• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::::::: پردہ کیوں ضروری ہے ::::::

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
::::::: پردہ کیوں ضروری ہے ::::::


پیش لفظ

اسلامی معاشرے میںبڑھتی ہوئی بے پردگی اوربے باکی اس وقت ایک سنگین مسئلہ ہے غیر اسلامی معاشروں میں بھی بے حیائی کے حوالے سے وہاں کا سنجیدہ طبقہ تشویش میں مبتلا ہے۔ اس بگڑتی ہوئی صورتحال میں تبدیلی وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے وگرنہ اخلاقی انحطاط کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ اس حوالے سے لوگوں کے چار گروہ پائے جاتے ہیں پہلاوہ گروہ جو ان تمام غیرمسلموں پر مشتمل ہے جو اسلام میں دل چسپی رکھتے ہیںمگراسلام کے نظام ستروحجاب کو جابرانہ اور تکلیف دہ سمجھتے ہیںاور نہ صرف مخالف پروپیگنڈہ سے متاثرہیں بلکہ مسلمانوں کی افراط وتفریط کی وجہ سے بھی متذبذب ہیں۔ دوسرا وہ مسلمان گروہ جو احکام ِ سترو حجاب پر جزوی طورپراوررسماً عمل کرتاہے اوربے پرد لوگوںکے طور طریقوںپربڑاشاکی اور فکرمند رہتاہے۔ تیسرا وہ مسلمان گروہ جو احکاماتِ سترو حجاب کا تارک ہے اورعملاً لاعلم ہے ۔چوتھا وہ گروہ جو احکام سترو حجاب کا سخت مخالف ہے اوراس کے خلاف سازشیں کرتا ہے اور اس کا مذاق اڑاتا ہے۔

چنانچہ یہ تحریرچار قسم لوگوں کیلئے لکھی گئی ہے :

وہ غیرمسلم جن کاذکر اوپر کیاگیاہے اورجن کیلئے اسلام کے نظامِ ستروحجاب کادفاع ہم پر فرض ہے ۔

وہ مسلمان جو حالات میں تبدیلی چاہتے ہیں مگربنیادی وجوہات سے لاعلم اوران کی اہمیت سے بے خبرہیں۔یہ تحریراصل وجوہات کے ادراک اورآگے کیلئے لائحہ عمل مہیاکرتی ہے ۔

ہمار ا تیسرا مخاطَب وہ نوجوان مسلمان مرد و خواتین ہیں جو واقعتا لا علمی کی بنیاد پر احکامِ سترو حجاب کے تارک ہیں ۔ یہ لوگ زیادہ حساس اور سمجھ دار ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس ساری بحث کو غیر جانبداری اور سنجیدگی سے لیں گے اور حقائق کی بنیاد پر معاملہ کو جانچیں گے۔

زندگی کے دیگر معاملات میں جستجو ،لگن اور محنت کی طرح وہ اس مسئلہ پر بھی بھرپور توجہ دیں گے اور قائل ہوںگے یا قائل کریںگے کے اصول(Convince or Be Convinced) کے تحت ایک حتمی نتیجہ اخذ کریں گے ۔

چوتھا گروہ ان نام نہاد مسلمانوں پر مشتمل ہے جو دین کے احکام کے باغی اور سخت مخالف ہیں۔ ان کے لئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ اغیار کی ہمنوائی میں مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا اتنا بھاری بوجھ نہ اٹھائیںجیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔

وَ ہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَ یَنْئَوْنَ عَنْہُج وَ اِنْ یُّہْلِکُوْنَ اِلَّاآ اَنْفُسَہُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ

اوریہ لوگ اس سے دوسروں کوبھی روکتے ہیں اورخودبھی اس سے دوررہتے ہیں اوریہ لوگ اپنے آپ ہی کو تباہ کررہے ہیں اورکچھ خبرنہیں رکھتے (الانعام6 آیت26)

چنانچہ ہم ایسے لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ وسیع القلبی اور ایک نئی سوچ کے ساتھ اس پورے معاملے پر اپنی معلومات مکمل کریں اور اپنے لئے ایسا راستہ اختیار کریں جو انکی دنیا و آخرت کو محفوظ کردے۔

احکام سترو حجاب کے حوالے سے اولین نکتہ یہ ہے کہ عورت ساری کی ساری چھپانے کی چیزہے۔اس کی ضرورتوںکوپوراکرنے ،مسائل کو حل کرنے اوردیگر حقوق کی ادائیگی مردوں کے ذمہ ہے ۔بنیادی طورپر گھریلو معاملات کی ذمہ دار ہے چنانچہ گھرکے اند رہنے کی چیز ہے انتہائی ضرورتوں ،مجبوریوں یا طے شدہ صورتوںمیں وہ گھرسے باہرآسکتی ہے مگر تحفظات (Reservations & Concern)کے ساتھ دراصل ان تحفظات کادوسرانام ہی اسلام کانظام ِستروحجاب ہے۔

بے پردگی کے مسئلے کو مجموعی تناظرمیں لیناضروری ہے یہ غیرفطری بات ہے کہ کسی انسان کو احکام ستروحجاب پر قائل کیاجاسکے یااس کو عمل درآمد پرراضی کیاجائے جب تک دیگرتخریبی عوامل اپنا منفی اثرجاری رکھیں ان تخریبی عوامل میں سب سے زیادہ نقصان دہ ارتکابِ شرک کی وہ عملی صورتیںہیں جن میں آج اکثرمسلمان ملوث ہیںیعنی عقیدئہ توحید کے اطلاقی مطالبوں سے لاعلم مسلمان کیلئے شریعت پر مبنی اسلامی نظام کی سمجھ اورعمل درآمد ناممکن ہے اوراس حوالے سے نظام ستروحجاب پر بحث ثانوی حیثیت رکھتی ہے اصل اوراولین مرحلہ اتباعِ دین کیلئے ذہن سازی ہے چنانچہ اس تحریر کا فائدہ صرف اُس مسلمان کو ہوسکتاہے جو مسلمان عقیدہ توحید سے پوری طرح باخبرہو یعنی صرف اللہ تعالیٰ کو خالق ،مالک ،رب ،عبادت کے لائق اورتمام معاملات کا مختار ِکل مانتاہومحمد کا سو فیصد پیروکارہواوراس کی ڈور انسانوں کے ہاتھ میں نہ ہو جن کے ہاتھوں و ہ پو ری عمرپتلی تماشا بن کر زندگی گزارتاہواور اس کے علاوہ وہ موت،مراحلِ قبر، روز ِآخرت ، اللہ تعالی سے ملاقات ، احتساب اورمابعد احتساب ہمیشہ کے ٹھکانے یعنی جنت کی اہمیت اور جہنم کی سنگینی جیسے معاملات پر عملی یقین رکھتاہو کہ یہ سب حق ہیں اورجلد یا بدیر ان مراحل سے گزرناہے ۔

اس تحریرمیں خیرکی ہر بات صرف اللہ تعالیٰ کی مہربانی کی وجہ سے ہے اورممکنہ طورپر غلط یا کمزور بات ہماری کم علمی یا کوتاہی کی وجہ سے ہے جس کیلئے ہم اللہ تعالیٰ سے معافی کے طلب گارہیں ۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں حق واضح طورپردکھادے اوراس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اورباطل بھی دکھادے اوراس سے دوررہنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین۔

