کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
پاکستان کے وہ 35 شہر جہاں آپ قانونی طور پر سمگل شدہ گاڑی چلا سکتے ہیں، دلچسپ تفصیلات سامنے آ گئیں
روزنامہ پاکستان، 04 جولائی 2016لاہور (شہباز اکمل جندران/ خصوصی نمائندہ) ملک کے 35 شہروں کی مقامی انتظامیہ کی طرف سے سمگل شدہ گاڑیاں چلانے کی قانونی اجازت دئیے جانے سے دستور پاکستان، کسٹم ایکٹ، موٹر وہیکلز آرڈیننس اور امپورٹ پالیسی کو عملی طورپر چیلنج کا سامنا ہے۔ گلگت بلتستان، فاٹا، فرنٹئیر ریجنز، کے پی کے اور بلوچستان کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات پر مشتمل ان شہروں کی مقامی انتظامیہ اور پولیس نے سمگل شدہ لاکھوں گاڑیوں کو معمولی فیس کے عوض خود ساختہ طریقے سے رجسٹرڈ کرتے ہوئے قانونی حیثیت دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جس سے ایک طرف حکومتی رٹ کو سوالیہ نشان کا سامنا ہے تو دوسری طرف کسٹم ڈیوٹی کی مد میں قومی خزانے کو ہر سال کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوتا ہے۔
روزنامہ پاکستان کی تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ موٹر وہیکلز آرڈیننس 1965 کے سیکشن 23 کے تحت ہر گاڑی کی رجسٹریشن لازمی ہے۔ اور مسلح افواج کی تیر کے نشان والی گاڑیوں کے سوا ایمبولینس اور روڈکنسٹرکشن وہیکلز سمیت ہر طرح کی گاڑیاں رجسٹریشن کے بعد ہی چلائی یا سٹرکوں پر لائی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح 1973 کا آئین بھی ملک میں غیر قانونی اقدامات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اور آئین و قانون پر عمل در آمد کو یقینی بنانے پر زور دیتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 142(C) اور شیڈول چار کے مطابق گاڑیوں کی رجسٹریشن کا اختیار صوبوں کو دیا گیا ہے۔ جبکہ امپورٹ پالیسی اور کسٹم ایکٹ 1969 کے مطابق بیرون ملک سے پاکستان در آمد کی جانے والی گاڑیاں تمام فیسیں اور ڈیوٹیاں ادا کرنے کے بعد ہی رجسٹرڈ کی جا سکتی ہیں تاہم ملک کے 35 ایسے شہر ہیں جہاں سمگل شدہ گاڑیاں چلانے کی نہ صرف قانونی طورپر اجازت دی جاتی ہے۔
یہ بھی علم میں آیا ہے کہ کے پی کے سے متصل وفاقی زیر انتظام علاقہ جات، خیبر ایجنسی، کرم ایجنسی، مہمند ایجنسی، ارکزئی ایجنسی ، باجوڑ ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے علاوہ کے پی کے کی صوبائی حکومت کے زیر انتظام پاٹا کے اضلاع، چترال، اپر دیر، لوئر دیر، سوات و کالام، کوہستان، مالا کنڈ اور مانسہر ہ سے ملحق قبائلی علاقہ جات کے علاوہ کے پی کے سے ہی ملحق بنوں، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، ٹانک اور پشاور کے فرنٹئیر ریجنز میں سمگل شدہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ اور انہیں دھڑلے سے NCPٰ ( نان کسٹم پیڈ) کے انگریزی حروف کے ساتھ دیگر نمبر الاٹ کیا جاتا ہے اور یہ عمل مقامی انتظامیہ اور پولیس کرتی ہے۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان میں ژوب، ضلعی لورالائی (دکی تحصیل کے سوا) تحصیل دالبدین، کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کے علاقہ جات میں بھی یہ پریکٹس جاری ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان کے تمام 10 اضلاع گلگت ڈویژن کے ضلع گلگت، غذر، ہنزہ اور نگر، بلتستان ڈویژن کے ضلع گھانچی، شگر ، خامانگ اور سکردو اور دیامر ڈویژن کے ضلع دیامر اوراستور میں انتہائی معمولی فیس کے عوض نان کسٹم پیڈ یا سمگل شدہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔اور ایسے علاقوں میں کسٹم حکام کو کارروائی کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔
ذرائع کے مطابق متذکرہ بالاعلاقہ جات میں اکثر مقامات پر کسٹم کے دفاتر، چیک پوسٹیں اور انٹیلی جنس ٹیمیں موجود ہیں۔ لیکن وہ مقامی انتظامیہ اور پولیس کے اس خلاف آئین و قانون عمل اور عوامی دباﺅ کے سامنے بے بس ہیں۔ جس سے ایک طرح حکومتی رٹ کو چیلج کا سامنا ہے تو دوسری طرف قومی خزانے کو کسٹم ڈیوٹی کی مد میں ہر سال کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