک نے کہا کہ 'ہم آئین کے مطابق معاملات کو چلانے کی کوشش کریں گے اور جو وقت کا قانون ہے اس کے مطابق چلیں گے۔'

انہوں نے کہا کہ بعض خدشات نے اس لیے جنم لیا کیونکہ بہت ساری رحم کی اپیلیں صدر آصف علی زرداری کے پاس پڑی ہیں جن پر انہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ جن میں دہشت گرد بھی شامل ہیں ان کی پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد رکا ہوا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت ان سزاؤں پر عملدرآمد کا ارادہ رکھتی ہے تو انہوں نے کہا کہ 'دیکھیں آپ ہمیشہ کے لیے تو ان سزاؤں پر عمل در آمد تو نہیں روک سکتے۔'

پرویز ملک نے مزید کہا کہ 'یہ کوئی قانونی سقم تھے جن کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی اور یہ ایک مسئلہ ہے جس کے بارے میں فیصلہ ہونا باقی ہے'۔

ہیومن رائٹس واچ کا خط
ہیومن رائٹس واچ نے پاکستانی صدر، وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے نام خط میں مطالبہ کیا ہے کہ

× فوری طور پر تمام سزائے موت کے احکامات پر عملدرآمد روک دیا جائے اور اس بارے میں ایک خصوصی قانونی مہلت کا طریق اپنایا جائے

× سزائے موت کا قانون مقامی قوانین سے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے

× آئی سی سی پی آر کے سیکنڈ افیشل پروٹکول کی پاسداری کی جائے۔

جب ان سے طالبان کی جانب سے دھمکیوں کے حوالے سے پوچھا گیا کہ کیا ان دھمکیوں کی وجہ سے تو سزائوں پر عملدرآمد موخر نہیں کیا جا رہا تو ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کسی گروہ سے بلیک میل تو نہیں ہوتی، یہ قانون تو چلتا رہتا ہے اور اس کو چلنا چاہیے'۔

'جو کارروائی چل رہی تھی وہ سب رک گئی تھی اور اس کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے بات ہوئی تھی کہ اس کو دوبارہ دیکھا جائے اور کس طرح اس کی روٹین ٹھیک کی جائے اور اس میں کیا حدود ہونی چاہیں۔ ایوان صدر بھی اگر کسی کو معافی دیتا ہے تو وہ حالات کو دیکھ کر معافی دے گا۔'

سزاؤں پر عملدرآمد میں تاخیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'اگر عدالتوں کے فیصلے پر ایوانِ صدر میں پانچ پانچ سال تک فیصلہ نہ ہو سکے تو یہ کوئی گڈ گورننس نہ ہوئی۔ گُڈ گورننس تو یہ ہے کہ مثبت یا منفی جو بھی فیصلہ ہے وہ کیا جائے۔'

اس سے پہلے وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ بین الاقوامی دباؤ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے احتجاج کے باوجود سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد کرے گی۔

یاد رہے کہ صدر آصف علی زرداری نے منتخب ہونے کے بعد سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ ان کے اس فیصلے پر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ صدر کو آئین کے تحت اختیار ہے کہ وہ عدالت کی طرف سے کسی بھی مجرم کو دی گئی پھانسی پر عمل درآمد روک سکتے ہیں یا پھر سزا کو عمر قید میں تبدیل یا سزا میں تخفیف کر دیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق دور حکومت نے سزائے موت کے قانون کو ختم کر کے اُسے عمر قید میں تبدیل کرنے سے متعلق قانون سازی کے لیے کچھ اقدامات تو کیے تھے لیکن اسے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا۔

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق اس وقت تک انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت آج تک پاکستان میں کسی کو بھی دی گئی موت کی سزا پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ جن مجرمان کو اس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا وہ یا تو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیے گئے یا پھر اُن میں سے کچھ مجرم جیلوں پر ہونے والے حملوں کے حالیہ واقعات میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

مقامی میڈیا پر یہ خبریں آ رہی تھیں کہ جی ایچ کیو حملے کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے ڈاکٹر عثمان کو آئندہ چند روز میں تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا جس کے بارے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ اگر ایسا ہوا تو پنجاب حکومت کے خلاف کارروائیاں کی جائیں گی۔

ڈاکٹر عثمان ان دنوں فیصل آباد کی سینٹرل جیل میں ہیں۔ جیل سپرنٹینڈینٹ طارق بابر کے مطابق ڈاکٹر عثمان کو موت کی سزا پر عمل درآمد سے متعلق کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی متعقلہ عدالت سے اُن کے بلیک وارنٹ حاصل کیے گئے ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ سیاسی حکومتیں اس لیے سزائے موت کے قانون کو ختم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں کیونکہ اُنہیں معلوم ہے کہ اگر ایسا کیا تو مذہبی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں اُن کے خلاف ہو جائیں گی۔

عالمی تنظیم ہومن رائٹس واچ نے صدر، وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ 'آئی سی جے اور ہیومن رائٹس واچ کا ماننا ہے کہ جو لوگ دہشت گردی میں ملوس ہیں انہیں اُن آزاد اور خودمختار عدالت کے سامنے سزا دینی چاہیے جو بین الاقوامی معیار پر پورا اترتی ہیں۔ تاہم ہر صورتحال میں ہم سزائے موت کے خلاف ہیں کیونکہ یہ بنیادی طور پر ایک ظلم ہے اور ایسی نہ بدلنے والی سزا ہے جس سے کسی بھی انسان کے زندہ رہنے کا بنیادی حق اس سے چھین لیا جاتا ہے۔'

'دنیا میں 150 ایسے ممالک ہیں جہان سزائے موت کو قانونی طور پر یا عملاً بند کر دیا گیا ہے۔ سزائے موت پر حکم التوا اٹھانے کا فیصلہ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے ایک دھچکا ہے۔ یہ فیصہ اور بھی افسوسناک ہے کیونکہ اس وقت پاکستان میں 7000 افراد ایسے ہیں جنہیں موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔'

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں ستائیس ایسے جرائم ہیں جن کے لیے سزائے موت کے سزا دی جاتی ہے ان میں توہین رسالت، زنا، اغوا، ریپ، خواتین کے ساتھ زیادتی، منشیات سمگل کرنا، اسلحے کا کاروبار کرنا اور ریلوے سسٹم کو تباہ کرنا شامل ہے۔ ان میں سے کئی جرائم ایسے ہیں جو آئی سی سی پی آر کے آرٹیکل چھ کے مطابق سنگین جرائم نہیں ہیں۔

بی بی سی: پير 19 اگست 2013
 
Top