کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
پرچم بردار قومی ائیر لائن کی کہانی۔۔!!
روزنامہ پاکستان، 06 فروری 2016 تحریر: افشاں مصعب
قومی ائیر لائن کے ملازمین کی ہڑتال سے تین روز میں قومی خزانے کو ایک ارب اسی کروڑ کا نقصان۔ یہ وہ سرخی ہے جو آج ہر اخبار کی زینت بنی ہوئی ہے۔ قومی خزانے کا تو جو کباڑہ ہو رہا ہے تین انمول انسانی جانیں بھی اسی ہڑتال کی نظر ہو چکی ہیں۔
آخر حکومت کیوں نہیں مان جاتی۔ کیوں دنوں جانب سے ہٹ دھرمی دکھائی جا رہی ہے۔ کیا واقعی قومی ائیرلائن کو بچانے کی آخری امید نج کاری ہی ہے۔؟ وفاق نے ڈھائی تین سالوں میں کیا کاوش کی اور ادارے نے کارکردگی کی مد میں کیا نتائج دیے۔۔۔؟ ایک عام پاکستانی کے ذہن میں یہ اور ایسے بےشمار سوالات گردش کر رہے ہیں۔ جاننے کی کوشش میں جو حقائق ہاتھ لگے ہیں پہلے ان کا جائزہ لے لیا جائے کہ حکومتی اقدامات کیا رہے اور اس کے نتائج و اہداف کیا برآمد ہوئے
١: جون ٢۰١٣ء پی۔ آئی۔ اے 18 آپریشنل جہاز رکھتا تھا جن کی آج تعداد 38 ہے اور شائد مزید 2 ائیر کرافٹس لائے جا رہے ہیں۔
٢ : ایسے روٹس جنہیں پرافٹ ایبل کہا جاتا ہے وہاں فلائٹس کی تعداد بڑھائی گئی جبکہ جن روٹس پر منافع خاطر خواہ نہیں تھا انہیں بند کر دیا گیا۔ اسی مد میں ہانگ کانگ، بینکاک، کٹھمنڈو، فرینکفرٹ، ایمسٹیرڈیم اور گلاسگو کی فلائٹس بند کر دی گئیں اور دوہا، ابوظہبی، مسقط، دوبئی، بیجنگ اور کوالالمپور کی جانب فلائٹس کی تعداد بڑھا دی گئی۔
٣: آج کے ائیر کرافٹس تکنیکی اعتبار سے بہتر ہیں جو کہ ادارے کو ایندھن کی بچت دے کر ملکی فارن ایکسچینج میں سہولت کا باعث بنے۔
٤ : بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ کرایوں میں پینتیس فیصد تک کی کمی کر کے صارف کو براہِ راست پہنچایا گیا۔
٥ : سڈنی ، ہانگ کانگ ، فرینکفرٹ وغیرہ جیسے آف لائن دفاتر بند کر کے زائد معاشی بوجھ میں کمی کی گئی۔
٦ : پی۔ آئی۔ اے نے چائنہ سدرن ائیر لائنز ، تھائی ائیر ویز ، ٹرکش ائیر لائنز اور اتحاد ائیرویز کے ساتھ کوڈ شئیرنگ معاہدوں پر دستخط کیے۔ جن کے تحت مسافروں کو پی۔ آئی۔ اے کے ٹکٹ پر ان ائیرلائنز کے ذریعے ان مقامات پر جانے کی اجازت ہو گی جہاں قومی ائیر لائن کی پروازیں نہیں جاتیں۔
۷ : پروازوں میں وقت کی پابندی 69 فیصد سے بڑھ کر 84 فیصد تک پہنچائی گئی۔ حج آپریشن کے دوران 55 ہزار سے زائد حجاج کرام کو 150 پروازوں کے ذریعے واپس لایا گیا اور اعداد وشمار کے حساب سے 96 فیصد پروازیں وقت پر پہنچیں۔
٨ : لاہور، پشاور، سوات، نوابشاہ، کوئٹہ اور راولپنڈی میں 7 ٹریننگ سینٹرز کھولے گئے جہاں نوجوانوں کو ائیروسپیس/ ائیروناٹیکل انجینئرز کو ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ملتان کا ٹریننگ سینٹر افتتاح کیلیے تیار ہے جبکہ فیصل آباد ، سکھر اور مظفرآباد پر کام جاری ہے۔ کراچی سینٹر میں موجود سہولیات کو بھی اپ گریڈ کیا گیا۔
۹: ایک ورلڈ کلاس جرمن کنسلٹنٹ کی خدمات EASA سرٹیفیکیشن کیلیے لی گئیں۔
