بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
کراچی — گزشتہ دنوں کراچی شہر میں پاکستان کے پہلے "ماحولیاتی میوزیم" کا افتتاح ہوا، جس میں ملک میں بڑھتی ہوئی آلودگی کو کم کرنے کے لیے کچرے اور فاضل اشیاء کے استعمال کے مختلف طریقوں کو متعارف کرایاگیا ہے۔
سوکھی گھاس اور لکڑیوں سے بنی چار دیواری سے بنائے گئے میوزیم میں اندر داخل ہوتے ہی زمین سے کئی فٹ اوپر ہوا میں لہراتا ہوا ایک کھیت تھا جہاں کئی فٹ اونچی بلندی پر پالک، پیاز اور دیگر سبزیوں کے بیجوں کو پرانی استعمال شدہ پولیتھین بیگز میں باندھ کر لکڑی اور رسیوں کی مدد سے زمین سے اوپر لٹکایاگیا ہے۔
گل بہاو تنظیم کی چیئرپرسن نے وی او اے کو بتایا کہ فضلے سے کھاد بناکر اس میں بیجوں کو شامل کرکے اسے شاپنگ بیگ کا استعمال کیا گیا ہے۔ کراچی میں جہاں زیادہ تر فلیٹ اور پلازہ بنانے کے رجحان میں اضافہ کے ساتھ زمین بہت کم اور مہنگی ہے اور سبیزیاں اگانے کے لیے زیادہ جگہ درکار نہیں اس طریقے سے کم زمین میں زیادہ سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں اس طریقے کو " آسمانی کھیت" کا نام دیاگیا ہے ۔
میوزیم کے دوسری طرف 'ایندھن پیک' میں لکڑی اور کپڑے کو ایک سانچے میں ڈال کر رکھا گیا ہے۔ یہ طریقہ بھٹیوں میں جلانے کے لیے ایندھن کا کام دیتا ہے جس سے بجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔
فیکٹریوں سے نکلنے والا کیمیکل ملا پانی انسانی صحت کے لیے زہر سے کم نہیں اور جب یہی پانی سمندر میں جاکر ملتا ہے تو آبی حیات کی ہلاکتوں کا باعث بھی بن رہا ہے۔
ماحولیاتی میوزیم کے پیش کیے گئے نئے طریقے میں اس پانی کا استعمال بتایا گیا ہے کہ اس پانی سے ایسے درخت اگائے جائیں جن سے حاصل ہونےوالی لکڑی کو عمارتی کاموں اور فرنیچر سازی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
'واسٹک بلاکس' بنانے کا طریقہ بھی میوزیم کا حصہ ہے۔جس میں استعمال شدہ صاف ستھرے پولیتھین بیگوں کو کچرے کے ساتھ جلانے کے بجائے اگر ان کو اکٹھا کرکے بلاک کی شکل میں بنادیاجائے تو ان سے بہت سے کام لئے جاسکتے ہیں۔
میوزیم میں شامل 'صفائی کمائی بینک ' اپنی نوعیت کا ایک منفرد بینک ہےجہاں شہری گھروں اور فیکٹریوں سے نکلنےوالا فالتو سوکھا کچرہ اور سامان دیکر پیسے حاصل کرتے ہیں۔
میوزیم میں 'چورہ چارہ' طریقہ بھی پیش کیاگیا ہے جو گھروں اور ہوٹلوں سے نکلنےوالے سبزی اور پھلوں کے چھلکوں کو خشک کر کے جانوروں کی خوراک کے لئے چارے کا کام دے سکتا ہے۔
سورج کی روشنی میں چمچماتا 'چاندی گھر' کسی ٹھنڈی چھاؤں سے کم نہیں۔
نرگس لطیف اس چاندی گھر کے حوالے سے وی او اے کو بتاتی ہیں کہ اسے پلاسٹک بیگز اور مختلف اشیاء کی پیکنگ میں استعمال ہونے والےریپرز ملاکر بلاکس اور لکڑیوں کی مدد سے بنایاگیا ہے جو شیلٹر ہوم کے طور پر استعمال کیاجاسکتا ہے۔ ادارے کی جانب سے ملک میں آنےوالے زلزلے اور سیلاب کے متاثرین کیلئے 70 کے قریب چاندی گھر بناکر دیے جاچکے ہیں۔
میوزیم کے قیام کے بارے میں نرگس لطیف وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتاتی ہیں کہ وہ گزشتہ 19سالوں سے کچرے اور فاضل اشیا پر ریسرچ کررہی ہیں کہ کونسی چیز کہاں استعمال میں لائی جائے، اور کچرے کے طور پرنہ جلایاجائے اور ماحولیاتی آلودگی کو کسی حد تک کم کیا جاسکے۔
نرگس مزید کہتی ہیں کہ "بیرون ممالک تو گاربیج کو بہتر سے بہترطور پر استعمال میں لایاجاتا ہے مگر افسوس پاکستان میں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی، ایک اندازے کے مطابق فیکٹریوں اور گھروں کے کباڑ، غیر ضروری اشیا اور کچرہ کی یومیہ قیمت 4 ہزار سے 4 لاکھ تک ہے جو ضائع ہورہاہے۔ اگر ملک کے بےروزگار افراد اس کام کو اختیار کریں تو نہ صرف انھیں روزگار میسر آجائے بلکہ ماحول میں آلودگی میں بھی کمی آسکےگی"۔
