کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
پاک فوج کے شہیدوں کی بہادری کی وہ داستانیں جنہیں پڑھ کر آپ کا سر فخر سے بلند ہو جائے گا
روزنامہ پاکستان، 26 ستمبر 2015 (13:09)
راولپنڈی (نیوزڈیسک) پاک فوج کے جوان اپنی بہادری اور صلاحیتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہ جذبہ شہادت ہی ہے جو پاک فوج کو دنیا کی دیگر افواج سے ممتاز بناتا ہے۔ یہ بہادر نوجوان ملک کی بقاء کے لئے اپنی زندگیاں دے کر باقی قوم کی زندگی کو یقینی بناتے ہیں۔ شاعر نے بالکل ٹھیک کہا ہے: "شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے"
انہیں لازوال قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان مجاہدوں کو شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز کرتا ہے۔ آئیے آپ کو ایسے نوجوانوں سے ملواتے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کر دیں۔
کیپٹن سلمان سرور شہید
لاہور سے تعلق رکھنے والے سلمان سرور نے میڈیکل کا انٹری ٹیسٹ اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا لیکن انہوں نے پاک فوج میں جانے کو فوقیت دی۔ انہوں نے 115 L/C سے پاس آؤٹ کیا اور بہاولپور میں 42 لانسرز آرمرڈ یونٹ کا حصہ رہے۔ اپنے لوگوں میں وہ سب سے بہادر اور نڈر آفیسر کے طور پر جانے جاتے تھے جس کی وجہ سے انہیں چیئرمین ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کا اے ڈی سی لگایا گیا جہاں انہوں نے اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے۔
14مئی 2013ء کو ڈیوٹی کے دوران انہیں سینے پر تین گولیاں لگیں جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے ۔ اپنے زخموں کے باوجود انہوں نے ساتھی فوجیوں کی مدد جاری رکھی۔ انہیں آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انہوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ ان کی عمر 27 سال تھی۔
کیپٹن منان الحسن شہید
انتہائی بہادر اور نڈر نوجوان نے 26 سال کی عمر میں شہادت پائی۔ انہیں مہسود سکاؤٹس میں 27 دسمبر 2011ء کو بطور ’غازی آفیسر‘ تعینات کیا گیا تھا۔ اپنی قوم کی عزت اور توقیر کے لئے انہوں نے بہادری کے ساتھ دشمن کا سامنا کیا۔ اپنے مختصر سے فوجی کرئیر میں بڑے آپریشنز میں حصہ لیا جن میں میراسر اور بیا درغلام شامل ہیں۔ انہوں نے ایک جھڑپ کے دوران دوبدو لڑائی میں چھ دہشت گردوں کو جہنم بھی واصل کیا۔
مارچ 2012ء کو انہیں ایک خصوسی ٹاسک دیا گیا جس میں انہیں دہشت گردوں کی کچھار میں ایکشن کرنا تھا اور انہوں نے شولا بار، علم گودر اور سپن قدر چوک میں کامیابی سے ڈیوٹیاں سرانجام دیں۔
28 جون کو جب فوجی دستہ ایک ٹارگٹ کو اٹھانے کے لئے جمرود کی طرف مشن پر روانہ ہوا تو راستے میں ایک ڈیوائس کی مدد سے دھماکہ کیا گیا جس میں کیپٹن منان اور ان کے سات ساتھی شہید ہو گئے۔
کیپٹن سلمان فاروق لودھی شہید
گریجویشن کے بعد کیپٹن سلمان کو آرمی ائیر ڈیفنس میں تعینات کیا گیا لیکن اپنی مہم جو طبیعت کی وجہ سے انہوں نے 2003ء میں ایس ایس جی جوائن کر لی۔ انہیں اپنی بہادری کی بدولت پہلا ایوارڈ جنوبی وزیرستان میں کامیابی سے ڈیوٹی دیتے ہوئے ملا۔ انہیں ’قرار حیدری‘ میں تعینات کیا گیا اور ’المیزان آپریشن‘ میں کامیابی کی بدولت انہیں 2004ء میں ’تمغہ بسالت‘ دیا گیا۔ انہوں نے لال مسجد آپریشن میں ڈیوٹی کے دوران 10 جولائی 2007ء کو شہادت پائی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر30 سال تھی جبکہ ان کا پہلا بیٹا ان کی شہادت کے چار ماہ بعد پیدا ہوا۔ عظیم ہے وہ ماں جس نے ایسے بہادر بیٹے کو جنم دیا۔
کیپٹن نوید خان وزیر شہید
