• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پروفیسر محمد طاہر القادری کے متنازعہ افکار وکردار

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ڈاڑھی کے بارے موقف
ڈاڑھی کے بارے بھی پروفیسر صاحب کا موقف انتہائی گنجلک ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ڈاڑھی چھوڑنا سنت مؤکدہ ہے، لیکن کتنی چھوڑنی چاہیے، ایک مشت یا اس سے کم یا اس سے زیادہ، اس کی شریعت میں کوئی تعیین نہیں ہے لہٰذا اگر ایک مشت سے کم ڈاڑھی بھی ہو تو بھی جائزہے اور یہ شرعی حکم کی تعمیل میں داخل ہے۔ ایک مشت یا اس سے زائد ڈاڑھی رکھنا سنت غیر مؤکدہ یا سنن عادیہ میں سے ہے۔ پس جس کی ڈاڑھی ایک مشت سے کم ہو یا ایک مشت ہو یا ایک مشت سے زائد ہو ، سب اجر وثواب میں برابر ہیں۔ (1)

(1) : Fatwa on Darhi (Beard) Part 02 - YouTube
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شرک وبدعت کے بارے نت نئے تصورات
بدعت کے بارے پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب ’کتاب البدعۃ‘میں یہ موقف پیش کیا ہے کہ دین اسلام میں کسی بھی فعل وعمل کا اضافہ اس وقت تک بدعت نہیں کہلائے گا جب تک کہ اس فعل وعمل کی حرمت کتاب وسنت یا آثارِ صحابہ سے ثابت نہ ہو جائے۔ پس پروفیسر صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق دین میں کسی اضافہ شدہ فعل و عمل کی حرمت کے بارے اگر کتاب اللہ یا سنت رسول ﷺ میں کوئی نص یا اقوالِ صحابہ میں کوئی اثر موجود نہ ہو تو وہ فعل وعمل جائز اور مباح یا بدعتِ حسنہ کہلائیگا۔
ایک ویڈیو میں جناب پروفیسر صاحب ایک قبر میں اتر کر مردے کو کلمہ پڑھوا رہے ہیں۔ ایک اور قبر پر دفنانے کے بعد مردے کو کلمہ پڑھوایا جا رہا ہے۔ (1)
پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب ’عقیدہ توسل‘ میں اپنا یہ عقیدہ بیان فرمایا ہے کہ آپ کی اُمّت سے شرک صادر نہیں ہوسکتا ہے لہٰذا آپ کا اُمّتی کبھی بھی مشرک نہیں ہو سکتا ہے۔ اپنے ’تبرک‘ نامی کتابچہ میں پروفیسر صاحب نے اپنا یہ عقیدہ بیان فرمایا ہے کہ انبیا، اولیا اور صالحین کے آثار ومقامات سے تبرک حاصل کرنے کے لیے ان کے مزارات اور قبروں کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ ان کی قبروں ، مزارات اور چوکھٹوں کو بطورِ تبرک بوسہ بھی دیا جا سکتا ہے۔
روزِقیامت غیر اللہ کی سفارش یا شفاعت یا کام آنے کے بارے پروفیسر صاحب کا خیال ہے کہ قرآنی الفاظ ’من دون اللہ‘سے مراد وہ غیر اللہ ہیں جو اللہ کے دشمن اور معاندین ہیں، مثلاً: مشرکین کے بت وغیرہ جبکہ اللہ کے دوستوں اور اولیا کو ’من دون اللہ‘ میں شامل کرنا درست نہیں ہے۔پس معبودانِ باطلہ تو اللہ کے مقابلہ میں ولی اور شفیع نہیں ہوسکتے ہیں جبکہ اولیا وصالحین، جو اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں، روزِ قیامت ولی بھی ہوں گے اور سفارشی بھی۔
غیر اللہ سے دعا کرنے کے بارے پروفیسر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ دعا تین معنوں: دعوت، التجا یعنی درخواست اور عبادت کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ پس اگر دعا بہ معنیٰ عبادت ہو تو غیر اللہ سے دعا کرنا جائز نہیں ہے اور اگر بہ معنی دعوت یا التجا ودرخواست ہو تو غیر اللہ سے دعا کرنا جائز ہے۔پس غیر اللہ سے استغاثہ جائز ہے اور اُنہیں مجازاً مشکل کشا بھی کہا جا سکتا ہے۔
جناب پروفیسر صاحب نذر ونیاز کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں: نذر بہ معنیٰ عبادت اللہ کے لیے خاص ہے ۔ نذر بہ معنیٰ ایصالِ ثواب اللہ کے بندوں کے لیے خاص ہے اور نذر بہ معنیٰ کھانا کھلانے کی نسبت بھی اللہ کے بندوں کی طرف ہو سکتی ہے۔پس ان کے اس نقطہ نظر کے مطابق مجازًا ’نذر حسین‘ اور ’نیاز شاہ عبدالقادر جیلانی‘ کہنا درست ہے۔مذکورہ بالا خیالات کا اظہار اُنہوں نے اپنی کتاب’عقیدہ توحید اور غیراللہ کا تصور‘ میں کیا ہے۔
