ایجنسی کی پکڑ
باپ گھرمیں داخل ہواتواس نے ساس اوربہو کوبرسرِمعرکہ پایا۔دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف زباندانی اورباخبری کے جوہر دکھارہی تھیں ۔ماضی اور بالخصوص جوانی کے متلاطم بحر میں غوطہ خوری کرکے ایک دوسرے کی 'ایکسکلوسِو' سٹوریاں نشر کررہی تھیں۔با پ کو پریشانی ہوئی مگر اصل حیرت یہ دیکھ کرہوئی کہ بیٹا موجود ہے اور بجائے سیز فائر کرانے کے مزے سے بیٹھاتماشادیکھ رہاہے۔ غصے سے باپ نے اسے ڈانٹا۔کیا'یملے 'بنے بیٹھے ہو،انھیں چپ کیوں نہیں کرواتے ؟بیٹے نے لبوں پہ انگلی رکھتے ہوئے باپ کوچپ رہنے کااشارہ کیااور کان میں سرگوشی کی۔ اباجی !خاموشی سے سنو،دونوں کے متعلق معلومات میں وہ اضافہ ہورہا ہے کہ خدا کی پناہ!کچھ یہی حال میڈیاکاہے ۔ سوتنوں کی اس لڑائی سے اس پردہ نشیں کی بھی کیاکیا'ایکسکلوسو 'کہانیاں ظہورکر رہی ہیں۔ یہی ہوتاہے ۔ مدینہ میں ایک ناقہ سواردیہاتی آیا۔اس کی اونٹنی رسول رحمتؐ کی اونٹنی سے آگے بڑھ گئی ۔قصوااونٹنی کی عظمت کے معترف صحابہؓ کو ناگواری ہوئی۔وہ ناقہ سوار کوگھورنے لگے توآپ ﷺ نے فرمایا،یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر بہت اوپر جاچکی چیزکو وہ ضرورزمیں بھی چٹواتاہے۔ ہر عروجِ رازوال !افسوس!یہی آکسیجن مگر عروج پہ ہم سے کھوجاتاہے ۔دراصل زندگی پیہم گھومتے ایک بڑے پہیئے کی مانند ہے ۔جب تمھاری طرف کاپہیہ اوپر جائے تونیچے والوں کاہاتھ تھام لو،تاکہ اگلے چکر میں ان کا ہاتھ تمھارے ہاتھ میں رہے ۔آہ !مگر جب ہماری پتنگ آسمانوں کاسینہ چیر رہی ہوتو ایسا یاد ہی کب رہتاہے !مکا لہراتے مشرف کوکب خیال تھا کہ کبھی عدالتوں سے بھی وہ چھپتاپھرے گا۔ حکومتیں گراتے اورقومی و دینی شعارکا مذاق اڑاتے میڈیاکوکب خیال تھا کہ کبھی اسے اسی دین اوردین سے وابستہ لوگوں سے نجات بھی مانگناپڑسکتی ہے۔انقلاب دیکھئے کہ خبردینے والے خود خبربن چکے اور پگڑیاں اچھالنے والے آج خود زدپہ ہیں۔ آزمائش آدمی کی قیمت کودگنا کردیتی ہے یابالکل ہی بے قیمت ۔ ایک چینل توہوامیں رکھے چراغ کی طرح ہے ہی ، باقی میڈیابھی کھل کے آشکار ہوگیا۔اس بحران نے معاشرے کاشاید ہی کوئی حصہ چھوڑا ہوگا،جو ننگانہ کیاہو۔الاماشااللہ !چینل کوکل کاکیا آج بھگتنا پڑگیاہے مگر یہ جوصحافت بی بی آج کر رہی ہے ، اسے کب یاد ہے کہ یہی آج کا بویا کل اسے کاٹنا بھی ہو گا۔ ہاتھوں کی گانٹھیں پھردانتوں سے کھولی جاتی ہیں۔
