کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,423
- پوائنٹ
- 521
[SUB]
[SUP]دی نیوز ٹرائب : Zohaib Akram Mar 6th, 2013[/SUP]
یہود و نصاری کی تلوار جب باہر آئے گی تو وہ یہ نہیں دیکھے گی کے کون شیعہ، کون سنی، کون دیوبندی، کون بریلوی اور کون اہلحدیث، وہ سب کو مسلمان قرار دے کر قتل کرے گی اور کر رہی ہے دیکھو ذرا غور سے دیکھو.
اس تلوار پر لگا خون نہ سیاہ رنگ کا ہو گا اور نہ ہی ہرے یا سفید رنگ کا۔۔ وہ خون صرف ایک رنگ کا ہوگا ۔۔ اور وہ رنگ ہوگا سرخ۔۔
یہ فرقہ بازی، یہ نفرتیں، یہ جنگ، یہ لڑائی، یہ ہمارے خون میں نہیں ، ہمارے دین میں نہیں ہمیں اللہ کے نبی نے یہ نہیں سکھایا۔ نہ ہی صحابہ نے اس کی تعلیم دی، نہ خلفائے راشدین نے۔ جن پر اگر سو بار بھی جان قربان کرنی پڑے تو میں کروں گا۔۔
اور ہر خلیفہ پر ایک سو بار۔ چاروں خلفا پر چار سو بار۔ کروں گا۔۔ آج جب ہمارا خون جو دشمن کی تلوار پر لگا ہمیں چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ دیکھو میں نہ شیعہ ہوں نہ سنی، نہ دیوبندی، نہ بریلوی اور نہ اہلحدیث میں سرخ ہوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار ہوں وہ محمد صلی اللہ علی وسلم جو اللہ کا نور تھے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ستارے تھے جن کی پیروی میرا ایمان اور آخرت میں میرا سہارا۔۔ اب بھی نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے۔۔ تمھاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں جیسے بغداد مٹ گیا۔
اس وقت کے امریکہ جس کا نام چنگیز خان تھا اس سے لڑنے کی بجائے بغداد کے اکثر لوگ فرقہ واریت میں الجھ کر چنگیز خان کے آگے مولی گاجر کی طرح کٹ گئے ۔۔ ہم لوگ بھی وہی کر رہے ہیں جو خوارزم شاہ نے کیا۔۔ اپنی مستی میں مست ہو کر۔۔ جب کہ کرنا ہمیں وہ چاہئے جو اس وقت بغداد کے سپہ سالار نے کیا تھا جس کے بارے میں چنگیز خان نے خود کہا تھا
"سلام ہے اس ماں پر جس نے ایسے بیٹے کو جنم دیا" جلال الدین خوارزم نامی سپہ سالار کے سامنے دریا تھا اور پیچھے چنگیز کا لشکر اس نے عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دی تھی ۔ گھوڑے سمیت اپنے آپ کو دریا میں گرا کر پھر تاریخ نے دیکھا کہ چنگیز نے اس کے بارے میں کیا کہا اور ان کے ساتھ کیا کیا جوایک صبح سے لے کر شام تک ایک دوسرے کو کافر کافر کہا کرتے تھے۔ مان لو سنبھل جاو ورنہ داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔
پاکستان یا دوسرا بغداد
[/SUB][SUP]دی نیوز ٹرائب : Zohaib Akram Mar 6th, 2013[/SUP]
یہود و نصاری کی تلوار جب باہر آئے گی تو وہ یہ نہیں دیکھے گی کے کون شیعہ، کون سنی، کون دیوبندی، کون بریلوی اور کون اہلحدیث، وہ سب کو مسلمان قرار دے کر قتل کرے گی اور کر رہی ہے دیکھو ذرا غور سے دیکھو.
اس تلوار پر لگا خون نہ سیاہ رنگ کا ہو گا اور نہ ہی ہرے یا سفید رنگ کا۔۔ وہ خون صرف ایک رنگ کا ہوگا ۔۔ اور وہ رنگ ہوگا سرخ۔۔
یہ فرقہ بازی، یہ نفرتیں، یہ جنگ، یہ لڑائی، یہ ہمارے خون میں نہیں ، ہمارے دین میں نہیں ہمیں اللہ کے نبی نے یہ نہیں سکھایا۔ نہ ہی صحابہ نے اس کی تعلیم دی، نہ خلفائے راشدین نے۔ جن پر اگر سو بار بھی جان قربان کرنی پڑے تو میں کروں گا۔۔
اور ہر خلیفہ پر ایک سو بار۔ چاروں خلفا پر چار سو بار۔ کروں گا۔۔ آج جب ہمارا خون جو دشمن کی تلوار پر لگا ہمیں چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ دیکھو میں نہ شیعہ ہوں نہ سنی، نہ دیوبندی، نہ بریلوی اور نہ اہلحدیث میں سرخ ہوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار ہوں وہ محمد صلی اللہ علی وسلم جو اللہ کا نور تھے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ستارے تھے جن کی پیروی میرا ایمان اور آخرت میں میرا سہارا۔۔ اب بھی نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے۔۔ تمھاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں جیسے بغداد مٹ گیا۔
اس وقت کے امریکہ جس کا نام چنگیز خان تھا اس سے لڑنے کی بجائے بغداد کے اکثر لوگ فرقہ واریت میں الجھ کر چنگیز خان کے آگے مولی گاجر کی طرح کٹ گئے ۔۔ ہم لوگ بھی وہی کر رہے ہیں جو خوارزم شاہ نے کیا۔۔ اپنی مستی میں مست ہو کر۔۔ جب کہ کرنا ہمیں وہ چاہئے جو اس وقت بغداد کے سپہ سالار نے کیا تھا جس کے بارے میں چنگیز خان نے خود کہا تھا
"سلام ہے اس ماں پر جس نے ایسے بیٹے کو جنم دیا" جلال الدین خوارزم نامی سپہ سالار کے سامنے دریا تھا اور پیچھے چنگیز کا لشکر اس نے عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دی تھی ۔ گھوڑے سمیت اپنے آپ کو دریا میں گرا کر پھر تاریخ نے دیکھا کہ چنگیز نے اس کے بارے میں کیا کہا اور ان کے ساتھ کیا کیا جوایک صبح سے لے کر شام تک ایک دوسرے کو کافر کافر کہا کرتے تھے۔ مان لو سنبھل جاو ورنہ داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