اپنے کتابچے’مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت‘ میں پروفیسر صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرنے کے بعد بھی انبیا اور اولیا سے ایسے ہی استغاثہ جائز ہے جیسا کہ ان کی حیا تِ دنیوی میں جائز تھا۔ان کا کہنا یہ ہے کہ غیر اللہ سے استغاثہ ، حقیقی استغاثہ نہیں ہے بلکہ درحقیقت اسے اللہ کی جناب میں وسیلہ بنانے کے مترادف ہے۔استغاثہ کے علاوہ انبیا اور صالحین کی زندگی اور موت کے بعد بھی ان کے توسّل کو پروفیسر صاحب جائز قرار دیتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں شرک کی تردید میں جس قدر آیات نقل ہوئی ہیں، پروفیسر صاحب اُنہیں معبودانِ باطلہ یعنی مشرکین کے بتوں اور طواغیت کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں اور ان آیات کے عمومی مفہوم کے قائل نہیں ہیں۔ اپنے ترجمہ ’عرفان القرآن‘ میں جا بجا اُنہوں نے ایسی آیات کے ترجمہ میں ’بتوں‘ کا لفظ محذوف نکالا ہے۔ پس پروفیسر صاحب کے بقول قرآن نے جس شرک کی تردید کی ہے، وہ شرک مسلمان معاشروں میں نہیں پایا جاتاہے لہٰذا معاصر مشرکانہ اعمال وفعال پر قرآنی آیات کی تطبیق درست طرزِعمل نہیں ہے۔

(1) :
http://www.youtube.com/watch?v=J5aDi-eW_jc&feature=related
http://www.youtube.com/watch?v=EDloTJrM-kE&feature=related
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرآن مجید کی سائنسی اور باطنی تفسیر
پروفیسر صاحب کئی ایک مقامات پر قرآن مجید کا ایسا ترجمہ یا تفسیر بیان کی ہے جو قرآنِ مجید کے ظاہر یا اہل السنّۃ والجماعۃ کے اُصولِ تفسیر کے مطابق نہیں ہے، مثلاً پروفیسر صاحب سورة ’النازعات ‘ کی ابتدائی پانچ آیات ﴿ وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًاۙ۔ وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًاۙ ۔ وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًاۙ ۔ فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًاۙ ۔ فَالْمُدَبِّرٰتِ۠ اَمْرًاۘ ﴾ کی آیات کے دو تراجم میں ایک ترجمہ یہ بیان کیا ہے:
توانائی کی ان لہروں کی قسم جو مادہ کے اندر گھس کر کیمیائی جوڑوں کو سختی سے توڑپھوڑ دیتی ہیں، توانائی کی ان لہروں کی قسم جو مادہ کے اندر سے کیمیائی جوڑوں کو نہایت نرمی اور آرام سے توڑ دیتی ہیں،توانائی کی ان لہروں کی قسم جو آسمانی خلاوفضا میں بلا روک ٹوک چلتی پھرتی ہیں، پھر توانائی کی ان لہروں کی قسم جو رفتار، طاقت اور جاذبیّت کے لحاظ سے دوسری لہروں پر سبقت لے جاتی ہیں، پھر توانائی کی ان لہروں کی قسم جو باہمی تعامل سے کائناتی نظام کے بقا کے لیے توازن وتدبیر قائم رکھتی ہیں۔
اسی طرح اُنہوں نے سورة نجم کی آیت ﴿ وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۙ ﴾ کا ترجمہ کیا ہے:
قسم ہے روشن ستارے (محمد ﷺ) کی جب وہ (چشم زدن میں شب معراج اوپر جا کر ) نیچے اُترے۔
سورة زمر کی آیت ﴿ اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَٞ﴾ کاترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(اے حبیب مکرم!) بے شک آپ کو (تو) موت (صرف ذائقہ چکھنے کے لئے) آنی ہے اور وہ یقینًا (دائمی ہلاکت کے لیے) مرد ہ ہو جائیں گے۔ (پھر دونوں موتوں کا فرق دیکھنے والا ہوگا)
سورہ قصص کی آیت مبارکہ ﴿ اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ﴾ کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ جسے آپ (ہدایت پر لانا) چاہتے ہیں، اسے صاحبِ ہدایت آپ خود نہیں بناتے، بلکہ (یوں ہوتا ہے کہ)جسے(آپ چاہتے ہیں اسی کو) اللہ چاہتا ہے (اور آپ کے ذریعے) صاحب ہدایت بنا دیتا ہے اور وہ راہِ ہدایت کی پہچان رکھنے والوں سے خوب واقف ہے۔ (یعنی جو لوگ آپ کی چاہت کی قدر پہچانتے ہیں، وہی ہدایت سے نوازے جاتے ہیں)
سورہ مریم کی آیت ﴿ اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَ لَا يُبْصِرُ وَ لَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَيْـًٔا ﴾ کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب اُنہوں نے اپنے باپ(یعنی چچا آزر سے جس نے آپ کے والد تارخ کے انتقال کے بعد آپ کو پالا تھا) سے کہا: اے میرے باپ! تم ان(بتوں) کی پرستش کیوں کرتے ہو جو نہ سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور تم سے کوئی(تکلیف دہ) چیز دور کر سکتے ہیں۔
