حرب بن شداد
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2012
- پیغامات
- 2,149
- ری ایکشن اسکور
- 6,345
- پوائنٹ
- 437
[HR][/HR]
عزیز دوستو!۔۔۔ میری یہ چند سطریں میرے اُن دینی بھائیوں اور بہنوں کیلئے ہیں جن کا دینی علم محدود ہے جو اپنے دین کے بارے میں عام فہم زبان میں سیدھی سچی باتیں جاننا چاہتے ہیں اور جو اللہ تعالٰی کی دی ہوئی توفیق سے صراط مستقیم کی طرف آنا چاہتے ہیں لیکن جب وہ اس میدان میں قدم رکھتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں کہ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ کوئی ایک بات کو صحیح کہتا ہے کوئی اسی بات کو غلط بتاتا ہے وہ خود کیونکہ دینی علم نہیں رکھتے اسلئے حیران وپریشان ہوکر اس خوبصورت راستے کی طرف آنے کا ارادہ ترک کردیتے ہیں یا پھر گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں ہم کسی انسان کے بتائے ہوئے طریقے سے نہیں بلکہ اللہ رب العزت کے بتائے ہوئے سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کے گمراہی سے بچنے کا صحیح طریقہ کیا ہے چنانچہ اللہ سبحان وتعالٰی کا فرمان ہے۔۔۔
اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے اپنا کرلیتا ہے اور اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں (الشوریٰ ١٣)۔۔۔
خود کو اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کرنے کا کیا طریقہ ہے یہ بھی اللہ تعالٰی نے اپنے پاک کلام میں بتادیا ہے ارشاد ہوا۔۔
اے ایمان والوں صبر اور نماز کے ساتھ مد چاہو (البقرہ ١٥٣)۔۔۔
یعنی ہم نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالٰی سے ہی ہدایت کے طالب ہوں کیونکہ ہم اس سے اپنے لئے سیدھا راستہ مانگیں گے تو ہدایت ملے گی۔۔۔ اب ہدایت کیسے ملے؟؟؟۔۔۔ یعنی سورہ فاتحہ پڑھ کریاد رکھئے جسنے نماز پڑھی اور اللہ سبحان وتعالٰی سے ہی ہدایت کا طالب ہو اس نے دراصل فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا یعنی اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کے حوالے کردیا اور جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کے حوالے کردیا اور اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنے لگا وہ فلاح پانے والوں کی فہرست میں آگیا۔۔۔
قرآن پاک کا یہ انتہائی خوبصورت اسلوب بیان ہے کے وہ لوگوں کا ذکر نام سے نہیں کرتا بلکہ صفات سے کرتا ہے تاکہ ہر وہ شخص جو قرآن کریم سوچ سمجھ کر غور اور تدبر سے پڑھے وہ اندازہ لگا لے کے وہ کہاں کھڑا ہے مثال کے طور پر سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں متقی لوگوں کا ذکر ان کی صفات کے ساتھ کیا ہے اسی طرح کافروں کا ذکر انکی صفات کے ساتھ موجود ہے پھر منافقین کن صفات کے حامل ہیں اُن کا ذکر ہے اسی طرح مفسدین اور فاسق لوگوں کا ذکر ان کی صفات اور انجام کے ساتھ کیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک میں ان لوگوں کا ذکر بھی کثرت سے ملتا ہے جن کو اہل علم، صاحب علم اور علم والا کہا گیا ہے یہ لوگ کون ہیں اور ان کی کیا صفات ہیں؟؟؟۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ رب العزت کی کتاب کا مکمل علم حاصل ہے اس سے مراد صرف ناظرہ قرآن پڑھنا یا قرآن حفظ کرنا نہیں بلکہ قرآن کے بارے میں مزید علم جو ان کو اہل علم کے درجے تک پہنچاتا ہے یعنی انہوں نے اپنی زندگیاں قرآن وحدیث کے مطابق گزاری ہیں جن کو اللہ تعالٰی نے اپنی رحمت سے دین کی سمجھ عطاء فرمائی ہے وہ عالم، فقیہ، محدث کہلاتے ہیں جن کی علمی قابلیت کا لوہا ہر دور میں مانا جاتا ہے اور اُمت مسلمہ کا بات پر اجماع ہے۔۔۔