ربط
سوکھی گھاس اور لکڑیوں سے بنی چار دیواری سے بنائے گئے میوزیم میں اندر داخل ہوتے ہی زمین سے کئی فٹ اوپر ہوا میں لہراتا ہوا ایک کھیت تھا جہاں کئی فٹ اونچی بلندی پر پالک، پیاز اور دیگر سبزیوں کے بیجوں کو پرانی استعمال شدہ پولیتھین بیگز میں باندھ کر لکڑی اور رسیوں کی مدد سے زمین سے اوپر لٹکایاگیا ہے۔
گل بہاو تنظیم کی چیئرپرسن نے وی او اے کو بتایا کہ فضلے سے کھاد بناکر اس میں بیجوں کو شامل کرکے اسے شاپنگ بیگ کا استعمال کیا گیا ہے۔ کراچی میں جہاں زیادہ تر فلیٹ اور پلازہ بنانے کے رجحان میں اضافہ کے ساتھ زمین بہت کم اور مہنگی ہے اور سبیزیاں اگانے کے لیے زیادہ جگہ درکار نہیں اس طریقے سے کم زمین میں زیادہ سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں اس طریقے کو " آسمانی کھیت" کا نام دیاگیا ہے ۔
میوزیم کے دوسری طرف 'ایندھن پیک' میں لکڑی اور کپڑے کو ایک سانچے میں ڈال کر رکھا گیا ہے۔ یہ طریقہ بھٹیوں میں جلانے کے لیے ایندھن کا کام دیتا ہے جس سے بجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔
فیکٹریوں سے نکلنے والا کیمیکل ملا پانی انسانی صحت کے لیے زہر سے کم نہیں اور جب یہی پانی سمندر میں جاکر ملتا ہے تو آبی حیات کی ہلاکتوں کا باعث بھی بن رہا ہے۔
ماحولیاتی میوزیم کے پیش کیے گئے نئے طریقے میں اس پانی کا استعمال بتایا گیا ہے کہ اس پانی سے ایسے درخت اگائے جائیں جن سے حاصل ہونےوالی لکڑی کو عمارتی کاموں اور فرنیچر سازی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
'واسٹک بلاکس' بنانے کا طریقہ بھی میوزیم کا حصہ ہے۔جس میں استعمال شدہ صاف ستھرے پولیتھین بیگوں کو کچرے کے ساتھ جلانے کے بجائے اگر ان کو اکٹھا کرکے بلاک کی شکل میں بنادیاجائے تو ان سے بہت سے کام لئے جاسکتے ہیں۔
میوزیم میں شامل 'صفائی کمائی بینک ' اپنی نوعیت کا ایک منفرد بینک ہےجہاں شہری گھروں اور فیکٹریوں سے نکلنےوالا فالتو سوکھا کچرہ اور سامان دیکر پیسے حاصل کرتے ہیں۔
میوزیم میں 'چورہ چارہ' طریقہ بھی پیش کیاگیا ہے جو گھروں اور ہوٹلوں سے نکلنےوالے سبزی اور پھلوں کے چھلکوں کو خشک کر کے جانوروں کی خوراک کے لئے چارے کا کام دے سکتا ہے۔
سورج کی روشنی میں چمچماتا 'چاندی گھر' کسی ٹھنڈی چھاؤں سے کم نہیں۔
نرگس لطیف اس چاندی گھر کے حوالے سے وی او اے کو بتاتی ہیں کہ اسے پلاسٹک بیگز اور مختلف اشیاء کی پیکنگ میں استعمال ہونے والےریپرز ملاکر بلاکس اور لکڑیوں کی مدد سے بنایاگیا ہے جو شیلٹر ہوم کے طور پر استعمال کیاجاسکتا ہے۔ ادارے کی جانب سے ملک میں آنےوالے زلزلے اور سیلاب کے متاثرین کیلئے 70 کے قریب چاندی گھر بناکر دیے جاچکے ہیں۔
میوزیم کے قیام کے بارے میں نرگس لطیف وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتاتی ہیں کہ وہ گزشتہ 19سالوں سے کچرے اور فاضل اشیا پر ریسرچ کررہی ہیں کہ کونسی چیز کہاں استعمال میں لائی جائے، اور کچرے کے طور پرنہ جلایاجائے اور ماحولیاتی آلودگی کو کسی حد تک کم کیا جاسکے۔
نرگس مزید کہتی ہیں کہ "بیرون ممالک تو گاربیج کو بہتر سے بہترطور پر استعمال میں لایاجاتا ہے مگر افسوس پاکستان میں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی، ایک اندازے کے مطابق فیکٹریوں اور گھروں کے کباڑ، غیر ضروری اشیا اور کچرہ کی یومیہ قیمت 4 ہزار سے 4 لاکھ تک ہے جو ضائع ہورہاہے۔ اگر ملک کے بےروزگار افراد اس کام کو اختیار کریں تو نہ صرف انھیں روزگار میسر آجائے بلکہ ماحول میں آلودگی میں بھی کمی آسکےگی"۔
ربط