سورہ کہف کی آیت مبارکہ ﴿ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰۤى اِلَيَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ﴾ کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فرما دیجئے: میں تو صرف (بہ خلقت ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں(اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے ، ذرا غور کرو) میری طرف وحی کی جاتی ہے۔(بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلام الہی اتر سکے)
اسی طرح پروفیسر صاحب نے سورةرحمن کی آیت ﴿ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِۙ﴾ میں دو دریاوٴں کی تفسیر حضرت حسن اور حسین سے کی ہے۔ اپنی کتاب ’ذبح عظیم‘ میں سورة صافات کی آیت ﴿ وَ فَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ﴾ میں ’ذبح عظیم‘ سے مراد حضرت حسین کو لیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شیعہ ہونے کا الزام
بریلوی مکتب فکر کے بعض اہل علم نے پروفیسر طاہر القادری پرتفضیلی شیعہ ہونے کا بھی الزام عائد کیا ہے جیسا کہ مفتی غلام سرور قادری نے اپنی کتاب ’پروفیسرطاہر القادری: علمی وتحقیقی جائزہ‘ میں کہا ہے۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب نے ’قصر بتول‘ میں ’مولودِ کعبہ‘ کے نام سے ایک تقریر میں یہ کہا :
”تمام صحابہ بھی اکٹھے ہو جائیں تو علم میں حضرت علی کا کوئی ثانی نہیں ۔“ (روزنامہ جنگ، 19 مئی، 1987ء)
اسی طرح پروفیسر طاہر القادری صاحب جامعہ المنتظر، لاہور میں مجلس عزا پڑھتے ہوئے کہا کہ سنّیت اور شیعیت میں کوئی جھگڑا نہیں ہے اور اصل مسئلہ خوارجیت کا ہے یا دوسرے الفاظ میں سنّی اور شیعہ ایک ہی ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔(1)
پروفیسر طاہر القادری اپنی کتاب ’السیف الجلي على منکر ولایة على‘ میں کہتے ہیں کہ
اللہ کے رسول ﷺ کی خلافت تین قسم کی تھی: ایک خلافتِ ظاہری اور دوسری خلافتِ باطنی، پہلی حضرت ابو بکر صدیق کو ملی اور دوسری حضرت علی کو ۔ پہلی قسم کی خلافت سیاسی منصب تھا اور دوسری قسم کی خلافت روحانی منصب۔پہلی قسم کی خلافت انتخابی وشورائی تھی اور دوسری قسم کی وہبی واجتبائی۔ پہلی قسم کی خلافت کا تقرر عوام الناس نے کیا اور دوسری کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے۔ پہلی قسم کی خلافت کا دائرۂ کار فرش تھا اور دوسری کا عرش تک تھا۔پہلی قسم کی خلافت حضرت ابو بکر صدیق کے بعد خلفاے راشدین میں جاری ہوئی اور دوسری قسم کی خلافت حضرت علی کے بعد اہل بیت کے بارہ اماموں میں جاری ہوئی۔ پہلی قسم میں آپ کی سیاسی وراثت جاری ہوئی اور دوسری قسم میں روحانی وراثت۔ دوسری قسم کی خلافت کو ولایت وامامت بھی کہتے ہیں۔ (السیف الجلی علی منکر ولایۃ علی: ص 9،10)
پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اپنی کتاب ’مسئلہ ولادتِ امام مہدی‘ میں یہ بھی وضاحت کی ہے کہ دوسری قسم کی خلافت یعنی ولایت وامامت کے آخری خلیفہ امام مہدی ہوں گے اور یہ بارہویں خلیفہ یا امام ہوں گے جیسا کہ اہل تشیع کے ہاں بھی امام مہدی ان کے بارہویں ہی امام ہیں۔ اُنہوں نے اپنی کتاب ’السیف الجلی علی منکر ولایۃ علی‘ میں کہا ہے کہ حضرت مولا علی المرتضی اور حضرت مہدی الارض والسماء ، باپ بیٹا دونوں، اللہ کے’ ولی‘ اور رسول ﷺ کے ’وصی‘ ہیں۔
پروفیسر طاہر القادری کے بقول امام مہدی کا ظہور تقریباً کم ازکم 8سو سال بعد سن 2204ھ میں یا اس کے بھی ایک ہزار سال بعدہو گا۔ (2)
ہمارے خیال میں اگر تو پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے شیعہ ہونے سے ناقدین کی یہ مراد ہو کہ وہ اہل تشیع کو خوش کرنے کے لیے حضرت علی کو حضرت ابو بکر صدیق اور خلفاے راشدین پر ترجیح دیتے ہیں اور اہل تشیع کے تصورِ ولایت وامامت کے قائل ہیں اور امام مہدی کو اثنا عشریہ اہل تشیع کی طرح اپنا بارہواں امام تسلیم کرتے ہیں تو یہ بات تاحال ان کی تقاریر اور کتب سے بالکل ثابت ہوتی ہے، اِلاّیہ کہ وہ مستقبل میں کسی وقت اپنے اس موقف سے رجوع کر لیں۔ یہ درست ہے کہ وہ حضرت علی کی فضیلت خلفاے راشدین اور بقیہ جمیع صحابہ پر ثابت کرنے میں اور ان کی ولایت وامامت کے ثبوت میں تکلف وتصنع اور خطابت وبلاغت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن وہ فقہ جعفری یا زیدیہ فقہ کے پیروکار نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو سنّی اور فقہ حنفی کا متبع بتلاتے ہیں۔پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر طاہر القادری عقائد کے اعتبار سے تفضیلی شیعہ ہیں، لیکن فقہ میں حنفی بریلوی ہیں۔
پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب’کتاب البدعۃ‘ میں ان اہل تشیع کے کفر کو یقینی اور قطعی قرار دیا ہے جو حضرت علی کی اُلوہیت کے قائل ہوں یا حضرت جبریل کے بارے یہ عقیدہ رکھیں کہ غلطی سے وحی حضرت علی کی بجائے اللہ کے رسول ﷺ پر لے آئے یاقرآن میں تحریف میں یا ترمیم کا عقیدہ رکھیں یا حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائیں یا یہ عقیدہ رکھیں کہ وصالِ رسول ﷺ کے بعد صحابہ مرتد ہو گئے تھے یاحضرت ابو بکر صدیق کی صحابیت کا انکار کرے۔
(1) : Address Majlis e Aza by Shaykh-ul-Islam Dr M Tahir ul Qadri in Jamey Al-Muntazir - Lahore - YouTube
(2) : Dr Tahir ul Qadri announces date of Imam Mahdi AS From Prophetic Hadith Traditions 2/2 - YouTube
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پروفیسر طاہر القادری کے خواب
پروفیسر صاحب پر اُن کے خوابوں کی وجہ سے بھی مختلف مذہبی اور غیر مذہبی حلقوں کی طرف سے نقد ہوتی ہے۔یہ خواب تفصیلی ہیں اور اس کی آڈیوز اور ویڈیوز موجود ہیں اور ان میں سے بعض خواب انٹرنیٹ پر’ یوٹیوب‘ نامی ویب سائیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔

ایک خواب:
ایک خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی آمد سندھ کے کسی شہر میں ہوتی ہے۔ لوگ زیارت کے لیے جاتے ہیں، لیکن اللہ کے رسول ﷺ کسی کو زیارت نہیں کرواتے۔ بالآخر پروفیسر صاحب اکیلے رہ جاتے ہیں اور اُنہیں اللہ کے رسول ﷺ کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ پروفیسر صاحب سے شکوہ کرتے ہیں کہ میں اہل پاکستان، دینی جماعتوں، اداروں اور علما سے نالاں ہو کر واپس جا رہا ہوں، کیونکہ اُنہوں نے میری قدر نہیں کی اور اسی لیے میں نے اُن سے ملاقات بھی نہ کی۔ پروفیسر صاحب اس پر اللہ کے رسول ﷺ کی منتیں سماجتیں کرتے ہیں ، پاوٴں پڑتے ہیں، روتے ہیں تو اللہ کے رسول ﷺ کا دل نرم پڑ جاتا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ ایک شرط پر پاکستان رکنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ پروفیسر طاہر القادری صاحب اللہ کے رسول ﷺ کی میزبانی کریں گے۔ پاکستان میں اللہ کے رسول ﷺ کے ٹھہرنے کا انتظام، کھانے پینے کا انتظام، پاکستان میں اندرونِ ملک سفر کے ٹکٹ اور قیام کا انتظام اور واپس مدینے تک کا ٹکٹ کا انتظام پروفیسر صاحب کریں گے۔اللہ کے رسول ﷺ نے کہا کہ تم ’ادارہ منہاج القرآن‘ قائم کرو، میں وہاں تشریف لاوٴں گا۔

دوسرا خواب:
ایک دوسرے خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کا دن ہے اور اذان کا وقت ہے۔ مسجدِ نبوی کا مقام ہے اور اجتماعِ عام ہے۔ مؤذّن اذان دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے کہ اس مؤذن کو ہٹا دو، آج جمعہ کی اذان طاہر دے گا۔

تیسرا خواب:
ایک اور خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ صحرائی علاقہ میں ایک ر یتلے ٹیلے پر اللہ کے رسول ﷺ تشریف فرما ہیں۔ آپ کی داہنی جانب حضرت ابو بکر صدیق اور بائیں جانب حضرت عثمان ہیں۔ میں چھوٹا سا بچہ تھا اور اللہ کے رسول ﷺ نے دائیں طرف اپنے پہلو میں لے لیااور چاروں خلفائے راشدین سے میرا اور مجھ سے اُن کا تعارف کروایا۔

چوتھا خواب:
ایک خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری عمر 63 برس مقرر کی جو اللہ کے رسولﷺ نے بڑھا کر 22 برس کر دی لیکن پروفیسر صاحب نے قبول نہ کی کیونکہ اس طرح عمر کے سلسلہ میں سنتِ نبوی کی خلاف ورزی کا ارتکاب تھا تو اللہ کے رسول ﷺ نے پروفیسر صاحب کی بات مان کر دوبارہ 63 سال کردی۔ اب اگلے تین چار سالوں میں فیصلہ ہوجائے گا کہ قادری صاحب اپنے خواب کے مطابق دنیا سے کوچ کرتے ہیں یا اس میں بھی کوئی حیلہ وتاویل پیدا کرلیں گے۔

پانچواں خواب:
ایک اور خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ پروفیسر صاحب اللہ کے رسول ﷺ کے مزارِ اقدس میں قبر انور کے پاس موجود ہیں۔ قبر انور کا سر کی طرف والا حصہ(یعنی تاریخ اسلام کا اوّلین دور) صحیح ہے جبکہ پاوٴں والا حصہ(یعنی معاصر دور) منہدم ہو چکا ہے اور میں اس پاوٴں والے حصے کی تعمیر شروع کرتا ہوں اور ایک شخص کے ساتھ مل کر اس حصّے کی تعمیر مکمل کر دیتا ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ قبر سے باہر تشریف لاتے ہیں اور میں تعمیر کی تکمیل کی خوشخبری دیتاہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ پروفیسر صاحب کو سینے سے لگا لیتے ہیں اور بڑی دیر تک معانقہ فرماتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ ایک کاغذ منگواتے ہیں اور مجھے ایک سند لکھ کر عطا کرتے ہیں۔پروفیسر صاحب کے یہ خواب نصر اللہ غلزئی نے ’نقل کفر کفر نباشد‘ کے عنوان سے ہفت روزہ تکبیر کے 19 جولائی 1990ء اور روزنامہ خبریں کے 4 جولائی 1993ء کے ایڈیشن میں کیسٹ سے صفحہ قرطاس پر لفظ بلفظ منتقل کر کے شائع کیے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
طاہر القادری صاحب اور صحافت
روزنامہ خبریں ، 17 جنوری 2000ء کے ایڈیشن میں ’اسد کھرل‘ صاحب کا ایک کالم شائع ہوا جس کے مطابق 12 اکتوبر کی تاریخ میں رات 8 بجے طاہر القادری صاحب پریس کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھے کہ ان کا میڈیا سیکرٹری موبائل فون ہاتھوں میں تھامے حاضر ہوا کہ کہنے لگا کہ قبلہ صاحب جی ایچ کیو سے آپ کے لیے فون ہے حالانکہ اس وقت ملکی وغیر ملکی تمام صحافیوں کے موبائل فون بند تھے کیونکہ موبائل فون سروس چالو نہیں تھی۔ اس پر ایک صحافی نے جب قبلہ حضور سے استفسار کیا ہے: موبائل سروس تو بند ہے تو آپ کو فون کیسے آ گیا تو قبلہ کچھ لمحے پریشان رہنے کے بعد فرمانے لگے کہ یہ ’سپیشل کیس‘ ہے۔اس پر وہاں موجود صحافی کہنے لگے کہ ’قبلہ‘ کا ڈرامہ فلاپ ہو گیا ہے۔
روزنامہ پاکستان، 4 دسمبر 2000ء کے شمارہ میں چوہدری خادم حسین کا ایک کالم شائع ہوا جس میں یہ بیان ہوا کہ 2رمضان کو منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں ’پاکستان عوامی تحریک‘ کے چیئرمین جناب طاہر القادری صاحب نے دوپہر 2 بجے پریس کانفرنس بلوائی اور اس کے اختتام پر اخبار نویسوں کو دعوت دی کہ آپ کے لیے ہم نے اوپر چائے اور خاطر تواضع کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اس پر اخبار نویسوں نے بتلایا کہ وہ سب تو روزے سے ہیں تو طاہر القادری صاحب نے عذر پیش کیا کہ اُنہیں بھول گیا تھا کہ آج روزہ ہے۔اس پر معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے ’دوپہر کو دی جانے والی افطار پارٹی‘ کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم بھی نوائے وقت میں لکھاہے۔
پروفیسر صاحب کا جب نواز فیملی کے ساتھ غارِ حرا جانے کا اتفاق ہوا تو اُنہیں میاں نواز شریف اپنے کندھے پر اٹھا کر غارِ حرا لے گئے۔ وہاں سے واپسی پر پروفیسرصاحب نے یہ دعوی کیا کہ غار حرا میں ان کی ملاقات ایک فرشتے سے ہوئی ہے جو کشمیری تھا۔ اس واقعہ پر معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی صاحب نے ’کشمیری فرشتہ‘ کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم بھی لکھا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ناقدین

جناب پروفیسر طاہر القادری صاحب کے ناقدین میں دو قسم کے لوگ ہیں: ایک مذہبی اور دوسرے غیر مذہبی

مذہبی ناقدین
مذہبی افراد میں سے تقریباً چاروں مسالک بریلوی، دیوبندی ، اہل الحدیث اور اہل تشیع کے بعض اہل علم نے ان پر نقد کی ہے۔ پروفیسر طاہر القادری پر نقد کا آغاز بریلوی مکتبِ فکر طرف سے ہوا۔مشیر وفاقی شرعی عدالت مفتی غلام سرور قادری صاحب نے ’پروفسیر طاہر القادری: علمی وتحقیقی جائزہ‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی جو 1988ء میں شائع ہوئی ۔ اس کتاب میں مفتی صاحب نے پروفیسر طاہر القادری کے بارے یہ کہا ہے کہ اُنہیں دیکھ کر قرآن پڑھنا بھی نہیں آتا ہے اور نہ ہی وہ صحیح ترجمہ کر سکتے ہیں۔مفتی صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب کی آڈیو کیسٹس سے بھی ان کی عربی عبارات کی کچھ اغلاط نقل کی ہیں۔ مفتی صاحب نے پروفیسر صاحب پر یہ بھی طعن کیا ہے کہ پروفیسر صاحب دو اُنگل ڈاڑھی رکھنے کو بھی سنّت قرار دیتے ہیں۔مفتی صاحب یہ بھی نقل کی ہے کہ پروفیسر صاحب نے عورت کے آدھی کے بجائے مکمل دیّت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کا یہ موقف اجماعِ اُمّت کے خلاف ہے۔مفتی صاحب نے پروفیسر صاحب کو جھوٹا، جاہل اور تفضیلی شیعہ قرار دیا ہے۔ مفتی صاحب نے شیعیت کے علاوہ بھی بہت سنگین الزامات کی نسبت پروفیسر صاحب کی طرف کی ہے۔