ایسے میں اگر کوئی یہ کہہ دے کے آپ کی نماز کا یہ طریقہ درست نہیں یا آپ کی عبادت کا طریقہ صحیح نہیں تو ان حالات میں قرآن کریم سے مدد لی جائے جو یہ کہہ رہا ہے کے ہمیں دینی احکام سے متعلق کوئی بات بغیر تحقیق کے نہیں ماننی چاہئے کیونکہ یہ ہی وہ نازک لمحہ ہوتا ہے کے آپ کا فیصلہ یا تو آپ کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے یا صراط مستقیم کی طرف فیصلہ آپ کوکرنا ہے کسوٹی رب کا قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہو تو کیا کھوٹا کیا کھرا سب سامنے آجاتا ہے اور ثابت کردیتا ہے علم والے اور جاہل برابر نہیں ہوا کرتے۔۔۔
کیا وہ شخص جس کو کتاب اللہ کا علم ہو وہ جاہل شخص کے برابر ہوسکتا ہے؟؟؟۔۔۔ یقینا نہیں مگر آج کے دور میں بعض احباب چند دنوں کا دینی علم حاصل کرکے اپنے آپ کو علم والا جان کر لوگوں کو راہ سے بھٹکاتے ہیں تو ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا۔۔۔
یہ ہی فساد کرنے والے اور اپنے آپ کو مصلحون (یعنی اصلاح کرنے والے) سمجھتے ہیں (البقرہ)۔۔۔
خوب جان لیجئے کے دینی احکامات میں ہر ایک کو اپنی رائے دینے کا قطعی کوئی حق نہیں صرف وہ شخص اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہے جو علم حاصل کرنے کے بعد مفتی یا مجتہد کے عہدے پر فائز ہوتا ہے ان کی بات ہی حق ہوتی ہے باقی جو لوگ بغیر علم کے اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں وہ زمین میں فساد پھیلانے والے ہیں اللہ تعالٰی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے اور مذکورہ چند باتیں دینی بہن بھائیوں کے لئے نافع بنائے آمین
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔عزیز دوستو!۔۔۔ میری یہ چند سطریں میرے اُن دینی بھائیوں اور بہنوں کیلئے ہیں جن کا دینی علم محدود ہے جو اپنے دین کے بارے میں عام فہم زبان میں سیدھی سچی باتیں جاننا چاہتے ہیں اور جو اللہ تعالٰی کی دی ہوئی توفیق سے صراط مستقیم کی طرف آنا چاہتے ہیں لیکن جب وہ اس میدان میں قدم رکھتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں کہ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ کوئی ایک بات کو صحیح کہتا ہے کوئی اسی بات کو غلط بتاتا ہے وہ خود کیونکہ دینی علم نہیں رکھتے اسلئے حیران وپریشان ہوکر اس خوبصورت راستے کی طرف آنے کا ارادہ ترک کردیتے ہیں یا پھر گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں ہم کسی انسان کے بتائے ہوئے طریقے سے نہیں بلکہ اللہ رب العزت کے بتائے ہوئے سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کے گمراہی سے بچنے کا صحیح طریقہ کیا ہے چنانچہ اللہ سبحان وتعالٰی کا فرمان ہے۔۔۔
اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے اپنا کرلیتا ہے اور اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں (الشوریٰ ١٣)۔۔۔
خود کو اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کرنے کا کیا طریقہ ہے یہ بھی اللہ تعالٰی نے اپنے پاک کلام میں بتادیا ہے ارشاد ہوا۔۔
اے ایمان والوں صبر اور نماز کے ساتھ مد چاہو (البقرہ ١٥٣)۔۔۔