غور طلب بات

کیا آپ کو معلوم ہے کہ شیطان نے حضرت آدم وحواعلیہما السلام کو جنت سے نکالنے کے لئے کیا حربہ استعمال کیا یعنی ایک ایسی غلطی اور جرم سرزد کروایا جو انہیں بے لباس کردے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور نتیجہ ہمیںمعلوم ہے یعنی

وَ یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ فَکُلااَا مِنْ حَیْثاُا شِئْتُمَا وَ لااَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَo فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْٰاتِہِمَا وَ قَالَ مَا نَہٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّاآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنo وَ قَاسَمَہُمَآ اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَoلا فَدَلّٰہُمَا بِغُرُوْرٍج فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْٰاتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِط وَ نَاداٰاہُمَا رَبُّہُمَآ اَلَمْ اَنْہَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ وَ اَقُلْ لَّکُمَآ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo

ا ور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ اور اس درخت کے پاس مت جاؤ کہ کہیں ان لوگوں کے شمار میں آجاؤجن سے نامناسب کام ہوجاتاہے ۔پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوںمیں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کاپردہ بدن جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھا دونوں کے روبروبے پردہ کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوںکہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔اور ان دونوں کے روبروقسم کھالی کہ یقین جانیئے میں تم دونوںکا خیرخواہ ہوں ۔سو ان دونوں کو فریب سے زیر کرلیا پس ان دونوں نے جب درخت کوچکھادونوں کا پردہ بدن ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہوگیا اور دونوںاپنے اوپر جنت کے پتے جوڑجوڑکر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کوپکارا کیامیں تم دونوں کو اس درخت سے ممانعت نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے ۔ ( اعراف آیت :19-22)

اور یہ آیت تو اس پورے معاملے کا خلاصہ اور آئندہ کیلئے اصول فراہم کرتی ہے یعنی

یبَنِیْٓ ٰادَمَ لااَا یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْٰاتِہِمَاط اِنَّہٗ یَرٰکُمْ ہُوَ وَ قَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثاُا لااَا تَرَوْنَہُمْط اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ لِلَّذِیْنَ لااَایُؤْمِنُوْن o

اے اولاد آدم ! شیطان تم کو کسی فتنہ میں نہ ڈال دے جیساکہ اس نے تمہارے دادا دادی کو جنت سے باہر کرادیا اس طرح کہ ان کا لباس بھی اتروادیا تاکہ وہ ان کو ان کا پردہ بدن دکھائے۔وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتاہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو ۔ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا رفیق بنایاہے جو ایمان نہیں لاتے ۔ (سورۃ اعراف آیت :27)

ان آیات کے حوالے سے چار اہم نکات واضح ہوتے ہیں ۔

بے لباسی جنت سے دوری کا سبب ہے۔

لباس لازمی ہے تاکہ بے پردگی کے گناہ اور جرم سے بچا جاسکے۔

بے پردگی شیطان کا ہتھیار ہے ۔

آدم سے لے کر قیامت سے پہلے پیداہونے والے آخری انسان غرض دنیا کے تمام انسانوں خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ ، قوم،نسل، امت، علاقے، زمانے سے ہو بنی آدم ہونے کے ناطے سب کامشترکہ دشمن ایک ہی ہے اور وہ ابلیس ہے اسی نے آدم علیہ السلام کو لالچ دے کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کروائی اور وہی مستقلاً بنی آدم کو مختلف قسم کے لالچ دے کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرواتا ہے تاکہ جس طرح آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوایا اسی طرح بنی آدم کو بھی جنت سے محروم کر دیا جائے۔ یا یوں کہہ لیں کہ جس کی وجہ سے وہ خود جنت سے نکالاگیا اس کو بھی جنت سے نکلوادے !چنانچہ اگرسارے انسان اس نکتے کوعملی طورپرسمجھ لیںکہ ہر خرابی کے پیچھے شیطان کا ہاتھ ہے اوروہ ہر برائی کا منصوبہ ساز(Master mind)ہے اورا گر انسانوں کی ساری کوششیں اپنے اس مشترکہ دشمن کی چالوں کو ناکام بنانے کیلئے صرف ہوں تو دنیاایک پرسکون جگہ بن سکتی ہے ۔اس سلسلہ میں آخری بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ اصل دشمن کو فراموش کرکے انسانوں کی آپس میں محاذ آرائی اورافتراق بے معنی بلکہ نقصان دہ ہے اورمسلمانوںکے باہمی اختلاف کو باعثِ رحمت قرار دینے والے کوؤں سے بھی زیادہ بے عقل ہیںکیونکہ کوّے بھی اتحادواتفاق کی اہمیت وبرکت کو سمجھتے ہیں اورکم ازکم بحران اورمشکل کے وقت ایک ہوجاتے ہیں ۔

اہم سوال

ایک اہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب ہمارے جد امجدایک بالواسطہ (lndirect)غلطی کے تحت بے لباسی کی حالت وکیفیت کی وجہ سے جنت سے نکالے گئے یا یوں کہئے کہ بے لباسی جنت سے دوری کا سبب بنی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آج کوئی شخص (مرد ہویا عورت)بے پردگی بے حیائی اوربے لباسی کا مرتکب ہو اور جنت کی امید رکھے؟مندرجہ ذیل بحث اسی اہم سوال کے جواب کے ضمن میں ہے ۔(یعنی بے پردگی جنت سے دوری کا ایک ممکنہ سبب بن سکتی ہے۔)

اسلام میں لباس کی غرض وغایت

عموی طورپرلباس انسانی جسم کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ سمجھاجاتاہے اوراسی سوچ کے تحت لباس میں کمی بیشی کاجواز نکالاجاتاہے یہ درست نہیں کیونکہ اگر لباس کا واحدمقصد بیرونی اثرات سے بچاناہی ہو تو نفس پرست انسان بے لباسی کیلئے ایسے ماحول کو جواز بناسکتے ہیں جو موسم کی سختیوں یعنی گرمی ،سردی،بارش، گرد وغبار اور دیگر آلودگیوں سے محفوظ ہوجب کہ اسلام کا مطلوب یہ ہے کہ انسان لباس میں رہے ۔ایسا لباس جو سادہ ہو اوربنیا دی ستر وحجاب کے تقاضے پورے کرے ۔جیساکہ قرآن کریم میں ارشادفرمایا:

ٰیبَنِیْٓ ٰادَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْٰاتِکُمْ وَ رِیْشًاط وَ لِبَاسُ التَّقْوٰیلا ذٰلِکَ خَیْرٌط ذٰلِکَ مِنْ ٰایٰتِ اﷲِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَo

اے آدم علیہ السلام کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیداکیاجوتمہاری شرمگاہوں کو بھی چھپاتاہے اورموجب زینت بھی ہے اورتقویٰ کا لباس تواس سے بڑھ کر ہے یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں ۔(سورۃ الاعراف7 آیت26 )