اسی طرح مولانا ابو داوٴد محمد صادق نے ’پروفیسر طاہر القادری: علماے اہل سنّت کی نظر میں‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی جس کا دوسرا نام ’خطرے کی گھنٹی‘ بھی معروف ہوا۔اسی طرح محمد نواز کھرل نے اُن کے بارے ’متنازعہ ترین شخصیت‘ نامی کتاب لکھی ہے۔
مرکزی دار العلوم اہل سنّت جامعہ رضویہ مظہر اسلام ، فیصل آباد کے بریلوی علما مولانا غلام رسول رضوی، مفتی محمد اسلم رضوی، محمدحبیب الرحمن، ابو صالح محمد بخش، محمد نظام الدین ، محمد سعید نقشبندی وغیرہ نے پروفیسر طاہر القادری کے خلاف ایک متفقہ فتویٰ جاری کیا جس میں پروفیسر صاحب کو اہل سنّت کا دشمن قرار دیا گیا۔ اُن کی اقتدا میں نماز پڑھنے کو ناجائز اور ان کے ادارہ منہاج القرآن میں بچوں کو تعلیم دینے سے روکا گیا۔
مفتی اشرف قادری صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب کے بارے کہا ہے کہ یہ شخص پہلے صحیح العقیدہ سنّی اور حنفی تھا، لیکن بعد میں مجتہد بن گیا ۔ اس نے عورت کی دیّت کے مسئلہ میں اجماعِ اُمّت کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ کم ازکم اہل سنت والجماعت میں سے نہیں ہے۔ اُنہوں نے پروفیسر صاحب پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ پروفیسر صاحب نے امام خمینی کی وفات پر ایک امام باڑے میں کالا جبہ پہن کر تقریر کی ہے اور کہا ہے پاکستان کا بچہ بچہ خمینی ہو گا اور خمینی کا جینا علی کی طرح تھا اور مرنا حسین کی طرح۔ مفتی اشرف قادری صاحب نے طاہر القادری صاحب کو بدترین گمراہ اور فاسق بھی قرار دیا ہے۔ (1)
گدی نشین سید عرفان شاہ صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب کو ’شیخ الاسلام‘ کی بجائے ’شیخ فی الاسلام ‘ یعنی بوڑھا مسلمان کا لقب دیا ہے۔سید عرفان شاہ نے پروفیسر طاہر القادری صاحب پر اس عتبار سے نقد کی ہے کہ پروفیسر صاحب نے گستاخ عیسائیوں کے ساتھ اخلاق کا حکم دیا ہے۔ (2)
مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی صاحب نے پروفسیر طاہر القادری صاحب پر یہ نقد کی ہے کہ عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کی دعوت دینے کے بعد ہم اسے سنّی ماننے کو تیار نہیں ہیں اور یہ شخص ’طاہر القادری‘ سے ’طاہر الپادری‘ بن گیا ہے۔ (3)
اہل الحدیث میں سے حکیم محمد عمران ثاقب صاحب نے ’ڈاکٹر طاہر القادری کی علمی خیانتیں‘ اور ’طاہر القادری: خادم دین متین یا افّاک اثیم‘ کے نام سے دو کتابیں لکھی ہیں جس میں اُنہوں پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے تصورِ بدعت، شرک، وسیلہ ، استغاثہ، شیعیت اور میلاد النبیﷺ کے حوالہ سے نظریات پر شدید نقد کی ہے۔دیوبندی مکتبِ فکر سے متعلق بعض اہل علم اُنہیں ’کینیڈین شیخ الاسلام‘ اور بعض سلفی اہل علم انہیں ’شوخ الاسلام‘ کالقب دیتے ہیں۔ماہنامہ ’الاحرار‘ ملتان اور سہ ماہی’ایقاظ‘ میں اس بارے پروفیسر صاحب پر بعض تنقیدی مضامین شائع ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں سیارہ اور قومی ڈائجسٹ میں ان پر ناقدانہ مضامین شائع ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں مذہبی رہنماوٴں میں مولانا محمد اجمل قادری، مولانا سیف الدین سیف، علامہ محمود احمد رضوی، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مولانا خلیل الرحمٰن حقانی، مولانا عبد الرحمٰن اشرفی، مولانامحمد میاں جمیل، صاحبزادہ فضل کریم، مفتی غلام سرور قادری، مولانا نعیم اللہ فاروقی، مولانا عبد القادر آزاد، مولانا عبد القادر روپڑی، مولانا محمود الرشید حدوٹی، مولانا شمس الزماں قادری، مولانا سیف اللہ قصوری، قاضی کاشف نیاز، امیر حمزہ، علامہ عطاء اللہ بندیالوی ، علامہ بشیر القادری اور علامہ خالد ازہری وغیرہ نے بھی پروفیسر صاحب کے بعض افکار پر نقد کی ہے۔