یہ 25 سال کی عمرمیں 8 اپریل 2013ء کو اورکزئی ایجنسی میں ڈیوٹی دیتے ہوئے شہید ہوئے۔ ان کا تعلق پنجاب رجمنٹ سے تھا۔ اپنی شہادت سے دو روز قبل وہ میجر کے امتحان میں کامیاب ہوئے تھے۔ وادی تیراہ میں آپریشن کے دوران انہیں گولی لگی جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوئے اور 14 مارچ کو انہیں سی ایم ایچ پشاور میں داخل کیا گیا۔ ان کا پہلا آپریشن کامیاب رہا لیکن دوسرے آپریشن میں انہیں ہوش نہ آیا اور 8 اپریل کو وہ شہید ہو گئے۔ اپنی شہادت سے قبل جب انہوں نے اپنے گھر کا وزٹ کیا تو ان کے عزیزوں کا کہنا تھا کہ انہیں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ ان کا آخری دورہ ہے اور ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔
کیپٹن طارق جمال شہید
14 اگست 2012ء کو اورکزئی ایجنسی میں آپریشن کے دوران کیپٹن طارق شدید زخمی ہوئے اور انہیں سی ایم ایچ پشاور منتقل کیا گیا جہاں وہ دو ہفتے زیر علاج رہنے کے بعد 29 اگست 2012ء کو شہید ہوئے۔ انہیں ملتان میں دفن کیا گیا۔
کیپٹن بلال ظفر شہید
انہوں نے اپنے آباء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 2001ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے 2003ء میں بلوچ رجمنٹ جوائن کی اور 17 مئی 2009ء کو 27 سال کی عمر میں سوات میں شہادت پائی۔ انہوں نے سوات آپریشن میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور ایک اہم شاہراہ پچھور روڈ کو دہشت گردوں کے کنٹرول سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی روڈ کی وجہ سے پاک فوج کے لئے سوات آپریشن کا راستہ ہموار ہوا۔ اپنی شہادت سے قبل انہوں نے اپنے دوست کیپٹن راحیل کو کہا تھا کہ اگر وہ شہید ہو جائیں تو انہیں پاکستانی پرچم میں دفنایا جائے۔ وہ اقوام متحدہ کے امن دستے میں بھی شامل رہے۔
یاسر عباس شہید
لیفٹیننٹ سید یاسر عباس 1986ء میں پیدا ہوئے اور پاک نیوی میں وہ ائیروناٹیکل انجینیئر تھے ۔ 22 مئی 2011ء کو مہران بیس حملے کے وقت وہ آفیسر آن ڈیوٹی تھے اور مہران بیس حملہ میں نیوی کے پہلے شہید تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 24 سال تھی۔ حملے کے وقت انہوں نے بہادری کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور دشمن کے عزائم ناکام بناتے ہوئے سینے پر تین گولیاں کھائیں لیکن بہادری سے لڑتے رہے۔ بیس پر موجود قیمتی قومی اثاثوں (طیاروں) کی حفاظت انہوں نے یقینی بنائی۔ دہشت گردوں نے ان پر گولیاں برسا دیں اور ایک گولی ان کے سینے پر لگی لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی اور ایک دہشت گرد کو جہنم واصل کیا، دہشت گردوں نے پھر ان پر گولیاں چلائیں اور انہیں دوسری گولی بھی سینے میں لگی۔ ایسے وقت میں اکثر لوگوں کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے لیکن بہادر یاسر نے ایسا کوئی ردعمل نہ دیا اور بے جگری سے لڑتے رہے اور بالآخر انہیں تیسری گولی بھی سینے پر لگی جس کی وجہ سے وہ زمین پر گر گئے اور شہادت حاصل کی۔
ح
کیپٹن اسفندیار بخاری شہید
14 اگست 1988 کو پیدا ہونیوالے اسفندیار بخاری نے ابتدائی تعلیم اے پی ایس کیڈٹ کالج حسن ابدال سے حاصل کی۔ پی ایم اے 118 لانگ کورس میں بہترین کیڈٹ کا اعزاز اپنے نام کیا جس پر انہیں اعزازی شمشیر سے نوازا گیا جب کہ ان کا تعلق 11 ایف ایف رجمنٹ سے تھا۔
کاکول اکیڈمی میں 25 اکتوبر 2008 کو پاسنگ آؤٹ پریڈ میں اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے انھیں اعزازی شمشیر عطا کی تھی۔
کیپٹن اسفندیار بخاری جناح ونگ کے کمانڈر تھے ستمبر 2015 بڈھ بیڑ ایئر بیس پر دہشتگرد حملے کے دوران کوئیک رسپانس ایکشن کے دوران اپنے گروپ کی کمانڈ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