یہ واضح رہے کہ لباس کے دو حصے ہیں اولاً بنیادی لباس جو ستر کوعمومی اوقات اور حالات میں محرم اورنامحرم دونوںسے چھپائے اورثانیاًوہ بیرونی چادرجس سے چہرہ ،جسمانی محاسن اورخد وخال نامحرموں سے ڈھکے چھپے رہیںجس کو حجاب کہتے ہیں چنانچہ اسلامی نقطہ نگاہ سے لباس کا اصل مقصد سترکو چھپانا اوربے پردگی اور اس کے اثرات سے بچاناہے نہ کہ دیگر وجوہات جس کو اہل مغرب اوردیگرغیرمسلم اقوام جواز بناکر کم لباسی ،تنگ لباسی یا مکمل بے لباسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

بے پردگی اوربے لباسی کا تعلق

ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ بے پردگی اور بے لباسی الگ الگ چیزیں ہیں تو ایسا سوچناغلط ہے اپنے آپ کو دھوکہ نہ دیںاور بے پردگی کو معمولی گناہ نہ سمجھیںبے پردگی بے لباسی کا ابتدائی مرحلہ ہے اورشیطان کے بڑے ہتھیاروں میں سے ہے ۔چنانچہ ایک بے پردہ ا وربے حس انسان شیطان کا بہت اہم آلہء کارہے۔بے پردگی ایک تدریجی اور ارتقائی عمل ہے،احسا س کو مارنے کادھیرے دھیرے دیاجانے والا زہر(Slow poison)ہے فحاشی اور بے حیائی کے منصوبہ ساز (Master mind) ملی میٹر کے حساب سے کپڑے مختصر کرواتے ہیں اور بے لباسی اس کا منطقی انجام ہے ۔ ،مزیدیہ کہ کم لباسی (بے پردگی )کی طرح تنگ لباسی بھی شیطان کے ہتھیاروں میں سے ہے اس کا مقصد جسمانی خد وخال کا اظہارکرناہے اورستر مزید واضح ہوتاہے۔بے پردگی اوربے لباسی ایساجرم ہے جو جنت سے محروم کروادیتاہے آدم، وحواء علیھما السلام کے قصے سے یہی پتہ چلتاہے اس لئے آج بھی شیطان بنی آدم سے یہ گناہ براہ راست کرواتاہے ۔بے پردگی ،بے حسی اوربے لباسی کے تعلق کو مندرجہ ذیل شکل سے واضح کیا گیا ہے۔چنانچہ:

بے پردگی، بے حسی اور بے لباسی کا تعلق

وہ پردہ جو مکمل احساس اورحیا کے تحت کیاجائے وہی اسلام کا مطلوب ہے اوراس کو (I)سے ظاہرکیاگیاہے ۔

وہ پردہ جس میں احکام ستروحجاب کی جزئیات کا خیال نہ رکھا جائے وہ دکھلاوا یا منافقت ہے اس صورت حال کو(II)سے ظاہر کیاگیاہے۔

وہ صورتحال جس میں کسی خاتون کوجبراً بے پردگی پر مجبورکیاجائے جب کہ وہ پردہ کرنے کی خواہش اور احسا س رکھتی ہووہ حالتِ جبر کی بے پردگی ہے جیساکہ بعض گھرانوں یا یورپ کے ملکوں میں ہوتاہے اس کو نمبر (III)سے ظاہر کیا گیا ہے۔

ایسا انسان جو نہ احساس رکھتاہے اورنہ ہی کسی قسم کا لحاظ رکھتاہے اوربے پردگی پر مصر ہے وہ مکمل بے حیائی کی راہ پر ہے اس کو (IV)سے ظاہر کیاگیاہے ۔

بے پردگی کا نفسیاتی محرک اوربنیادی وجہ

انسان کی فطرت میں تعریف اورخود نمائی کی خواہش اورصنفِ مخالف کے لئے کشش ہے بے پردگی کے ارتکاب کیلئے شیطان انسان کی اسی فطرت سے فائدہ اٹھاتاہے اوراس کو تعریف اورخود نمائی کیلئے اُکساتاہے اس حوالے سے جسمانی خوبصورتی اورحسن کے اظہار کو بطور ہتھیار استعمال کرواتاہے اشتہارات میں بے پردخواتین کابے باک اور بے محابا استعمال شیطان کے ان ہی ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔دیکھا گیاہے کہ شروع شروع میں ایک فیشن ماڈل صرف بے پردگی کا جرم کرتی ہے اور آخر کار وہ اس ضمن میںآخری حدوں کو پار کرجاتی ہے یا مجبور کردی جاتی ہے ۔ اسلام تعریف ، دکھلاوے اور خود نمائی کے تمام راستے بند کرتا ہے۔کیونکہ یہ تمام چیزیں انسان کو دنیاوی معاملات میں مشغول رکھ کر فکر آخرت سے غافل کرتی ہیں۔ اسلام کا نظامِ ستر و حجاب در حقیقت تعریف و خود نمائی کے تمام طریقے بند کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے اور اسی نفسیاتی محرک کی بیخ کنی کے نکات پر مشتمل ہے یعنی معترضہ زیب و زینت کا اختیار کرنا اور اظہار دونوں ہی منع ہے ۔

پردے کا مقصد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احساس حیاء کی حفاظت ومضبوطی

نسلِ انسانی کی بقا کیلئے حیا کا احساس بہت اہم ہے اسلام کے نظامِ سترو حجاب کا مقصد اس قیمتی جوہرکی حفاظت ہے۔ چنانچہ ایک باحیا انسان حیاکے احساس اورزندہ ضمیری کے تحت مختلف قسم کی برائیوں سے بچارہتاہے ۔شیطان کا حتمی مقصداحساسِ حیاکی تباہی وتخریب ہے اوربے لباسی اس کی اس مہم کا ایک اہم ذریعہ ہے وہ ابتداء کم لباسی(بے پردگی ) یاتنگ لباسی کے ذریعہ کراتاہے یعنی کم لباسی اورتنگ لباسی بے لباسی کے تدریجی مراحل ہیں ۔

اسلام کااصل مقصد تزکیہ نفس کے حوالے سے خود نمائی ،تعریف ،تحسین اور تفاخر وغیرہ سے بچنا اور بچانا اورمعاشرے کی اصلاح ہے اور پردہ اور حجاب اس حوالے سے اسلامی تعلیمات کا ایک جز ہے تاکہ انسان بدفطرت لوگوںکی شرارت واذیت سے محفوظ رہے اور دوسروں کو متاثرکرنے یعنی ازخود بگاڑ کا محرک بھی نہ بنے یعنی کوئی شخص نہ پریشان کیا جائے اورنہ پریشانی کا باعث بنے