(1) : http://www.youtube.com/watch?v=DmgYxJcMqxg
(2) : http://www.youtube.com/watch?v=3MXpWYDNCm0&feature=related
(3) : Fitna Tahir ul Qadri.mpg - YouTube
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
غیر مذہبی ناقدین
غیر مذہبی لوگوں میں سے پروفیسر صاحب پر جن کی نقد معروف ہوئی، ان میں ایک عدالتی فیصلہ بھی ہے۔ اس عدالتی فیصلے کا پس منظر یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی رہائش گاہ ماڈل ٹاوٴن، لاہور پر 21 اپریل 1990ء کی صبح کو پراسرار فائرنگ کا سانحہ پیش آیا اور پنجاب حکومت کی درخواست پر اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے بعد عدالت نے فیصلہ جاری کیا۔ اس فیصلے کا ایک اقتباس ہم پروفیسر صاحب کے حق میں لکھی گئی ایک کتاب سے یہاں نقل کر رہے ہیں:
”بیان کردہ فائرنگ حقیقی واقعہ نہیں تھا۔ مسٹر قادری کا نقصان اُن کی اپنی کوششو ں کا نتیجہ ہے․․․ ان کے اس لایعنی طرزِ عمل سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ مسٹر قادری ذہنی طور پر بیمار آدمی ہیں، اس لئے وہ اپنے دشمنوں سے جو کوئی بھی ہو سکتے ہیں، حد درجہ خوفزدہ ہوئے بلکہ ’دشمن فوبیا‘ میں مبتلا ہو گئے۔ لیکن ان دلائل کو آسانی سے زیر بحث لایا جا سکتا تھا۔ یہ واقعہ کہ مسٹر قادری،اپنے مخصوص خوابوں کو بیان کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں یا اُن کے غیر صحت مندانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کو خواب آتے بھی ہوں لیکن اُن کے تعصّبات کو بھی بالکل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ وہ اپنے خوابو ں کو ایک خاص انداز میں بیان کرتے ہیں اور اپنی شخصیت کو ایک خاص رنگ دیتے ہیں، اس ذہنی ساخت کی شخصیت سے ہر چیز ممکن ہے۔ نصف رات کے سمے ان پر مسلّح آدمیوں کے حملے کے ڈرامے کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔“ (ڈاکٹر محمد طاہر القادری میدان کارزار میں : ص 209۔210، انکشاف پبلشرز، لاہور)
عدالت کے اس فیصلہ کے مطابق پروفیسر صاحب نے شہرت کے حصول کے لیے اپنی رہائش گاہ پر خود ہی فائرنگ کروائی تھی اور اس کی ذمّہ داری اپنے سیاسی مخالفین پر عائد کر دی۔ اس واقعہ کے بارے رفیق ڈوگر صاحب کی ’علامہ کلاشنکوف‘ اور محمد اشرف ملک کی ’نامور شخصیات کی ناقابل یقین جعل سازیاں‘ کے نام سے ایک تحریر بھی شائع ہوئی ہے۔
پروفیسر صاحب کے غیر مذہبی ناقدین کی ایک بڑی تعداد میدانِ صحافت سے تعلق رکھتی ہے۔ معروف صحافیوں اور کالم نگاروں میں سے مجیب الرحمٰن شامی، ضیاء شاہد، عطاء الحق قاسمی، حسن نثار، الطاف حسن قریشی، تنویر قیصر شاہد، محمد یونس بٹ اور عباس اطہر نے بھی ان پر نقد کی ہے۔علاوہ ازیں محمد اسلم اعوان، منیر القادری، صابر شاکر، خورشید احمد ندیم، رفیق ڈوگر، ڈاکٹر اختر نواز خاں، اسد کھرل، قیوم قریشی، مریم گیلانی، رانا پرویز حمید، راحت ملک، سعادت خیالی، ممتاز شفیع، ظفر اقبال، پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب، پروفیسر افضل علوی، چوہدی خادم حسین، میاں غفار، ملک نجیب الرحمٰن ارشد، سلطان محمود، جاذب بخاری، سلمی عنبر، مظفر وارثی، نذیر حق، آفتاب اقبال، محمد انور گرے وال، تنویر عباس نقوی، بیگ راج، لالہ عاجز، سرفراز اقبال اور عرفان احمد وغیرہ نے بھی پروفسیر طاہر القادری پر مختلف اخبارات میں تنقیدی کالم لکھے ہیں جنہیں محمد نواز کھرل نے اپنی کتاب ’متنازعہ ترین شخصیت‘ میں جمع کر دیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خلاصۂ کلام

پروفیسر صاحب کے بارے اس وقت دو انتہائیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ایک تو ان کے مداحین ہیں جو اُنہیں شیخ الاسلام، مجتہدِ مطلق اور قبلہ حضور سے کم درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں اور دوسرے ان کے شدید ناقدین ہیں جو انہیں طاہر الپادری، مرتد اور صلیبیوں کا مفتی جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ ایسے میں اس بات کی بہت ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ پروفیسر صاحب کے علمی، اخلاقی اور روحانی بگاڑ و فساد پر معتدل نقد کی جائے کہ جس میں تکفیر پر مبنی فتوٰی کی زبان استعمال نہ ہوئی ہو۔پروفیسر صاحب کی زندگی کا ایک تاریخی جائزہ لینے والے کسی صاحبِ عقل کو اس میں اختلاف نہیں ہو سکتا ہے کہ پروفیسر صاحب جاہ وجلال، مقام ومرتبہ اور معاشرتی و سیاسی جاہ و جلال کے پجاری ہیں اور اس کے لیے اُنہوں نے اپنے اور لوگوں کے دین کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اس بارے پروفیسر صاحب کے متجددانہ افکار پر مشتمل ایک کتاب’متنازعہ ترین شخصیت‘ پر محمد خالد مصطفوی کا ایک عادلانہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