کہنے کویہ ایک بحران تھا،لیکن یہی ایک بحران کس سفاکی سے ہمارا مذہبی ،سیاسی ،سماجی اور صحافتی کھوکھلاپن آشکارکر گیا۔عوام کوتوآپ چھوڑئیے کہ و ہ جذبات کے اسیراور ہجوم کی نفسیات میں ڈوبے ہوتے ہیں۔آج مگر سڑک پہ کھڑے علماء یہ مطالبہ کرتے بھلے لگتے ہیں کہ فلاں ایک چینل بند کیاجائے ؟ کہ اولاً حب الوطنی مشکوک ہوئی ،ثانیاًوہ مذہبی توہین کامرتکب ہوا۔ بجا،مگرکیامیڈیاسے ہمارے علماء کو بس یہی ایک شکوہ ہے؟اورصرف اسی ایک چینل سے؟کیاباقی سب چینل امام کعبہ کے لائیوخطبے نشرکررہے ہیں؟جہاں تک نظم کے ساتھ بھونڈی ویڈیو کی بات ہے تودوسرے چینل بھی اسے اسی انداز سے کئی بار نشرکرچکے۔کیاواقعی مسئلہ کسی ایک چینل کی ایک آدھ بے وقوفی یابے احتیاطی کاہے ؟یعنی متنازع چینل اور جج بن چکے دیگرچینلز پرباقی سب اسلام ہی نشر ہوتاہے ؟یقیناًنہیں!توکسی کے نجی ایجنڈے کی تکمیل میں معاونت کے بجائے علماء ہمیں متفقہ طورپرطے کردہ ایک مکمل ضابطۂاخلاق کیوں نہیں دیتے ؟دیناچاہئے نا؟لیکن یہ توتب ہوجب علماء میڈیاکوسمجھیں،عصر حاضر میں اس کے اثرونفوذکاوژنری جائزہ لیں اورپھراس عہد کے لئے اس کے خدوخال تراشیں۔مسئلہ مگر یہ کہ ہم فلم ،ڈرامہ اور میڈیاکے باقی ٹولزکواجنبیت سے دیکھتے ہیں ۔
حالت جب یہ ہو کہ بوکوحرام ہو،کشمیر و عراق ہو ،فلسطین ہویاکوئی بھی دوسراخطہ اور اس کامسئلہ ،مسلم دنیاکے پاس اپنی خبر ہی نہیں ۔توشیخ جی مقابلہ کیسا ؟میڈیاکی کیسی آزادی ؟من حیث الامت پہلے اپنامیڈیاتولاؤ بھائی !!افسوس دنیاآئی ٹی میں انقلاب لارہی ہے مگرسورۂ حدید والے، خبر کی تحقیق کیلئے'اسماء الرجال' کاخیرہ کن نظام رکھنے والے، صحیفہ اور صحافت کے حیات آفریں سنہرے اصول رکھنے والے ، آج ٹاور بنانے اور عمارتیں کھڑی کرنے کے خبط میں بری طرح مبتلا ہیں۔ پیغمبرؐ نے جسے قیامت کی علامت قرار دیاتھا۔
کہاں میڈیاکے پاس لے دے کے ایک اسلام جاننے والے عامر لیاقت مدظلہ العالی تھے ،ایک جناب علامہ بلال قطب صاحب اور یادش بخیر ایک ملتان کے مفتی عبدالقوی مدّلسانہ۔ادھراب حالت یہ ہے کہ ڈھونڈڈھونڈ کے کونوں کھدروں سے بوریہ نشینوں کولایااور سکرین پہ دکھایاجارہاہے ۔وہ کہ پہلے جن کاموافق موقف بھی پیش کرناروانہ تھا آج مخالف موقف بھی ہیڈلائنز میں بارپاتاہے ۔ساقی نے کچھ ملانہ دیاہوشراب میں!اجی چھوڑئیے ! ہم بھی کن چکروں میں پڑگئے ۔آئیے سڑک پہ چل کے مجمع کاتماشادیکھتے ہیں ۔بندکرو بھئی بندکرو،کوئی نہ کوئی چینل بند کرو۔پکڑ آگئی ہے بھئی پکڑ آگئی ہے اور بے شک 'ایجنسی'کی پکڑ بڑی سخت بھی ہے اورslective بھی ۔آمین! (حافظ یوسف سراج)