مغرب کا المیہ

ماضیِ قریب کی تاریخ پر غورکریںتو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دوسو(200) سال قبل تک مغرب کاظابطہِ لباس (Dress Code )آج کے پاکستان سے زیادہ قدامت پسند (conservative) اور (covering) تھا ۔اور اُس وقت کے مغرب میں بھی لباس اور پردے کی اقدار تھیں یعنی مغرب کو آج بے لباسی کے اِس درجہ پر پہنچنے میں ایک طویل عرصہ لگا انسانی معاشرے میں جب بھی پردے کوترک کیاگیا تواس کا ایک حتمی نتیجہ بے لباسی کی صورت میں ظاہرہوا اورایک وقت آیا کہ صنفِ مخالف میں عدم دلچسپی کارجحان ہوا اور ہم جنسی عام ہوئی اورآج یورپ میں اب حالت یہ ہے کہ ہم جنسی سے بھی بیزار ہوکر انسان جانوروںمیں سکون تلاش کررہاہے۔ آج مغرب ازخود تنگ ہے اوربے پردگی کے اثرات بھگت رہاہے اور المیہ یہ ہے کہ آج ہم اسی سمت پر چل رہے ہیں۔ہم بے پردگی اوربے حیائی کے تذکرے اورتفاصیل میںجاکر قاری کا ذہن اورصفحات خراب نہیںکرناچاہتے ویسے بھی بے حیائی اوربری باتوں کے تذکرے اوراعادۂ بیان کا حق صرف مظلوم کو ہے۔

لااَا یُحِبُّ اﷲُ الْجَہْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَط وَ کَانَ اﷲُ سَمِیْعًا عَلِیْمًاo

برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کواجازت ہے اوراللہ تعالیٰ خوب سنتاجانتاہے (سورۃ النساء :4آیت146)

خرابی کی پہلی و جہ ۔۔۔۔۔۔اسلامی تعلیمات سے عدم آگاہی

فی زمانہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ ،قرآن مجید اوررسول اللہ کے رسمی اورزبانی احترام پرمطمئن مشغول اورمحدودکردیاگیاہے اوروہ بھی غیر شرعی انداز سے مثلاً اب ِحمد باری تعالیٰ ،نعت رسول کریم اورہندوؤںکے بھجن کے انداز ِادائیگی میں بہت کم فرق رہ گیاہے ۔چودہ سوسال قبل کے اسلام سے عدم آگاہی اورنئی تاویلات نے ایک بے ڈھنگی صورت پیداکردی ہے اوراسلام کے معترضین اورجدت پسندوںکو من مانی کرنے کا موقع فراہم کیاہے

اس وقت مسلمان کی حالت یہ ہے کہ وہ صحیح عقیدہء توحید جس کی مدد سے دیگرتمام معاملات میںاحساسِ ذمہ داری پیداہوتاہے اس سے وہ ناواقف ہے چنانچہ جب ایمان اورعقائدکے حوالے سے بنیادی معلومات نہ ہونگی تو احکامِ ستر وحجاب کی خلاف ورزیوںاوردیگر خرابیوں کاکیارونااوراحکامات پر عمل درآمد کیسے ممکن ہے ۔اگر آپ کسی مسلمان کی دینی علمیت کے ذرائع کے حوالے سے تحقیق کریں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ اکثریاتومحض باپ داداکے نقش قدم پر یا پھر علاقے کی مسجد کے امام وخطیب کے مواعظ یابہت ہواتو سودوسوسال پرانے علاقائی علماء کی تألیفات وتصنیفات سے استفادے کی بنیاد پر اپنے دینی معاملات چلاتے ہیںمزید یہ کہ اگر ان کو شریعت کا کوئی حکم قرآن کریم یا اسوہ رسول کے حوالے سے واضح کرو جو ان کے طورطریقوں سے متصادم ہوتووہ ان کو بہت گراں گزرتاہے اوروہ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ باپ دادا اوراحبارورھبان (علماء وبزگانِ دین )غلط ہوں اوریہ بات اپنی جگہ بڑی دلچسپ ہے کہ ہرنبی نے اپنی امت کو باپ دادا کی پیروی سے روکا اورہر امت نے اپنے نبی کو یہی دلیل دی کہ باپ دادا غلط نہیں ہوسکتے بلکہ بعض نے تویہاں تک کہا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اﷲُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ ٰابَآئَ نَاط اَوَ لَوْ کَانَ ٰابَآؤُہُمْ لااَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّ لااَا یَہْتَدُوْنَo

اورجب ان سے کہاجاتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے جواحکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اوررسول کی طرف رجوع کرو توکہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں(باپ دادا) کو پایا،اگرچہ ان کے بڑے کچھ سمجھ نہ رکھتے ہوں اورنہ ہدایت پر ہو ں (المائدہ5آیت 104)

نیز فرمایا:

وَ کَذٰلِکَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَآلا اِنَّا وَجَدْنَآ ٰابَائَنَآ عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّ اِنَّا عَلٰٓی ٰاثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَo قَالَ اَوَ لَوْ جِئْتُکُمْ بِاَہْداٰای مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَیْہِ ٰابَآئَکُمْط قَالُوْآ اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَo

اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجا وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک ملت پر پایا اور ہم تو انہی کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ہیں۔ (نبی نے) کہا کہ اگر چہ میں تمہارے پاس اس سے بہتر طریقہ لے آیا ہوں جس پر تم نے اپنے باپ دادوں کو پا یا، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس کے انکاری ہیں جسے دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے۔ (الزخرف 43آیت 23-24)

اس صورت حال کی بڑی ذمہ داری اُن نام نہاد علماء اورمصلحین پرہے جنہوںنے دین کے بنیادی مواخذسے روگردانی کی یعنی کتاب اللہ اوراسوۃ رسول کو پس پشت ڈال کر انسانوں کی مرتب کردہ کتب اورافکارکو اپنی راہ عمل بنایااورلوگوںکو انہی میں مشغول اوردنیااورآخرت کے فائدوںکے لالچ میں رکھا،یقین دہانیاں اورضمانتیں دیتے رہے۔آج چاروں طرف خانقاہیں اوربے شمار خلفائے مجاز ہیں اوراکثرمسلمان اپنے بزرگوںاوراپنے تئیںحضراتِ اقدس کے ملفوظات کو الہامی نکات کا درجہ دیتے ہیںارشاد باری تعالیٰ ہے

اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ O

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑکر اپنے عالموں اوردرویشوںکو رب بنایا ہے (التوبۃ:9آیت 31)

جھوٹے،شرکیہ اورمافوق الفطرت واقعات پرمبنی کتب ہی ان کا اوڑھنا بچھوناہے اورصرف انہی کومعیارِعمل بناتے ہیں اور قرآن کریم میں ان کا تعاقب یوں کیاگیاہے ۔

مَا لَکُمْوقفۃ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَجo اَمْ لَکُمْ کِتٰبٌ فِیْہِ تَدْرُسُوْنَلاo اِنَّ لَکُمْ فِیْہِ لَمَا تَخَیَّرُوْنَجo اَمْ لَکُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَۃٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِلا اِنَّ لَکُمْ لَمَا تَحْکُمُوْنَجo سَلْہُمْ اَیُّہُمْ بِذٰلِکَ زَعِیْمٌ ج۰۰۰o

تمہیں کیا ہوگیا،کیسے فیصلے کررہے ہو کیاتمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو کہ اس میں تمہاری من مانی باتیں ہوں یاتم نے ہم سے کوئی کچھ قسمیں لی ہیں ؟جو قیامت تک باقی رہیں کہ تمہارے لئے وہ سب کچھ ہے جوتم اپنی طرف سے مقرر کرلو ان سے پوچھو توکہ ان میں سے کون اس بات کاذمہ دار(اوردعویدار)ہے ؟(سورۃ القلم68 آیت 36-40-)