یعنی ہم نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالٰی سے ہی ہدایت کے طالب ہوں کیونکہ ہم اس سے اپنے لئے سیدھا راستہ مانگیں گے تو ہدایت ملے گی۔۔۔ اب ہدایت کیسے ملے؟؟؟۔۔۔ یعنی سورہ فاتحہ پڑھ کریاد رکھئے جسنے نماز پڑھی اور اللہ سبحان وتعالٰی سے ہی ہدایت کا طالب ہو اس نے دراصل فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا یعنی اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کے حوالے کردیا اور جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کے حوالے کردیا اور اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنے لگا وہ فلاح پانے والوں کی فہرست میں آگیا۔۔۔
قرآن پاک کا یہ انتہائی خوبصورت اسلوب بیان ہے کے وہ لوگوں کا ذکر نام سے نہیں کرتا بلکہ صفات سے کرتا ہے تاکہ ہر وہ شخص جو قرآن کریم سوچ سمجھ کر غور اور تدبر سے پڑھے وہ اندازہ لگا لے کے وہ کہاں کھڑا ہے مثال کے طور پر سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں متقی لوگوں کا ذکر ان کی صفات کے ساتھ کیا ہے اسی طرح کافروں کا ذکر انکی صفات کے ساتھ موجود ہے پھر منافقین کن صفات کے حامل ہیں اُن کا ذکر ہے اسی طرح مفسدین اور فاسق لوگوں کا ذکر ان کی صفات اور انجام کے ساتھ کیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک میں ان لوگوں کا ذکر بھی کثرت سے ملتا ہے جن کو اہل علم، صاحب علم اور علم والا کہا گیا ہے یہ لوگ کون ہیں اور ان کی کیا صفات ہیں؟؟؟۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ رب العزت کی کتاب کا مکمل علم حاصل ہے اس سے مراد صرف ناظرہ قرآن پڑھنا یا قرآن حفظ کرنا نہیں بلکہ قرآن کے بارے میں مزید علم جو ان کو اہل علم کے درجے تک پہنچاتا ہے یعنی انہوں نے اپنی زندگیاں قرآن وحدیث کے مطابق گزاری ہیں جن کو اللہ تعالٰی نے اپنی رحمت سے دین کی سمجھ عطاء فرمائی ہے وہ عالم، فقیہ، محدث کہلاتے ہیں جن کی علمی قابلیت کا لوہا ہر دور میں مانا جاتا ہے اور اُمت مسلمہ کا بات پر اجماع ہے۔۔۔
ایسے میں اگر کوئی یہ کہہ دے کے آپ کی نماز کا یہ طریقہ درست نہیں یا آپ کی عبادت کا طریقہ صحیح نہیں تو ان حالات میں قرآن کریم سے مدد لی جائے جو یہ کہہ رہا ہے کے ہمیں دینی احکام سے متعلق کوئی بات بغیر تحقیق کے نہیں ماننی چاہئے کیونکہ یہ ہی وہ نازک لمحہ ہوتا ہے کے آپ کا فیصلہ یا تو آپ کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے یا صراط مستقیم کی طرف فیصلہ آپ کوکرنا ہے کسوٹی رب کا قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہو تو کیا کھوٹا کیا کھرا سب سامنے آجاتا ہے اور ثابت کردیتا ہے علم والے اور جاہل برابر نہیں ہوا کرتے۔۔۔
کیا وہ شخص جس کو کتاب اللہ کا علم ہو وہ جاہل شخص کے برابر ہوسکتا ہے؟؟؟۔۔۔ یقینا نہیں مگر آج کے دور میں بعض احباب چند دنوں کا دینی علم حاصل کرکے اپنے آپ کو علم والا جان کر لوگوں کو راہ سے بھٹکاتے ہیں تو ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا۔۔۔
یہ ہی فساد کرنے والے اور اپنے آپ کو مصلحون (یعنی اصلاح کرنے والے) سمجھتے ہیں (البقرہ)۔۔۔
خوب جان لیجئے کے دینی احکامات میں ہر ایک کو اپنی رائے دینے کا قطعی کوئی حق نہیں صرف وہ شخص اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہے جو علم حاصل کرنے کے بعد مفتی یا مجتہد کے عہدے پر فائز ہوتا ہے ان کی بات ہی حق ہوتی ہے باقی جو لوگ بغیر علم کے اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں وہ زمین میں فساد پھیلانے والے ہیں اللہ تعالٰی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے اور مذکورہ چند باتیں دینی بہن بھائیوں کے لئے نافع بنائے آمین
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