”متنازعہ ترین شخصیت ، دراصل پروفیسر طاہر القادری کے ’سائیکل سے لینڈ کروزر تک‘ کے ارتقائی سفر کا جائزہ ہے جس پر نہایت مثبت انداز میں تنقید کی گئی ہے۔ جناب طاہر القادری کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ قول وفعل کے تضاد کا شکار رہے ہیں۔ اس داخلی وخارجی دوہرے پن نے اُن کی شخصیت کو بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف وہ بے نظیر بھٹو کو اپنی بہن قرار دہتے ہیں تو دوسری طرف محترمہ کو کرپٹ بھی کہتے ہیں۔ ایک طرف وہ میاں نواز شریف کو سیکورٹی رسک قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف انہیں ایٹمی دھماکہ کرنے پر مبارک باد بھی پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ احتجاج اور ریلیوں سے ملک میں بدامنی پھیلے گی ، دوسری طرف وہ خود بڑے اہتمام سے احتجاجی جلسے، جلوس اور ریلیاں منعقد کرواتے ہیں۔ ادھر کلچرل میلہ کا انعقاد کرواتے ہیں تو ادھر میلاد کانفرنس کا اہتمام بھی دھوم دھام سے کرتے ہیں۔
علامہ طاہر القادری نے گزشتہ کئی برسوں سے ماڈریٹ، پروگریسو اور سیکولر شخصیت کا گاوٴن پہن رکھا ہے۔ وہ خواب، کہانیاں، بے وقت کی راگنیاں اور اوٹ پٹانگ باتوں سے قوم کو محظوظ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی پریس کانفرنسیں رطب ویابس، لاحاصل اور مناقضات سے بھرپور ہوتی ہیں۔ بہترین درسگاہ ’ادارہ منہاج القرآن‘ جن عظیم الشان مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیاگیا تھا، بدقسمتی سے وہ پروفیسر طاہر القادری کی منفی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ مہاتما بننے کی اندھی خواہش اور خود کو ’عقل کل‘ سمجھنے کے نفسیاتی عارضے کا شکار ہو کر ان کی شخصیت ’ایبسٹریکٹ آرٹ‘ کا شہکار بن چکی ہے۔ یہا ں سے فارغ ہونے والے نوجوان جنہوں نے کارِ زمانہ کی باگ دوڑ سنبھالنا تھی، اپنی اوچھی حرکات کی بدولت معاشرے میں ہدفِ تضحیک بن کر رہ گئے ہیں۔ ’مصطفوی انقلاب‘ کے نعرہ سے دستبرداری کے بعد ’وزیر اعظم طاہر القادری‘ ان کا نصب العین ٹھہرا۔ نجانے اُنہیں کس کی نظر کھا گئی کہ ان کا معیار ایک مسخرے کی سطح سے بھی نیچے گر گیا۔ احسن تقویم کی بلندیوں کی طرف گامزن اسفل السافلین کی اتھاہ گہرائیوں میں گر گئے۔ قال اللہ و قال الرسول کی ایمان افروز آوازوں سے مہکنے والی کلاس روموں میں اب ’بن کے مست ملنگ رہیں گے، طاہر تیرے سنگ رہیں گے‘ کے ترانے، بھنگڑے ڈالتے ہوئے، فلمی طرز پر گانے گائے جاتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! شاید اُنہیں بتایا گیا ہو کہ اس ’مجاہدہ‘ سے عرفان حاصل ہوتا ہے جبکہ وہ اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ اہل بصیرت اس صورتحال کو زوال اور عذاب سے تعبیر کرتے ہیں۔ واقعی جہاں لنگڑے بھنگڑے ڈالیں، اندھے بیچیں، سر کٹے دستاریں فروخت کریں، گنجے ’مقابلہ آرائش گیسو‘ کا انعقاد کروائیں اور ٹنڈے شمشیر زن ہونے کا دعوی کریں، وہاں سے کس خیر کی توقع کی جا سکتی ہے؟ ایسی پستی ہے اہل نظر، آشوبِ چشم اور اہل فکر ،ضیق النفس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ اُنہیں اس ناقابل تلافی نقصان کا احساس بھی باقی نہیں رہتا۔ ؏ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
جناب طاہر القادری کا یہ جرم نہایت سنگین ہے کہ اُنہوں نے محض سستی شہرت ، دولت اور سیاسی اقتدار کی خاطر ایسے خوابوں کا سہارا لیا جن میں حضورِ نبی ﷺ کی صریحاً توہین پائی جاتی ہے۔ ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ کوئی ’نابغہ روزگار‘ اس حد تک ذہنی قلاش ہو سکتا ہے۔“
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مصادر ومراجع
 
Top