دراصل ان نام نہادعلماء اورمصلحین کی ترجیحات کچھ اورہیںان کے نزدیک اپنی ذاتی وقعت ، معتقدین کا جھمگٹااورعلاقائی گدّی کی بقاء زیادہ اہم ہے ۔ان کا قصور یہ ہے کہ نہ احکامات بتلائے نہ اہمیت واضح کی اورنہ ہی باز پرس کی ۔بے پردگی اسی عمومی تنزلی کی ایک جھلک ہے آج تقریباہر شعبے میں مسلمان قرآن وسنت سے دور ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ لوگوں کی اکثریت آج بھی دینی مصروفیات میں علماء دین کی دی ہوئی ہدایات (Guide Lines) کے مطابق عمل کرتی ہے۔ اگر چہ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ علماء کے اپنے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے اس وقعت میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ یہ علماء جس چیز کی اہمیت بڑھا دیں عوام اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور جس چیز سے علماء صرفِ نظر کریں چاہے وہ اچھائی کا حکم ہو یا برائی سے روکنا اس چیز پر عمل یا اجتناب دونوں کے حوالے سے عوام کا رد عمل غیر اسلامی نظر آتا ہے ۔ مثلاً علما 12ربیع الاول کو بہت اہمیت دیتے ہیں تو عوام کا جوش و خروش واضح ہے۔ لیکن علماء اسی اہمیت کے ساتھ بسنت منانے سے عوام کو نہیں روکتے تو یہی عوام اس موقع پر بھی جوش خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اسی طرح یہی علماء جب تراویح کی ادائیگی کو اہمیت دے کر بیان کرتے ہیں تو مساجد میں تراویح کا عالیشان اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں فرض نمازوں کی اہمیت کو جو کہ تراویح سے بھی زیادہ اہم ہے بیان نہیں کی جاتی تو فرض نمازوں میں مساجد میں لوگ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ آخر کیوں؟؟؟ وجہ یہ ہے کہ علماء اورمصلحین اپنی پسندکے شعبوں میں محنت کرتے رہے اورذاتی افکارکو پروان چڑھاتے رہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ قرآن کریم میں احکام ستر وحجاب کے واضح احکامات کے باوجود بے پردگی اس قدر پروان چڑھتی رہی علماء کی کثیر تعدادنے اپنے ارادتمندوں کی بروقت اورمؤثرباز پرس نہ کی۔نہ مقاطعے کی دھمکی دی اورنہ ہی اس پر عمل درآمد کیا بلکہ اپنے تعلقات کو مقدم رکھا اوربوجوہ صرفِ نظرکرتے رہے چنانچہ آج نتیجہ سامنے ہے جو کچھ اسلام کے نام پر آج رائج ہے وہ کچھ اورہی چیزہے یہ صورت حال پندرہ شعبان کی شب اورستائیس رمضان کی شب کے مسلمانوں کے عمومی رویئے کے تقابل سے بھی واضح ہوجا تی ہے آخر مسلمان کس کے کہنے پر پندرہ شعبان کواہمیت دیتے ہیںاوربازاروں سے دوررہتے ہیں اورعورتیں ڈھونڈنے سے بھی نظرنہیں آتیںاوریہی مسلمان رمضان کے آخری عشرے کی عظمت اوراہمیت واضح ہونے کے باوجودبے حس ولاپرواہ رہتے ہیں اوربازار بے پردہ خواتین سے بھرے نظرآتے ہیںاورشیطان کی اندرسبھاکا منظرپیش کرتے ہیں ۔آخر کیوں؟؟؟اوراس کی ذمہ داری کا تعین کس پر کیاجائے؟یقینا اس قسم کی مذہبی افراط تفریط میںکفار،سیاست دانوں اوردانشوروںکاکوئی ہاتھ نہیں۔اسی طرح کچھ حضرات اپنی پسند کے امر بالمعروف کی آڑ میں بوجوہ مصروف رہتے ہیں اورنہی عن المنکرکا فریضہ فرقہ واریت کے بڑھنے کے خدشے کے بہانے کے تحت نظرانداز کرتے رہتے ہیں ۔اس کے علاوہ یہ ستم کیاگیاکہ مختلف معاملات ومسائل حل کیلئے جو مسنون اذکار، اوردعائیں شریعت نے بتائی ہیں ان سے مسلمانوں کو دور کرکے تقریباہرایک گروہ نے اپنے طورپر مرتب کردہ اذکاراوردعاؤں کا ایک ایسا متوازی نظام ترتیب دیاہے جو ایک طرف نتیجہ اوروعدہ کے اعتبار سے نہایت پرکشش ہے تو دوسری طرف مسلمانوںکوعبادات اوردیگر حدود وقیود بشمول پردہ اور اس کے احتساب سے بے فکر کرتاہے مثلاً شریعت میں مسنون دعاؤں اوراذکارکی افادیت اُس وقت ممکن ہے جب انسان پہلے صحیح العقیدہ ہو، عبادات کی مسنون طریقے سے ادائیگی کرے اورمنکرات سے اجتناب کرے مگریہاں صورت حال یہ ہے کہ ہر مسئلہ کے حل مثلا ً بچہ پیداہونے سے لیکر اس کی شادی، کاروبار اورموت تک کے تمام معاملات کیلئے اسلام کے برعکس صرف دعاؤںاوراذکار کا ایسا متوازی نظام وضع کیاگیاہے جو ہر لحاظ سے کم خرچ بالا نشین ہے اورمسلمان کو عقائد اور عبادات سے اورگناہوں کے وبال اوراحتساب سے بے فکررکھتاہے قرآن مجید جیسے دستورِ حیات اوراسوۃ رسول کو چھوڑکر شخصی نظاموں میں گرفتار اورفلاح تلاش کرنے والوں کا انجام ایسا ہی ہوتاہے کہ اقوامِ عالم میں بے وقعتی اورذلت ان کا نصیب بن جاتی ہے اگرچہ پیسے اوروسائل کے اعتبارسے مسلمان کے پاس بہت کچھ ہے ،مگر عزت ووقار سے محروم ہے خود اپنے دین سے استہزاء اورمن چاہی خلاف ورزی کرنے والوں کو عزت کیسے نصیب ہو سکتی ہے ۔ قرآن کریم میں اس صورتحال کو یوں بیان کیاگیاہے :

سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَکُوْا بِاﷲِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطَانًاج وَ مَاْواٰاہُمُ النَّارُط وَبِئْسَ مَثْوَی الظّٰلِمِیْنَo

’’ہم عنقریب انکار کرنے والوں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے اس وجہ سے کہ یہ اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو شریک کرتے ہیں جس کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں کی ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اوریہ ان ظالموں کی بری جگہ ہے ۔ ‘‘(آل عمرن3آیت 151)

مسلمان خود فیصلہ کر لیں کہ آج دنیامیںمرعوب کون ہے اورکونسافریق ذلیل ورسواہے یعنی غیرمسلم یانام کے مسلمان؟ اور کون ساگروہ حق واضح ہوجانے کے باوجودشرک جیسے جرم کا ارتکاب کر رہا ہے ۔

