• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان: 43 فیصد خواتین کے مطابق شوہر کا پیٹنا جائز

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
پاکستان: 43 فیصد خواتین کے مطابق شوہر کا پیٹنا جائز

ملک میں 34 فیصد خواتین کے مطابق 34 فیصد خواتین اگر بیوی شوہر سے بحث کرے تو تشدد کا جواز بنتا ہے۔

پاکستان میں ایک سرکاری سروے کے مطابق ملک کی آبادی کی تقریباً 43 فیصد خواتین اور ایک تہائی مرد سمجھتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کی پٹائی کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں آبادی سے متعلق قومی ادارے انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن سٹیڈیز کے آبادی اور صحت سے متعلق ایک تازہ سروے میں یہ رائے سامنے آئی ہے۔

یہ سروے سال 1990 سے لے کر سال 2013 تک تین بار کیا گیا ہے اور اس سروے میں 15 سے 49 سال تک کی عمر کی 13 ہزار خواتین اور تین ہزار مردوں کو شامل کیا گیا۔

اس میں خواتین کی ملازمت، گھریلو فیصلوں میں شرکت، اثاثوں کی ملکیت اور بیوی پر کی پٹائی جیسے سوالات پوچھے گئے۔

گھریلو تشدد سے متعلق خواتین اور مردوں سے پوچھا گیا کہ کیا کھانا خراب بننے، شوہر کے ساتھ بحث کرنے، شوہر کو بغیر بتائے گھر سے جانے، بچوں اور سسرال کو نظر انداز کرنے یا جنسی تعلقات سے انکار کرنے کی وجہ سے کوئی شوہر اپنی بیوی کو مار سکتا ہے؟

اس پر 34 فیصد خواتین کا جواب تھا کہ اگر بیوی شوہر سے بحث کرے تو تشدد کا جواز بنتا ہے جبکہ 20 فیصد مردوں کے مطابق اگر بیوی بغیر بتائے گھر سے جائے تو بیوی پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر 43 فیصد خواتین مجموعی طور پر شوہر کے تشدد کو جائز سمجھا۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن ربعیہ وقار کے مطابق گھریلو تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار اور رویوں کے بارے میں پہلی بار حکومت کی جانب سے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ صوبوں میں گھریلو تشدد سے متعلق قانون سازی کے لیے یہ اعداد و شمار اہم ہیں۔ جس میں صوبہ سندھ میں 20 فیصد خواتین کے مطابق وہ نفسیاتی یا جسمانی تشدد کا شکار رہی ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات 57 فیصد کے قریب ہیں۔

'سروے کی وجہ سے گھریلو تشدد کے بارے میں ہمارے پاس اب ریاست کی جانب سے اعداد و شمار آگئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس صوبے میں سب سے پہلے قانون سازی ہوئی، وہاں ایسے واقعات کم ہوئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ ہیں۔'

پاکستان میں 52 فیصد خواتین گھریلو تشدد کے واقعات کے بارے میں رپورٹ نہیں کرتی ہیں

سال 2009 میں قومی اسمبلی میں گھریلو تشدد کے خاتمے سے متعلق بل منطور ہوا تھا تاہم بعض مذہبی جماعتوں کے اعتراضات کی وجہ سے یہ قانون نہیں بن سکا تھا۔

18ویں ترمیم کے بعد صوبہ سندھ نےگذشتہ سال گھریلو تشدد سے متعلق قانون منظور کیا تھا اور اس برس جنوری میں اسی طرح کا قانون پنجاب اسمبلی میں پیش ہوا جبکہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا نے گھریلو تشدد سے متعلق قانون سازی نہیں کی۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے قومی ادارے نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ومین کی سربراہ خاور ممتاز کا کہنا ہے'خواتین کیوں گھریلو تشدد کو صحیح سمجھتی ہیں؟ ایک مرد سے پوچھا گیا، کہ اگر عورت کا کام کھانا پکانا ہے اور نہ اچھا بنانے پر اس کی پٹائی کی جانی چاہیے، تو اگر آپ کا کام کمانا ہے اور آپ نہیں کما پائیں تو آپ پر ہاتھ اٹھانا چاہیے؟ وہ بہت حیران ہوئے، کیونکہ اس پہلو پر انھوں نے سوچا نہیں تھا۔'

سروے کے بعض اعداد وشمار

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے اور ان پر تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوتے رہتے ہیں

خواتین کی شادی کرنے کی اوسط عمر 19.5 سال اور مردوں کی 24.7 سال ہے۔

14 میں سے ایک بچے کی اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے موت واقع ہو جاتی جبکہ 11 میں سے ایک بچہ اپنی پانچویں سالگرہ تک زندہ نہیں رہتا۔

پاکستانی مرد اور خواتین چار بچے چاہتے ہیں۔ یہ تعداد صوبہ بلوچستان میں چھ جبکہ اسلام آباد میں تین ہے۔

سال 1990 میں 9 فیصد مرد اور خواتین جبکہ سال 2013 میں 26 فیصد خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقے استعمال کرتے تھے۔

45 فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 11 فیصد شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔

گھریلو تشدد کی شکار 52 فیصد خواتین نے تشدد کے بارے میں کسی کو آگاہ نہیں اور نہ ہی مدد مانگی۔

ملک میں چھ فیصد خواتین اور 45 فیصد مرد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔

عنبر شمسی: بدھ 22 جنوری 2014
 
Top