کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
پاکستان ۔۔۔ تعلیمی میدان میں پیچھے
[SUP]دی نیوز ٹرائب
Muhammad Furqan
Mar 18th, 2013[/SUP]
تعلیم کے میدان میں پاکستان دنیا کےکئی ممالک سے پیچھے ہے کیونکہ یہاں لوگوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع اورسہولتیں ناکافی ہیں۔
2012 کے سروے کے مطابق پاکستان میں تعلیم یافتہ لوگوں کی شرح تقریباَ 58 فیصد ہے اور سروے سے مزید یہ معلوم ہوا کہ دیہی علاقوں کی نسبت شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کافی زیادہ ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان خواندگی کی شرح میں فرق کی کافی ساری وجوہات ہیں جیسے دیہی علاقوں میں سرکاری اداروں کی کم تعداد، تعلیمی سہولتوں کا فقدان وغیرہ۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح مزید بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پڑھی لکھی قوم ہی ملک کی ترقی میں اہم کردارادا کر سکتی ہے۔ خواندگی کی شرح میں اضافہ کرنے کی ایک اوبڑی وجہ روزگار کے بڑھتے ہوئے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہے کیونکہ پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے بہتر مستقبل کی تلاش میں مصروف ہو جائیں گے اور جلد ہی اپنی منزلوں تک پہنچ جائیں گے کیونکہ ایک پڑھا لکھا انسان اپنے روزگار کے لیے وسائل پیدا کرسکتا ہے۔
پوری دنیا میں خواندگی کی شرح اگر دیکھی جائے تو یورپی ممالک میں شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی خواندگی کی شرح 74 فیصد ہے جبکہ چین کی شرح خواندگی 93 ہے جو پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں تعلیمی مسئلہ آج کا نہیں بلکہ ملکی قیام کے وقت سے چلا آرہا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں شرح خواندگی کو دیکھا جائے تو
راولپنڈی کے قریب واہ کینٹ (ٹیکسلا) سب سے آگے ہے،
دوسرے نمبر پراسلام آباد ہے جس کی شرح خواندگی 87 فیصد ہے
جبکہ 84 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ لاہور کا تیسرا نمبر ہے۔
پاکستان میں تعلیمی فقدان کی ایک بڑی وجہ نااہل انتظامیہ ہے جن میں جعلی ڈگریوں والے ہمارے نمائندے بھی شامل ہیں جنہوں نے ملک کا ستیاناس کرکے رکھ دیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزارت تعلیم کا عہدہ جعلی ڈگری ہولڈرشیخ وقاص اکرم جیسے شخص کو دیا گیا، ایک جعلی ڈگر والا شخص تعلیم میں کیسے بہتری لائے گا۔ وزراء اپنی مراعات اور پروٹوکول کے لیے تو اسمبلیوں میں بل پاس کرا لیتے ہیں مگر تعلیمی اصطلاحات میں بہتری کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا جا رہا۔ دانش اسکول ہی کی مثال لے لیں جس پراربوں روپےلاگت آئی مگر یہ ایک خاص علاقے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا حالانکہ سرکاری تعلیمی ادارے پورے پاکستان میں موجود ہیں مگر انہیں اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ توانتہائی فضول عمل ہے کہ پہلے سےموجود تعلیمی اداروں پرتوجہ دینے کے بجائے مزید نئی عمارتیں بنانا شروع کردیا جائے اوراربوں روپے خرچ کر کے بھی فائدہ صرف خاص ریجن کو ہو جہاں دانش اسکول واقع ہیں۔ پاکستان میں تعلیم ایک رخ یہ بھی ہے کہ سرکاری اسکولوں کی چھت تک نہیں اورطلبہ کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبورہیں ۔
اب اگربات کی جائے کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں خرچ ہونے والا بجٹ کتنا ہے؟
پاکستان حالیہ دورمیں GNP کا [SUP]2.3%[/SUP] اور کُل بجٹ کا [SUP]9.9%[/SUP] تعلیمی شعبے پرخرچ کر رہا ہے جو کہ انتہائی کم ہےاس کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو
ہمسایہ ملک بھارت اپنے GNP کا [SUP]% 4.5[/SUP] اور کُل بجٹ کا [SUP]12.7%[/SUP] تعلیم کے شعبے پرخرچ کر رہا ہے۔
اسی طرح بنگلہ دیش GNP کا [SUP]2.1%[/SUP] اور کُل بجٹ کا [SUP]14.1%[/SUP] تعلیمی شعبے پرخرچ کررہا ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں میں سے 25 ملین پرائمری اسکول ہی نہیں جاتے۔ اگر بچوں کی اتنی زیادہ تعداد شروع سے پرائمری اسکول ہی نہیں جائے تو پاکستان کی شرح خواندگی کیسے بہتر ہو گی۔ تعلیمی فقدان کی ایک اور بڑی وجہ غربت بھی ہے۔ پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکر رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں لوگ کیسے اپنے بچوں کی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ ایک اورافسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ سامنے پیش کرتا ہوں کہ پاکستان کے نوے فیصد عوام نے کبھی لائبریری جانے کی زحمت ہی نہیں کرتے اس سے واضح ہوتا ہے کہ کتاب سے ہماری کس قدر وابستگی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے لوگ مطالعہ کواپنا شوق بنائیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرے جس سے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کے بہتر اور آسان مواقع حاصل ہوں۔