یہ المیہ ہے کہ اس وقت دادادادی اورنانا نانی کی نسل کے لوگ تک متأثراورلاعلم ہیں اور اسلام کے اہم اصولوں سے بے بہرہ ہیں وہ اپنی اولادکی بھی ضروری تربیت نہیں کرسکے تو اس بات کی کیا توقع کی جائے کہ پوتے پوتی اور نواسے نواسی وغیرہ کو احکا م دین معلوم ہونگے ان سب کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے آج کی نسل زیادہ پریشانی میں مبتلا ہے آج کی پاکستانی نوجوان لڑکیوں کو شائد یہ بات بتائی ہی نہیں گئی کہ چہرہ اوربازو بھی چھپانے کی چیزیں ہیں اور پردے کے ضمن میں آتی ہیں۔اب مستورات کی اصطلاح عملاًغیرمستعمل ہے کیونکہ اب مستور(باپردہ)خواتین کا وجودڈائنوسارکی طرح معدوم ہوتاجارہاہے ۔ مسجد میںعورتوں کے باپرد آنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جبکہ بازارمیںبے پردگی پر کوئی تنقید یا لازمی فتویٰ نہیںجاری کیاجاتاہے۔یہ اسی بنیادی لا علمی کا نتیجہ ہے کہ لڑکیوں کا ٹخنہ تو کیا پنڈلی بھی کھل گئی اور مرد حضرات چھپانے پر آئے توٹخنہ بھی چھپادیایعنی شلوار ،پینٹ وغیرہ ٹخنوں سے نیچے کردی اور تفریط کی صورت میںنیکر گھٹنوں سے اوپرہوگئی۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ثمرات اس پرکامل عمل درآمد کی صورت میںہی سامنے آئیں گے اورجزوی عمل درآمدیعنی آدھاتیترآدھابٹیروالی صورتِ حال سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا اس حوالے سے اسلام کا نقطہ نظران دوآیات سے واضح ہوجاتاہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے

اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِط وَ مَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo

کیا بعض احکامات پر ایمان رکھتے ہو اوربعض کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ تم میں سے جو بھی ایساکرے اس کی سزا اس کے سوا کیاہوکہ دنیامیں رسوائی اورقیامت کے دن سخت عذاب کی مار اوراللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبرنہیں(البقرۃ 2آیت 85)

نیزارشاد باری تعالیٰ ہے

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَ لااَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ

اے ایمان والواسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموںکی تابعداری نہ کرو وہ تمہاراکھلا دشمن ہے (البقرۃ2آیت208)

چنانچہ ہمیں چاہئے کہ خودکومکمل طورپراسلام میںڈھالیںاسلام کو خواہشات کے مطابق تبدیل (AdjustاورModify)نہ کریںکیونکہ شریعت کے احکام نہیں بدل سکتے یہ فطرت کے خلاف ہے اوراگر ایسا جواز نکالا گیا تو اس کی کوئی انتہاء نہیں ہوگی۔وہ لوگ جو احکام شریعت پر لب کشائی کرتے ہیں اوربتدیلی کے خواہاں ہیں ان کو چاہئے کہ وہ کم ازکم اِن دوآیات کومدنظررکھیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ ٰاٰیتُنَا بَیِّنٰتٍلا قَالَ الَّذِیْنَ لااَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ہٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُط قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآیِٔ نَفْسِیْج اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّج اِنِّیْٓ اَخَافاُا اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍO

اورجب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہے جو بالکل صاف صاف ہیں تویہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کی امیدنہیں یوں کہتے ہیں کہ اس کے سواکوئی دوسراقرآن لایئے یا اس میں کچھ ترمیم کردیجئے آپ یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کردوںبس میں تواسی کا اتباع کروںگا جومیرے پاس وحی کے ذریعہ سے پہنچاہے اگرمیں اپنے رب کی نافرمانی کروں تومیں ایک بڑے دن کے عذاب کااندیشہ رکھتاہوں(سورۃ یونس10 آیت15)

نیز فرمایا

وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَآئَہُمْ مِّنْم بَعْدِ مَا جَآئَکَ مِنَ الْعِلْمِلا اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ

اوراگرآپ (محمد)باوجودیہ کہ آپ کے پاس علم آچکاپھربھی ان کی خواہشوں کی پیچھے لگ جائیںتو یقینا آپ بھی ظالموںمیں سے ہوجائیں گے(سورۃالبقرہ2 آیت145)

نیز فرمایا:

وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَآئَہُمْ بَعْدَ مَا جَآئَکَ مِنَ الْعِلْمِلا مَا لَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لااَا وَاقٍ

اگر آپ نے ان کی خواہشوں کی پیروی کرلی اس کے بعدکہ آپ کے پاس علم آچکاہے تو اللہ تعالیٰ (کے عذابوں)سے آپ کوکوئی حمایتی ملے گا اورنہ ہی بچانے والا(سورۃ الرعد13 آیت37)

اورقانونِ شریعت میںعدم تبدیلی کی حکمت بھی اللہ تعالیٰ نے خود بیان کردی

وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَہْوَآئَہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْہِنَّط بَلْ اَتَیْنہُمْاٰا بِذِکْرِہِمْ فَہُمْ عَنْ ذِکْرِہِمْ مُّعْرِضُوْنَO

’’اگرحق ہی ان کی خواہشوں کا پیروکارہوجائے توزمین وآسمان اوران کے درمیان کی ہرچیز درہم برہم ہوجائے حق تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچادی ہے لیکن وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑنے والے ہیں‘‘۔ (سورۃ المومنون آیت:71)

خرابی کی دوسری وجہ ۔۔۔۔۔حیاء کے احساس کا ختم ہونا

اصل چیز حیا اور احسا س ہے اورہر برائی کے عمومی ارتکاب کی اصل وجہ حیا یعنی احساسِ زیاں(احساس ِخیروشر) کا ختم ہوناہے۔حیااورپردہ ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیںحیا پردے کی روح ہے اور پردہ احساسِ حیاکومضبوط کرنے کاذریعہ ہے ۔ حیا کے عدم احساس کی وجہ سے انسان مختلف قسم کے گنا ہ کرتاہے جس میں بے پردگی بھی شامل ہے۔ زبردستی اور دکھلا وے کا پردہ دین و دنیا کے لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اسی لئے حضور نے فرمایا:ترجمہ : جب تجھ میں حیا نہ رہے تو تیرا جو جی چاہے کر(بخاری ) اس ضمن میںٹیلی ویژن کاکرداربڑاتباہ کن رہاہے مگرالمیہ یہ ہے کہ اب تواچھے اچھے لوگوں نے بھی ٹیلی ویژن کا جواز نکال لیاہے ۔

خرابی کی تیسری و جہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عورتوں کے گھر کی چار دیواری سے نکلنے کا جوازتراشنااوربے مقصدنکلنا

اسلام کا فلسفہ یہ ہے کہ مرد اور عورت حقوق میں یکساں ہیںارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ

عورتوں کے ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں۔ (سورۃ البقرۃ2 :آیت228)