۱۰: گزشتہ کوارٹر ٢۰١٥ء کے دوران قومی ائیرلائن نے سیل کی مد میں 13 فیصد اضافہ ہوا۔ اس دوران مجموعی سیل ساڑھے اکیس بلین روپے تک گئی۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر سب اچھا ہو رہا تھا۔ رپورٹ میں بہتری آ رہی تھی تو نجکاری کا شوشا کیوں چھوڑا گیا۔
جبکہ سال ٢۰١٣ء میں پی۔ آئی۔ اے ملازمین کی تعداد 16563 تھی جس میں 2403 لوگوں کو ریٹائرمنٹ ، معطلیاں اور کانٹریکٹ منسوخی کے باعث فارغ کیا گیا۔
17 فیصد والا پہاڑا سناتے کوئی ملازم یہ بتانا پسند نہیں کرتا کہ جب سیاسی بھرتیوں کے نام پر میرٹ کی دھجیاں اڑتی رہیں تو یہ لوگ کہاں سو رہے تھے۔
302 جعلی ڈگریاں، 507 ایسے ٹیکنیشنز کو 3 سال بھگتا گیا جو کہ خالی آسامیوں کے قانون کی خلاف ورزی کر کے سر چڑھائے گئے۔
دنیا بھر میں قومی ائیرلائن کا عملہ موبائل فونز ، سگریٹ اور دیگر اشیاء کی سمگلنگ میں دھر لیا جاتا تو بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ حالانکہ یہ قومی وقار کی بین الاقوامی سطح پر نیک نامی کا موجب بننے والے واقعات نہ تھے۔ ہر کوتاہی پر ایک ہی پالیسی اپنائی گئی ؛ گو سَلو برو ۔۔۔
فی ائیرکرافٹ 657 ملازم کی اوسط کو کم کر کے 390 پر لایا گیا۔ قومی ائیر لائن میں موجودہ ملازمین کی کل تعداد اس وقت 717 14 ہے۔
قومی ائیر لائن خسارے کو ڈھائی سال میں چالیس فیصد تک کم کیا گیا۔ مگر کیا ہم گردشی قرضوں کا حساب کتاب جاننے کی فرصت نکال پاتے ہیں؟
تین سو ارب کا گردشی قرضہ جبکہ اثاثہ جات کی مالیت منفی میں جا رہی ہو۔آپ حکومت کے ہاتھ میں کونسی جادوئی چھڑی دیکھ رہےہیں؟
جہاز اڑیں یا نہ اڑیں ماہانہ ساڑھے تین بلین روپے لیز اور سود کی ادائیگی قومی خزانے سے ہی ادا ہو رہی ہے۔
پاکستان قومی ائیر لائن کا موازنہ بین الاقوامی اداروں سے کرنا بھی مضحکہ خیز ہی معلوم ہوتا ہے۔ ہوابازی پر نظر رکھنے والے بی بی سی کے صحافی طاہر عمران صاحب کے مطابق‘ خاص کر جب آپ یہ بھی جاننے کی زحمت نہ کریں کہ Emirates کے پاس کتنی رقم ہے اور اُس نے سو کے لگ بھگ ایئر بس A380 طیارے آرڈر کر رکھے ہیں جنہیں خریدنا اور چلانا دنیا کی چند ایک فضائی کمپنیوں کے بس کی بات ہے۔ اس کے علاوە ایئربس کے اے تھری ففٹی اور بوئنگ کے سیون ایٹ سیون طیاروں کے بڑے آرڈر دینے والوں میں ایمرٹس شامل ہے۔ ایمرٹس کے روٹس کا نیٹ ورٹ ملاحضہ کریں اور یہ بھی کہ اس کے تمام کام آؤٹ سورس کیے گئے ہیں۔ جبکہ پی۔ آئی۔ اے کے اکاؤنٹس میں ائیر کرافٹس خریدنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ لیز پر لیے جاتے ہیں ۔ لیز تو سمجھتے ہیں نا آپ۔۔۔ کیٹرنگ کا شعبہ ہماری قومی ائیر لائن خود دیکھتی ہے جو کہ Emirates نے مسئلہ پالا ہی نہیں۔ کیٹرنگ دوسروں کو بھی فراہم کی جاتی ہے جو اپنی ذات میں ایک کاروبار ہے۔
ہماری کارگو سروسز کے بارے میں بھی جانیے۔ ریلویز ہوں یا ہوائی سفر یہ کارگو ہی ہے جو منافع کما کر دیتی ہے۔ ہمارے پاس کوئی کارگو جہاز نہیں ہے جناب۔ اور پھر وہ بقراط ہیں جو ٹرکش ائیر لائنز کی ایوی ایشن انڈسٹری اور ریگولیشنز کے ساتھ پی۔ آئی۔ اے کا موازنہ کر رہے ہیں۔ سبحان اللہ۔ ترکی کو جغرافیائی اعتبار سے جو فائدہ حاصل ہے کیا پاکستان ویسے مواقع رکھتا ہے؟