مزید یہ کہ عورتوں کے لئے انکی طبعی کمزوی اور اہم ذمہ داریوں مثلاً حمل ، ولادت ، رضاعت اور پرورش جیسے کاموں کی وجہ سے مراعات زیادہ اوردیگر ذمہ داریاں کم رکھی گئی ہیں۔اس کے بر عکس مردوں کو جسمانی اور اعصابی طور پر مضبوط بنایا گیا ہے اورتمام بیرونی ذمہ داریاںان کی سختی اور شدت کی وجہ سے مردوں کے ذمہ لگائی گئی ہیں۔ مردوںکو صرف انتظامی امور کی انجام دہی اور ذمہ داری(Responsibility) کے تعین ا ور درجہ بندی(Level) کے حوالے سے عورتوں پر با اختیار(Authorize) کیا گیاہے اورفوقیت(Priority) دی گئی ہے اور یہ منطقی طور پر صحیح اور حکمت پر مبنی ہے۔کیونکہ نظام چلانے کے لئے کسی ایک کی اِمارت (Authority) لازمی ہے اور یہ اِمارت اسلام نے مرد کو تفویض کی ہے اور عورت کو اسلامی تحفظات کے ساتھ مرد کے ماتحت رکھا گیا ہے ۔ مگر شیطان نے آزادیٔ نسواں کے نام پرانسانوں کو دھوکے میں ڈالا اور مفاد پرست انسانوں نے برابری اور حقوق کے دھوکے میں عورتوں کو گھر سے نکالنے کا جواز پیدا کیا اور یوں بیرونی کاموں کی نوعیت کے تقاضوں کے تحت بے پردگی کی مجبوری (Compulsion) اور مصالحت (Compromise)کا آغاز ہوا ۔

اسلام نے بیرونی ذمہ داریوں کے تحت عورت کو باہر نکلنے کا مکلف ہی نہیں بنایا۔اسلام نہیں چاہتاکہ عورتیں باہر نکلیں اوران پر بیرونی ذمہ داریوں کاکوئی دباؤ ہو۔ نہ ہی ان کو ستایا جائے اورنہ ہی نقصان پہنچایاجائے ۔ اسلام میں عورت کی ضرورتوں، سامانِ تفریح ،آرام اورمسائل کا حل غرض ساری امکانی صورتوں کا انتظام گھرکی چار دیواری کے اندراورمردوں کے ذمہ لگایاگیاہے۔چنانچہ اس حوالے سے اسلام کا نقطۂ نظر واضح اور دو ٹوک ہے ۔

عورتیں حتی الامکان طورپر گھر میں ہی رہیں اوربلا ضرورت گھرسے نہ نکلیں

عبادات کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاںپوری کرتی رہیں۔

اپنے شوہر اور اولاد کے حقوق کے حوالے سے گھریلو ذمہ داریوں میں مصروف رہیں۔

فارغ وقت کی مصروفیت کے حوالے سے وہ قرآن کریم کا ترجمہ و تلاوت اور تدبرّ میں مصروف رہیں۔اسلیئے کہ قرآن کریم تمام ضروری علوم کامنبع ہے ۔

گھرسے باہرنکلنے کی صورت میںاحکام ستروحجاب پر عمل درآمدکریں

انتہائی مجبوری اوراستثنائی صورتوںمیں اگر غیر مرد سے معاملہ ہو تو وہ بھی حجاب میں رہتے ہوئے اوربات کرنے کے انداز میںنسبتاً سختی کے ساتھ نہ کہ نرمی اورلگاوٹ کے انداز میں۔

غریب یا مجبور عورت کے گھرسے باہر نکلنے کی ذمہ داری ریاست پر آتی ہے کیونکہ یتیموں ،بیواؤں ،معذوروںاورضعیفوں کی کفالت ریاست پر ہے ۔

کیونکہ فی زمانہ ایک مکمل اسلامی ریاست کا نمونہ عدم دستیاب ہے اس لئے معاشرے میں کچھ پیچیدگیاںنظرآتی ہے اوربعض عورتیںمجبورہوجاتی ہے کہ وہ روزی کی تلاش یاعلاج معالجے کیلئے گھرسے باہرنکلیں مگر وہ عورت جو ملازمت کی مجبوری کے نام پرگھر سے بناؤ سنگھار کرکے نکلتی ہے اوردفتروںمیںمردوںکے سامنے انداز دکھاکر نرمی سے باتیں کرتی ہے وہ توواضح طورپر دین کے اصولوںکی خلاف ورزی کرتی ہے۔

جہاد کے موقع پر خواتین کا باہر نکلنا

جو لوگ ابتدائی دورکے غزوات میں خواتین کے کردارکے حوالے سے خواتین کے باہر نکلنے کوجواز بناتے ہیں توان کو معلوم ہوناچاہئے کہ جنگ ایک انتہائی استثنائی معاملہ ہے اوراس میں بھی احکات ستروحجاب کالحاظ رکھاجاتاتھا۔ وہ صحابیات آج کے نام نہاد مسلمانوںکی طرح بے پرد انداز سے نہیںنکلتی تھیں ۔آج کے زبانی شیر مسلمان عورت تو کیا مرد بھی جنگ کے موقع پر مٹی کے مادھو ثابت ہونگے یہ تاریخ کاسبق ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے اپنی دینی اقدارکو فراموش کیا وہ ناکام ہوئے اوردشمنوں کیلئے ترنوالہ ثابت ہوئے ۔تاریخ کے اس سبق کو دشمنانِ اسلام خوب یاد رکھتے ہیں اوروقتا فوقتابے شرمی اوربے حیائی کے طریقوںکو اپنے حربے کے طورپر استعمال کرکے مسلمانوںکی ایمانی کیفیت کو کمزورکرتے رہتے ہیں۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اپنے مقاصد کیلئے کے حصول کیلئے مگرالمیہ ہے کہ جب مسلمان خیرخواہی کے حوالے سے آپس میں نصیحت کرتے ہیں تومسلمانوں ہی کے رہنمااوردانشورچراغ پا ہوجاتے ہیں گویا درپردہ وہ دشمن کے ایجنٹ کاہی کام کرتے ہیں !

یہ بات قابل توجہ ہے کہ جب اسلام کے ذیلی نظاموں مثلاً نظامِ معیشت ،نظامِ عدل ،نظامِ حکومت،نظامِ اخلاقیات کا مکمل اوربیک وقت اطلاق ہوگا تووہ مختلف پیچیدگیاںجن کے اثرات کے تحت عورتوںکے باہرنکلنے کا جوا ز بنایاجاتاہے ان میں سے اکثرپیچیدگیاں پیداہی نہیںہونگی مثلاً گھرچلانے کی ذمہ داریاںوغیرہ۔ اسلام پیچیدگیوںپرکنٹرول لاتاہے تاکہ باہرآنے کی ضرورت ہی نہ آئے مزیدیہ کہ اسلام کا بنیادی تقاضایہ ہے کہ سادگی کے ساتھ دنیاکی زندگی گزاردی جائے اورمقصدِ حیات اس دنیاکے متعلقات پر محنت نہیں بلکہ آخرت کی زندگی کیلئے ہو یہ نکتہ بھی مختلف قسم کی ان پیچیدگیوں کوزائل کرنے میںمدددیتاہے جن کو گھرسے باہرنکلنے کا جوازبنایاجاتاہے۔

چنانچہ اگر مندرجہ بالا اصولوں کا اطلاق ہوگا تو عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے کی شرح میں لازمی کمی آئے گی اور یوں ستر و حجاب کی خلاف ورزی سے متعلق مسائل بھی کم سے کم ہوں گے ۔

خرابی کی چوتھی وجہ ۔۔۔۔۔مرد حضرات کااحکام ستروحجاب پراز خودعمل نہ کرنا

اصل ذمہ داری مردوں کی ہے مردوںکی افراط وتفریط نے اسلام کے اس اعلیٰ اورزریں اصول کی افادیت کو غیرموثرکردیا۔پردے کے ثمرات اس وقت تک سامنے نہیں آئیں گے جب تک اس کے احکامات پر کامل عمل درآمدنہیں ہوگا ۔ مثلاًغض بصر(نگاہ نیچی رکھنے ) کا حکم مردوعورت دونوں کیلئے ہے اوربنی آدم کے لفظ میں مرد وعورت دونوں شامل ہیں ۔بے مقصد گھر سے نکلنامرد اورعورت دونوں کیلئے منع ہے ۔ مردوں کے لئے بھی بیوٹی پارلروں کا استعمال، بالوں کی تزئین وآرائش ، تنگ وچست لباس ،نیکروں کااستعمال اورگریبان کھلا رکھنا وغیرہ سب ممنوع ہیں۔چنانچہ مرد حضرات بھی ستر وحجاب کے احکامات سے کسی طور پر مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریاں ازخود عمل کے حوالے سے زیادہ ہیں ۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ کسی معاشرے میں مرد با حیا ہوںاوروہاں کی عورتیں بے حیا اور بے پردہ رہیں ۔

کیا پردہ فرض ہے؟
احکام سترووحجاب کا خلاصہ ۔۔۔۔ آیاتِ قرآنی کی روشنی میں

مندرجہ ذیل خلاصے سے احکام ستر وحجاب کے ضمن میں شریعت کے اصول واضح ہیں مگر پھر بھی مسلمانوںکی کثیر تعداد اس کی خلاف ورزی کرتی ہے آخر کیوں؟۔



شریعت کا حکم(قرآن کی روشنی میں)


دلیل اور حکمت

بے لباسی منع ہے۔
’’ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا ہے جو تمہارے قابلِ پردہ بدن کو چھپاتا ہے‘‘۔ (الاعراف 7آیت 26)

بے مقصد گھر سے نکلنا منع ہے۔
’’اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو‘‘۔ (الاحزاب 33آیت 33)

عورت کے لئے چہرے کا پردہ فرض ہے۔
’’ اور جب تم ان سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو ‘‘۔ (الاحزاب 33آیت 53)

مردوعورت کے لئے آنکھ کا پردہ لازمی ہے
مردوں سے کہیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔۔۔مسلمان عورتوں سے کہیں کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔(النور 24آیت 30-31)

جسم پر اضافی چادر لازمی ہے ۔
’’اپنے اوپر اپنی چادریں ڈال دیا کریں اس سے وہ پہچانی جائیں گی اور وہ ستائی نہیں جائیں گی‘‘(الاحزاب 33آیت 59)

زیب و زینت اور آرائش کو ظاہر کرنا منع ہے۔
’’اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو‘‘ (النور 24آیت 31)

عورتوں کی آواز بھی پردہ ہے
’’گفتگو میں ملائمت نہ کرو کہ جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ لالچ کرے بلکہ معقول انداز سے بات کرو‘‘ (الاحزاب 33آیت 32)

ظاہری اور باطنی فحاشی دونوں حرام ہے۔
’’آپ فرمادیجئے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیاہے ان تمام فحش باتوں کو جوظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں ‘‘(الاعراف7آیت 33)

سوال​
جب قرآن کریم میں ازواج مطہرات یعنی مسلمانوں کی ماؤں کوبھی ستروحجاب کے متعلقات یعنی چہرے کا پردہ ، اضافی چادر ، زیب و زینت کو چھپانے ، نامحرموں سے اندازِ گفتگواورگھر سے باہر نکلنے کے حوالے سے احکامات دوٹوک اور واضح انداز سے دئیے گئے ہیںیعنی ان کو بھی مستثنیٰ نہ کیا گیا توآج کے مسلمان کیسے مستثنیٰ ہوسکتے ہیں۔ ؟

ریعت کا حکم( احادیث رسول کی روشنی میں)​

دلیل اور حکمت

مرد و عورت کا تنہائی میںملنا منع ہے۔
’’مرد کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا محرم نہ ہو اور کوئی عورت اپنے محرم کے بغیر ہر گز کسی جگہ کا سفر نہ کرے۔‘‘(بخاری و مسلم)

آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں۔
’’ آنکھوں کا زنا (نامحرموں کو ) دیکھنا ہے ۔‘‘(مسلم)

دوسری نظر ناقابلِ معافی ہے ۔
’’(کسی نا محرم عورت پر) ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالا کرو اس لئے کہ پہلی نظر تو تمہارے لئے معا ف ہے اور دوسری معاف نہیں۔‘‘(احمد)

تنگ ، باریک اورمختصر لباس پہننا منع ہے ۔
’’جہنمیوں کی دو قسمیں ہیں جن کومیں نے(اب تک دنیا میں) نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیل کی دموں کی مانند کوڑے ہونگے جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے اورایک وہ عورتیں جو کپڑے تو پہنے ہوئے ہونگی لیکن ننگی ہونگی۔ مردوں کو مائل کرنے والی اور خود ان کی طرف مائل ہونے والی ہونگی ان کے سر گویا بختی اونٹوں کے کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہونگے۔ وہ جنت میں نہیں جائیں گی بلکہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی دور سے آتی ہے۔‘‘(مسلم)

عورتوں کیلئے خوشبولگاکر باہر جانا منع ہے۔
’’جو بھی عورت خوشبو لگا کر گلی بازار میں سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوں تو وہ ایسی ہے ، ایسی ہے۔ آپ نے سخت الفاظ فرمائے۔‘‘ (مسلم)

جسم میں سرمہ یا نیل بھروانا/ ابرو کے بال اکھیڑنا/ دانتوں کا تراشنا منع ہے۔
’’ایسی عورتوں پر لعنت ہو جو گدواتی ہیں، جو بھنویں (Eye Brow) اکھیڑتی اور اکھڑواتی ہیں اور دانتوں کو گھِسوا کر خوبصورت بناتی ہیں۔ ‘‘(مسلم)۔ اپنے بالوں میں نقلی بال( Wig ، جوڑا ، کپڑے کا پراندہ اور چوٹی وغیرہ) کا اضافہ نہیں کرنا چاہئیے۔(بخاری ، ترمذی)

بے پرد عورت شیطان کا شکار
’’عورت پردہ کی چیز ہے جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک کرتا رہتا ہے۔‘‘(ترمذی)

گناہ سے بچنے کے لئے نکاح کرو۔
’’نکاح آنکھوں کو بد نظری سے روکنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے۔ ‘‘ (بخاری ، ترمذی)

چہرہ ، ہاتھ اور پاؤں بھی چھپانے کی چیز یں ہیں۔
’’عورت کو اپنا چہرہ ، ہاتھ اور پاؤں بھی غیر محرم سے چھپانے چاہئیں۔‘‘(ابو داؤد)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ عامر بھائی جان۔ بہت ہی مفید مضمون ہے ماشاء اللہ۔
اور فارمیٹنگ پر اتنی محنت کے لئے بھی بہت شکریہ!
 
Top