نجکاری کی مخالفت میں اِس وقت جو سیاسی جماعت سب سے اگلی صف میں دکھائی دیتی ہے وہ شاید بھول گئے ہیں کہ ان کے ادوار میں 27 کے قریب ادارے نجکاری کی چُھری تلے گئے۔ ہاں مگر اُس وقت جو لوگ اس کے مخالف تھے آج انہیں نجکاری ہی واحد راستہ سوجھ رہا ہے۔ لازمی سروس ایکٹ جسے آج پاکستان پیپلز پارٹی کالا قانون قرار دے رہی ہے اس کا دو بار نفاذ خود انہی کے دورِ اقتدار میں کیا گیا۔ ابھی کچھ روز قبل پشاور میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال توڑنے کو اسی ایکٹ کا ڈراوا دیا گیا۔
ن لیگ نے اپوزیشن میں وہی کام کیا جو آج خورشید شاہ صاحب اور ان کے ساتھی کر رہے ہیں۔ بی۔ بی شہید کے دور میں سات عدد بوئنگ ۷۴۷ طیارے کیتھی پیسیفک سے خریدے گئے اس سلسلے میں نواز شریف صاحب نے اُس زمانے میں کیسی سیاست کھیلی یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ نجکاری روکنے کیلیے جو حربے اُس وقت کی اپوزیشن نے آزمائے وہی ہتھکنڈے آج کی اپوزیشن اور اُس زمانے کی حکومت دکھا رہی ہے۔ اور ویسے یہ سوال کوئی نہیں اٹھا رہا کہ تنبیہہ کے باوجود ہوائی اڈے کی دیواریں پھلانگنے یا احاطے میں زبردستی گھسنے کی ہلہ شیری کس نے دی۔ شرپسند عناصر تھے یا کسی سیکیورٹی ادارے کی غفلت شاید کبھی عوام کو حقائق سے آگہی مل ہی جائے۔ مگر اس سلسلے میں حکومتی مؤقف بہت سخت اور تکلیف دہ ہے۔ریاست اگر ماں ہے تو گھوریاں ڈالتے، ڈرانے دھمکانے کے بیچ پُچکارنا بھی اسی کا فرض ہے نہ کہ کیمروں اور مائیک کے سامنے للکار پکار مچائی جائے۔
جہاں تک یاد پڑتا ہے میاں نواز شریف نے اداروں کے آپریشنل کرنے کا وعدہ تو کیا تھا جو ان کی حکومت نے پورا بھی کیا۔ مگر ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں حکومتی سرپرستی میں بہتری ایک حد تک ہی ممکن ہوپاتی ہے جس کے بعد عوام کی جیب ہر روز کاٹ کر خسارے پورے کیے جاتے ہیں۔
جب کہا جائے کہ حکومتوں کا کام ائیر لائنز اور سٹیل ملز جیسے ادارے چلانا نہیں ہے تو مثال دی جاتی ہے میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین منصوبوں کی وجہ اس موازنے کی صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں سبسڈی اور لاسز کا فرق سمجھنے سمجھانے کا رواج روزِ اول سے ہی نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ میٹرو منصوبہ پبلک پرائیویٹ سانجھے داری پر چل رہا ہے۔ ترکی کی کمپنی اس منصوبے میں پارٹنر ہے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی پرائیویٹ سرمایہ کار فردِ واحد بن کر ماس ٹرانزٹ پر مال نہیں لگایا کرتا۔ حکومتی سرپرستی بہرحال درکار ہوتی ہے اور جب منصوبے چل نکلیں تو پرائیویٹ انویسٹرز کے سپرد کر دیے جاتے ہیں۔ بحث بہرحال یہاں قومی ائیرلائن کے سفید ہاتھی کو اسی سال نجکاری کے عمل سے گزارنا ہے اور مناسب یہی ہو گا کہ حکومت سب سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ملازمین سے مذاکرات کر کے ان کے تحفظات دور کرے۔ ورنہ حالات کا خمیازہ عام شہری کی جیب بھگت رہی ہے۔